انسانی طبیعتیں نرم بھی ہوتی ہیں اور سخت بھی۔ قانونِ قدرت ہے کہ چیزیں نرمی سے ہی باہم جڑتی ہیں، خواہ اشیا ہوں یا انسانی قلوب۔ انسانوں کو انسانوں سے جوڑنا ہو یا ان کے ربّ سے جوڑنا ہو، یہ کام دلوں میں رحمت، رقت اور نرمی پیدا کیے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم دلی کو اپنی رحمت قرار دیا اور سخت دلی اور ترش رُوئی کو انسانی تعلقات کا دشمن قرار دیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۰۠ (اٰل عمرٰن۳:۱۵۹ ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپؐ ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج ہیں۔ اگر کہیں آپؐ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپؐ کے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’نرمی جس چیز میں ہوتی ہے، اسے آراستہ کر دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی الگ کر لی جاتی ہے، اسے بدنما بنا دیتی ہے‘‘۔ ( مسلم، رقم ۲۵۹۴، مجمع الزواید ،۸/۱۸)۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’اللہ نرمی کرتا ہے اور نرمی کرنے کو پسند کرتا ہے اور نرم خوئی پر جتنا دیتا ہے، اتنا سختی کرنے پر نہیں دیتا‘۔ (مسلم، رقم:۳۵۹۳، بخاری، رقم:۶۹۲۷) ۔حضرت عائشہؓ ہی سے مروی ایک اور حدیث کے مطابق جو نرمی سے محروم رہا، وہ بھلائی سے محروم رہا (معجم طبرانی، رقم:۲۴۴۹)۔ ایک حدیث کے مطابق رسولؐ اللہ نے تین خصلتوں پر رحمت کے سائے اور جنت میں داخلے کی خوش خبری سنائی: (۱) کمزور پر آسانی و نرمی کرنا (۲) والدین کے ساتھ مہربانی کرنا (۳) غلام پر احسان کرنا (ترمذی، رقم:۲۴۹۴)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں وہ شخص نہ بتائوں جس پر آگ حرام ہے اور وہ آگ پر حرام ہے: وہ شخص جو لوگوں سے قریب ہو، سکون وو قار والا، نرم خو اور آسانی کرنے والا ہے (ترمذی، رقم:۲۴۴۸)۔ حضرت عائشہؓ کے مطابق حضورؐ اکثر آسانی کرنے اور سختی نہ کرنے کی تلقین فرماتے تھے (بخاری)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق حضورؐ نے فرمایا: نرمی خیروبرکت، جب کہ عادت و معمول کے خلاف بولنا بدبختی ہے (بیہقی، رقم:۷۷۲۲)۔
ہمارے اہل دین کے ہاں کسی جرم کی سزا دینے کے لیے جتنی بےتابی نظر آتی ہے، وہ حضورؐ کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ نفاذ حدودمیں جس حد تک گنجائش ہوتی، حضورؐ نرمی کا رویہ اختیار کرتے۔ اگر کسی سے ایسا کوئی فعل سرزد ہو جاتا تو اسے استغفار کی اور دیکھنے والوں کو پردہ پوشی کی نصیحت فرماتے اور حتی المقدور سزا کو ٹالتے۔
ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ ’’سزائوں کو دفع کرو جہاں تک بھی ان کو دفع کرنے کی گنجائش پائو‘‘۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اگر کسی ملزم کے لیے سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو اسے چھوڑ دو کیونکہ حاکم کا معاف کر دینے میں غلطی کر جانا، اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرجائے۔
احکام شریعت کے نفاذ میں بھی حضورؐ نرمی و شفقت کا معاملہ فرماتے۔ کمزور طبقات کو برابری کا احساس دلا کر ان کی تالیف قلب کرنا نبیؐ کا شیوہ تھا۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی نے آپؐ سے بات کرنا چاہی۔ لیکن جلال نبوت سے گھبرا گئی۔ یہ دیکھ آپؐ نے فرمایا: ’’گھبرائو نہیں! میں اس ماں کا بیٹا ہوں جو سُکھایا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی (ابن ماجہ، رقم: ۳۳۰۲)۔ گویا میں بھی ایک انسان ہوں۔ پہلے زمانے میں گوشت کو اُبال کر دھوپ میں سُکھاتے تھے۔
اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا طرز عمل بھی لوگوں میں پایا جاتا ہے، جب کہ قرآن کے مطابق برائی کا دفاع برائی کے بجائے بہترین نیکی کے ساتھ کیا جائے تو دشمن کے دل میں بھی نرمی پیدا ہو جاتی ہے: اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۳۴ (حم السجدہ۴۱:۳۴) ’’تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔
ثمامہ بن اثال یمامہ کے علاقے کا بڑا سردار تھا۔ ایک مہم میں صحابہ کرامؓ اسے گرفتار کرکے مدینہ لے آئے۔ مسجد نبویؐ کے صحن میں اسے باندھ دیا گیا۔ حضورؐ جب نماز کے لیے آئے تو ثمامہ سے اس کا حال پوچھا۔ اس نے کہا:’’قیدی ہوں اگر آپ سزا دیں تو آپ کو حق حاصل ہے، چھوڑ دیں گے تو ایک احسان شناس پر احسان کریں گے‘‘۔ دوسری نماز میں آپؐ آئے، اس سے بات کی تو پھر وہی جواب دیا۔ تیسرے وقت بھی یہی جواب دیا۔ آپؐ نے اس کی رہائی کا حکم دے دیا۔ اس مہربانی کا یہ اثر ہوا کہ وہ ایک باغ کے کنویں پر گیا۔ غسل کیااور آکر اس نے توحید و رسالت کی شہادت دی اور عرض کیا:’’یارسولؐ اللہ! آج سے پہلے آپؐ کا دین اور آپؐ کا شہر میرے نزدیک ناپسندیدہ ترین تھے، لیکن اس گھڑی آپؐ کی ذات، آپؐ کے دین اور آپؐ کے اس شہر سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہیں‘‘۔ بعدازاں وہ عمرہ کے لیے مکہ گئے۔ وہاں قریش نے انھیں صابی (بے دین) ہونے کے طعنے دیے تو ثمامہ ؓنے انھیں دھمکی دی کہ یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی اہلِ مکہ کو نہ ملے گا۔ جب اہل مکہ کے لیے گندم کی ترسیل بند ہو گئی تو انھوں نے حضورؐ سے گندم کی ترسیل کی بحالی کے لیے درخواست کی۔ حضورؐ نے ثمامہؓ کو ترسیل کی بحالی کے لیے کہا تو انھوںنے آپؐ کے حکم سے انھیں گندم دینا شروع کر دی۔ یہ اس نرم رویّے کا نتیجہ تھا، جو حضورؐ نے صاحب ِاختیار ہوتے ہوئے ایک مجبور آدمی کے ساتھ برتا۔ (بخاری کتاب المغازی، سیرت ابن ہشام، ۲/۴۲۰)
دلوں میں نرمی جہاں حُسنِ سلوک سے پیدا ہوتی ہے، وہاں یہ نرمی لوگوں پر مالی نوازشات کرنے سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ دشمن اسلام اُمیہ بن خلف کا بیٹا صفوان ہر جنگ میں مسلمانوں کے خلاف پیش پیش رہا، حتیٰ کہ فتح مکہ کے موقعے پر جب ابو سفیان سمیت اکثر قریش نے آپؐ کی امان کو قبول کر لیا، تو اس وقت بھی صفوان بن اُمیہ دیگر چند افراد کے ہمراہ مقابلے پر آیا۔ چند لاشیں گرنے کے بعد صفوان اور دیگر بھاگ کھڑے ہوئے۔ فتح کے بعد اس کے چچا زاد صحابی حضرت عمیرؓ بن وہب نے اس کے لیے بارگاہِ رسالت سے امان طلب کی۔ آپؐ نے اسے امان دے دی تو اس نے کہا کہ میں اسلام قبول نہیں کروں گا، مجھے غوروفکر کے لیے دو ماہ دیے جائیں۔ حضوؐر نے فرمایا:’’تجھے چار ماہ کی مہلت ہے‘‘۔ چند دن بعد ہی غزوۂ حنین ہوا۔ وہ مسلمان نہیں تھا لیکن بنوہوازن کے خلاف قریشی عصبیت کے باعث اس نے جنگ میں آپؐ کا ساتھ دیا۔ مال غنیمت میں سے آپؐ نے اسے سو اونٹ دیے۔ یہ لطف و کرم دیکھ کر وہ پکارا اُٹھا:’’ایسی فیاضی کوئی نبی ہی کر سکتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ (موطا امام مالک، سیرالصحابہ، ۲/۹۳۲)
ایک بدو نے ایک وادی میں چرنے والی بکریوں کا ریوڑ آپؐ سے مانگا۔ آپؐ نے اسے اس کی حسب خواہش یہ عطا کر دیں۔ اپنے قبیلے میں پہنچ کر اس نے لوگوں سے کہا: ’’بھائیو! اسلام قبول کر لو۔ خدا کی قسم! محمدؐ اتنا دیتے ہیں کہ گویا ان کو فقر وفاقے کا ڈر ہی نہیںہے۔ (مسلم، رقم۲۳۱۲)
ایک بدو سردار اقرع بن حابس نے حضورؐ کو دیکھا کہ آپ حسن و حسین کو چوم رہے ہیں ۔ اس نے حیرانی سے پوچھا: ’’آپؐ بچوں کو چومتے بھی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے بچوں کو کبھی نہیں چوما‘‘۔آپؐ نے فرمایا ’’اگر تمھارے دل سے اللہ نے رحمت چھین لی ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔
صاحب ِاختیار سرکاری حکام و افسران حکومتی معاملات چلانے کے لیے سختی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس حضورؐ اپنے عمّال کو نرمی کا حکم دیتے تھے۔ عاملین زکوٰۃ کو فرمایا کہ جب کسی سے زکوٰۃ وصول کرو تو اس کے بہترین مال میں سے نہ لو بلکہ کمتر میں سے قبول کرلو۔
سرکاری حکام عوام الناس کی جاسوسی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جب کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’امیر جب عوام الناس کے اندر شکوک و شبہات کا کھوج لگانے لگے تو ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے (ابوداؤد)۔حضرت معاویہؓ راوی ہیں کہ میں نے نبیؐ کو فرماتے سنا کہ تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گے تو ان کوبگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچادو گے (ابوداؤد)۔
امام مسجد کو نرمی کی نصیحت فرماتے کہ وہ نماز پڑھاتے ہوئے یہ پیش نظر رکھے کہ اس کے پیچھے ضعیف و ناتواں بھی ہیں اور عورتیں اور بچے بھی۔ آپؐ نے فرمایا:’’ میرا جی چاہتا ہے کہ لمبی نماز پڑھائوں لیکن اس خیال سے نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ میرے پیچھے بوڑھے بھی ہیں اور عورتیں بھی جن کی ہانڈیاں جل رہی ہوں گی، بچے رو رہے ہوں گے‘‘(بخاری)۔
ہدایت فرمائی کہ مقروض سے تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کی جائے۔ حدیث کے مطابق ایک شخص محض اس وجہ سے جنت میں چلا گیا کہ وہ لوگوں کو قرض دیتا تھا اور جب تقاضے کی تاریخ آجاتی تو اپنے کارندوں کو کہتا کہ اگر وہ دینے سے معذرت کرے تو اسے مہلت دے دینا(بخاری)۔
مسافروں کا قافلہ ہو یا کوئی اصلاحی و رفاہی تنظیم و تحریک، ہر مزاج، صلاحیت اور ذوق کے افراد اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ اہل کارواں کا ہم منزل اور ہم مقصد ہونا ضروری ہے لیکن سب کا ہم مزاج ہونا ضروری نہیں۔ امیر کارواں کے لیے تمام صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری نہیں اور نہ یہ ہرجگہ ممکن ہے۔ البتہ اس کے لیے ایسا ہونا ضروری ہے کہ وہ مختلف مزاج اور صلاحیتوں کے حاملین کو مطمئن رکھ سکے، دل جوڑ سکے اور ساتھ لے کر چل سکے۔ اصول پرستی کے نام پر بے مروتی کرنے اور اپنے ماتحتوں اور کارکنوں کو ہر وقت کٹہرے میں کھڑا رکھنے کے شوقین حضرات جلد ہی نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ اختیارات کے استعمال پر کمر بستہ لوگ جلد ہی تنظیم اور ادارے سے وابستہ اپنے ماتحتوں کو خود سے بدظن کر بیٹھتے ہیں۔
آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کیسے امیر کارواں تھے، اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:فتح مکہ کے موقعے پر مسلمان ہونے والے ابو سفیانؓ، صفوانؓ بن امیہ، حکیمؓ بن حزام، سہیلؓ بن عمرو، حویطبؓ بن عبدالعزیٰ، ابوجہل کے بھائی حارثؓ بن ہشام کو سو سو اور تین تین سو اونٹ غزوۂ حنین کے مالِ غنیمت میں سے دیے۔ اسلام دشمنی میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے والوں پر حضورؐ کی مالی نوازشات دیکھ کر انصار کی زبانوں پر یہ شکوہ آگیاکہ رسولؐ اللہ نے قریش کے نومسلموں کو کثیر مال دیا اور ہمیں محروم رکھا، حالانکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک قریش کا خون ٹپک رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو ہمیں پکارا جاتا ہے اور مال غنیمت اوروں کو دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے انصار مدینہ کے یہ خیالات حضورؐ کو بتلائے تو آپؐ کو یہ سن کر دُکھ ہوا اور فرمایا:’’اللہ کی رحمت ہو حضرت موسٰی پر، بلاشبہہ ان کو ان کی قوم کی طرف سے زیادہ اذیت دی گئی اور انھوں نے صبر کیا‘‘۔
آپؐ کی ہدایت پر جب تمام انصار ایک خیمہ میں جمع ہو گئے تو آپؐ نے انصار کا موقف سنا اور پھر فرمایا:’’اے انصار! کیا ایسا نہیں کہ جب میں تمھارے پاس آیا تو تم گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے تمھیں ہدایت عطا فرمائی۔ تم محتاج تھے، اللہ نے تمھیں غنی کر دیا۔ تم باہمی دشمنیوں کی آگ میں جھلس رہے تھے، میرے ذریعے اللہ نے تمھارے دل جوڑ دیے‘‘۔ سب انصار نے ان احسانات کا اعتراف کیا۔
آپؐ باتیں کرنے والوں کو گستاخ قرار دے کر ان کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کرسکتے تھے لیکن آپؐ جانتے تھے کہ انصار کا یہ اضطراب مال کی حرص کی وجہ سے نہیں ۔ انھیں تو یہ دکھ تھا کہ وہ قریش جنھوں نے مکے اور مدینے میں حضورؐ کا جینا دوبھر کر دیا تھا، وہ آج آپؐ کی نظر کرم کے مستحق بن گئے ہیں۔ انصار نے حضورؐ اور صحابہ کے لیے قربانیاں ہی بہت دی تھیں چنانچہ حضورؐ نے انھیں ڈانٹنے کے بجائے اپنی ذات پر انصار کے احسانات خود بتانے کا دل نواز اسلوب اختیار کیا:
’’خداکی قسم، اے انصار! اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ اے محمدؐ! جب تمھاری قوم نے تمھیں جھٹلادیا تھا تو ہم نے تمھاری تصدیق کی تھی۔ تم قوم میں بے یارومددگار تھے تو ہم نے تمھاری مدد کی۔ تمھاری قوم نے تمھیں مسترد کر دیا تھا، ہم نے تمھیں ٹھکانہ دیا ۔ تم محتاج تھے، ہم نے تمھاری غمگساری کی۔ اگر تم یہ کہتے تو تمھارا یہ جواب سچا ہوتا اور سب اس کی تصدیق کرتے‘‘۔ انصار کے احسانات کا اعتراف کرکے آپؐ نے ان کے دل اپنی مٹھی میں لے لیے اور پھر فرمایا: ’’اے انصار! تم دنیا کی عارضی دولت کے لیے محمدؐ سے ناراض ہو گئے، جو میں نے نومسلموں کی تالیف ِقلب کے لیے ان کو دی ہے۔ اے انصار، کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو جائیں،جب کہ تم اللہ کے رسولؐ کو اپنے ساتھ لے کر گھروں کو پلٹو۔ خدا کی قسم! جس چیز کو لےکر تم جائو گے وہ اس چیز سے بہتر ہے جو وہ لے کر جائیں گے‘‘۔ ہر طرف سے ہچکیوں بھری آوازیں بلند ہوئیں:’’یارسولؐ اللہ! ہم راضی ہیں اس بات سے کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘۔
مزید فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! اگر ساری دنیا ایک راہ چلے اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ تم انصار میری چادر کا اندرونی حصہ ہو، جب کہ دوسرے لوگ بیرونی۔ اے اللہ! انصار پر رحم فرما۔ ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحم فرما‘‘۔
رسولؐ اللہ کے اس دل پذیر اور دل نواز خطاب کے دوران انصار اس قدر روئے کے داڑھیاں آنسوئوں سے تر ہو گئیں اور وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے میں اللہ کے رسولؐ ہیں۔ (بخاری، ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم ، ص:۵۷۰-۵۷۲)
نومسلموں کی تالیف قلب کے لیے حضورؐ نے جو احسانات اور مالی نوازشات فرمائیں، ان لوگوں کی زندگی پر ان کے دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔ سب سے بڑے دشمنِ اسلام ابوجہل کے بیٹے کو آپؐ نے امان دی تو وہ مسلمان ہو گئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! جتنا مال و دولت خدا کی راہ سے روکنے کے لیے میں خرچ کیا کرتا تھا، اب اس کا دوگنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا۔ اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے جتنی لڑائیاں میں نے لڑی ہیں، اب اس کی راہ میں اُس سے دُوگنا جہاد کروں گا‘‘۔ (موطا امام مالک، مستدرک حاکم، ۳/۲۴۱)
عمان میں فتنۂ ارتداد کے سردار لقیط بن مالک کو عکرمہ نے قتل کرکے لوگوں کو اسلام پر قائم کیا۔ عمان کے دیگر قبائل اور خصوصاً بنی مہرہ کی سرکشی کو ختم کیا۔ یمن کے مرتدوں کے سردار کا زور توڑا۔ شام کے ایک معرکے میں دشمنوں کی صفوں میں بے دھڑک گھس گئے۔ جب خاندان کے لوگوں نے انھیں محتاط رہنے کے لیے کہا تو انھوں نے کہا:لات و عزیٰ کے لیے تو مَیں جان پر کھیلا کرتا تھا، آج خدا کے لیے جان بچائوں؟ خدا کی قسم! ایسا نہیں ہو سکتا۔ (اسد الغابہ، ۴/۶)
جنگ یرموک میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو مسلمانوں کو موت پر بیعت کی دعوت دی۔ چار سو مسلمان ان کے ساتھ مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے جن میں سے اکثر شہید ہوئے۔ عکرمہ کے دو بیٹے شدید زخمی ہوئے اور وہ خود شہید ہو گئے۔ عکرمہ نے تمام جنگوں میں بیت المال سے کچھ نہ لیا۔ وہ قرآن پر چہرہ رکھ کر کہا کرتے تھے: کتابُ ربّی، کتابُ ربّی، یہ کہتے ہوئے وہ زار و قطار روتے رہتے۔ (دارمی، ص:۲۰۷، مستدرک حاکم، ۳/۳۴۱، طبری، ص:۲۱۵)
قریش کے خطیب اور حدیبیہ میں قریش کے سفیر سہیلؓ بن عمر و فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان کے بیٹے ابوجندل کی سفارش پر حضور نے انھیں امان دی۔ رحلت ِنبویؐ کے بعد مکہ میں بھی ارتداد کی لہر اٹھی۔ یہ سہیلؓ بن عمرو تھے جن کی خطابت نے مرتدین اور مذبذبین کو اسلام پر راسخ کیا۔ جنگ یرموک میں ایک دستے کے سالار تھے۔ اپنے پورے گھرانے کو اس جنگ میں فدا کردیا اور خود بھی شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ، ۲/۳۷۲، الاستیعاب، ۲/۵۹۳)
حضرت ابوسفیان ؓ عہد فاروقی میںپورے خاندان کے ساتھ جنگ یرموک میں شریک ہوئے۔ ان کی ایک آنکھ غزوہ طائف اور دوسری آنکھ یرموک میں زایل ہو گئی۔ (استیعاب۲/۷۱۰)
ان چند مثالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ حضورؐ کی رحمت و رافت تھی جس کے باعث کفر کے بڑے بڑے ائمہ پاسبان اسلام بن گئے___ حقیقی قائد اپنے حکم کے سامنے گردنیں خم کرانے کے بجائے دلوں کو جھکانے والا ہوتا ہے۔ذاتی و خاندانی معاملات ہوں یا عوام الناس پر حکمرانی کرنا، احکام شریعت کا نفاذ ہو یا حدود کا اجراء، باہمی لین دین کا معاملہ ہو یا اداروں اور تحریکوں کی قیادت کرنا، ان سب امور کی انجام دہی میں نرمی و شفقت اور دل نوازی کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔