یہ سوال کہ ’’کیا اللہ تعالیٰ کے لیے ’عاشق‘ یا ’معشوق‘ یا ’مشوق‘ کے کلمات استعمال کرناجائز ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ محبت کے لیے عشقِ رسول کا لفظ استعمال کرنا یایہ کہنا کہ ’’فلاں عاشقِ رسول ہے یا میں عاشقِ رسول ہوں‘‘،شرعاً جائز ہے ،نیزکیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معشوق کہنا جائز ہے؟ ہم عشق حقیقی اور عشق مَجازی کے الفاظ سنتے رہے ہیں، کیا ان میں کوئی معنوی فرق ہے ،نیزنعت یا سلام میں یہ شعر پڑھناکیسا ہے:’’امتی کیا،خود خدا شیدا ہے تمھارا؟‘‘
سب سے پہلے عشق کے معنی بیان کیے جاتے ہیں، اَلْمُعْجَمُ الْوَسِیْط کے مطابق: ’عشق‘ کے لغوی معنٰی ہیں:’’ بہت شدت سے محبت کرنا،کسی شئے کے ساتھ دل کا وابستہ ہو جانا ،چمٹ جانا‘‘۔ مِصْبَاحُ الْمُنِیْر میں ہے:’’ محبت میں اِفراط (یعنی حد سے تجاوز یا انتہائی درجے کی محبت) کو ’عشق‘ کہتے ہیں، اَلْمُنْجِد میں ہے : ’’بہت زیادہ محبت کرنا ،محبت میں حد سے بڑھ جانا،عَشِقَ بِالشَیٔ ِ : چمٹنا،العِشْقُ : محبت کی زیادتی،اس کا اطلاق پارسائی اور غیرپارسائی دونوں اعتبار سے ہوتاہے‘‘۔
ہندی میں ’عشق پیچاں‘ ایک بیل کو کہتے ہیں، اردو زبان میں اسے’آکاس بیل‘ کہتے ہیں، یہ درخت سے لپٹ جاتی ہے اور اس کو برگ و بار یعنی شاخوں، پتوں اور پھولوں سے محروم کردیتی ہے، پھر وہ زرد ہوجاتا ہے اور کچھ دنوں کے بعد خشک ہو جاتا ہے۔
پس جب ’عشق‘ قلبِ عاشق پہ چھا جاتا ہے تو اس کو زرد رُو اور لاغَر بدن بنادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے عاشق ، معشوق اور مشوق کے کلمات استعمال کرنا شریعت کی رُو سے درست نہیں۔ شاقَ یَشُوْقُ شَوْقًا کے معنی ہیں:’’شوق دلانا‘‘، اس کی صفتِ مفعولی مشوق ہے۔ شَوقْ کے معنی ہیں:’’سخت خواہش، بڑی آرزو‘‘۔بعض فقہا وعلما نے اسے ’بدعت‘ کہاہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایسے کلمات استعمال کرنے والے کو بدعتی قرار دیا گیا ہے ،البتہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، بعض علماء نے کہا ہے: ’ایسے شخص کو سزا دی جائے گی ‘۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب میںسے ایک یہ ہے :’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صریح اہانت کا کلمہ تو درکنار ، ایسا ذومعنی کلمہ بھی استعمال کرنا جائز نہیں ، جس کا ایک معنی تعظیم کا ہو اوربولنے والے کی نیت بھی تعظیم کی ہو ،لیکن اس کے ایک دور کے معنی اہانت کے بھی نکل سکتے ہوں ،کیونکہ کوئی بدنیت اور بدعقیدہ شخص ایسے کلمات بول کر اہانت کا معانی مراد لے سکتا ہے‘‘۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابۂ کرامؓ کے ساتھ مجلس منعقد ہوتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ مبارکہ کا سلسلہ جاری ہوتا اور کوئی بات کسی صحابی کی سمجھ میں نہ آتی ،تو وہ عرض کرتے: راعِنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘،’’یعنی اے اللہ کے رسولؐ! ہماری رعایت فرمایئے ، ہماری طرف توجہ فرمایئے ، اپنی بات مکرر ارشاد فرمایئے‘‘۔صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کی نیت درست ہوتی تھی ، لیکن بعض منافقین اوریہود بدنیتی سے اس لفظ کو اِمالہ(Tilt) کرکے رَاعِیْنَا کہتے اورباہر آکر اپنی مجلسوں میں اس کا مذاق لیتے کہ ہم نے انھیں بنادیا،کیونکہ رَاعِیْنَا کے معنی ہیں: ’ہمارا چرواہا‘ اور بعض اسے ’رَعْن‘ سے لیتے اوررعونت کے معنی ہیں:’’بے وقوف ہونا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذومعنی لفظ کے استعمال سے منع فرمادیا اور تنبیہہ فرمائی کہ پہلی مرتبہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غورسے سن لیاکرو، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ زحمت دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُولُوْا انظُرْنَا وَاسْمَعُوْا (البقرہ ۲:۱۴۰)’’اے ایمان والو!راعِنَا ‘‘نہ کہا کرو،بلکہ انظُرْنَا (ہماری طرف توجہ فرمایئے!) کہاکرو اور (بہتریہ ہے کہ پہلے ہی ) توجہ سے سن لیا کرو‘‘۔ ذومعنی لفظ کو ہم انگریزی میں Ambigous سے تعبیر کرسکتے ہیں،لغت میں اس کے معنی ہیں:’’ایسا لفظ جس کے ممکنہ طور پر ایک سے زائد معانی ہوں، اس سے بعض صورتوں میں ابہام بھی پیدا ہوتا ہے‘‘۔
نیز فرمایا: مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۰ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۴۶ (النسآء۴:۴۶) ’’یہودیوں میں سے کچھ لوگ اللہ کے کلمات کو ان کی جگہوں سے پھیردیتے ہیں اورکہتے ہیں : ہم نے سنا اورنافرمانی کی (اور آپ سے کہتے ہیں:) سنیے آپ نہ سنائے گئے ہوں اوراپنی زبانیں مروڑ کر دین میں طعن کرتے ہوئے ’رَاعِنَا‘ کہتے ہیں اور اگر وہ کہتے : ہم نے سنا اورہم نے اطاعت کی اورآپ ہماری بات سنیں اورہم پر نظرِ کرم فرمائیں تویہ اُن کے لیے بہتر اور درست ہوتا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب اُن پر لعنت فرمائی ہے، سوان میں سے کم لوگ ہی ایمان لائیں گے‘‘۔
قرآن کریم اور اَحادیثِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ کے لیے ’حُبّ‘ کا کلمہ آیا ہے، اُس کی انتہا کو ’اَشَدَّ‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۰ۭ(البقرہ۲:۱۶۵)،’’بعض لوگ اللہ کے غیرکو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں اوراُن سے اللہ جیسی محبت کرتے ہیںاور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہیں‘‘۔
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ’’بعض اولیائے کرام اور بعض متقدمین نے اللہ تعالیٰ سے اظہارِ محبت کے لیے لفظ معشوق اور مَشُوق استعمال کیا ہے، مگر اہل علم نے دو وجہ سے اسے ناپسند کیا ہے: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ توقیفی ہیں (یعنی نقل وسماع پر موقوف ہیں، عقل پر موقوف نہیں ہیں) اور دوم یہ کہ اس کا اطلاق جسمانی لذتوں میں (زیادہ) متعارف ہے، (تفسیر امام راغب اصفہانی،ج۱، ص ۴۹)‘‘۔علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:’’ اہل علم نے اس میں اختلاف کیاہے کہ آیا یہ کلمہ (عاشق یا معشوق) اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے بولاجاسکتا ہے ،صوفیا کی ایک جماعت نے کہاہے: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور انھوں نے اس بابت اثر نقل کیاہے، لیکن ایسا اثر کہیں ثابت نہیں ہے اور اُسی میں ہے :عشق کرنے والا کہے گا:’’ اس نے مجھ سے عشق کیایا میں نے اس سے عشق کیا‘‘اور جمہور علماء نے کہا : یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں نہیں بولا جائے گا ،پس یہ نہیں کہاجائے گا : ’’وہ (فلاں ) سے عشق فرماتا ہے ‘‘ اوریہ بھی نہیں کہاجائے گا : ’’اُس کے بندے نے اُس سے عشق کیا‘‘،محدثین کی اصطلاح میں ’’اثر‘‘قولِ صحابی کو کہتے ہیں۔
قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ سے محبت کے حوالے سے البقرہ: ۱۶۵، ۱۹۵، ۲۲۲، آل عمران: ۳۱، ۷۶، ۱۳۴، ۱۴۶، ۱۵۹، توبہ: ۲۴ اور دیگر مقامات پر أَحَبّ ، یُحِبُّ ، یُحِبُّونَ ، حُبّا کے الفاظ آئے ہیں، نیز حدیثِ پاک میں ہے :’’ جومیری رضا کے لیے آپس میں محبت کریں، باہم مل بیٹھیں، ایک دوسرے سے ملاقات کریں اور ایک دوسرے پر مال خرچ کریں ،ان کی محبت میرے ذمۂ کرم پر ہے ،(مسند احمد :۲۲۰۳۰)‘‘، بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق واجب ہیں، بندہ اُن کا حق ادا نہیں کرسکتا،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۱۸ (النحل۱۶:۱۸) ’’اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گننے لگو تو تم اُن کاشمار نہ کر پائو گے، بے شک اللہ بہت بخشنے والا،نہایت مہربان ہے ‘‘۔ حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ ! میں تیری ثناکا احاطہ نہیں کرسکتا ، تیری کمالِ ثنا وہی ہے جو تونے خود اپنی ذات کی فرمائی ،( صحیح مسلم:۴۸۶)‘‘۔
علامہ ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں:’’اگر اس نے کہا : میں ایسے مقام پر پہنچ گیا کہ میں غمِ جان سے آزادہوگیا‘‘،یہ کہنے سے اس کی تکفیر تونہیں کی جائے گی ،لیکن وہ مُبْتَدِع ہے(اور) فریب نفس میں مبتلا ہے،اسی طرح اگر کہا: ’’میں اللہ کا عاشق ہوں یاوہ مجھ سے عشق فرماتا ہے‘‘ تومبتدع ہے۔ علامہ سلیمان بن منصورشافعی لکھتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ کی ذات کوعاشق اورمعشوق کہنا جائز نہیں ہے ،بلکہ ایساکہنے والے کو سزا دی جائے گی [یعنی یہ ذات باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے]،(حَاشِیَۃُ الْجُمَلْ عَلٰی شَرحِ الْمَنْہَجْ،جلد۲، ص ۱۹۴)‘‘۔
امام احمد رضاقادری سے سوال ہوا:’’ اللہ تعالیٰ کو عاشق اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کامعشوق کہنا جائزہے یانہیں؟‘‘،آپ نے جواب میں لکھا:’’ناجائز ہے ،کیونکہ عشق کامعنی اللہ عزوجل کے حق میں مُحالِ قطعی ہے اور ایسا لفظ بے ورُودثبوتِ شرعی حضرتِ عزّت کی شان میں بولنا ممنوعِ قطعی ہے، ردالمحتارمیں ہے:’’اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کسی لفظ سے صرف مُحال معنی کا وہم بھی ممانعت کے لیے کافی ہے‘‘۔
علامہ یوسف اردبیلی شافعی اَلْاَنْوَار لاَِعْمَالِ الاَبْرَار میں شافعی اور حنفی علماء سے نقل فرماتے ہیں :’’اگر کوئی شخص کہے : میں اللہ تعالیٰ سے عشق رکھتاہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتاہے‘‘ ،تو وہ بدعتی ہے، لہٰذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ یوں کہے:’’ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرتاہوں اور وہ مجھ سے محبت فرماتاہے۔ جس طرح قرآنِ کریم میں ہے:’’اللہ تعالیٰ اُن سے محبت فرمائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے،(المائدہ۵:۵۴)‘‘،اسی طرح امام ابن حجر مکی نے’اِعلام‘ میں نقل فرما کراسے مقرّر رکھا،(فتاویٰ رضویہ ،جلد۲۱، ص۱۱۴ تا ۱۱۶)۔
مفتی محمد شریف الحق امجدی سے سوال ہوا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا دل بر، دل رُبا اور معشوق کہہ سکتے ہیں‘‘، آپ نے جواب میں لکھا:’’ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان تینوں الفاظ:دل بر، دل رُبا اور معشوق میں سے کسی کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔ یعنی یہ کہنا جائز نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے دل بر یا دل رُبا یا معشوق ہیں، اس لیے کہ دل بر، دل رُبا کہنے میں باری تعالیٰ کے لیے ایہامِ تجسّم (جسمانیت کا وہم پیداہوتا)ہے اور معشوق کہنے میں اثباتِ نَقص ،کیونکہ عشق کا حقیقی معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے،(فتاویٰ شارح بخاری ،جلد۱، ص ۲۸۱)‘‘۔
مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق ومعشوق کے الفاظ اور اللہ تعالیٰ کی نسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’معشوق‘، ’دلبر‘ اور ’دل رُبا‘ کے الفاظ استعمال کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے اورعلمائے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے۔تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبین کے لیے ’عاشق‘ کالفظ بکثرت استعمال ہورہاہے ، اس کی جمع عُشّاق ہے اور ع کے فتحہ کے ساتھ عَشّاق کے معنیٰ ہیں : ’’بہت زیادہ عشق کرنے والا ‘‘ ،یعنی یہ مبالغہ کا صیغہ ہے ۔البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’معشوق‘ کا لفظ کبھی نہیں سنا اوریہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان معلوم نہیں ہوتا ، اس سے اجتناب بہتر ہے ،حالانکہ معنوی اعتبار سے اس میں خرابی نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ کلمہ مُبتذل ہے،سفلی جذبات کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، اس لیے ہماری رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معشوق کا کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حبیب اورمحبوب کے کلمات استعمال کیے جائیں ، ان میں حرمت ہے، وقار ہے، تقدیس ہے اور قرآن وحدیث میں اس کی ترغیب دی گئی ہے، بلکہ اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے کہ مومن کی نظر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذواتِ مقدسہ صرف محبوب نہیں، بلکہ اَحَبّ(محبوب ترین) ہونی چاہییں۔
(۱)’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن (کامل) نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ وہ مجھے اپنے والد ،اپنی اولاد اور تمام لوگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ محبوب (اَحَبّ)نہ جانے، (صحیح البخاری:۱۵)‘‘۔
(۲)’’عبداللہ بن ہشام بیان کرتے ہیں: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، دراں حالیکہ وہ عمرؓ بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں ! اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ،تم اُس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہوسکتے جب تک کہ میں تمھارے لیے تمھاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجائوں، اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! بخدا!اب آپ میرے لیے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عمر! اب تم نے کمالِ ایمان کو پالیا ،(بخاری:۶۶۳۲)‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظِ ’’شیدا‘‘کے اطلاق کے بارے میں مفتی شریف الحق امجدی لکھتے ہیں:’’(اللہ تعالیٰ)کو شیدائے محمد کہنا بھی جائز نہیں کہ اس میں معنیٔ سوء کا احتمال ہے،کیونکہ شیدا کے معنی ہیں:’’ آشفتہ ، فریفتہ ، مجنون،عشق میں ڈوبا ہوا، عاشق‘‘، اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے مُنَزَّہ (پاک)ہے،(فتاویٰ شارح بخاری، ج۱، ص۱۴۱)‘‘۔