کسی فعل کو بدعت ِ مذمُومہ قرار دینے کے لیے صرف یہی بات کافی نہیں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا تھا۔ لغت کے اعتبار سے تو ضرور ہرنیا کام بدعت ہے۔ مگر شریعت کی اصطلاح میں جس بدعت کو ضلالت قرار دیا گیا ہے، اس سے مراد وہ نیا کام ہے جس کے لیے شرع میں کوئی دلیل نہ ہو، جو شریعت کے کسی قاعدے یا حکم سے متصادم ہو___ جس کا نکالنے والااسے خود اپنے اُوپر یا دوسروں پر اس اِدعا کے ساتھ لازم کرے کہ اس کا التزام نہ کرنا گناہ اور کرنا فرض ہے۔ یہ صورت اگر نہ ہو تو مجرد اس دلیل کی بنا پر کہ فلاں کام آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں ہوا، اسے ’بدعت‘ بمعنی ضلالت نہیں کہا جاسکتا۔
عہد ِ رسالتؐ اور عہد ِ شیخینؓ میں جمعہ کی صرف ایک اذان ہوتی تھی، حضرت عثمانؓ نے اپنے دور میں ایک اذان کا اور اضافہ کر دیا، لیکن اسے بدعت ِ ضلالت کسی نے بھی قرار نہیں دیا بلکہ تمام اُمت نے اس نئی بات کو قبول کرلیا۔ بخلاف اس کے انھی حضرتِ عثمانؓ نے منیٰ میں قصر کرنے کے بجائے پوری نماز پڑھی تو اس پر اعتراض کیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ صلوٰۃ ضحی کے لیے خود بدعت اور اِحداث کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اِنَّھَا لَمِنْ اَحْسَنِ مَا اَحْدَثُوْا (یہ ان بہترین نئے کاموں میں سے ہے جو لوگوں نے نکال لیے ہیں)، بِدْعَۃٌ وَنِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ (بدعت ہے اور اچھی بدعت ہے)، مَا اَحْدَثَ النَّاسُ شَیْئًا اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْہَا (لوگوں نے کوئی ایسا نیا کام نہیں کیا ہے، جو مجھے اس سے زیادہ پسند ہو)۔ حضرت عمرؓ نے تراویح کے بارے میں وہ طریقہ جاری کیا، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں نہ تھا۔ وہ خود اسے نیا کام کہتے ہیں، اور پھر فرماتے ہیں: نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ (یہ اچھا نیا کام ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ مجرد نیا کام ہونے سے کوئی فعل بدعت ِ مذ مُومہ نہیں بن جاتا بلکہ اسے بدعت مذمُومہ بنانے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ (رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۱، اپریل ۱۹۶۳ء، ص۵۸-۵۹)