حضرت ابوہریرہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا کہ تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو گفتگو فرمائے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا۔ ایک وہ شخص جس نے کسی سامان کے متعلق قسم کھائی کہ اس کی قیمت اس سے زیادہ مل رہی تھی، حالانکہ وہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے۔ دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مسلمان آدمی کا مال ہضم کر جائے، تیسرا وہ شخص جس نے ضرورت سے زائد پانی روک لیا (یعنی نہیں دیا)، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج میں تجھ سے اپنا فضل روک لوں گا، جس طرح تو نے اپنی ضرورت سے زائد پانی روک لیا تھا، جس کو تو نے پیدا نہیں کیا تھا۔؎۳۳
بعض لوگ زائد پانی اس لیے دوسرے لوگوں کو نہیں دیتے تھے یا روکتے تھےکہ ان کے جانور اور مویشی ساتھ آئیں گے اور وہ آتے جاتے ہوئے گھاس کھاجائیں گے، تو اس بات کی بھی نفی کر دی گئی کہ زائد پانی کا اس وجہ سے روکنا کہ جانور گھاس کھا جائیں گے، یہ بھی ناجائز امور میں سے ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرورت سے زائد پانی نہ روکا جائے اور جو پانی کنوئیں میں بچ رہے اس سے نہ روکا جائے۔؎۳۴ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد پانی کے فروخت کرنے سے منع فرمایا۔؎۳۵ یعنی اگر کسی شخص کی ملکیت میں اتنا پانی ہو جو اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد بچ جائے اور دوسرے لوگ اس کے حاجت مند ہوں، تو اس فاضل پانی کو روکنا اور ضرورت مند لوگوں کے ہاتھ بیچنا جائز نہیں ہے بلکہ وہ پانی انھیں مفت ہی دے دینا چاہیے، لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے، جب کہ ان لوگوں کی ضرورت کا تعلق اس پانی کو خود پینے یا جانوروں کو پلانے سے ہو۔ اگر کوئی شخص اپنے کھیتوں یا درختوں کو سیراب کرنے کے لیے وہ پانی چاہے تو پھر مالک کے لیے جائز ہے کہ وہ اس پانی کو بغیر معاوضے کے نہ دے۔
حضرت بہیسہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے عرض کیا کہ’’یا رسولؐ اللہ ! وہ کون سی چیز ہے جس سے منع کرنا اور اس کے دینے سے انکار کرنا حلال نہیں ہے ؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’پانی‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! اور کون سی چیز ہے جس کو دینے سے انکارکرنا حلال نہیں ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نمک‘‘۔ انھوں نے پھر عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے منع کرنا حلال ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’بھلائی کرنا جو تمھارے لیے بہتر ہے‘‘۔؎۳۶
پانی روکنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمھاری زمین میں کنواں و تالاب ہے یا تمھارے گھر میں نل وغیرہ ہے اور اس سے کوئی شخص پانی لیتا ہے، تو اسے پانی لینے سے روکنا مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تم میں سے کوئی شخص پانی مانگتا ہے اور تمھارے پاس تمھاری ضرورت سے زائد پانی موجود ہے، تو اسے دینے سے انکار نہ کرو۔ اسی طرح نمک دینے سے انکار نہ کرو، کیونکہ لوگوں کو نمک کی بہت زیادہ احتیاج و ضرورت رہتی ہے۔ حدیث کا آخری جملہ تمام بھلائیوں اور نیکیوں پر حاوی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے جو کچھ بھی ہو سکے دیتے رہو اور جو نیکی و بھلائی کرسکو کرو۔ نیکی و بھلائی کے کاموں سے نہ تو اپنے آپ کو باز رکھنا درست ہے اور نہ دوسروں کو نیکی و بھلائی سے روکنا حلال ہے۔ حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان چیزوں سے منع کرنا اور ان کے دینے سے انکار کرنا مناسب نہیں ہے۔؎۳۷
یعنی کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی زمین میں واقع تالاب، چشمے، کنويں یا گزرتے ندی نالے سے جانور، انسان اور راہ چلتے مسافروں کے لیے ان سے پانی پینے کا معاوضہ وصول کرے یا اس پر پابندی عائد کرے۔
سرزمین عرب پر پانی کواگرچہ ایک بہت قیمتی شے سمجھا جاتا تھا اور پانی خال خال دستیاب تھا، لیکن اس کے باوجود لوگوں کو پانی کی قدر و قیمت کا درست احساس نہ تھا۔ اس لیے جب پانی انھیں میسر آتا تو وہ اسے بے دریغ ضائع کردیا کرتے تھے ، مثلاً دریا یا نہر کے کنارے اور چشموں یا حوضوں وغیرہ پر بیٹھ کر بے دریغ پانی استعمال کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی ممانعت فرما دی بلکہ آپؐ نے وضو جیسی عظیم عبادت میں بھی پانی کے ضائع کرنے کو اسراف و ناجائز قرار دیا۔؎۳۸ آپ کی ان تعلیمات کی وجہ سے صحابہ کرامؓ میں پانی کی اہمیت کا جذبہ پیدا ہوا اور پانی کی کفایت شعاری و بہترین استعمال کا احساس اُجاگر ہوا ۔ یوں آبی ضیاع کو روکنے کی عملی تربیت فراہم کی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ اور اس کے قرب و جوار کے بہت سے علاقوں میں آبی آلودگی پائی جاتی تھی اور اس کی طرف ان لوگوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر تھی، جس کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی تھیں اور صحابۂ کرامؓ بیمار ہو رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آبی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات فرمائے۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ جب رسول کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو ابوبکرؓ اور بلالؓ کو بخار آگیا اور حضرت ابوبکرؓ کو جب بخار آتا تو یہ شعر پڑھتے: ہر شخص اپنے گھر میں صبح کرتا ہے۔ حالانکہ موت اس کے جوتوں کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے، اور بلالؓ کا جب بخار اُترتا تو بلند آواز سے یہ شعر پڑھتے: کاش! میں وادیٔ مکہ میں ایک رات پھر رہتا اس حال میں کہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل گھاس ہوتی، کاش! میں ایک دن مجنہ کا پانی پی لیتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل کو پھر دیکھ لیتا۔ کہا یا اللہ! شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کر، جس طرح ان لوگوں نے ہم کو ہمارے وطن سے وبا کی زمین کی طرف دھکیل دیا۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: یااللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا کر۔ جس طرح ہمیں مکہ سے محبت ہے یا اس سے زیادہ (محبت پیدا کر)۔ یااللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا کر اور یہاں کی آب و ہوا ہمارے مناسب کر اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کر۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو وہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وبا والی زمین تھی اور وہاں بطحان ایک نالہ تھا جس سے بدبُو دار پانی تھوڑا تھوڑا بہتا رہتا۔؎۳۹ وادیٔ بطحا ن مدینہ کے نشیب میں واقع تھی۔
غور کیجیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے کہ یہ جگہ اس سر زمین پر سب سے زیادہ آلودہ جگہ تھی پھر آپؐ کے انتظامات کی بدولت یہ وادی نہایت پاک و صاف اور خوشگوار ہو گئی کہ بعدمیں آپؐ نے یہاں متعدد مرتبہ قیام فرمایا۔؎۴۰ مراد یہ ہے کہ یہاں آلودگی کو روکنے کے لیے ظاہری اقدامات کے علاوہ روحانی اقدامات کے اختیار کرنے کا درس بھی ہے۔
آلودگی کو روکنے کے ان انتظامات کی بدولت یہ وادی اتنی صاف ستھری ہو گئی کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ثابت بن قیسؓ کے پاس تشریف لے گئے۔وہ بیمار تھے تو فرمایا کہ اے پروردگار ! تکلیف کو دور فرما ، ثابت بن قیس سے۔ پھر آپؐ نے وادیٔ بطحان کی مٹی اٹھائی اور اسے ایک پیالے میں ڈال دیا۔ پھر اس پانی پر پڑھ کر پھونکا اور اسے ان پر بہا دیا۔ ؎۴۱ ایک صحابی ہجرت کرکے آئے تو بیمار ہوگئے، حالتِ مرض میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حال پوچھا، بولے بیمار ہوں۔ اگر بطحان کا پانی پی لیتا تو اچھا ہوجاتا ،فرمایا تو کون روکتا ہے؟ بولے ہجرت۔ ارشاد ہوا: جائو، تم ہر جگہ مہاجر ہی رہو گے۔ ؎۴۲ وادیٔ بطحان کی مٹی میں آپؐ کی دعا سے ہر مرض کے لیے شفا ہے۔
وادیٔ بطحان مدینہ منورہ کی مشہور وادی ہے۔غالباًاس حدیث کی وجہ سے اس جگہ کی مٹی کو ’خاکِ شفا‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ اگر چہ اس روایت میںبطحان کا ذکر ہےکہ یہاں کی مٹی برکت اور شفا والی ہے۔جہاں تک بعض لوگوں نے شفا کو خاص کیا بطحان کی مٹی کے ساتھ ،تواس میں کوئی تخصیص کی وجہ نہیں، جب کہ دوسری احادیث کے عموم سے پورے مدینہ منورہ کی مٹی مراد ہے۔ لیکن اس میں غلو اور حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ؎۴۳ آبی آلودگی کو روکنے کے لیے اللہ کے رسول ؐ نے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے، ان میں تھوکنے، پیشاب یاپاخانہ وغیرہ کرنے کی بھی ممانعت فرمادی۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتےہیں :مدینہ منورہ کی ریاست کے ابتدائی ایام میں ضروریات کے تحت ہر قسم کے انتظامی شعبہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور پھر تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اسے بہتر بنایا گیا۔ مدینہ منورہ، شہر کی انتظامیہ اس وسیع و عریض سلطنت کا دارالخلافہ اور وفاقی حکومت کا مرکز تھا، جب کہ ہر قبیلہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے ساتھ اپنے علاقہ میں ہی اس سلطنت کا صوبہ بن جاتا تھا اور قبیلے کا سردار یا مقامی فرد صوبائی حکومت کا حکمران مقرر کر دیا جاتا تھا۔؎۴۴
آبی انتظامات کے ضمن میں آپؐ نے مشہور صحابی اور قبیلہ مزینہ کے سردار حضرت بلال بن حارثؓ مزنی کو نقیع کے کنویں کا جسے آپؐ نے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود کھدوایا تھا، نگران مقرر کیا تھا۔ ؎۴۵
ہجرتِ نبویؐ کے وقت مدینہ منورہ میں صرف ایک ہی میٹھے پانی کا کنواں موجود تھا، البتہ وادیٔ عقیق میں میٹھے پانی کے بہت سے کنویں تھے۔ بیرعثمان، ابیار علی اور بیر عروہ بھی اسی وادی میں واقع ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وادی کا میٹھا پانی بہت پسند تھا۔؎۴۶ شاید میٹھے پانی کے ان کنوؤں کی کثرت کی وجہ سے آپؐ نے اس وادی کا نگران مقرر کیا تھا جس کا نام ہیصم المزنی تھا۔ جو دیگر امور کے علاوہ انتظامِ آب کی ذمہ داری بھی سر انجام دیتا تھا۔
اسی وادی میں بنو امیہ ان لوگوں کو تنخواہ دیتے تھے جو مروان بن الحکم کے حوض کی دیکھ بھال کرتے تھے۔اسی وادی میں ایک کنواں تھا، جس کا نام بئر المغیرہ تھا جس کے ڈول اور رسیوں کی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ انتظامِ آب کا یہ نظام عہد نبویؐ کے بعد دیگر حکمرانوں نے بھی برقرار رکھا۔
حوصلہ افزائی اور تعریف و توصیف یا انعام و اکرام کی بدولت لوگوں کی کارکردگی نہ صرف بہتر ہو جاتی ہے بلکہ استعداد کار اور قوت و صلاحیت کو بھی نمو ملتی ہے۔ یہ عصرحاضر کا تسلیم شدہ اصول ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا بخوبی ادراک و احساس تھا۔ اس لیے آپؐ لوگوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے تاکہ وہ پہلے سے بھی بہتر کام کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دوران سفر پانی کم ہونے کی وجہ سے مختلف صحابہؓ کو پانی ڈھونڈنے کے لیے بھیجا، جن میں سے ایک گروہ نے زیر زمین پانی تلاش کر لیا۔جس صحابیؓ نے پانی ڈھونڈا، اسے سقیا کا خطاب عطا فرمایا۔؎۴۷ آج دور جدید میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کو بہتر کارکردگی کی وجہ سے کوئی ایوارڈ دے دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حوصلہ افزائی کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ صحابیؓ دوسرے صحابہؓ کی بہ نسبت جلد پانی ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کا بئررومہ کو صدقہ کرنا بھی اس کی ایک مثال ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ کو عملی تربیت و نمونہ فراہم کرنے کے لیے خود بھی آب پاشی فرمائی، جس کی وجہ سے صحابۂ کرامؓ کو بھی یہ ترغیب ملی کہ وہ بھی آب پاشی کریں۔ انصار تو پہلے سے ہی آب پاشی میں ماہر تھے، لیکن مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین آب پاشی میں مہارت نہیں رکھتے تھے کیونکہ مکہ کے اکثر لوگوں کا پیشہ گلہ بانی و تجارت تھا اور مہاجرین کو آب پاشی سے اتنی واقفیت نہیں تھی۔
امام سرخسی لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے کھیتی باڑی کا کام کیا ۔ مروی ہے کہ آپ جب زمین پر اتارے گئے تو حضرت جبریلؑ آپ کی خدمت میں گندم لائے اور اسے زمین میں بو نے کا امر کیا ۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام جرف میں بنفس نفیس کاشت کاری فرمائی اور فرمایا:الزَّارِعُ يُتَاجِرُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ [کاشت کار خدا سے تجارت کرتا ہے]۔؎۴۸
مشہور مؤرخ یعقوبی، عہد نبویؐ کے مدینہ میں نظامِ آب پاشی پر لکھتے ہیں: مدینہ منورہ میں چار وادیاں تھیں، جن میں صرف بارش کے وقت ہی پہاڑوں سے بہہ کر پانی آیا کرتا تھا تو سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ یہ تمام پانی حرہ بنی سلیم جو مدینہ منورہ سے ۱۰ فرسخ کے فاصلے پر واقع تھی کے پہاڑوں سے بہہ کر مدینہ کی وادیوں بطحان، العقيق الکبیر، العقيق الصغيراور وادیٔ قناۃ میں آتا تھا۔ ان تمام وادیوں میں پانی سیلاب کے وقت ہی آیا کرتا تھا اور پھر یہ سارا پانی ایک جگہ غابہ کے مقام پر جمع ہو جاتا، پھر یہ پانی العقیق الکبیر اور العقیق الصغیر میں آتا تھا ۔ جہاں سے یہ پانی بئر رومہ میں جوبنو مازن میں کھودا گیا تھا اور بئر عروہ اور مدینہ کے دیگر غیر معروف کنوؤں میں آتا تھا، جن سے مدینہ کے باسی پانی پیتے تھے۔ کھجوروں کے درختوں اورکھیتوں کی آب پاشی بھی انھی کنوؤں سے کی جاتی ہے اور پانی کھینچنے کا کام اونٹوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ ؎۴۹
غرض یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک سے نظامِ آب پاشی میں بڑی اصلاح اور گراں قدر ترقی ہوئی۔ چراگاہیں، تالاب ، چشمے اور نہریں مفادِ عامہ کے پیش نظر کھلی رکھی گئیں۔ باہمی تعاون اور ہمدردی کی فضا کو بحال کیا گیا۔ پانی کے لیے حکومت وقت کے ذمہ یہ فرض لگا دیا گیا کہ خلق خدا کے لیے مختلف چراگاہوں، تالابوں، نہروں، چشموں اور کنوؤں کا انتظام کرے اور اس پر حکومت کو کسی قسم کا ٹیکس یا لگان لینے کا حق نہ دیا گیا۔ ان ذرائع آب پاشی کی صفائی اور بہتر نگرانی کی جملہ ذمہ داری بھی حکومت کے سر ڈالی گئی۔ وہ ذرائع آب پاشی جو کسی نے انفرادی سطح پر یا عوام نے خود اجتماعی سطح پر بنائے، ان کی بہتر صفائی اور نگرانی کے لیے ان کے ذمہ دار افراد کو پابند رکھنے کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا، تاکہ مفاد عامہ اور عام ضرورت کی یہ چیزیں بعض افراد کی سستی اور کمزوری کی وجہ سے کہیں بندیا خراب نہ ہو جائیں۔
مفتی غلام سرور قادری لکھتے ہیں: انصار نے بڑی خوش دلی کے ساتھ وہ زمینیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیں جہاں پانی نہیں پہنچتا تھا، تو آپؐ نے بعض صحابہؓ کو ان زمینوں کی جاگیر بخشش فرما دیں تاکہ وہ آباد کر کے ان سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور ان کے ذریعے سے دیگر مخلوق بھی مستفید ہو۔؎۵۰ آب پاشی کے فروغ کے سلسلے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ زمین کے اندر پھوٹنے والے قدرتی چشمے اور ان کی حریم عامۃ الناس کے لیے ممنوعہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ لوگوں کو مالک زمین کی اجازت سے اس کی ضرورت سے زائد پانی اپنی فصلوں تک لے جانے اور خالی زمینوں سے گزار کر وہاں کے چشمے تالاب یا کنویں سے پانی پلانے کا حق ہے۔
عہد نبویؐ کے مطالعے سے آبی وسائل کے انتظام کے حوالے سے کئی اہم پہلو اُجاگر ہوتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی جہاں دیگر امور کی طرف توجہ مبذول فرمائی، وہیں آبی وسائل کے انتظام و انصرام کی طرف بھی خصوصی التفات فرمایا اور آبی وسائل و ذرائع کے تحفظ کے لیے بہت سے اقدامات اختیار فرمائے۔
lآپؐ نے نئے آبی و سائل وذخائر کو دریافت کیا اورپہلے سے موجود آبی وسائل و ذرائع کے بہترین انتظام کی کوششیں کیں،اس ضمن میں آپؐ نے مختلف منتظمین بھی مقرر فرمائے۔ lپانی کی فضول خرچی سے منع فرمایا۔ lمختلف ضروریات کے لیے پانی کی مقدار مقرر کی اور ان ضروریات کے لیے آبی مصرف کی شرائط و آداب اور اصول و ضوابط مقرر فرمائے۔ lپانی کو آلودہ کرنے سے منع فرمایا۔ lپانی پر اجارہ داری سے روکا lپانی پلانے کوبہترین صدقہ قرار دیا___ اگر سیرت النبیؐ کے اس گوشے پر عمل کیا جائے تو اس کی مدد سے دُور حاضر کے آبی مسائل میں نہ صرف کمی لائی جاسکتی ہے بلکہ بہت سے آبی مسائل کو بخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔
۳۳-بخاری ، الجامع الصحیح، حدیث ۲۳۶۹ و حدیث ۷۴۴۶
۳۴- ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۹
۳۵- ابوداؤد، سنن ابو داؤد، حدیث ۳۴۷۸؛ النسائی، سنن نسائی، حدیث ۴۶۶۲، ۴۶۶۳؛ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۷
۳۶-ابوداؤد، سنن ابوداؤد، حدیث ۱۶۶۹ اور حدیث ۳۴۷۶
۳۷- قطب الدین خان دہلوی، مظاہر حق (اُردو شرح مشکوٰۃ)، ج۲، ص ۲۹۲
۳۸- ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث۴۲۵
۳۹- الجامع الصحیح، حدیث ۱۸۸۹؛ کنزالعمال، حدیث ۳۴۸۱۵ و ۳۴۹۷۹
۴۰- نسائی، سنن نسائی، بَابُ إِذَا قِيلَ لِلرَّجُلِ صَلَّيْتَ هَلْ يَقُولُ لَا؟ حدیث۱۳۶۶
۴۱- ابوداؤد، سنن ابوداؤد، بَابُ مَا جَاءَ فِي الرُّقَى ، حدیث ۳۸۸۵
۴۲- ابن الاثیر،اسد الغابہ ،بیروت، ج۲،ص ۶۱۲
۴۳- مفتی رضا الحق، فتاویٰ دارالعلوم زکریا،کراچی، ج ۱،ص ۲۱۶
۴۴- ڈاکٹر محمد حمید اللہ ،محمد رسول ؐ اللہ، مترجم خالد پرویز ، لاہور ،ص ۲۰۵، ۲۰۶
۴۵- یٰسین مظہر، صدیقی، ’عہد نبویؐ میں تنظیم ریاست و حکومت‘ ،مشمولہ نقوش رسولؐ نمبر،ج۵،ص ۶۹۲
۴۶- محب الدین ابن النجار ، الدرة الثمينة في أخبار المدينة،ص۵۵-۵۶
۴۷- السيوطی،الخصائص الکبریٰ ،ج۲، ص ۷۱
۴۸- السرخسی، المبسوط، ج ۲۳، ص ۲
۴۹- احمد بن اسحاق یعقوبی، البلدان،بیروت ،ص ۱۵۱
۵۰- غلام سرور قادری، معاشیات نظام مصطفٰی ؐ، لاہور، ص ۱۸۴