کووڈ کا قہر کسی حد تک کم تو ہوا ہے، لیکن ابھی تک ہم میں سے بہت سے لوگ اس سے ملنے والے اندوہ ناک دردوغم سے اُبھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہمارے اس لیکچر کا موضوع ہے Things That Can & Cannot Be Said [’کہی جانے اور نہ کہی جاسکنے والی باتیں‘]۔ یہ میری ایک مختصر سی کتاب کانام ہے، جو میں نے جان کیوسک (John Cusack)کے ساتھ مل کرلکھی ۔یہ روس کے ایک سفر کی تفصیل پر مشتمل ہے، جو ۲۰۱۳ء میں ہم نے ماسکومیں موجود ایڈورڈ اسنوڈین (Edward Snowden) سے ملاقات کے لیے کیا تھا۔
یہاں پر یہ واضح کردوں کہ ایڈورڈ اسنوڈین، جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے والے وہ مشہور صحافی تھے، جنھوں نے ’ویت نام جنگ‘ [۷۵-۱۹۵۵ء] کے دوران امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کی تواتر سے کی گئی دروغ گوئی کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے اُجاگر کیا تھا۔
اسنوڈین نے برسوں پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ہم بالکل بے خبری کی حالت میں،جیسے کوئی نیند میں چل رہا ہو، آہستہ آہستہ جبر و قہر کے ساتھ نگرانی کرنے والی ریاستوں (Surveillance) کے دور میں اپنے ایک نہایت عزیز چھوٹے سے دوست، موبائل فون کے ساتھ داخل ہورہے ہیں۔ یہ چھوٹا سا ہمارا دوست اب ہمارے جسم کے ایک اہم عضو (Vital Organ)کی طرح، ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔
یہ موبائل فون ہر وقت ہماری نگرانی کرتا رہتا ہے اور ہماری پل پل کی نہایت ذاتی حرکات و سکنات تک کی مسلسل ترسیل کرتا رہتا ہے اور انھیں ریکارڈ کرتا رہتا ہے، تاکہ ہر وقت ہماری نگرانی کی جاسکے، اور بہ آسانی ہمارا تعاقب کیا جاسکے۔ اس طرح ہم پر مکمل قابو حاصل کر کے ہم کو کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر ایک معیاری قسم کا ’فرماں بردار‘ پالتوبنایا جاسکے۔ یہ صرف حکومتیں ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ ہم سب بھی ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے ہیں۔
تصور کیجیے کہ اگر آپ کا جگر یا پِتّاصحیح کام نہیں کر رہا ہے تو ڈاکٹر آپ سے یہی کہے گا کہ آپ ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ بس سمجھ لیجیے کہ ہماری یہی حالت ہے۔ اب ہم اپنے اس دوست نمادشمن ’فون‘ کے بغیر تو کچھ نہیں کر سکتے، لیکن یہ ستم گر ہمارے اندر سب کچھ کر رہا ہے۔ میں آج اپنی بات ’کہی جانے اور نہ کہی جا سکنے‘ والی باتوں سے شروع کروں گی اور اُس کے بعد اپنی اس جانی پہچانی اور خوب صورت دنیا کے بکھرنے کا ذکر کروں گی۔
یہ سال اُن لوگوں کے لیے بدتر تھا، جنھوں نے وہ باتیں کہی تھیں یا کی تھیں،جن کا کہنا یا کرنا منع تھا۔ اس دوران ہندستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں اسکول میں پڑھنے والی مسلم بچیوں نے اپنی مسلم شناخت کے ساتھ جب اپنے کلاس روم میں حجاب پہنا تو شدت پسند ہندوؤں نے اُن کو جسمانی طور پرہراساں کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہندو اور مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہتے چلے آرہے ہیں، لیکن حال ہی میں انتہائی خطرناک حد تک یہ سب تقسیم اور متحارب (polarise) ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف ایران میں ۲۲سالہ مہسا امینی ’گشت ارشاد‘ (اخلاقی پولیس) کی حراست میں قتل ہو گئی کہ اس نے حکومت کی ہدایت کے مطابق اسکارف نہیں پہنا تھا۔ اس کے بعد جو احتجاجی مظاہرے ہوئے، ان میں بہت سی جانیں ضائع ہوئیں۔
ان دونوں واقعات — میں دو متضاد باتیں نظر آتی ہیں۔ عورتوں کو زبردستی حجاب پہننے پر مجبور کرنا،یا حجاب نہ پہننے پر مجبور کرنا دراصل دونوں ہی جبر کے مترادف ہیں۔
اگست میں (شیطانی ہفوات کے مصنف) سلمان رشدی پر نیویارک میں حملہ ہوا، تو امریکا اور یورپ کے سربراہان مملکت نے پوری قوت (robustly) سے رشدی کی حمایت کی، اور بعض نے تو اس موقعے سے فائدہ ا ٹھاتے ہوئے یہ تک بھی کہا ہے کہ His fight is our fight ’اس کی لڑائی ہماری لڑائی ہے‘۔
اسی دوران جولین اسانژ،جس نے ان ممالک کے اُن فوجیوں کے خوف ناک جرائم کا پردہ فاش کیا تھا، جنھوں نے جنگوں میں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاتھا،وہ اس وقت تشویش ناک حد تک خرابیٔ صحت اور بیماری کی حالت میں ’ہزمیجسٹی بیلمارش جیل‘ [لندن] میں قید ہے،اور امریکا کے حوالے کیے جانے کا انتظار کررہا ہے، جہاں اسے موت کی سزا یا عمر قید ہوسکتی ہے۔
لہٰذا ہم کو رشدی پر اس حملے کو ‘تہذیبوں کے تصادم’یا’جمہوریت بمقابلہ تاریکی‘ جیسی فرسودہ اصطلاحات اورکلیشے (Cliche) میں ڈھالنے سے پہلے توقف اور تحمل سے کام لینا ہوگا،کیوں کہ ’آزادیٔ اظہار‘کے نام نہاد ’بشارتی اماموں‘(Evangelists) کی سربراہی میں کیے گئے حملوں میں تو لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ان لاکھوں میں ہزاروں ادیب و شاعر اور دوسرے فنکار بھی شامل ہیں۔
جہاں تک بھارت سے خبروں کا تعلق ہے،تو جون ۲۰۲۲ء میں، یہاں کی برسرِ اقتدار ہندو نیشنلسٹ پارٹی،بی جےپی کی ترجمان نُوپور شرما نے،جوکبھی ٹی وی کے ٹاک شو ز میں مستقل اپنے تحکمانہ اوردھمکانے والے انداز کے ساتھ نظر آتی تھی، اس نےپیغمبر اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] کے خلاف نہایت ہی غیرمناسب تبصرے کیے تھے،جن کا واحدمقصد صرف جذبات کو بھڑکانا ہی تھا، جس پر بین الاقوامی طور پر کافی شور مچا تو اس کے بعد وہ پبلک لائف سے غائب ہوگئی۔ اس کے بعد کچھ مسلمانوں نے ’سر تن سے جدا‘کے نعرے لگائے اور انڈین نسل پرست حکومت سے ’اہانت رسول‘ کا قانون پاس کرنے کا مطالبہ شروع کیا۔ شاید ان [مسلمانوں]کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ [مودی] حکومت کے لیے یہ تصادم کی فضا کس قدر خوشی کا باعث ہوسکتی ہے۔
گذشتہ مہینے مَیں بنگلور میں اپنی دوست لنکیش (Gauri Lankesh) کے قتل کی پانچویں برسی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کے لیے گئی تھی۔وہ ایک صحافی تھیں، جن کو ان کے گھر کے باہر،ہندو شدت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ان کا قتل،ان متعدد ہلاکتوں میں سے ایک تھا، جوغالباً ایک ہی بدنام گروہ نے انجام دیے تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر نریندر دابھولکر (Dabholkar) جو ایک مشہور معالج ہونے کے ساتھ مشہور و معروف دانش ور بھی تھے، ان کو۲۰۱۳ء میں گولی مار کر ہلاک کیاگیا تھا۔کامریڈ گووند پانسرے (Pansare)،جو ایک ادیب تھے ان کو۲۰۱۵ء میں گولی مار ی گئی تھی، اور کنّڑزبان کے ماہر پروفیسر ایم ایم کلبرگی (Kalburgi)کو اسی سال اگست میں گولی ماری گئی تھی۔
صرف قتل کرنا ہی سینسر شپ کا واحد طریقہ نہیں ہے، جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں صرف حکومت کی طرف سے ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر ہجوم کے ذریعے، سوشل میڈیا پرٹرولنگ کے ذریعے اور ستم ظریفی یہ کہ خود میڈیا کے ذریعے نشانہ بھی بنایا جاتاہے۔
انڈیا کے سیکڑوں ٹی وی نیوزچینل جو ہفتے میں سات دن اور ۲۴گھنٹے نشریات پیش کرتے ہیں، جنھیں ہم اکثر ’ریڈیو روانڈا‘کہتے ہیں،اُن پر ہمارے بے لگام ٹی وی اینکرزمسلمانوں اور ’ہندوتوا‘ کے سامنے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف نہایت غصے میں چیختے، چلّاتے، بھڑکاتے نظر آتے ہیں اور سوال کرنے یا کسی طرح کا اختلاف کرنے والوں کو برطرف کرنے، گرفتار کرنے اور سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ان لوگوں نے بغیر کسی جوابدہی کے، بعض لوگوں کی زندگی کو اور ان کی ساکھ کو پوری طرح سے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔سماجی کارکن،شاعر، ادیب، دانش ور، صحافی، وکیل اور طلبہ تقریباً ہرروز گرفتار کیے جارہے ہیں۔
جہاں تک کشمیر کا سوال ہے، اس سے متعلق وادی سے کوئی خبر باہر نہیں آسکتی، کیونکہ وہ ایک وسیع و عریض جیل (Giant Prison) کی مانند ہے۔ جلد ہی وہاں شہریوں سے زیادہ فوجی نظر آسکتے ہیں۔کشمیریوں کی کوئی بھی خبر،چاہے وہ نجی ہو یا عوامی، دُنیا کے سامنے نہیں آسکتی۔ یہاں تک کہ ان بے نوائوں کی سانسوں کی ردھم تک پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔وہاں اسکولوں میں گاندھی سے محبت کے پیغام کی آڑ میں،مسلمان بچوں کو ہندو دھارمک بھجن گانے کی تعلیم دی جارہی ہے۔
آج کل جب کبھی میں کشمیر کے بارے میں سوچتی ہوں تو نہ جانے کیوں، مجھ کو یاد آتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر تربوز کو چوکور سانچوں میں اُگایا جا رہا ہے، تاکہ وہ گول ہونے کے بجائے چوکور ہوں، جن کا ڈھیر لگانے میں آسانی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر میں بھارتی حکومت، بندوق کی نوک پر یہی تجربہ تربوزوں کے بجائے انسانوں پر کر رہی ہے۔
شمالی ہندستان،یعنی گنگا کی وادی میں،تلواربردار ہندوؤں کی بھیڑ، سادھو ؤں کی قیادت میں، جسے میڈیا بطور مصلحت ’دھرم گُرو‘ [مذہبی قیادت]کہتا ہے، وہ برسرِعام نعرے لگاتی ہے:’’ریاستی استثنا کے ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی (Genocide) کی جائے اور مسلم خواتین کےساتھ زنا بالجبر (Rape)کیا جائے‘‘۔
ہم نے دن دہاڑے مُسلم کش (Genocidal) ہجومی قتل و غارت (Mob Lynching) کا مشاہدہ تو بار بار کیاہے، اور اس کے ساتھ ہی تقریباً ایک ہزار مسلمانوں کا قتل عام (غیر سرکاری اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی)،اور اس سے قبل ۲۰۰۲ء میں گجرات میں اور۲۰۱۳ء میں مظفر نگر میں سیکڑوں [مسلمان] لوگوں کی ہلاکت کے المیے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ دونوں قتل عام انتخابات کے انعقاد سے عین پہلے ہوئے تھے۔
ہم نے دیکھا کہ جس شخص کی صوبائی وزارتِ اعلیٰ کے دوران گجرات میں قتل عام [۲۰۰۲ء] ہواتھا، وہی نریندر مودی،اپنی پوزیشن کو ’ہندوئوں کے دل کا راجا‘ کی حیثیت مستحکم کرنے کے بعد ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ سنبھالنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ جو کچھ المیہ موصوف کے اُس دورِ اقتدار میں ہواتھا، اس کے لیے اس نے کبھی کوئی اظہارافسوس نہیں کیا،اور نہ کبھی کوئی معذرت چاہی۔ ہم نے تو ہمیشہ موصوف کو خطرناک قسم کے طنزیہ اور مسلم مخالف جملوں اور بیانات سےاپنی سیاسی حیثیت کو چمکاتے ہوئے دیکھا ہے۔
پھر اس سے بڑھ کر المیہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ملک [انڈیا] کی سب سے اعلیٰ عدالت [سپریم کورٹ] نے انھیں،ہر طرح کی ذمہ داری سے قطعی طور پر بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ،نام نہاد آزاددنیا کے رہنما، انھیں ایک ’جمہوریت پسند سیاست داں‘ کے طور پر گلے لگاتے ہیں۔