میں ’پین برطانیہ‘ اور جیوری کے اراکین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ مجھے اس سال ’پین پنٹر‘ ایوارڈ کا حق دار قرار دیا گیا۔ اپنی گفتگو کا آغاز اس ’مینارۂ جرأت‘ کے نام سے کروں گی، جن کے ساتھ میں نے اپنا ایوارڈ بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ علاء احمد عبدالفتح [پ:نومبر ۱۹۸۱ء]اس ایوارڈ میں میرے شریک ہیں۔ ہم پُرامید تھے اور دُعاکر رہے تھے کہ آپ اس سال ستمبر میں آزاد ہوں گے، لیکن مصر کی حکومت نے آخرکار یہی فیصلہ کیا کہ آپ اتنے ’شان دار‘ مصنّف اور ایسے ’خطرناک‘ مفکر ہیں کہ آپ کو آزاد کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن آپ آج اس ہال میں ہمارے ساتھ ہیں اور آپ یہاں پر موجود لوگوں میں سب سے اہم ہیں۔ آپ نے جیل خانے سے لکھ بھیجا ہے کہ ’’میرے الفاظ اثر کھو چکے ہیں، لیکن میں لکھ رہا ہوں ۔اگرچہ سننے والے چند ہی ہیں اور میں بول رہا ہوں ‘‘۔
آپ سب جو یہاں آئے ہیں، آپ سب کو میرا سلام اور ان کو بھی جو حاضرین کو تو شاید نظر نہ آئیں، لیکن میری نظریں انھیں بالکل ایسے ہی دیکھ رہی ہیں، جیسے یہاں پر موجود لوگوں کو۔ میرا اشارہ ہندستانی جیلوں میں قید میرے دوستوں اور ساتھیوں کی طرف ہے، جن میں وکیل بھی ہیں، اور اساتذہ بھی، طلبہ بھی ہیں اور صحافی بھی۔ میں عمر خالد، گل فشاں فاطمہ، خالد سیفی، شرحبیل امام، رونا ولسن، سریندرا گیڈلنگ، مہیش راوت کی بات کر رہی ہوں۔ خرم پرویز میرے دوست! میں تم سے مخاطب ہوں۔ تم انتہائی خوب صورت لوگوں میں سے ایک ہو، لیکن جیل کی دیواروں نے تمھیں تین سال سے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ عرفان مہراج میں تمھیں بھی یاد کر رہی ہوں اور ان ہزاروں خاک نشینوں کو بھی جو کشمیر یا ملک بھر [انڈیا] کی جیلوں میں قید، متاعِ حیات لٹا رہے ہیں۔
جب پین برطانیہ کی مہتمم اور پنٹر جیوری کی رکن، رُتھ بورتھویک نے اس اعزاز سے متعلق پہلی بار مجھ سے بات کی تو انھوں نے لکھا تھا کہ ’پنٹر پرائز‘ (Pinter Prize)ایسے مصنّفین کو دیا جاتا ہے جو ’’اٹل سچائی، غیرمتزلزل (unflinching)اور فکری عزم کے ساتھ ہماری زندگی اور معاشرے کی اصل حقیقتوں‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بات ہرلڈ پنٹر نے نوبیل انعام کے حصول کے وقت تقریر میں کہی تھی۔
’غیر متزلزل‘ کے لفظ نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کیوں کہ میں خود ہمیشہ متزلزل رہتی ہوں۔ میں ان دو الفاظ، متزلزل اور غیر متزلزل پر کچھ مزید بات کرنا چاہوں گی۔اس لفظ کی شاید سب سے بہتر وضاحت ہیرلڈ پنٹر نے ہی کی تھی:
میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں لندن کے امریکی سفارت خانے میں موجود تھا۔ امریکی کانگریس، ریاست نکاراگوا کے خلاف سرگرم مسلح باغیوں ‘کونٹراز‘ (Contras) کو مزید رقم کی فراہمی کے متعلق فیصلہ کرنے والی تھی۔ میں نکاراگوا کے نمائندہ وفد میں شامل تھا، لیکن ہمارے وفد کا اہم ترین حصہ ایک پادری جان میٹکاف تھے۔ امریکی کمیٹی کے سربراہ ریمنڈ سیٹز (Raymond Seitz) تھے (جو اس وقت نائب سفیر تھے، اور بعد میں سفیر بنے)۔پادری میٹکاف نے کہا،’جناب میں شمالی نکاراگوا کے ایک مذہبی حلقے کا منتظم ہوں۔ وہاں اہل علاقہ نے مل کر ایک مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر تعمیر کیا تھا۔ ہم امن وسکون کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن کچھ مہینے پہلے باغیوں نے حملہ کر کے مدرسہ، شفاخانہ اور پنچایت گھر سمیت ہر شے تباہ کر دی۔ انھوں نے نرسوں اور استانیوں کی آبروریزی کی اور ڈاکٹروں کو انتہائی دردناک طریقے سے ذبح کردیا۔ ان کا رویہ بالکل وحشیانہ تھا۔ آپ براہ مہربانی امریکی انتظامیہ سے درخواست کریں کہ وہ ان دہشت گردوں کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔
ریمنڈ سیٹز ایک سلجھے ہوئے آدمی کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سفارتی حلقوں میں ان کی بڑی عزّت تھی۔ انھوں نے یہ بات سنی، کچھ دیر خاموش رہے اور پھر گہری آواز میں بولے: ’پادری صاحب! آج میں آپ کو کچھ بتاتا ہوں۔ معصوم لوگ ہمیشہ سے جنگ کا ایندھن بنتے آئے ہیں۔‘ برف جیسی منجمد خاموشی کے ساتھ، ہم ان کی طرف دیکھتے رہے لیکن سفیر صاحب ذرا بھی ’متزلزل‘ نہ ہوئے۔
یاد رہے [۴۰ ویں] امریکی صدر رونالڈ ریگن [م:۲۰۰۴ء] ان باغیوں کو’اخلاقی طور پر امریکی بانیانِ قوم کے ہم پلّہ‘ قرار دے چکے تھے اور یہ اصطلاح انھیں خاصی پسند تھی۔ انھوں نے افغان مجاہدین کے لیے بھی یہی اصطلاح استعمال کی تھی، جو پھر طالبان بن گئے۔ یہی طالبان امریکی قبضے کے خلاف بیس سالہ جنگ لڑنے کے بعد آج افغانستان میں حکمران ہیں۔ ان سے پہلے ایک جنگ ویت نام کی بھی تھی، جہاں پر وہی ’غیر متزلزل‘ امریکی نظریہ کارفرما تھا، جس کے تحت سپاہیوں کو کھلی اجازت تھی کہ ’ہر متحرک شے کو قتل کردو‘۔
اگر آپ ویت نام میں امریکی جنگ کے اہداف سے متعلق ’پینٹاگون پیپرز‘ اور دیگر دستاویزات کا مطالعہ کریں تو آپ کو نسل کشی سے متعلق کئی مباحث میں یہ ’غیر متزلزل‘ عزم نظر آئے گا۔ ’لوگوں کو سیدھا سیدھا قتل کر دیا جائے یا انھیں آہستہ آہستہ بھوک پیاس سے سسکا سسکا کر مارا جائے؟ دیکھنے میں زیادہ اچھا کیا لگے گا؟ پینٹاگون میں موجود مینڈرینوں کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے بقول امریکی جو ’زندگی، خوش حالی، دولت اور طاقت ‘کے خواہش مند ہیں، ان کے برعکس ایشیائی لوگ ’بڑے پُرسکون طریقے سے املاک کی تباہی اور جانی نقصان کو قبول کر لیتے ہیں‘۔ جس کی وجہ سے امریکی مجبور ہوجاتے ہیں کہ ’اپنے اسٹرے ٹیجک اہداف کو منطقی انجام یعنی نسل کشی تک پہنچا سکیں‘۔
آج اتنے سال گزرنے کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ سال بھر سے ہمارے سامنے ایک اور نسل کشی (Genocide) جاری ہے۔ امریکا اور اسرائیل نسلی عصبیت کی بنیاد پر قائم نوآبادیاتی قبضے کو بچانے کے لیے غزہ اور لبنان میں اپنی ’غیر متزلزل‘ نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھائی جا رہی ہے۔ اب تک سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ۴۲ہزار لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ ان میں ابھی وہ شامل نہیں، جن کی چیخیں کسی عمارت، محلے، بلکہ پورے شہر کے ملبے تلے دبی رہ گئیں اور جن کی باقیات کو ابھی ملبہ کھود کر نکالنا اور لاشوں کی گنتی میں شمار کرنا باقی ہے۔ ’آکسفام‘ (Oxfam)کی حالیہ تحقیق کے مطابق گذشتہ بیس برس کی کسی بھی جنگ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بچے غزہ میں مارے جا چکے ہیں۔
نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے وقت لاتعلق رہنے والے امریکا و یورپ نے اپنے جذبۂ جرم کی تسکین کے لیے ایک اور نسل کشی کا میدان سجا دیا ہے۔
تاریخ میں نسل کشی کی مرتکب ہونے والی ہر ریاست کی طرح اسرائیلی صہیونیوں نے بھی، جو خود کو اللہ کے چنیدہ لوگ سمجھتے ہیں، فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کی زمینوں پر قبضے سے پہلے ان کو انسانی مرتبے سے گرانے کی کوشش کی:
چنانچہ ان ’دو ٹانگوں والے درندوں‘، ’ٹڈیوں‘، ’کتوں‘ اور ’عدم موجود لوگوں‘ کو قتل کرنے، کونوں کھدروں میں دھکیلنے اور ان کی ’نسل کشی‘ کے بعد ایک نیا ملک قائم کیا گیا: اسرائیل۔ خوشی سے نعرے لگائے گئے کہ ’بے وطن قوم کو بے آباد وطن مل گیا۔‘امریکا و یورپ نے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ریاست کو مشرق وسطیٰ کی دولت اور وسائل پر قبضے کے لیے اپنی چھاؤنی کے طورپر استعمال کیا۔ اسے کہتے ہیں ’مفادات کا حسین امتزاج!‘
چنانچہ، ہر جرم کے باوجود، اس نئی ریاست کی ’غیر متزلزل‘ اور ’بے جھجک‘ مدد کی گئی، اسے مسلح کیا گیا اور اس کی جیبیں بھری گئیں، اس کے نازنخرے اٹھائے گئے اور سراہا گیا۔ یہ ریاست اس بگڑے ہوئے بچّے کی طرح پروان چڑھائی گئی، جو امیر گھر میں پیدا ہو اور والدین اس کے ہرظلم و زیادتی پر فخر سے مسکراتے رہیں۔ چنانچہ آج اگر اسرائیلی، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کھلے عام فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو حیرت کیسی؟(’پینٹاگون پیپرز‘ کو کم از کم خفیہ رکھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ انھیں چُرا کر شائع کیا گیا)۔ اگر اسرائیلی سپاہی تہذیب کے تمام تقاضے فراموش کر چکے ہیں تو کیسا تعجب؟
کیا یہ کوئی اَنہونی بات ہے کہ آج خواتین کو قتل یا بےگھر کرنے کے بعد ان کے زیریں جامے پہن کر گھٹیا وڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالی جا رہی ہیں اور اسرائیلی فوجی، اپنے ہاتھوں مرتے ہوئے فلسطینیوں، زخمی بچوں اور آبروریزی و گھنائونےتشدد کا شکار ہونے والے قیدیوںکی نقلیں اُتارتے دکھائی دیتے ہیں؟آپ کو ایسی وڈیوز بھی مل جائیں گی کہ اسرائیلی فوجی سگریٹ کا دھواں اُڑاتے یا موسیقی کی دھنوں پر ناچتے ہوئے عمارتوں کو بارود سے اڑاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق:’یہ جواب ہے ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے، اسرائیلی شہریوں کا قتل اور اغوا کا‘۔
اب یہ گفتگو کا وہ حصہ ہے جہاں مجھ سے توقع کی جائے گی کہ میں اپنی حفاظت کے پیش نظر، اپنی غیر جانب داری اور دانش وَرانہ صلاحیتوں کو ثابت کرنے کے لیے فریقین کو برابر ثابت کروں۔اپنی اخلاقی غیر جانب داری ثابت کرنے کے لیے اب مجھے حماس اور غزہ کی دیگر مسلح تنظیموں، لبنان اور حزب اللہ کی مذمت کرنی ہو گی کہ انھوں نے شہریوں کو قتل و اغوا کیا۔ پھر مجھے غزہ کے شہریوں کو بھی ڈانٹنا پڑے گا کہ وہ حماس کے حملے پر خوش کیوں ہوئے؟ یہ سب کرنے کے بعد ہر شے آسان ہو جاتی ہے۔ چھوڑیں جی دفعہ کریں، جب سب ایک جیسے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
لیکن میں اس مذمتی کھیل کا حصہ نہیں بنوں گی۔ میرا نقطۂ نظر بڑا واضح ہے۔ مظلوم خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف مزاحمت کیسے کرے اور اس کا اتحادی کون ہو، یہ فیصلہ کرنا میرا کام نہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ۲۰۲۳ میں دورۂ اسرائیل کے دوران اسرائیلی وزیراعظم اور جنگی کابینہ سے ملاقات کرتے ہوئے کہا تھا: ’صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں۔ میں بھی صہیونی ہوں‘۔
صدر بائیڈن کے برخلاف جو خود کو ‘غیر یہودی صہیونی‘ سمجھتے ہیں اور بالکل ’غیر متزلزل‘ طریقے سے جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو ہتھیار اور پیسہ فراہم کر رہے ہیں، اُنھیں دیکھتے ہوئے میں خود کو کسی ایسے خول میں محدود نہیں کروں گی، جس میں میرے لکھے ہوئے الفاظ نہ سما سکیں۔ میں وہی ہوں جو میں لکھتی ہوں اور وہی لکھتی ہوں، جو سو چتی اور دیکھتی ہوں۔
مجھے اس حقیقت کا پوری طرح احساس ہے کہ بطور ایک مصنف، بطور ایک غیر مسلم اور بطور ایک خاتون، میرا حماس، حزب اللہ یا ایرانی حکومت کے زیر اثر زندہ رہنا بہت مشکل یا شاید ناممکن ہو۔ لیکن فی الوقت یہ ہمارا موضوع ہی نہیں ہے۔ ہمیں اس تاریخ اور سیاق و سباق کو سمجھنا ہوگا، جس کے تحت یہ گروہ وجود میں آئے۔ فی الوقت اہم بات یہی ہے کہ یہ سب ایک نسل کشی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا کوئی لبرل اور سیکولر فوج، نسل کشی کے اس بدمست ہاتھی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیونکہ جب دنیا کی تمام طاقتیں ایک قوم کے خلاف ہوں تو وہ اپنے دفاع کے لیے خدا سے رجوع نہ کرے تو کیا کرے؟
مجھے معلوم ہے کہ ایرانی حکومت اور ’حزب اللہ‘ کے بہت سے ناقدین ان کے اپنے ملکوں میںبھی موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے جیلوں میں اس سے بھی برے حالات کا سامنا کر رہے ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ حماس کے کچھ اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، مثلاً ۷؍اکتوبر کو عام شہریوں کا قتل و اغوا لیکن پھر بھی اس کا موازنہ اس سب سے نہیں کیا جاسکتا، جو اسرائیل اور امریکا غزہ، مغربی کنارے اور اب لبنان میں کر رہے ہیں۔ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضہ اور فلسطینیوں کی غلامی ۷؍اکتوبر سمیت اس سارے فساد کی جڑ ہے۔ یاد رکھیے، اس مسئلے کا آغاز ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو نہیں ہوا۔
میں یہاں اِس ہال میں موجود تمام سامعین سے یہ سوال پوچھتی ہوں کہ ہم میں سے کتنے اس ذلت آمیز زندگی کو قبول کرنے پر رضامند ہوں گے، جو فلسطینی کئی عشروں سے گزار رہے ہیں؟ کون سے پُرامن راستے ہیں، جو فلسطینیوں اور ان کی قیادتوں نے نہیں آزمائے؟ گھٹنوں کے بل گر کر مٹی چاٹنے کے علاوہ کون سا سمجھوتہ ہے، جو انھوں نے قبول نہیں کیا؟
آگاہ رہیے اور جان لیجیے کہ اسرائیل اپنے دفاع کی کوئی جنگ نہیں لڑ رہا ہے، بلکہ اسرائیل جارحیت مسلط کرنے کی لڑائی لڑ رہا ہے تا کہ مزید فلسطینی زمینوں پر قبضہ کر سکے، اپنی نسلی عصبیت کے نظام کو مزید مضبوط کر سکے، فلسطینی عوام اور خطے پر اپنی گرفت مضبوط تر کر سکے۔
۷؍ اکتوبر سے جاری جنگ میں ہزاروں لوگوں کو جان سے ماردینے کے ساتھ ساتھ اسرائیل، غزہ کی اکثریتی آبادی کو کئی دفعہ دربدر کر چکا ہے۔ اس نے ان کے ہسپتالوں پر حملے کیے ہیں۔ ڈاکٹروں، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتے ہوئے قتل کیا ہے۔ ایک پوری قوم کو بھوکوں مارا جا رہا ہے کہ ان کی تاریخ ہی مٹ جائے۔ دنیا کی امیر ترین اور طاقت ور ترین حکومتیں اور ان کے ذرائع ابلاغ اخلاقی و مادی سطح پر پوری طرح ان سارے مظالم میں شامل ہیں۔ ان میں میرا وطن ہندستان بھی شامل ہے، جو اسرائیل کو ہتھیار اور ہزاروں کارکن فراہم کرتا ہے۔
یہ سب ممالک اسرائیل کے ساتھ یک جان دو قالب ہوچکے ہیں۔ گذشتہ صرف ایک سال میں امریکا اسرائیل کو۱۷ء۹ بلین ڈالر کی فوجی امداد بھیج چکا ہے۔ چنانچہ اب مناسب ہے کہ امریکی اس جھوٹ کا لبادہ اتار دیں کہ وہ ’ثالث ہیں‘، ’جنگ کے مخالف ہیں‘ ،یا جیسا کہ انتہائی بائیں بازو کا حصہ سمجھی جانے والی الیکسینڈرا اوکاسیو کورٹیز کا کہنا ہے کہ ’ہم جنگ بندی کے لیے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں‘۔ مَیں برملا کہوں گی کہ جو فریق بذاتِ خود نسل کشی میں شامل ہو، وہ ہرگز ثالث نہیں ہوسکتا۔
دنیا کی ساری طاقت، سارا پیسہ، سارے ہتھیار اور سارا پروپیگنڈا مل کر بھی اس زخم کو چھپا نہیں سکتے، جسے ہم فلسطین کہتے ہیں۔ اس زخم سے تمام انسانیت کا خون رِس رہا ہے۔
سلامتی کونسل میں رائے شماری کے مطابق جو ممالک اسرائیلی نسل کشی کو ممکن بنا رہے ہیں، ان کی اکثریتی آبادی اس کے خلاف ہے۔ ہم نے ان ممالک میں مسلسل لاکھوں احتجاج کرنے والوں کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ ان میں نوجوان یہودیوں کی وہ اکثریت بھی شامل ہوتی ہے، جو اسرائیل کی سرپرستی کے لیے گھڑا جانے والا جھوٹ سن سن کر اور کسی کے ہاتھوں استعمال ہوہو کر تنگ آ چکی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ایک دن جرمن پولیس، یہودیوں پر ہی ’یہوددشمنی‘ کا الزام لگاکر انھیں صہیونیت اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے میں گرفتار کرے گی؟ کس نے سوچا تھا کہ امریکی حکومت، اسرائیل کی خدمت میں یہاں تک چلی جائے گی کہ اسے آزادیٔ اظہار کے اپنے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین پسند نعروں پر پابندی لگانا پڑے؟ کچھ استثنائی صورتوں کے علاوہ ساری مغربی دنیا کے اخلاقی اصول آج باقی دنیا کے لیے ایک خوفناک لطیفہ بن چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جب دنیا کے سامنے ’دریا سے سمندر تک اسرائیل‘ کا وہ نقشہ لہرایا، جس میں فلسطین سرے سے موجود ہی نہیں، تو دنیا ان کے آگے بچھی دیکھی گئی ہے کہ کیسا بابصیرت آدمی ہے جو یہودیوں کے قومی وطن کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
دوسری طرف جب فلسطینی یا ان کے اتحادی ’نہر سے بحر تک‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو انھیں الزام دیا جاتا ہے کہ وہ کھلے عام یہودیوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہے ہیں۔
کیا واقعی ایسا ہے؟ یا انھیں اپنا خبث باطن دوسروں میں دکھائی دے رہا ہے؟ یہ کیسی ذہنیت ہے، جو تنوع برداشت نہیں کر سکتی؟ جو ایک ملک میں دوسروں کے ساتھ برابری کی سطح پر مساوی حقوق کےساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں؟ کیا ساری دنیا اسی طرح رہتی ہے؟ یہ وہ ذہنیت ہے جو قبول نہیں کرسکتی کہ فلسطینی بھی جنوبی افریقہ ، ہندستان اور نوآبادیاتی چنگل سے آزاد ہونے والے دوسرے ممالک کی طرح آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایسے ممالک کی طرح جو متنوع آبادی کے حامل ہیں، چاہے کئی بنیادی مسائل سے دوچار ہوں، لیکن آزاد ہیں۔ جب جنوبی افریقہ کے باشندے اپنا مشہور نعرہ ’عوام زندہ باد‘ لگایا کرتے تھے تو کیا وہ گورے لوگوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہے تھے؟ ہر گز نہیں۔ وہ نسلی عصبیت پر مبنی حکومتی نظام کا خاتمہ چاہتے تھے اور آج یہی مطالبہ فلسطینیوں کا ہے۔
جو جنگ اب شروع ہوئی ہے، یہ بہت تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن اس کا خاتمہ اسرائیل میں نسلی عصبیت کے خاتمے کے ساتھ ہوگا۔ یہودیوں سمیت سب کے لیے، پوری دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گی اور دنیا میں انصاف ہوگا۔ ہمارے دلوں سے آخرکار یہ کانٹا نکل جائے گا۔
اگر امریکی حکومت، اسرائیلی حمایت سے دست بردار ہو جائے تو آج ہی یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ ابھی اسی لمحے سب قتل و غارت گری بند ہو جائے گی۔ اسرائیلی مغوی اور فلسطینی قیدی آزاد ہوں گے۔ حماس اور دیگر فلسطینی نمائندوں کے ساتھ جو مذاکرات جنگ کے بعد ہونے ہیں، وہ ابھی ہوسکتے ہیں اور یوں لاکھوں لوگوں کو تکلیف اور تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ کیسی دردناک بات ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ امکان ہی ناقابلِ تصوّر ہے کہ انھیں اس پر ہنسی آئے گی!
علاء عبدالفتح! اختتام پر میں پھر تمھاری طرف آؤں گی۔ میں تمھاری کتاب تم ابھی ہارے نہیں (Not Yet Been Defeated)کا ذکر کروں گی، جو تم نے جیل میں لکھی ہے۔ ہار اور جیت کے معنی سے متعلق ایسے خوب صورت الفاظ میں نے اور کہیں نہیں پڑھے، نہ میں نے کسی اور کو یوں مایوسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھا ہے۔ میں نے کم ہی ایسا کام دیکھا ہے جس میں ایک شہری اپنی ریاست، اپنے جرنیلوں، اور(قاہرہ کے التحریر) چوک کے ان نعروں سے اس قدر واضح انداز میں الگ کھڑا نظر آتا ہے:
مرکز میں کھڑے ہونا بغاوت ہے کیونکہ مرکز کی جگہ صرف جرنیل کے لیے ہے۔
مرکز بغاوت کی جگہ ہے اور میں کبھی باغی نہیں رہا۔
وہ ہمیںکناروں کی طرف دھکیل کر خوش ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ ہم مرکز سے ہٹے نہیں، بس کچھ دیر کے لیے کھو گئے تھے۔
ووٹوں کے ڈبے، محل سرا، وزارتیں، قید خانے یہاں تک کہ قبریں بھی اتنی کشادہ نہیں ہیں کہ ان میں ہمارے خواب سما سکیں۔
ہم نے کبھی مرکز میں ہونا نہیں چاہا کیونکہ یہ اپنے خوابوں سے منہ موڑنے والوں کی جگہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ چوک بھی ہمارے لیے کافی نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے انقلاب کی جنگ اس سے ہٹ کر لڑی اور ہمارے اکثر ہیرو منظر سے باہر رہے۔
غزہ اور لبنان کی جنگ ایک علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے کو ہے اور اس کے ہیرو بھی منظر سے باہر ہیں۔ لیکن وہ لڑ رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک دن ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہو گا‘ (From the River to the Sea - Palestine will be Free)اور یہ ہوکر رہے گا۔
اپنی نظریں گھڑیوں پر نہیں، کیلنڈر پر رکھیں۔ کیونکہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے عوام، یہاں پر میں جرنیلوں کی بات نہیں کر رہی، بلکہ عوام کی کر رہی ہوں اور عوام اسی طرح اپنے وقت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (The Wire، ۱۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء)
_______________
’پین انگلینڈ‘ (PEN England) نے ۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو ’پین پنٹرایوارڈ‘ مشترکہ طور پرممتاز دانش ور اور مصنّفہ اروندھتی رائے اور مصری نژاد برطانوی مصنّف علاء احمد عبدالفتح کو دیا۔ اروندھتی رائے نے ایوارڈ کی ساری رقم ’فلسطینی چلڈرن ریلیف فنڈ‘ کو عطیہ کی۔ ترجمہ: اطہر رسول حیدر
کووڈ کا قہر کسی حد تک کم تو ہوا ہے، لیکن ابھی تک ہم میں سے بہت سے لوگ اس سے ملنے والے اندوہ ناک دردوغم سے اُبھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہمارے اس لیکچر کا موضوع ہے Things That Can & Cannot Be Said [’کہی جانے اور نہ کہی جاسکنے والی باتیں‘]۔ یہ میری ایک مختصر سی کتاب کانام ہے، جو میں نے جان کیوسک (John Cusack)کے ساتھ مل کرلکھی ۔یہ روس کے ایک سفر کی تفصیل پر مشتمل ہے، جو ۲۰۱۳ء میں ہم نے ماسکومیں موجود ایڈورڈ اسنوڈین (Edward Snowden) سے ملاقات کے لیے کیا تھا۔
یہاں پر یہ واضح کردوں کہ ایڈورڈ اسنوڈین، جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے والے وہ مشہور صحافی تھے، جنھوں نے ’ویت نام جنگ‘ [۷۵-۱۹۵۵ء] کے دوران امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کی تواتر سے کی گئی دروغ گوئی کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے اُجاگر کیا تھا۔
اسنوڈین نے برسوں پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ہم بالکل بے خبری کی حالت میں،جیسے کوئی نیند میں چل رہا ہو، آہستہ آہستہ جبر و قہر کے ساتھ نگرانی کرنے والی ریاستوں (Surveillance) کے دور میں اپنے ایک نہایت عزیز چھوٹے سے دوست، موبائل فون کے ساتھ داخل ہورہے ہیں۔ یہ چھوٹا سا ہمارا دوست اب ہمارے جسم کے ایک اہم عضو (Vital Organ)کی طرح، ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔
یہ موبائل فون ہر وقت ہماری نگرانی کرتا رہتا ہے اور ہماری پل پل کی نہایت ذاتی حرکات و سکنات تک کی مسلسل ترسیل کرتا رہتا ہے اور انھیں ریکارڈ کرتا رہتا ہے، تاکہ ہر وقت ہماری نگرانی کی جاسکے، اور بہ آسانی ہمارا تعاقب کیا جاسکے۔ اس طرح ہم پر مکمل قابو حاصل کر کے ہم کو کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر ایک معیاری قسم کا ’فرماں بردار‘ پالتوبنایا جاسکے۔ یہ صرف حکومتیں ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ ہم سب بھی ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے ہیں۔
تصور کیجیے کہ اگر آپ کا جگر یا پِتّاصحیح کام نہیں کر رہا ہے تو ڈاکٹر آپ سے یہی کہے گا کہ آپ ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ بس سمجھ لیجیے کہ ہماری یہی حالت ہے۔ اب ہم اپنے اس دوست نمادشمن ’فون‘ کے بغیر تو کچھ نہیں کر سکتے، لیکن یہ ستم گر ہمارے اندر سب کچھ کر رہا ہے۔ میں آج اپنی بات ’کہی جانے اور نہ کہی جا سکنے‘ والی باتوں سے شروع کروں گی اور اُس کے بعد اپنی اس جانی پہچانی اور خوب صورت دنیا کے بکھرنے کا ذکر کروں گی۔
یہ سال اُن لوگوں کے لیے بدتر تھا، جنھوں نے وہ باتیں کہی تھیں یا کی تھیں،جن کا کہنا یا کرنا منع تھا۔ اس دوران ہندستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں اسکول میں پڑھنے والی مسلم بچیوں نے اپنی مسلم شناخت کے ساتھ جب اپنے کلاس روم میں حجاب پہنا تو شدت پسند ہندوؤں نے اُن کو جسمانی طور پرہراساں کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہندو اور مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہتے چلے آرہے ہیں، لیکن حال ہی میں انتہائی خطرناک حد تک یہ سب تقسیم اور متحارب (polarise) ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف ایران میں ۲۲سالہ مہسا امینی ’گشت ارشاد‘ (اخلاقی پولیس) کی حراست میں قتل ہو گئی کہ اس نے حکومت کی ہدایت کے مطابق اسکارف نہیں پہنا تھا۔ اس کے بعد جو احتجاجی مظاہرے ہوئے، ان میں بہت سی جانیں ضائع ہوئیں۔
ان دونوں واقعات — میں دو متضاد باتیں نظر آتی ہیں۔ عورتوں کو زبردستی حجاب پہننے پر مجبور کرنا،یا حجاب نہ پہننے پر مجبور کرنا دراصل دونوں ہی جبر کے مترادف ہیں۔
اگست میں (شیطانی ہفوات کے مصنف) سلمان رشدی پر نیویارک میں حملہ ہوا، تو امریکا اور یورپ کے سربراہان مملکت نے پوری قوت (robustly) سے رشدی کی حمایت کی، اور بعض نے تو اس موقعے سے فائدہ ا ٹھاتے ہوئے یہ تک بھی کہا ہے کہ His fight is our fight ’اس کی لڑائی ہماری لڑائی ہے‘۔
اسی دوران جولین اسانژ،جس نے ان ممالک کے اُن فوجیوں کے خوف ناک جرائم کا پردہ فاش کیا تھا، جنھوں نے جنگوں میں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاتھا،وہ اس وقت تشویش ناک حد تک خرابیٔ صحت اور بیماری کی حالت میں ’ہزمیجسٹی بیلمارش جیل‘ [لندن] میں قید ہے،اور امریکا کے حوالے کیے جانے کا انتظار کررہا ہے، جہاں اسے موت کی سزا یا عمر قید ہوسکتی ہے۔
لہٰذا ہم کو رشدی پر اس حملے کو ‘تہذیبوں کے تصادم’یا’جمہوریت بمقابلہ تاریکی‘ جیسی فرسودہ اصطلاحات اورکلیشے (Cliche) میں ڈھالنے سے پہلے توقف اور تحمل سے کام لینا ہوگا،کیوں کہ ’آزادیٔ اظہار‘کے نام نہاد ’بشارتی اماموں‘(Evangelists) کی سربراہی میں کیے گئے حملوں میں تو لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ان لاکھوں میں ہزاروں ادیب و شاعر اور دوسرے فنکار بھی شامل ہیں۔
جہاں تک بھارت سے خبروں کا تعلق ہے،تو جون ۲۰۲۲ء میں، یہاں کی برسرِ اقتدار ہندو نیشنلسٹ پارٹی،بی جےپی کی ترجمان نُوپور شرما نے،جوکبھی ٹی وی کے ٹاک شو ز میں مستقل اپنے تحکمانہ اوردھمکانے والے انداز کے ساتھ نظر آتی تھی، اس نےپیغمبر اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] کے خلاف نہایت ہی غیرمناسب تبصرے کیے تھے،جن کا واحدمقصد صرف جذبات کو بھڑکانا ہی تھا، جس پر بین الاقوامی طور پر کافی شور مچا تو اس کے بعد وہ پبلک لائف سے غائب ہوگئی۔ اس کے بعد کچھ مسلمانوں نے ’سر تن سے جدا‘کے نعرے لگائے اور انڈین نسل پرست حکومت سے ’اہانت رسول‘ کا قانون پاس کرنے کا مطالبہ شروع کیا۔ شاید ان [مسلمانوں]کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ [مودی] حکومت کے لیے یہ تصادم کی فضا کس قدر خوشی کا باعث ہوسکتی ہے۔
گذشتہ مہینے مَیں بنگلور میں اپنی دوست لنکیش (Gauri Lankesh) کے قتل کی پانچویں برسی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کے لیے گئی تھی۔وہ ایک صحافی تھیں، جن کو ان کے گھر کے باہر،ہندو شدت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ان کا قتل،ان متعدد ہلاکتوں میں سے ایک تھا، جوغالباً ایک ہی بدنام گروہ نے انجام دیے تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر نریندر دابھولکر (Dabholkar) جو ایک مشہور معالج ہونے کے ساتھ مشہور و معروف دانش ور بھی تھے، ان کو۲۰۱۳ء میں گولی مار کر ہلاک کیاگیا تھا۔کامریڈ گووند پانسرے (Pansare)،جو ایک ادیب تھے ان کو۲۰۱۵ء میں گولی مار ی گئی تھی، اور کنّڑزبان کے ماہر پروفیسر ایم ایم کلبرگی (Kalburgi)کو اسی سال اگست میں گولی ماری گئی تھی۔
صرف قتل کرنا ہی سینسر شپ کا واحد طریقہ نہیں ہے، جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں صرف حکومت کی طرف سے ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر ہجوم کے ذریعے، سوشل میڈیا پرٹرولنگ کے ذریعے اور ستم ظریفی یہ کہ خود میڈیا کے ذریعے نشانہ بھی بنایا جاتاہے۔
انڈیا کے سیکڑوں ٹی وی نیوزچینل جو ہفتے میں سات دن اور ۲۴گھنٹے نشریات پیش کرتے ہیں، جنھیں ہم اکثر ’ریڈیو روانڈا‘کہتے ہیں،اُن پر ہمارے بے لگام ٹی وی اینکرزمسلمانوں اور ’ہندوتوا‘ کے سامنے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف نہایت غصے میں چیختے، چلّاتے، بھڑکاتے نظر آتے ہیں اور سوال کرنے یا کسی طرح کا اختلاف کرنے والوں کو برطرف کرنے، گرفتار کرنے اور سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ان لوگوں نے بغیر کسی جوابدہی کے، بعض لوگوں کی زندگی کو اور ان کی ساکھ کو پوری طرح سے تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔سماجی کارکن،شاعر، ادیب، دانش ور، صحافی، وکیل اور طلبہ تقریباً ہرروز گرفتار کیے جارہے ہیں۔
جہاں تک کشمیر کا سوال ہے، اس سے متعلق وادی سے کوئی خبر باہر نہیں آسکتی، کیونکہ وہ ایک وسیع و عریض جیل (Giant Prison) کی مانند ہے۔ جلد ہی وہاں شہریوں سے زیادہ فوجی نظر آسکتے ہیں۔کشمیریوں کی کوئی بھی خبر،چاہے وہ نجی ہو یا عوامی، دُنیا کے سامنے نہیں آسکتی۔ یہاں تک کہ ان بے نوائوں کی سانسوں کی ردھم تک پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔وہاں اسکولوں میں گاندھی سے محبت کے پیغام کی آڑ میں،مسلمان بچوں کو ہندو دھارمک بھجن گانے کی تعلیم دی جارہی ہے۔
آج کل جب کبھی میں کشمیر کے بارے میں سوچتی ہوں تو نہ جانے کیوں، مجھ کو یاد آتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر تربوز کو چوکور سانچوں میں اُگایا جا رہا ہے، تاکہ وہ گول ہونے کے بجائے چوکور ہوں، جن کا ڈھیر لگانے میں آسانی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر میں بھارتی حکومت، بندوق کی نوک پر یہی تجربہ تربوزوں کے بجائے انسانوں پر کر رہی ہے۔
شمالی ہندستان،یعنی گنگا کی وادی میں،تلواربردار ہندوؤں کی بھیڑ، سادھو ؤں کی قیادت میں، جسے میڈیا بطور مصلحت ’دھرم گُرو‘ [مذہبی قیادت]کہتا ہے، وہ برسرِعام نعرے لگاتی ہے:’’ریاستی استثنا کے ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی (Genocide) کی جائے اور مسلم خواتین کےساتھ زنا بالجبر (Rape)کیا جائے‘‘۔
ہم نے دن دہاڑے مُسلم کش (Genocidal) ہجومی قتل و غارت (Mob Lynching) کا مشاہدہ تو بار بار کیاہے، اور اس کے ساتھ ہی تقریباً ایک ہزار مسلمانوں کا قتل عام (غیر سرکاری اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی)،اور اس سے قبل ۲۰۰۲ء میں گجرات میں اور۲۰۱۳ء میں مظفر نگر میں سیکڑوں [مسلمان] لوگوں کی ہلاکت کے المیے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ دونوں قتل عام انتخابات کے انعقاد سے عین پہلے ہوئے تھے۔
ہم نے دیکھا کہ جس شخص کی صوبائی وزارتِ اعلیٰ کے دوران گجرات میں قتل عام [۲۰۰۲ء] ہواتھا، وہی نریندر مودی،اپنی پوزیشن کو ’ہندوئوں کے دل کا راجا‘ کی حیثیت مستحکم کرنے کے بعد ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ سنبھالنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ جو کچھ المیہ موصوف کے اُس دورِ اقتدار میں ہواتھا، اس کے لیے اس نے کبھی کوئی اظہارافسوس نہیں کیا،اور نہ کبھی کوئی معذرت چاہی۔ ہم نے تو ہمیشہ موصوف کو خطرناک قسم کے طنزیہ اور مسلم مخالف جملوں اور بیانات سےاپنی سیاسی حیثیت کو چمکاتے ہوئے دیکھا ہے۔
پھر اس سے بڑھ کر المیہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ملک [انڈیا] کی سب سے اعلیٰ عدالت [سپریم کورٹ] نے انھیں،ہر طرح کی ذمہ داری سے قطعی طور پر بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ،نام نہاد آزاددنیا کے رہنما، انھیں ایک ’جمہوریت پسند سیاست داں‘ کے طور پر گلے لگاتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی ’بھارتی جنتا پارٹی‘ کے زیر حکومت صوبوں میں گذشتہ کچھ مہینوں سے ایک نئی کارروائی شروع ہوئی ہے۔ جن مسلمانوں پر ذرا بھی شبہہ ہو کہ وہ حکومت مخالف احتجاج میں شامل ہوتے ہیں، ان کے گھر، دکانیں اور دیگر کاروباری مراکز مسمار کیے جا رہے ہیں۔ اور ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ انتخابی مہمات میں اس حکمت عملی پر بڑے فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہماری داغدار جمہوریت کا خاتمہ کیونکر ہوا تو میں کہوں گی کہ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک کمزور اور ناقص جمہوری نظام نے ببانگ دہل ایک ظالمانہ ہندو فسطائیت کا رُوپ دھار لیا، جسے عوام کے ووٹ کے ذریعے مکمل حمایت حاصل تھی۔ یوں لگتا ہے کہ اب ہمارے اوپر ہندو سادھوؤں کے بھیس میں غنڈے حکومت کر رہے ہیں اور یہ غنڈے مسلمانوں کو اپنا دشمنِ اوّل سمجھتے ہیں۔
ماضی میں بھی بھارتی مسلمانوں کو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا ملتی رہی ہے۔ ان کی نسل کشی کی گئی، بازاروں میں سنگسار کیا گیا، ان کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی، انھیں ریاستی حراست میں قتل کیا گیا، ان کو جھوٹے پولیس مقابلوں میں مارا گیا اور بوگس مقدمات میں قید بھی کیا گیا۔ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلانا انھی روایات کا تسلسل ہے۔ یہ حربہ حددرجہ ظالمانہ اور بہت ہی زیادہ ’مؤثر‘ پایا گیا ہے۔
اس سارے عمل کے بارے میں جس طرح لکھا اور پڑھا جا رہا ہے، اسے دیکھ کر بلڈوزر کے بارے میں یوں گمان ہوتا ہےکہ جیسے یہ کوئی ’خدائی خدمتگار‘ ہے جو ’گنہ گاروں‘ کو سزا دینے پر مامور کیا گیا ہے۔ ’دشمنوں کے لیے‘ تباہی کا پیغام بننے والے اپنے دیو ہیکل جبڑوں کے ساتھ یہ خوفناک مشین ایک ایسا دیوتا بن کر سامنے آئی ہے، جو دنیا میں ’شیطانی طاقتوں‘ [یعنی مسلمانوں] کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گا۔ یہ مشین نئی، ظالم نسل پرست ہندو قوم کے لیے دیوتائوں کی طرف سے بھیجا ہوا کوئی اوتار بن گئی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی چندماہ قبل دورۂ ہندستان میں ایک بلڈوزر کے ساتھ تصویر بنوائی ہے۔ میں یہ نہیں مان سکتی کہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اس حرکت سے کن حرکتوں کی توثیق ہو رہی ہے۔ وگرنہ کسی بھی ریاست کا سربراہ ایک سرکاری دورے پر ایسی عجیب حرکت کیوں کرے گا کہ بے وجہ کسی بلڈوزر پر چڑھ کر کھڑا ہو جائے اور پھر اس پر باقاعدہ تصویر بھی کھنچوائے؟
مودی حکومت کا اصرار ہے کہ یہ کارروائی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں کی جا رہی بلکہ سرکاری مشینری تو صرف غیر قانونی تعمیرات کو گرا رہی ہے، جسے ایک بلدیاتی مہم سمجھنا چاہیے۔ تاہم، یہ جواز اس قدر بھونڈا ہے کہ اس کے گھڑنے والے بھی جانتے ہیں کہ اس پر کوئی یقین نہیں کرے گا، مگر کسی کے یقین کرنے یا نہ کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس کا مقصد ایک طبقے کا مذاق اُڑانا اور اس کی صفوں میں دہشت پھیلانا ہی ہے، ورنہ یہ بات تو حکومت بھی جانتی ہے اور ہربھارتی شہری بھی کہ ہمارے ہر شہر میں زیادہ تر تعمیرات یا تو غیر قانونی ہیں یا نیم قانونی حیثیت رکھتی ہیں۔
جب صرف بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں کے گھر بغیر کسی نوٹس، شنوائی یا حقِ اپیل کے گرائے جاتے ہیں، تو اس سے بہت سارے مقاصد یکبارگی حاصل ہو جاتے ہیں۔
یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کبھی ایسی کارروائی نہیں کی جاتی۔ مثلاً ۱۶جون کو بی جے پی کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی فوج میں بھرتیوں کی نئی پالیسی کے خلاف شمالی ہندستان کے لاکھوں نوجوانوں نے پُرتشدد احتجاج کیا۔ٹرینوں اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی، سڑکیں بند کر دی گئیں اور ایک شہر میں تو بی جے پی کے مقامی دفتر کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ یہ احتجاج کرنے والے زیادہ تر غیر مسلم ہیںاس لیے ان کے گھر محفوظ رہیں گے۔
سابقہ دو انتخابات (۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء) میں بی جےپی نے کامیابی سے یہ باور کروا دیا ہے کہ اسے قومی سطح پر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے ۲۰ کروڑ مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ حقیقی طور پر یہ سارا معاملہ جو ہم دیکھ رہے ہیں، وہ مسلمانوں کو انتخابی عمل سے تقریباً باہر کرنے کے مترادف ہے، جس کے نتائج بڑے بھیانک ہوں گے۔ کیونکہ جب آپ کی انتخابی اہمیت ختم ہو جائے تو آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور آپ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بی جے پی کی ایک اعلیٰ عہدے دار کی جانب سے مسلمانوں کی انتہائی مقدس شخصیات کی توہین کے بعد بھی اس پارٹی کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا، نہ کوئی سنجیدہ تنقید کی گئی۔
احتجاج ہوئے تو ان کے نتیجے میں قوم مزید تقسیم ہوئی اور اس کا فائدہ بھی بی جےپی کو ہوا۔ توہین آمیز بیان جاری کرنے والی اس جماعت کی ترجمان کو پارٹی سے ’معطل‘ کر دیا گیا، لیکن ویسے جماعت کے حلقوں میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔اس کا سیاسی مستقبل اب مزید تابناک ہے۔
جنگ میں یہ حکمت عملی اپنائی جاتی ہے کہ ہر وہ چیز خود تباہ کر دی جائے، جو دشمن کے کام آسکتی ہو۔ اسے Scorched Earth Policy (زمین سوز حکمت عملی) کہا جاتا ہے۔ آج ہر چیز اور ہرادارہ، جسے بنانے میں کئی سال لگے تباہ کیا جا رہا ہے۔نوجوانوں کی ایک نئی نسل اپنی تاریخ اور اپنے ملک کی ثقافتی پیچیدگیوں سے بے نیاز ایک پراپیگنڈا کے زیر اثر پروان چڑھ رہی ہے۔ ہندومسلم خلیج کے دونوں طرف موجود نفرت اُگلتے کردار اور یہ مبنی بر ظلم حکومت مل کر ۴۰۰ ٹیلی ویژن چینلوں، لاتعداد اخباروں اور رسالوں کے ذریعے نفرت کی وہ آگ اُگل رہی ہے، جو پورے نظام کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
ہندو نسل پرستوں کا ایک انتہائی تشددپسند طبقہ پیدا ہوچکا ہے، جسے واضح طور پر بی جے پی کے لیے قابو میں لانا مشکل ہے، کیونکہ یہی طبقہ اس جماعت کی جڑ بنیاد ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر اب مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ ایک معمول بن چکا ہے۔ ہم ایسی بند گلی میں ہیں، جہاں واپسی کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ اس نظام کے خلاف سربستہ ہم جیسے لوگوں اور مسلمانوں کو اب صرف یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں کیسے بچا سکتے ہیں اور مزاحمت کیسے جاری رکھ سکتے ہیں؟
بڑی بدقسمتی سے ان سوالوں کا کوئی آسان جواب موجود نہیں کیونکہ اب بھارت میں ہر قسم کی مزاحمت، جس قدر بھی پرامن ہو، ایک جرم بن چکی ہےاور اس جرم کی سزا دہشت گردی سے بڑھ کر ہے۔