قرآن کریم نے انتہائی مختصر اور جامع انداز میں رمضان کے روزوں کا بنیادی مقصد صرف ایک ترکیب میں بیان کر دیا ہے یعنی ’حصولِ تقویٰ‘۔ اس کے ساتھ ہی جو ترکیب استعمال کئی گئی ہے، وہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ روزوں کےاہتمام کے بعد بھی تقویٰ کا حصول متوقع تو ہے لازمی نہیں ہے۔یعنی جب تک تقویٰ کے حاصل کرنے میں خلوصِ نیت، رضائے الٰہی اور ہر اس کام سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہیں ہوگی جو رب کریم کو ناپسند ہے، روزوں اور تمام رات کی نماز کے باوجود روزہ کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اسی لیے فرمایا گیا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۱۸۳ۙ (البقرہ۲:۱۸۳)اےلوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑکے پیروکاروں(اُمتوں ) پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی ۔
تقویٰ کا مادہ’وقایہ ‘ہے جس کا مفہوم لغت میں اپنے آپ کو روکے رکھنے، بچانے اور بعض چیزوں سے احتیاط کرنے کا ہے ۔ ہم عام طور پر تقویٰ کو اس طرح لیتے ہیں کہ محض چند کاموں سے بچنا چاہیے۔ یہ اگرچہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر تقویٰ کے مفہوم کو خود قرآن کریم میں تلاش کیا جائے تو سورۂ بقرہ ہی میں اس کی تعریف مل جاتی ہے جو تقویٰ اور صدق کو کم از کم ۱۴ متعین اعمال سے وابستہ کرتی ہے اور ان میں محدود نہیں کردیتی:
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۰ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۰ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۱۷۷ (البقرہ ۲:۱۷۷)
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔
یہ آیت البر تقویٰ کی جامع تعریف یہ بیان کرتی ہے کہ جب ایک صاحب ِایمان مرد ہو یا عورت ، جوان ہو یا بزرگ، ان چودہ اعمال کو اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ایمانِ صادق اور تقویٰ پر عامل ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ آیت میں ترتیب سے حسب ذیل چودہ اعمالِ تقویٰ بیان کیے گئے ہیں:
۱- توحید یعنی ایمان باللہ ۲-آخرت پر ایمان۳- ملائکہ پر ایمان۴-نازل کردہ کتابوں پر ایمان۵-انبیا ؑپر ایمان ۶-اپنا پسندیدہ مال اقربا پر خرچ کرنا ۷-یتامٰی پر خرچ کرنا۸-مساکین کی خبر گیری ۹-مسافروںکی امداد ۱۰- ہاتھ پھیلانے والوں کی ضرورت پوری کرنا ۱۱-غلاموں کی رہائی پر خرچ کرنا۱۲-زکوٰۃ ادا کرنے پر خرچ ۱۳-اپنے وعدوں کو پورا کرنا ۱۴-تنگی اور مصیبت میں اور حق و باطل کے معرکہ میں استقامت اورتحمل اختیار کرنا ۔
گویا رمضان کے روزے جس تقویٰ کو پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ محض بعض اعمال و افعال یعنی چیزوں سے بچنا اور احتیاط کرنا نہیں ہے بلکہ یہ چودہ اعمال و افعال وہ ہیں جن کو یہ آیتِ مبارکہ تقویٰ اور صدق قرار دیتی ہے ۔ اس میں غور طلب پہلو یہ ہے کہ ان چودہ مثبت کاموں میں صرف دو وہ ہیں جن کا ہم پوری توجہ سے رمضان میں اہتمام کرتے ہیں، یعنی نماز اور زکوٰۃ۔
جن چیزوں سے بچنے کا تصور رمضان اور تقویٰ کے الفاظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں آتا ہے، یہ ممنوع اعمال بہت معروف ہیں۔ قرآن نے انھیں جگہ جگہ بیان کر دیا ہے، یعنی قتل ناحق، چوری ، زنا ، جھوٹ ، شرک اور دیگر منکرات و فواحش، جب کہ تقویٰ محض ان سے بچنے سے زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔
جس طرح آیت البر تقویٰ کے مثبت پہلو کو واضح کرتی ہے ،ایسے ہی سورۃ الحجرات ان اجتماعی برائیوں کی وضاحت کر دیتی ہے، جن سے عموماً رمضان کے دوران بھی شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی :
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اُس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو،اور نہ نبیؐ کے ساتھ اُونچی آواز سے بات کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔ جو لوگ رسولِؐ خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں، وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اور اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجر ِعظیم۔
اے نبیؐ، جو لوگ تمھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ وہ تمھارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انھی کے لیے بہتر تھا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔ خوب جان رکھو کہ تمھارے درمیان اللہ کا رسولؐ موجود ہے۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمھاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہوجائو۔ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنادیا، اور کفروفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رَو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
اوراگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر اِن میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کےدرمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے۔(الحجرات ۴۹:۱-۱۳)
۱-اللہ اور رسولؐ کے واضح احکام کی روشنی میں اپنی رائے اور فکر کے مطابق فیصلہ نہ کرنا ۲- اپنی آواز کو رسولؐ اللہ کی آواز سے بلند نہ کرنا۳- غیر مصدقہ اطلاعات اور خبروں کو بلا تحقیق نہ پھیلانا ۴- اہل ایمان کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤ کو دُور کرنے کی کوشش کرنا ۵-اگر دو گروہ جنگ پر آمادہ ہو جائیں تو صلح کی کوشش کرنا اور بھائیوں کے درمیان تعلقات کی اصلاح کرنا ۶-لوگوں کا مذاق نہ اڑانا ۷-ایک دوسرے پر طعن نہ کرنا ۸- ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد نہ کرنا ۹- ظن اور گمان کی بنیاد پر بدگمانی میں مبتلا نہ ہونا ۱۰-تجسس نہ کرنا ۱۱-غیبت نہ کرنا ۱۲-اپنے قبیلے ، برادری ، ذات پر فخرنہ کرنا ۱۳- تقویٰ کی روش اختیار کرنا ۔
یہاں جو اہم پہلو غور طلب ہے وہ یہ کہ رمضان کے دوران سورۃ الحجرات کے احکامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا ان اجتماعی برائیوں اور خرابیوں سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ کیا ہم اس ماہ میں ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنے، دلوں سے نفرتیں دُور کرنے ، غیر مصدقہ سوشل میڈیا کے استعمال اور منفی فکر کی جگہ معاشرے کے مظلوم طبقات کی عملی امداد ، نوجوانوں میں تیزی سے پھیلنے والی خرابیوں اور نشہ آور ادویات کے استعمال کے خلاف شعور بیدار کرنے کی منظم کوششیں کرتے ہیں؟
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْۚ (الحجرات۴۹:۱۰)بے شک سب مومن آپس میں بھائی ہیں۔ تم اپنے بھائیوں میں صلح کرائو۔
تقویٰ کے مثبت تصور کو سمجھنا اور اسے اپنے طرز ِعمل کے ذریعے معاشرے میں متعارف کروانے کا نام ہی دعوت و اصلاح ہے ۔ انبیائے کرامؑ نے زبانی جمع خرچ کی جگہ اپنے دور میں مظلوم طبقات کے حقوق کے حصول کے لیے کوشش کی اور وہ جو کل تک غلام تھے، اُمت کے قائد بن گئے۔
يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ
اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۰ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۰ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۱۳۵ (النساء ۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا توجان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔
گویا اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو اختلاف کو ایک طرف رکھ کر اس کے حق کا تحفظ کرنا تقویٰ اور حق کا مطالبہ ہے ۔دین ہمیں ہر صورت حال میں چاہے وہ سیاسی ہو ، معاشی ہو ، دفاعی ہو یا معاشرتی اور ثقافتی ہو، مقاصد شریعہ کی روشنی میں واضح راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ شریعت کا اصول ہے کہ کسی کو ضرر نہ پہنچایا جائے ، کسی کی شہرت کو خراب نہ کیا جائے ، اختلافات کو حکمت کے ساتھ دُور کیا جائے کیوں کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا:
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۱۹۰ (البقرہ ۲:۱۹۰)اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
آج ہمارے معاشرے میں ظلم و ناانصافی کی بے شمار شکلیں رائج ہیں۔ اگر معاشرے میں کسی طبقے کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہو تو اس طبقے کی مدد کرنا اور اسے ظلم و زیادتی سے نجات دلانے کے لیے آئینی ، قانونی مدد فراہم کرنا امت کا اجتماعی فریضہ ہے ۔ سورۃ النساء میں مجبور اور کمزور عورتوں، بچوں اور افراد کے بارے میں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اللہ سے فریاد کرتے ہیں کہ کون ان کو ظلم و استحصال سے نجات دلائے گا –؟ یہ اجتماعی فریضہ امت مسلمہ کا ہے کہ وہ ہرمظلوم پر کیے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور مظلوم کی مدد کرے ۔ کیا رمضان کے روزے ہمارے اندر اس رویے کو پیدا کرتے ہیں یا ہم نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟
دین میں بنیاد ایمانی، معاشرتی ، سیاسی اور ثقافتی رویے ہیں ۔ ایک کام اللہ کی رضا کے لیے کرنا اورحق کی حمایت کرنا، اللہ کے بندوں کے حقوق کا پورا کرنا ہے ۔ یہ وہ حق ہے جسے اللہ ربّ العزت جو سراپا عفو و درگزر اور مغفرت ہے، وہ بھی قیامت کے دن اُس وقت تک معاف نہیں فرمائے گا ، جب تک وہ جس پر ظلم ہوتا دیکھ کر ہم خا موش رہے خود معاف نہ کر دے ۔
اس عظیم امتحان سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حقوق العباد کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط اور دل کو ہر قسم کے تعصب ، رنجش اور تکلیف سے پاک کر کے صرف اللہ کی رضا کے لیے مظلوم کی حمایت کی جائے اور اسے ظلم سے نجات دلائی جائے ۔ تقویٰ کے مثبت پہلوؤں کے پیش نظر جن کاموں کو پورے اہتمام کے ساتھ رمضان میں کرنے کی ضرورت ہے ، ان میں قرآن پر غور و تدبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ، توحید اور زندگی کے تمام معاملات میں توحیدی رویہ اختیار کرنا سب سے زیادہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
توحید کا تقاضا ہے کہ ہم صرف اللہ کو رب ماننے کے ساتھ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت پاک کو اپنے رویوں اور معاملات میں اختیار کرنے کی شعوری کوشش کریں اور اس دنیا کی زندگی کو انتہائی عارضی اور مختصر سمجھتے ہوئے اپنے تمام اعمال کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہم نے آخرت کے لیے کیا سامان کیا ہے؟ خصوصاً رمضان کے آخری عشرے میں تنہائی میں اپنا احتساب کرنے کے ساتھ آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کو بہتر بنانے کا عہد اور عزم کیا جائے ۔ اس مبارک مہینے میں کسی ایک ایسے رشتے دار کو جس سے رابطے میں کمی آگئی ہو ، خصوصاً تحفے کے ذریعے ، ملاقات کے ذریعے اور (درحقیقت) اللہ کے لیے اپنے قریب لایا جائے ۔
رمضان میں جو لوگ مانگنے کے لیے آئیں، انھیں دھتکارا نہ جائے بلکہ جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کر دی جائے ۔ اپنے گھر والوں پر کھلے دل کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ جو لوگ ملک میں یا ملک سے باہر قیدی بنالیے گئے ہوں،ان کی رہائی کے لیے ان کی مالی مدد کی جائے، یا کم از کم ان کے لیے دعا کی جائے۔ الخدمت فائونڈیشن جن یتیموں اور بیواؤں اور مستحقین کی امداد کر رہی ہے، اس کام میں تعاون کیا جائے، کیوں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نہایت کشادہ ہاتھ سے دوسروں کی مدد فرماتے تھے جیسے خیرو برکت کی بارش ہو رہی ہو ۔