ڈاکٹر اللہ دتہ قادری


حضرت ابوہریرہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپؐ نے فرمایا کہ تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ تو گفتگو فرمائے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا۔ ایک وہ شخص جس نے کسی سامان کے متعلق قسم کھائی کہ اس کی قیمت اس سے زیادہ مل رہی تھی، حالانکہ وہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے۔ دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مسلمان آدمی کا مال ہضم کر جائے، تیسرا وہ شخص جس نے ضرورت سے زائد پانی روک لیا (یعنی نہیں دیا)، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج میں تجھ سے اپنا فضل روک لوں گا، جس طرح تو نے اپنی ضرورت سے زائد پانی روک لیا تھا، جس کو تو نے پیدا نہیں کیا تھا۔؎۳۳

بعض لوگ زائد پانی اس لیے دوسرے لوگوں کو نہیں دیتے تھے یا روکتے تھےکہ ان کے جانور اور مویشی ساتھ آئیں گے اور وہ آتے جاتے ہوئے گھاس کھاجائیں گے، تو اس بات کی بھی نفی کر دی گئی کہ زائد پانی کا اس وجہ سے روکنا کہ جانور گھاس کھا جائیں گے، یہ بھی ناجائز امور میں سے ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرورت سے زائد پانی نہ روکا جائے اور جو پانی کنوئیں میں بچ رہے اس سے نہ روکا جائے۔؎۳۴  حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد پانی کے فروخت کرنے سے منع فرمایا۔؎۳۵ یعنی اگر کسی شخص کی ملکیت میں اتنا پانی ہو جو اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد بچ جائے اور دوسرے لوگ اس کے حاجت مند ہوں، تو اس فاضل پانی کو روکنا اور ضرورت مند لوگوں کے ہاتھ بیچنا جائز نہیں ہے بلکہ وہ پانی انھیں مفت ہی دے دینا چاہیے، لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے، جب کہ ان لوگوں کی ضرورت کا تعلق اس پانی کو خود پینے یا جانوروں کو پلانے سے ہو۔ اگر کوئی شخص اپنے کھیتوں یا درختوں کو سیراب کرنے کے لیے وہ پانی چاہے تو پھر مالک کے لیے جائز ہے کہ وہ اس پانی کو بغیر معاوضے کے نہ دے۔

حضرت بہیسہ کہتی ہیں کہ میرے والد نے عرض کیا کہ’’یا رسولؐ اللہ ! وہ کون سی چیز ہے جس سے منع کرنا اور اس کے دینے سے انکار کرنا حلال نہیں ہے ؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’پانی‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! اور کون سی چیز ہے جس کو دینے سے انکارکرنا حلال نہیں ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نمک‘‘۔ انھوں نے پھر عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! وہ کون سی چیز ہے جس سے منع کرنا حلال ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’بھلائی کرنا جو تمھارے لیے بہتر ہے‘‘۔؎۳۶

پانی روکنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمھاری زمین میں کنواں و تالاب ہے یا تمھارے گھر میں نل وغیرہ ہے اور اس سے کوئی شخص پانی لیتا ہے، تو اسے پانی لینے سے روکنا مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تم میں سے کوئی شخص پانی مانگتا ہے اور تمھارے پاس تمھاری ضرورت سے زائد پانی موجود ہے، تو اسے دینے سے انکار نہ کرو۔ اسی طرح نمک دینے سے انکار نہ کرو، کیونکہ لوگوں کو نمک کی بہت زیادہ احتیاج و ضرورت رہتی ہے۔ حدیث کا آخری جملہ تمام بھلائیوں اور نیکیوں پر حاوی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے جو کچھ بھی ہو سکے دیتے رہو اور جو نیکی و بھلائی کرسکو کرو۔ نیکی و بھلائی کے کاموں سے نہ تو اپنے آپ کو باز رکھنا درست ہے اور نہ دوسروں کو نیکی و بھلائی سے روکنا حلال ہے۔ حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان چیزوں سے منع کرنا اور ان کے دینے سے انکار کرنا مناسب نہیں ہے۔؎۳۷

 یعنی کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی زمین میں واقع تالاب، چشمے، کنويں یا گزرتے ندی نالے سے جانور، انسان اور راہ چلتے مسافروں کے لیے ان سے پانی پینے کا معاوضہ وصول کرے یا اس پر پابندی عائد کرے۔

آبی ضیاع کی ممانعت

سرزمین عرب پر پانی کواگرچہ ایک بہت قیمتی شے سمجھا جاتا تھا اور پانی خال خال دستیاب تھا، لیکن اس کے باوجود لوگوں کو پانی کی قدر و قیمت کا درست احساس نہ تھا۔ اس لیے جب پانی انھیں میسر آتا تو وہ اسے بے دریغ ضائع کردیا کرتے تھے ، مثلاً دریا یا نہر کے کنارے اور چشموں یا حوضوں وغیرہ پر بیٹھ کر بے دریغ پانی استعمال کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی ممانعت فرما دی بلکہ آپؐ نے وضو جیسی عظیم عبادت میں بھی پانی کے ضائع کرنے کو اسراف و ناجائز   قرار دیا۔؎۳۸  آپ کی ان تعلیمات کی وجہ سے صحابہ کرامؓ میں پانی کی اہمیت کا جذبہ پیدا ہوا اور پانی کی کفایت شعاری و بہترین استعمال کا احساس اُجاگر ہوا ۔ یوں آبی ضیاع کو روکنے کی عملی تربیت فراہم کی گئی۔

آبی آلودگی کو روکنے کے اقدامات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ اور اس کے قرب و جوار کے بہت سے علاقوں میں آبی آلودگی پائی جاتی تھی اور اس کی طرف ان لوگوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر تھی، جس کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی تھیں اور صحابۂ کرامؓ بیمار ہو رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آبی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات فرمائے۔

حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ جب رسول کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو ابوبکرؓ اور بلالؓ کو بخار آگیا اور حضرت ابوبکرؓ کو جب بخار آتا تو یہ شعر پڑھتے: ہر شخص اپنے گھر میں صبح کرتا ہے۔ حالانکہ موت اس کے جوتوں کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے، اور بلالؓ کا جب بخار اُترتا تو بلند آواز سے یہ شعر پڑھتے: کاش! میں وادیٔ مکہ میں ایک رات پھر رہتا اس حال میں کہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل گھاس ہوتی، کاش! میں ایک دن مجنہ کا پانی پی لیتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل کو پھر دیکھ لیتا۔ کہا یا اللہ! شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کر، جس طرح    ان لوگوں نے ہم کو ہمارے وطن سے وبا کی زمین کی طرف دھکیل دیا۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی: یااللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا کر۔ جس طرح ہمیں مکہ سے محبت ہے یا اس سے زیادہ (محبت پیدا کر)۔ یااللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا کر اور یہاں کی آب و ہوا ہمارے مناسب کر اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کر۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو وہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وبا والی زمین تھی اور وہاں بطحان ایک نالہ تھا جس سے بدبُو دار پانی تھوڑا تھوڑا بہتا رہتا۔؎۳۹   وادیٔ بطحا ن مدینہ کے نشیب میں واقع تھی۔

 غور کیجیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے کہ یہ جگہ اس سر زمین پر سب سے زیادہ آلودہ جگہ تھی پھر آپؐ کے انتظامات کی بدولت یہ وادی نہایت پاک و صاف اور خوشگوار ہو گئی کہ بعدمیں آپؐ نے یہاں متعدد مرتبہ قیام فرمایا۔؎۴۰ مراد یہ ہے کہ یہاں آلودگی کو روکنے کے لیے ظاہری اقدامات کے علاوہ روحانی اقدامات کے اختیار کرنے کا درس بھی ہے۔

آلودگی کو روکنے کے ان انتظامات کی بدولت یہ وادی اتنی صاف ستھری ہو گئی کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ثابت بن قیسؓ کے پاس تشریف لے گئے۔وہ بیمار تھے تو فرمایا کہ اے پروردگار ! تکلیف کو دور فرما ، ثابت بن قیس سے۔ پھر آپؐ نے وادیٔ بطحان کی مٹی اٹھائی اور اسے ایک پیالے میں ڈال دیا۔ پھر اس پانی پر پڑھ کر پھونکا اور اسے ان پر بہا دیا۔ ؎۴۱   ایک صحابی ہجرت کرکے آئے تو بیمار ہوگئے، حالتِ مرض میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حال پوچھا، بولے بیمار ہوں۔ اگر بطحان کا پانی پی لیتا تو اچھا ہوجاتا ،فرمایا تو کون روکتا ہے؟ بولے ہجرت۔ ارشاد ہوا: جائو، تم ہر جگہ مہاجر ہی رہو گے۔ ؎۴۲ وادیٔ بطحان کی مٹی میں آپؐ کی دعا سے ہر مرض کے لیے شفا ہے۔

وادیٔ بطحان مدینہ منورہ کی مشہور وادی ہے۔غالباًاس حدیث کی وجہ سے اس جگہ کی مٹی کو ’خاکِ شفا‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ اگر چہ اس روایت میںبطحان کا ذکر ہےکہ یہاں کی مٹی برکت اور شفا والی ہے۔جہاں تک بعض لوگوں نے شفا کو خاص کیا بطحان کی مٹی کے ساتھ ،تواس میں کوئی تخصیص کی وجہ نہیں، جب کہ دوسری احادیث کے عموم سے پورے مدینہ منورہ کی مٹی مراد ہے۔ لیکن اس میں غلو اور حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ؎۴۳ آبی آلودگی کو روکنے کے لیے اللہ کے رسول ؐ نے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے، ان میں تھوکنے، پیشاب یاپاخانہ وغیرہ کرنے کی بھی ممانعت فرمادی۔

انتظامی اقدامات

ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتےہیں :مدینہ منورہ کی ریاست کے ابتدائی ایام میں ضروریات کے تحت ہر قسم کے انتظامی شعبہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور پھر تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر اسے بہتر بنایا گیا۔ مدینہ منورہ، شہر کی انتظامیہ اس وسیع و عریض سلطنت کا دارالخلافہ اور وفاقی حکومت کا مرکز تھا، جب کہ ہر قبیلہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے ساتھ اپنے علاقہ میں ہی اس سلطنت کا صوبہ بن جاتا تھا اور قبیلے کا سردار یا مقامی فرد صوبائی حکومت کا حکمران مقرر کر دیا جاتا تھا۔؎۴۴

آبی انتظامات کے ضمن میں آپؐ نے مشہور صحابی اور قبیلہ مزینہ کے سردار حضرت بلال بن حارثؓ مزنی کو نقیع کے کنویں کا جسے آپؐ نے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود کھدوایا تھا، نگران مقرر کیا تھا۔ ؎۴۵

ہجرتِ نبویؐ کے وقت مدینہ منورہ میں صرف ایک ہی میٹھے پانی کا کنواں موجود تھا، البتہ وادیٔ عقیق میں میٹھے پانی کے بہت سے کنویں تھے۔ بیرعثمان، ابیار علی اور بیر عروہ بھی اسی وادی میں واقع ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وادی کا میٹھا پانی بہت پسند تھا۔؎۴۶ شاید میٹھے پانی کے ان کنوؤں کی کثرت کی وجہ سے آپؐ نے اس وادی کا نگران مقرر کیا تھا جس کا نام ہیصم المزنی تھا۔ جو دیگر امور کے علاوہ انتظامِ آب کی ذمہ داری بھی سر انجام دیتا تھا۔

اسی وادی میں بنو امیہ ان لوگوں کو تنخواہ دیتے تھے جو مروان بن الحکم کے حوض کی دیکھ بھال کرتے تھے۔اسی وادی میں ایک کنواں تھا، جس کا نام بئر المغیرہ تھا جس کے ڈول اور رسیوں کی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ انتظامِ آب کا یہ نظام عہد نبویؐ کے بعد دیگر حکمرانوں نے بھی برقرار رکھا۔

بہتر انتظامِ آب پر حوصلہ افزائی

حوصلہ افزائی اور تعریف و توصیف یا انعام و اکرام کی بدولت لوگوں کی کارکردگی نہ صرف بہتر ہو جاتی ہے بلکہ استعداد کار اور قوت و صلاحیت کو بھی نمو ملتی ہے۔ یہ عصرحاضر کا تسلیم شدہ اصول ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا بخوبی ادراک و احساس تھا۔ اس لیے آپؐ لوگوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے تاکہ وہ پہلے سے بھی بہتر کام کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دوران سفر پانی کم ہونے کی وجہ سے مختلف صحابہؓ کو پانی ڈھونڈنے کے لیے بھیجا، جن میں سے ایک گروہ نے زیر زمین پانی تلاش کر لیا۔جس صحابیؓ نے پانی ڈھونڈا، اسے سقیا کا خطاب عطا فرمایا۔؎۴۷ آج دور جدید میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کو بہتر کارکردگی کی وجہ سے کوئی ایوارڈ دے دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حوصلہ افزائی کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ صحابیؓ دوسرے صحابہؓ کی بہ نسبت جلد پانی ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کا بئررومہ کو صدقہ کرنا بھی اس کی ایک مثال ہے۔

آب پاشی کے عملی اقدامات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرامؓ کو عملی تربیت و نمونہ فراہم کرنے کے لیے خود بھی آب پاشی فرمائی، جس کی وجہ سے صحابۂ کرامؓ کو بھی یہ ترغیب ملی کہ وہ بھی آب پاشی کریں۔  انصار تو پہلے سے ہی آب پاشی میں ماہر تھے، لیکن مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین آب پاشی میں مہارت نہیں رکھتے تھے کیونکہ مکہ کے اکثر لوگوں کا پیشہ گلہ بانی و تجارت تھا اور مہاجرین کو آب پاشی سے اتنی واقفیت نہیں تھی۔

امام سرخسی لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے کھیتی باڑی کا کام کیا ۔ مروی ہے کہ آپ جب زمین پر اتارے گئے تو حضرت جبریلؑ آپ کی خدمت میں گندم لائے اور اسے زمین میں بو نے کا امر کیا ۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام جرف میں بنفس نفیس کاشت کاری فرمائی اور فرمایا:الزَّارِعُ يُتَاجِرُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ [کاشت کار خدا سے تجارت کرتا ہے]۔؎۴۸

مشہور مؤرخ یعقوبی، عہد نبویؐ کے مدینہ میں نظامِ آب پاشی پر لکھتے ہیں: مدینہ منورہ میں چار وادیاں تھیں، جن میں صرف بارش کے وقت ہی پہاڑوں سے بہہ کر پانی آیا کرتا تھا تو سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ یہ تمام پانی حرہ بنی سلیم جو مدینہ منورہ سے ۱۰ فرسخ کے فاصلے پر واقع تھی کے پہاڑوں سے بہہ کر مدینہ کی وادیوں بطحان، العقيق الکبیر، العقيق الصغيراور وادیٔ قناۃ میں آتا تھا۔ ان تمام وادیوں میں پانی سیلاب کے وقت ہی آیا کرتا تھا اور پھر یہ سارا پانی ایک جگہ غابہ کے مقام پر جمع ہو جاتا، پھر یہ پانی العقیق الکبیر اور العقیق الصغیر میں آتا تھا ۔ جہاں سے یہ پانی بئر رومہ میں جوبنو مازن میں کھودا گیا تھا اور بئر عروہ اور مدینہ کے دیگر غیر معروف کنوؤں میں آتا تھا، جن سے مدینہ کے باسی پانی پیتے تھے۔ کھجوروں کے درختوں اورکھیتوں کی آب پاشی بھی انھی کنوؤں سے کی جاتی ہے اور پانی کھینچنے کا کام اونٹوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ ؎۴۹

غرض یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک سے نظامِ آب پاشی میں بڑی اصلاح اور گراں قدر ترقی ہوئی۔ چراگاہیں، تالاب ، چشمے اور نہریں مفادِ عامہ کے پیش نظر کھلی رکھی گئیں۔ باہمی تعاون اور ہمدردی کی فضا کو بحال کیا گیا۔ پانی کے لیے حکومت وقت کے ذمہ یہ فرض لگا دیا گیا کہ خلق خدا کے لیے مختلف چراگاہوں، تالابوں، نہروں، چشموں اور کنوؤں کا انتظام کرے اور اس پر حکومت کو کسی قسم کا ٹیکس یا لگان لینے کا حق نہ دیا گیا۔ ان ذرائع آب پاشی کی صفائی اور بہتر نگرانی کی جملہ ذمہ داری بھی حکومت کے سر ڈالی گئی۔ وہ ذرائع آب پاشی جو کسی نے انفرادی سطح پر یا عوام نے خود اجتماعی سطح پر بنائے، ان کی بہتر صفائی اور نگرانی کے لیے ان کے ذمہ دار افراد کو پابند رکھنے کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا، تاکہ مفاد عامہ اور عام ضرورت کی یہ چیزیں بعض افراد کی سستی اور کمزوری کی وجہ سے کہیں بندیا خراب نہ ہو جائیں۔

مفتی غلام سرور قادری لکھتے ہیں: انصار نے بڑی خوش دلی کے ساتھ وہ زمینیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیں جہاں پانی نہیں پہنچتا تھا، تو آپؐ نے بعض صحابہؓ کو ان زمینوں کی جاگیر بخشش فرما دیں تاکہ وہ آباد کر کے ان سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور ان کے ذریعے سے دیگر مخلوق بھی مستفید ہو۔؎۵۰ آب پاشی کے فروغ کے سلسلے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ زمین کے اندر پھوٹنے والے قدرتی چشمے اور ان کی حریم عامۃ الناس کے لیے ممنوعہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ لوگوں کو مالک زمین کی اجازت سے اس کی ضرورت سے زائد پانی اپنی فصلوں تک لے جانے اور خالی زمینوں سے گزار کر وہاں کے چشمے تالاب یا کنویں سے پانی پلانے کا حق ہے۔

خلاصۂ بحث

عہد نبویؐ کے مطالعے سے آبی وسائل کے انتظام کے حوالے سے کئی اہم پہلو اُجاگر ہوتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی جہاں دیگر امور کی طرف توجہ مبذول فرمائی، وہیں آبی وسائل کے انتظام و انصرام کی طرف بھی خصوصی التفات فرمایا اور آبی وسائل و ذرائع کے تحفظ کے لیے بہت سے اقدامات اختیار فرمائے۔

 lآپؐ نے نئے آبی و سائل وذخائر کو دریافت کیا اورپہلے سے موجود آبی وسائل و ذرائع کے بہترین انتظام کی کوششیں کیں،اس ضمن میں آپؐ نے مختلف منتظمین بھی مقرر فرمائے۔ lپانی کی فضول خرچی سے منع فرمایا۔ lمختلف ضروریات کے لیے پانی کی مقدار مقرر کی اور ان ضروریات کے لیے آبی مصرف کی شرائط و آداب اور اصول و ضوابط مقرر فرمائے۔  lپانی کو آلودہ کرنے سے منع فرمایا۔ lپانی پر اجارہ داری سے روکا lپانی پلانے کوبہترین صدقہ قرار دیا___ اگر سیرت النبیؐ کے اس گوشے پر عمل کیا جائے تو اس کی مدد سے دُور حاضر کے آبی مسائل میں نہ صرف کمی لائی جاسکتی ہے بلکہ بہت سے آبی مسائل کو بخوبی حل کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات

۳۳-بخاری ، الجامع الصحیح، حدیث ۲۳۶۹  و حدیث ۷۴۴۶

 ۳۴- ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۹

 ۳۵- ابوداؤد، سنن ابو داؤد، حدیث ۳۴۷۸؛ النسائی، سنن نسائی، حدیث ۴۶۶۲، ۴۶۶۳؛ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۷

۳۶-ابوداؤد، سنن ابوداؤد، حدیث ۱۶۶۹ اور حدیث ۳۴۷۶    

۳۷-  قطب الدین خان دہلوی، مظاہر حق (اُردو شرح مشکوٰۃ)، ج۲، ص ۲۹۲

 ۳۸- ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث۴۲۵

۳۹-  الجامع الصحیح، حدیث ۱۸۸۹؛ کنزالعمال، حدیث ۳۴۸۱۵  و ۳۴۹۷۹

۴۰- نسائی، سنن نسائی، بَابُ إِذَا قِيلَ لِلرَّجُلِ صَلَّيْتَ هَلْ يَقُولُ لَا؟ حدیث۱۳۶۶

۴۱- ابوداؤد، سنن ابوداؤد، بَابُ    مَا جَاءَ      فِي الرُّقَى ، حدیث ۳۸۸۵

۴۲-  ابن الاثیر،اسد الغابہ ،بیروت، ج۲،ص ۶۱۲

۴۳-  مفتی رضا الحق، فتاویٰ دارالعلوم زکریا،کراچی، ج ۱،ص ۲۱۶

۴۴-  ڈاکٹر محمد حمید اللہ ،محمد رسول  ؐ اللہ، مترجم خالد پرویز ، لاہور ،ص ۲۰۵، ۲۰۶

۴۵-  یٰسین مظہر، صدیقی، ’عہد نبویؐ میں تنظیم ریاست و حکومت‘ ،مشمولہ نقوش رسولؐ نمبر،ج۵،ص ۶۹۲

۴۶- محب الدین ابن النجار ، الدرة الثمينة في أخبار المدينة،ص۵۵-۵۶

 ۴۷- السيوطی،الخصائص الکبریٰ ،ج۲، ص ۷۱

۴۸-  السرخسی، المبسوط، ج ۲۳، ص ۲

۴۹- احمد بن اسحاق یعقوبی، البلدان،بیروت ،ص ۱۵۱

۵۰- غلام سرور قادری، معاشیات نظام مصطفٰی ؐ، لاہور، ص ۱۸۴

دورِ حاضر میں جن مسائل کو پوری دنیا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ان میں آبی بحران کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔ اس کی ہولناکیوں سے کرۂ ارض کا ہر شخص اس سے کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہے، حتیٰ کہ شدید خدشات لاحق ہیں کہ اب مستقبل میں جنگوں کی بنیاد بھی آبی وسائل پر ہو گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آبی وسائل کے انتظام و انصرام کی طرف توجہ کی جائے اور آبی مسائل کو حل کیا جائے۔ سیرت النبیؐ کو قرآن حکیم نے اسوۂ حسنہ و کاملہ قرار دیا ہے اور سیرت کے گوناگوں گوشوں میں ہر لحاظ سے رہنمائی موجود ہے اور ہمارے تمام مسائل کا حل بھی سیرت النبیؐ سے ہدایت و رہبری میں پوشیدہ ہے۔

انتظامِ آب (Water Management)سے مرادپانی کے انتظام کی منصوبہ بندی ،اس کی بہتری و ترقی اور تقسیم کی حکمت عملی کے ذریعے آبی قواعد و ضوابط کے تحت پانی کے وسائل کا زیادہ سے زیادہ بہترین استعمال ہے۔ اس میں پینےکے پانی ، صنعتی پانی ، نکاسی آب یا گندے پانی کی صفائی کا انتظام ، آبی وسائل کا نظم و نسق ، سیلاب سے بچاؤ کا انتظام ، آبپاشی کا انتظام اور پانی کا انتظام شامل ہیں۔

یعنی انتظامِ آب سے مرادپانی کے ذرائع کی تضبیط اوران کی نقل و حرکت کو اس انداز میں منظم کیا جائے کہ وہ زندگی و املاک کے لیے کم سے کم ضرر رساں ہوں اورزیادہ سے زیادہ فائدہ مندہوں۔ ڈیموں اور بندکے اچھے انتظام کی بدولت سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

انتظامِ آب سیرت النبیؐ کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جن اعزازات و اکرا مات سے نوازا ۔ ان میں سے ایک خاص انعام حوض کوثر ؎۱کا بھی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

اِنَّـآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ۝۱ۭ  (الکوثر۱۰۶:۱)بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کر دیا۔

اسی وجہ سے آپؐ کے ہاتھ پر بکثرت پانی کے معجزات کا ظہور ہوا۔ اگرچہ یہ آیت آخرت میں آپؐ کی شرف و عزت اور وجاہت و کرامت کو ظاہر کرتی ہے مگر اس زمین پر بھی آپ ؐنے پانی کے انتظام و انصرام پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور مدینہ کی ریاست میں اس بہترین انتظام کی عملی شکل اپنے کمال اور جوبن پر نظر آتی ہے۔ ویسے بھی آبی انتظامات کی تعلیم و تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورثے میں ملی تھی۔ حاجیوں کے لیے پانی کے انتظامات کی ذمہ داری قصی کے سپرد تھی۔ ؎۲ پھر یہ خدمت عبد مناف، ہاشم ،مطلب، عبد المطلب، اور پھر آپؐ کے چچا عباس کے سپرد ہوئی۔ ؎۳  اس وجہ سے آبی انتظامات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہارت مسلّم تھی جس کا عملی ظہور مدینہ منورہ میں ہوا۔ ان اقدامات کے ضمن میں آپؐ نے بہت سی تدبیروں سے کام لیا، جنھیں درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • نئے آبی ذخائر کی تلاش
  • ترغیبات
  • پانی پلانا بہترین صدقہ
  • آبی وسائل میں تعاون کے فروغ کے لیے بھائی چارہ کا قیام
  • پانی کے ذرائع پر اجارہ داری کا خاتمہ
  • پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت
  • زائد پانی کو روکنے کی ممانعت
  • آبی ضیاع کی ممانعت
  • آبی آلودگی کو روکنے کے اقدامات
  • انتظامی اقدامات
  • بہتر انتظامِ آب پر حوصلہ افزائی
  • آب پاشی کے عملی اقدامات
  • دیگر قبائل سے معاہدات
  • پانی سے متعلقہ معجزات

اب ذیل میں ان امور کی تفصیل بیان کی جاتی ہے:

نئے آبی ذخائر کی تلاش

عہد رسالتؐ کے آبی ذخائر میں کنوؤں اور چشموں کو خاص اہمیت حاصل تھی اگرچہ دریا، ندی نالے، تالاب ، چشمے اور وادیاں بھی پائی جاتی تھیں۔؎۴  اس زمانے میں چونکہ آبادی کم ہوا کرتی تھی اس لیے کنوؤں سے بآسانی گزارہ ہو جاتا تھا بلکہ ایک کنویں کی مدد سے پورا شہر پانی پی سکتا تھا۔ جیسا کہ احادیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ بیر رومہ میٹھے پانی کا صرف ایک کنواں تھا، لیکن اس سے پورا مدینہ پانی استعمال کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کنویں کی مدد سے لوگ اپنا روزگار بھی چلاتے تھے اور یہ مال و دولت اور متمول ہونے کی بھی ایک نشانی تھا۔اس لیے اسلام کے ابتدائی دور میں کنوؤں اور چشموں کا بکثرت ذکر ملتا ہے کہ پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے مختلف کنویں کھودے گئے۔ ہرچند کہ کنویں کھودنے کا رواج زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا تھا۔

مکہ کی مقدس سرزمین میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے شعب حرا میں ایک کنواں کُرّآدم کھودا تھا جس کا پانی لوگ استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح مرۃ بن کعب لوی نے رُمّ، کلاب بن مرہ نے بنی مخزوم کے لیے خُمّ، اور ہاشم بن عبد مناف نے صفا اور مروہ کے درمیان سجلہ نامی کنواں کھودا تھا ، بعد میں یہ کنواں جبیر بن مطعم کے نام سے مشہور ہوا۔ عبد الشمس بن عبد مناف نے الطَّوِیّ بنوایا تھا، جو بعد میں عقیلؓ بن ابی طالب نے بحال کیا تھا۔ امیہ بن عبد الشمس نے الجفر نامی کنواں جیاد میں کھودا۔ بنی عبدالشمس کے اُمّ جعلان اور علوق نامی کنویں بھی تھے۔ ام ہانی کے مکان والی جگہ قصی بن کلاب نے النجول کھودا تھا۔؎۵ مدینہ میں صرار نامی کنواں دور جاہلیت میں کھودا گیا۔ ؎۶

اس لیے آپؐ نے بھی ان روایات کو قائم رکھا اور پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہت سے کنویں کھدوائے گئے۔غزوہ مریسیع سے واپسی پر اسلامی افواج کا گزر نقیع کے مقام سے ہوا جہاں متعدد تالاب اور خوب صورت قطعات تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خوب صورتی، وسعت اور سر سبزی سے بہت متاثر ہوئے۔ آب و ہوا اور پانی کی فراہمی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ موسم گرما میں یہاں پانی کم ہو جاتا ہے کیونکہ تالاب سوکھ جاتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ایک مشہور صحابی حاطب بن ابی بلتعہؓ کو وہاں ایک کنواں کھودنے کا حکم دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ کنواں متعدد مسلمانوں کی مدد سے کھودا گیا۔؎۷  جس کی وجہ سے وہاں قلت ِآب کے مسئلے پر بآسانی قابو پا لیا گیا۔

علامہ تقی فاسی نے صرف مکہ معظمہ میں ۵۸ کنوئوں کی موجودگی بیان کی ہے۔ جن میں سے باب معلاء سے منٰی تک۱۷ ، منٰی میں ۱۵ اور مزدلفہ میں تین کنویں پائے جاتے تھے۔ عرفات میں زیادیۃ الکبری، زیادیۃ الصغری اور الشمروقیہ کا ذکر کیا ہے اور باب الشبیکہ سے تنعیم تک ۲۳کنویں بیان کیے ہیں۔

چونکہ ابتدا میں آبادی تھوڑی اور حجاج کرام کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی، اس لیے کنویں کے پانی سے گزر ہو جاتی تھی لیکن جب آبادی اور زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تو پھر مزید انتظام کی شدید ضرورت درپیش ہوئی۔ اس لیے بعد کے ادوار میں نہریں اور برساتی تالاب بھی بنائے جانے لگے۔؎۸  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنو حرام کی غار کے قریب ایک چشمہ بھی کھدوایا تھا۔؎۹   یوں مکہ معظمہ میں بھی بہتر انتظامِ آب کی بدولت نہ صرف یہ کہ مکہ میں رہنے والوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوئی بلکہ حجاج اور معتمرین کو بھی آسانیاں میسر آئیں۔

ترغیبات

رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف فرما ہوئے تو اس وقت مدینہ شریف میں میٹھے پانی کی سخت قلت تھی ۔ مسجد قبلتین کے شمال مغرب میں زغابہ کے مقام پر صرف ایک بیر رومہ کا کنواں واقع تھا جس کا مالک یہودی تھا اور پانی قیمتاً فروخت کرتا تھا۔ اس کنویں کے علاوہ تمام کنویں کھاری تھے۔ امیر لوگ پانی خرید لیتے مگر نادار و غریب لوگ سخت بے بس اور مجبور تھے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اس کنویں کو خرید کر وقف کر دے گا اسے اس کے بدلے جنت ملے گی‘‘۔ آپؐ کی ترغیب کی وجہ سے سیدنا عثمانؓ نے ۳۵ہزار درہم میں کنواں خرید کر وقف کر دیا۔ ؎   ۱۰ بعد ازاں کچھ نئے کنویں کھودے گئے اور کچھ کنوؤں کا پانی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کی وجہ سےمیٹھا ہو گیا۔یوں مدینہ کے لوگوں کی ضروریات پوری ہوتی رہیں ۔

حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓنے میٹھے پانی کے کئی کنویں تیار کروائے۔ ۱۱؎ اور پھر وہاں سے زراعت کے لیے کئی نالے بنائے گئے۔ جس سے پہلی دفعہ مدینہ میں کنویں کے پانی سے گندم کاشت کی گئی۔ آپؐ پینے کے پانی کے لیے کنویں کو دھونے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔۱۲؎

پانی پلانا بہترین صدقہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پلانے کو بہترین صدقہ قرار دیا۔ اس طرح لوگوں کو  ترغیب ملی کہ وہ دوسرے لوگوں کو پانی پلا کر اُخروی ثواب اور رضائے الٰہی کو حاصل کرسکیں۔ حضرت سعید بن المسیبؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا: ’’سب سے زیادہ پسندیدہ صدقہ کون سا ہے ؟ فرمایا: ’’پانی پلانا‘‘۔ ۱۳؎

ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے ایصال ثواب کی غرض سے کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا: ’پانی‘۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت سعد نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا یہ ام سعد کے (ایصالِ ثواب کے) لیے ہے۔  ۱۴؎

کسی دوسرے مسلمان بھائی کے برتن میں اپنے برتن سے پانی ڈالنے کو بھی صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ ۱۵؎ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ رب العزت اس کو مہر لگی ہوئی شراب پلائیں گے۔ ۱۶؎ اور جہاں پانی ہو وہاں کوئی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی پلائے تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا، اور جہاں پانی نہ ہو وہاں کوئی مسلمان کو پانی پلائے تو گویا اس نے ایک جان کو زندگی بخشی۔ ۱۷؎  مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے، ان میں سے ایک عمل نہر  ۱۸؎ یا کنواں ۱۹؎ جاری کرنا روایت کیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی بدولت سب لوگوں کو یہ ترغیب ملی کہ وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو اور دیگر ذی روحوں کو بوقت ضرورت پانی صدقہ کریں۔ اس طریقے سے نہ صرف یہ کہ ضرورت مندوں کی ضروریات پوری ہوئیں بلکہ قلتِ آب کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی مدد ملی۔

آبی وسائل میں تعاون کے فروغ کے لیے بھائی چارہ کا قیام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کروائی۔ مواخات کے ذریعے نہ صرف یہ کہ تعاون کو فروغ ملا بلکہ تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل کرنے میں بھی مدد ملی۔ مواخات کے قیام کی بدولت آبی مسائل پر بآسانی قابو پا لیا گیا ۔

صفی الرحمٰن مبارک پوری لکھتے ہیں: اس طرح کی کوششوں کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اندر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے، جو تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھر پور معاشرہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصہ تک زمانے کی اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مار کر تھک جانے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا۔ اس نئے معاشرے کے عناصر ایسی بلند و بالا تعلیمات کے ذریعے مکمل ہوئے، جس نے پوری پامردی کے ساتھ زمانے کے ہر جھٹکے کا مقابلہ کرکے اس کا رخ پھیر دیا اور تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ ۲۰؎

پانی کے ذرائع پر اجارہ داری کا خاتمہ

آبی قلت کو دُور کرنے اور پانی کے دستیاب وسائل سے بہترین طریق پر استفادہ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے اقدامات کی ممانعت کر دی اور پانی کے حصول کے لیے عامۃ الناس کی سہولت کے لیے ہر قسم کی اجارہ داری کو آپؐ نے ختم کر دیا ۔اسی طرح آپؐ نے گھاس پر مشتمل چراگاہوں اور پانی دونوں کو ہر شخص کے لیے مباح قرار دیا ۔ آپؐ نے ان دونوں کو قدرتی عطیہ قرار دیا اور ہر ضرورت مند کواس سے استفادہ کرنے کی عام اجازت دے دی۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں یعنی پانی، گھاس اور آگ ایسی ہیں، جن میں تمام مسلمان شریک ہیں ۔ ۲۱؎ اس حدیث میں اللہ کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جو کائنات کے ہر فرد کے لیے ہے۔ ان میں کسی کی ذاتی ملکیت وخصوصیت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ پانی سے مراد دریا ، تالاب اور کنویں وغیرہ کا پانی ہے اور وہ پانی مراد نہیں ہے جو کسی شخص کے برتن میں بھرا ہوا ہو۔

امام شمس الائمہ لکھتے ہیں کہ تمام لوگ ان تینوں چیزوں میں برابر کے حصہ دار ہیں اور یہ پہلی روایت( ابوداؤد کی روایت )سے عام ہے کہ اس میں تمام انسانوں کی شرکت کا اعلان ہے، خواہ مسلمان ہو یا کافر، اور پانی کے بارے میں یہ شرکت وادیوں، دریاؤں سے متعلق ہے، جیسے دریائے سیحون، جیحون، دجلہ، فرات اور نیل وغیرہ۔ اس لیے کہ ان سے فائدہ اٹھانا ایسا ہے، جیسے سورج کی دھوپ اور ہوا سے فائدہ حاصل کرنا ۔اس میں تمام کائنات انسانی برابر کی شریک ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ دوسرے کو روک سکے۔اس کی مثال شارع عام کی سی ہے کہ اس پر ہر مسلمان و کافر سب کو چلنے کا حق ہے اور لفظ شرکت سے اصل اباحت اور انتفاع میں تمام انسانوں کا مساوی ہونا مراد ہے ۔ یہ مراد نہیں کہ وہ ان کی ملکیت ہے کہ وادیوں اور دریاؤں میں موجود پانی کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔  ۲۲؎

قدرتی وسائل پر انفرادی ملکیت کی ممانعت

موجودہ زمانے میں بھی بکثرت ایسا ہے کہ کثیر قدرتی وسائل پر کوئی فردِ واحد قابض ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو ان قدرتی وسائل کے استفادہ سے روکتا ہے، یا کسی شخص کے پاس بہت بڑی جاگیر یا دولت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ شخص توفائدے میں ہوتا ہے لیکن دوسرے لوگوں کو اس کی وجہ سے ضرر کا سامنا ہوتا ہے۔ شریعت، مفادِ عامہ کو نقصان پہنچانے اور تنگی پیدا کرنے والی ایسی ملکیت کو روکتی ہے کہ کوئی ایسا سرچشمہ جس کا تعلق مفادِ عامہ سے ہو اور وہ کسی فردِ واحد کی ملکیت میں ہو ۔ اگر انفرادی ملکیت کی وجہ سے باقی عوام کو تکلیف یا ضررکا سامنا ہو تو ایسی ملکیت کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی دلیل حضرت بلال بن حارثؓ کا وہ واقعہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک وسیع جاگیر عطا فرمائی تھی اور بعدمیں آپؐ نے خود ہی مفادِ عامہ کے تحت اس کی ملکیت کو  منسوخ قرار دیا تھا ۔  ۲۳؎ اور آپؐ نے اس کے بدلے میں حضرت بلالؓ کو جرف مراد میں زمین اور کھجور کے درخت بطور جاگیر عطا فرمائے۔ ۲۴؎  پھر ضرورت کے تحت حضرت عمرؓ نے وہ زمین بھی حضرت بلالؓ بن حارث سے واپس لے لی۔ ۲۵؎

حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ فرماتے ہیں : بلال بن حارث مزنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ سے زمین بطور جاگیر مانگی۔ آپؐ نے انھیں لمبی چوڑی زمین دے دی۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو آپؓ نے کہا : اے بلالؓ ! تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے   لمبی چوڑی زمین حاصل کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سوال کرنے والے کو خالی نہ لوٹاتے تھے اور تو اس کی طاقت نہیں رکھتا جو تیرے پاس ہے۔ بلال ؓنے کہا : ’ہاں‘۔ عمرؓ نے کہا : تو اس کو دیکھ جو طاقت رکھتا ہے اتنی رکھ لے اور باقی دے دے۔ ہم مسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ بلالؓ نے کہا : میں ایسا نہ کروں گا، جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا : تجھے ایسا ضرور کرنا پڑے گا، پھر حضرت عمرؓ نے اس سے زمین لے لی اور مسلمانوں میں تقسیم کردی۔  ۲۶؎  آج اگر ان اصولوں سے استفادہ کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ قدرتی وسائل و دولت کی تقسیم کوعدل کے اصولوں کے تحت بہتر بنا یا جا سکتا ہے بلکہ سسکتی ہوئی انسانیت کی مشکلات کو دور کر کے غربت و افلاس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

اسی اصول کا اطلاق آبی وسائل کے ضمن میں کر کے آبی وسائل کی تقسیم بھی بہتر کی جا سکتی ہے۔ اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ حضرت حصین بن مشمتؓ فرماتے ہیں کہ وہ وفد کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کرنے کی بیعت کی اور آپؐ کی خدمت میں اپنے مال کے صدقات پیش کیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جائیداد میں مختلف علاقے دیئے، جن میں بہت سارے چشمے بھی تھے۔ ان کا نام لیا، لیکن ہمارے شیخ ان ناموں کو یاد نہ رکھ سکے۔ راوی کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شرط لگائی جو ابن مشمت کو دیا ہے وہ اس کا پانی فروخت نہ کرے گا اور اس کی چراگاہ کو نہ کاٹے گا اور نہ اس کے درختوں کو کاٹےگا۔ ۲۷؎

پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت

انتظامِ آب کے ضمن میں ایک اقدام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اٹھایا کہ پانی کی خرید و فروخت سے منع فرما دیا۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے غلام نے ان کو خط لکھا کہ میں نے آپؓ کی زمینوں کی سیرابی کے بعد باقی پانی کو ۳۰ ہزار درہم میں فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب آپؓ کی اجازت درکار ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں نے تمھارا مطلب سمجھ لیا ہے لیکن میرے پیش نظر وہ حدیث، جس میں ضرورت سے زیادہ پانی اور گھاس کو روکنے اور دوسروں کو فائدہ نہ پہنچانے والے شخص کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ناراضی کا ذکرہے، کہ ایسا شخص روز قیامت خدا کے فضل سے محروم ہوگا، تو جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو اس پر عمل کرتے ہوئے پہلے اپنے باغوں، کھیتوں اور زمینوں کو سیراب کرواور جو فالتو پانی ہو اسے بیچنے کے بجائے اپنے اس پڑوسی کو دو، جو تمھارے سب سے زیادہ قریب ہو اور پھر اسے جو اس کے بعد قریب ہو۔ ۲۸؎

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے آزادکردہ غلام سالم فرماتے ہیں کہ انھوں نے مجھے اپنی زمین کا زائد پانی ۳ ہزار میں دیا جو گڑھے میں تھا، چنانچہ میں نے یہ بات عبداللہ بن عمروؓ کو بتائی تو انھوں نے میری طرف جوابی خط میں لکھا :اسے مت بیچ تو باری مقرر کردے، پھر اپنے قریب والوں کو پانی دے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : ضرورت سے زائد پانی نہ بیچو۔ ۲۹؎

 حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا ایک غلام تھا جوان کے چشمہ کا زائد پانی ۲۰ ہزار میں فروخت کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو نے اس سے فرمایا : اس کو فروخت نہ کرو، بیشک اس کی بیع جائز نہیں۔ ۳۰؎  اور یہ روایت بہت جامع ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے اس پانی کے جس کو اٹھا کر لایا جائے ہر قسم کے پانی کی فروخت سے منع فرمایا ہے۔ ۳۱؎  پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کا ذہن تجارت و مالی فوائد کی طرف جانے کے بجائے خیر خواہی و بھلائی کی طرف منتقل ہوا، نیز اس جذبے کی بدولت لوگوں کے آبی قلت کے مسائل میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔

زائد پانی کو روکنے کی ممانعت

لوگوں کے پاس بکثرت چیزیں موجود ہوتی ہیں، لیکن وہ ضرورت سے زائد اشیا کسی دوسرے فرد کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، حتیٰ کہ وہ چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں یا گل سڑ جاتی ہیں۔

اس عملِ بد کو روکنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دیگر زائد اشیا اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو دے دینے کی ترغیب دلائی، وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی شخص اپنے پاس زائد پانی نہیں رکھے گا بلکہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو دے دے گا‘‘۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں کی طرف نہ دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: اوّل وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زائد پانی راستہ میں ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت صرف دنیا کی خاطر کی کہ اگر اس کو کوئی دنیوی چیز دیتا ہے تو راضی ہے اور نہ دے تو ناراض ہوجاتا ہے، تیسرے وہ شخص کہ اپنا سامان عصر کے بعد لے کر کھڑا ہو اور کہے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے اس کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی، (لیکن میں نے نہیں دیا) اور کوئی شخص اس کو سچا بھی سمجھے پھر یہ آیت پڑھی :  اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا (اٰل عمرٰن ۳:۷۷) ’’بے شک جو لوگ بیچتے ہیں اللہ کے عہد کو اور اپنی قسموں کو ایک حقیر قیمت کے‘‘۔ ۳۲؎   (جاری)

حوالہ جات

۱-    بخاری، الجامع الصحیح، حدیث : ۶۵۸۱۔ ایک روایت میں ہے کہ حوضِ کوثر تین مہینوں کی مسافت کے برابر ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے، اس کے کوزے آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں، جو شخص اس سے پی لے اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔ بخاری، الجامع الصحیح، حدیث۶۵۷۹

۲-    ا بن کثیر ، البداية والنهاية: بیروت، ج۲،ص ۲۶۳

۳-    ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون،ج۲،ص ۳۹۹-۴۰۴؛ طبری، تاریخ طبری، ج۲،ص ۲۴۸-۲۵۴

۴-    ڈاکٹر محمدالیاس عبدالغنی ، تاریخ مدینہ منورہ،لاہور ،ص۱۲۰

۵-    عبدالمعبود، محمد، تاریخ مکۃ المکرمہ،لاہور ، ج۱،ص ۳۴۱

۶-    السمہودی، نورالدین، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفٰى، لاہور،ج۴،ص ۱۰۵

۷-    ڈاکٹریٰسین مظہر صدیقی، عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، مشمولہ نقوش رسولؐ نمبر، مرتب محمدطفیل ،لاہور ، ج۵، ص ۶۹۲

۸-    محمد عبدالمعبود، تاریخ مکۃ المکرمہ، ج۱،ص ۳۴۲

۹-    محب الدین ابو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن ،الدرة الثمينة في أخبار المدينة،ص۶۴

۱۰-  ترمذی، جامع ترمذی، بَابٌ فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حدیث۳۶۹۹، ج۵، ص۶۲۵

۱۱-  حضرت طلحہ ابن عبید اللہ التیمیؓ مشہور صحابی ہیں، جن کاشمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ البخاری، التاريخ الکبیر، ج۴،ص ۳۴۴

۱۲- محمد مہربان باروی، عہد رسالت میں مملکت کا بنیادی تصور: ایک تحقیقی جائزہ، ششماہی التفسیر کراچی، شمارہ۳۵، جنوری ۲۰۲۰ء،ص ۱۹۴

 ۱۳- ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ ،بیروت، حدیث ۳۶۸۴؛ النسائی ، السنن الصغرى للنسائي،  حدیث۳۶۶۵؛ ابو داؤد، سنن ابو داؤد، حدیث ۱۶۷۹

۱۴- النسائی ، السنن الصغرىٰ للنسائي، حدیث ۳۶۶۴؛ ابو داؤد،سنن ابوداؤد،حدیث ۱۶۸۱

 ۱۵- ترمذی، جامع ترمذی، حدیث۱۹۵۶

۱۶-  ابو داؤد، سنن ابو داؤد، حدیث ۱۶۸۲؛ ترمذی، جامع ترمذی، حدیث۲۴۴۹

۱۷-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۴

۱۸-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۲

۱۹-  ابو الحسن نور الدین الہیثمی ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، القاہرہ،حدیث ۷۶۹

۲۰- علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری، الرحيق المختوم،بیروت، ص ۱۷۲

۲۱-  ابوداؤد، سنن ابوداؤد، حدیث ۳۴۷۷؛ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث۲۴۷۲

۲۲-  محمد بن احمد، السرخسی، المبسوط،بیروت ، ج۲۳،ص ۱۶۴

۲۳-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۵

 ۲۴- احمد بن حنبل، مسند احمد، حدیث۲۷۸۵۔حضرت عمرو بن عوف مزنی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ نامی گاؤں کی بالائی اور نشیبی کانیں اور قدس نامی پہاڑ کی قابلِ کاشت زمین بطور جاگیر کے عطا فرمائی اور یہ کسی مسلمان کا حق نہیں تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ تحریر لکھوا دی، جس کے شروع میں بسم اللہ کے بعد یہ مضمون ہے کہ یہ تحریر جو محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کے لیے لکھی ہے۔

 ۲۵- البیہقی، السنن الکبرٰی، حدیث۷۶۳۷، علی متقی ہندی، کنز العمال،حدیث۹۱۶۵

۲۶-  البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی ، حدیث۱۱۶۰۵

 ۲۷- البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی، حدیث ۱۱۵۷۱؛ علی متقی، کنزالعمال، حدیث۳۰۳۲۰

۲۸-  یعقوب بن ابراہیم، ابویوسف، الخراج ،القاہرہ، ص ۹۶

۲۹-  البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی ،حدیث ۱۱۰۶۲

۳۰-  ابوبکر عبداللہ، ابن ابی شیبہ،المصنف، جدۃ، حدیث۲۱۳۴۳

 ۳۱- القاسم بن سلاّم، ابو عُبيد،کتاب الاموال ،بیروت،حدیث ۷۵۵

۳۲-بخاری، الجامع الصحیح ،بیروت، حدیث ۲۳۵۸