آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی کی عظیم شاہ کار تفسیر ہے۔ گوناگوں خصوصیات کی حامل اس تفسیر کی سب سے بڑی خوبی نظم قرآن کی پیش کاری ہے‘ تاہم غلطیوں‘ تسامحات اور فروگذاشتوں سے انبیاے کرام کے سوا نہ کوئی انسان پاک ہے اورنہ کوئی انسانی کاوش۔ مولانااصلاحی کے نزدیک قرآن فہمی میںعربی ادب‘ نزولِ قرآن کے دور کے عربی لٹریچر اور روایات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے اِن اور بعض دیگر علمی معاملات میں اُن کی راے جمہور علما سے مختلف ہے۔
زیرنظر کتاب میں مولانا جلیل احسن ندوی نے کئی مقامات پر مولانا اصلاحی کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا اور تدبر قرآن کے تسامحات کا محاکمہ کیا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو: سورۂ بقرہ آیت ۲ (ذٰلِکَ الْکِتَاب… للمتقین) کا ترجمہ مولانا اصلاحی نے اس طرح کیا ہے: ’’یہ کتابِ الٰہی ہے، اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں‘ ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لیے‘‘ (تدبر قرآن‘ اوّل‘ ص ۳۷)۔ تفسیری حصے میں ذٰلِکَ کا مطلب بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جو چیز مخاطب کے علم میں ہے یا جس کا ذکر گفتگو میں آچکا ہے‘ اگر اس کی طرف اشارہ کرنا ہو تو وہاں ذٰلِکَ استعمال کریں گے‘‘۔ اس پر مولانا ندوی نے اعتراض کیا ہے کہ تب تو اس (ذٰلِکَ) کا ترجمہ ’وہ‘ سے کرنا چاہیے نہ کہ ’یہ‘ سے۔ صاحبِ تدبر قرآن آگے لکھتے ہیں: یہاں ذٰلِکَ کا اشارہ سورہ کے اس نام کی طرف ہے جس کا ذکر گزر چکا ہے اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ الم قرآن عظیم کا ایک حصہ ہے (ایضاً، ص ۴۱)۔ ندوی صاحب لکھتے ہیں: ذٰلِکَ کا ’یہ‘ سے ترجمہ کرنا درست نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ذٰلِکَ کا اشارہ سورہ کی طرف ہے بلکہ ذٰلِکَ کا ترجمہ ’وہ‘ درست ہے۔ نیزیہاں سورہ کے نام کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ اس کتاب کی طرف اشارہ ماننا چاہیے جس کا اہلِ کتاب بالخصوص یہود انتظار کر رہے تھے جس پر ایمان لانے کا ان سے اللہ نے موسٰی ؑاور دوسرے انبیاے بنی اسرائیل کے ذریعے پختہ عہدوپیمان لیا تھا(ص ۱۱)۔ مصنف نے گروہی تعصبات سے بالاتر ہوکر تجزیہ اور مدلل بحث کی ہے۔ بعض مقامات پر اسلوبِ تنقید قدرے سخت ہے لیکن بحیثیت مجموعی یہ اختلاف و تنقید صاحبِ تدبر قرآن کے پورے احترام کے ساتھ علمی و فکری حدود میں ہے۔
سورئہ بقرہ سے سورئہ فتح تک کی مختلف آیات کے تراجم اور ان کی تفسیر پر مشتمل یہ مضامین وقتاً فوقتاً ماہ نامہ زندگی اور ماہ نامہ حیاتِ نو میں شائع ہوتے رہے۔ نعیم الدین اصلاحی نے انھیں جمع کیا‘ کتابی شکل دی اور اس پر تعلیقات و حواشی کا اضافہ کیا۔ یہ صرف چند سورتوں تک محدود ہیں۔ زیرنظر کتاب قرآنی مطالعے کے سلسلے میں متوازن راے قائم کرنے اور قرآن فہمی کے ذوق میں اضافے کا سبب بنے گی۔ (حمیداللّٰہ خٹک)
اسرارالحق کی کتاب The End of Illusionsکے چھٹے باب کا اُردو ترجمہ وسیم الحق نے کیا ہے۔ اس اہم تصنیف میں بہ دلائل یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام‘ قرآن‘ جہاد‘ حجاب اور مسجد کے خلاف مغرب کے چند لوگ نہیں بلکہ صدارتی مشیر‘ انتہائی بااثر تھنک ٹینک‘ پالیسی ساز ادارے‘ یونی ورسٹیاں اور ذرائع ابلاغ کے سرخیل سب کے سب شب و روز سرگرمِ عمل ہیں۔ نام نہاد دہشت گردی کا مرتکب مسلم دہشت گرد قرار پاتا ہے‘ جب کہ کسی عیسائی‘ یہودی‘ جاپانی‘ ہندو یا تامل فرد کے لیے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ اُس کے مذہب کی شناخت کی جائے۔
اسرارالحق صاحب نے سیکڑوں حوالوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ڈنمارک کے خاکہ نگار کے خاکوں نے شہرت حاصل کرلی ورنہ امریکا اور یورپی ممالک کے متعدد صدور‘ سربراہانِ فوج اور پالیسی ساز اداروں کے بیانات بھی اپنی زہرناکی میں خاکوں سے کم نہیں۔ سب سے بڑا عملی ثبوت افغانستان وعراق ہیں کہ جہاں انسانیت کے ہر اصول کو پامال کر کے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
۲۲۳ صفحات کی زیرنظر کتاب میں امریکی ذرائع ابلاغ‘ امریکی کانگرس‘ اقوامِ متحدہ‘ یورپی یونین‘ بھارت اور جاپان کے درجنوں ایسے حوالے درج کیے گئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہاں اسلام کو روے زمین سے نیست و نابود کرنے کے لیے کیا کچھ سازشیں ہو رہی ہیں۔ ان مسلسل حوالوں اور بیانات کو پڑھ کر ایک بار تو یہ احساس ہوتا ہے کہ میڈیا نے ہمیں اس طرح بے دست و پا کردیا ہے کہ ہم اپنے ہی قتل کے لیے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ نہیں ہیں۔
اسرارالحق نے غیر جانب داری سے اسلامی نظامِ معاشرت‘ تہذیب‘ جذبۂ جہاد‘ شہادت‘ پُرمسرت زندگی‘ شراکتِ اقتدار‘ رواداری اور نظامِ حکومت کے خدوخال اور ان کے رہنما اصولوں کی نشان دہی کردی ہے۔ کتاب کے ابتدائی ۵۷ صفحات تو حقیقتاً آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ انگریزی سے اُردو ترجمہ انتہائی محنت سے کیا گیا ہے۔ مغرب اور مغربی فکر سے آگاہی کے لیے یہ ایک اہم کتاب ہے۔ (محمد ایوب منیر)
پرانا محاورہ ہے کہ صحت دولت ہے‘ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ اس دولت کی قیمت بہت بڑھتی جارہی ہے۔ جو بیماری کسی کو ہوجائے معلوم ہوتا ہے کہ ساری عمر کا علاج چاہیے۔ دوائیں غذا اور خوراک کا حصہ بن گئی ہیں۔ پرانے وقتوں میں بہت ساری بیماریاں گھروں ہی میں نبٹائی جاتی تھیں۔ خاندان کی بزرگ خواتین کے پاس اتنے مجرب نسخے ہوتے تھے کہ صرف پیچیدہ بیماریوں کے لیے ڈاکٹر کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ یہ صدری نسخے بھی آہستہ آہستہ متروک ہوگئے اور ڈاکٹری علاج کا چلن بڑھ گیا۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر حکیم عبدالحنان کی یہ تین کتابیں نعمت سے کم نہیں۔ حکیم صاحب نے سادہ اور عام فہم زبان میں اتنا کچھ فراہم کر دیا ہے کہ اگر عام تعلیم یافتہ مرد اور خواتین ان تینوں کتابوں کو کورس کی طرح پڑھ لیں، (یعنی اس پر امتحان میں ۵۰ فی صد سے زائد نمبر لے سکیں) تو نہ صرف وہ اپنی ذاتی صحت ٹھیک رکھیں گے بلکہ خاندان کے دوسرے چھوٹے بڑوں کے لیے ایک حد تک معالج کا کام کرسکیںگے (اور یوں علاج پر خرچ ہونے والے ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں روپے کی بچت کریں گے)۔
صحت کی حفاظت میں بیماریوں سے بچائو اور زندگی گزارنے کے آسان طریقے فراہم کیے گئے ہیں۔ قدرتی دوائیں میں پھلوں‘ سبزیوں اور عام جڑی بوٹیوں سے محفوظ اور مؤثر انداز سے علاج کے طریقے بیان کیے گئے ہیں۔ وہ باتیں جو اخبارات اور رسائل میں موسم کے لحاظ سے پڑھنے کو ملتی ہیں‘ سب یہاں یک جا اور مستند موجود ہیں۔ امراض اور علاج میں ہر قسم کے عام امراض (بلڈپریشر‘ ذیابیطس‘ دمہ اور دیگر) کے بارے میں بہت کام کی باتیں اور مفید مشورے دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی طبِ یونانی کے کچھ آسان نسخے بھی بیان کیے گئے ہیں۔
عام فائدے کی یہ معیاری کتابیں ہر فرد کی ضرورت ہیں۔ (مسلم سجاد)
پاکستان کے اخباری صفحات پر روزانہ لاکھوں الفاظ خرچ کر کے خبریں پیش کی جاتی ہیں اور مضامین یا کالم لکھے جاتے ہیں۔ جملوں اور حرفوں کی یہ برکھا چند گھنٹوں میں فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہے۔ تاہم جو چند ہزار الفاظ زندگی پاتے ہیں‘ ان میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد اوریا مقبول جان کے حصے میں آئی ہے۔ حرفِ راز کے اس پُرعزم رازدان نے لفظوں کو پاکیزگی اور عصری شعور کو دانش کی کسوٹی پر پرکھنے کی روایت میں بامعنی پیش رفت کی ہے۔
ان دو مجموعوں میں شامل مختصر مضامین معروف ہفت روزہ ضربِ مومن میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان نثرپاروں میں ہماری زندگی کے روز مرہ حادثات و واقعات کو تاریخی‘ سماجی‘ دینی‘ اخلاقی اور نفسیاتی تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کا توجہ طلب انداز پایاجاتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب کے اوراق پر مغرب کی غیرمنصفانہ یلغار‘ دھونس اور زیادتی کے فہم کو نمایاں کیا اور خود مسلم دنیا میں بکھری بے عملی اور بے حمیتی پر نظر ڈالی گئی ہے۔ مسلم دنیا بھی کیا‘ مسلم قیادتوں کی بے وفائی نے دشمن کے راستے صاف اور آراستہ کرنے کے لیے جو گل کھلائے ہیں‘ ان مضامین میں انھیں دیکھا اور احساسِ زیاں کی کسک محسوس کی جاسکتی ہے۔(سلیم منصورخالد)
اخترعباس صحافتی اور ادبی حلقوں میں جانا پہچانا نام ہے۔زیرنظر کتاب کے ۳۳ اخباری کالم‘ دین‘ وطن اور اپنی اقدارکے ساتھ محبت کرنے والے قلم کار کی سوچ بچار‘ذاتی تجربے‘ مشاہدے اور مطالعے کا عکس ہیں۔ خوب صورت الفاظ‘ عام فہم‘سادہ اور چھوٹے چھوٹے جملوں کے ساتھ بات کہنے کا فن‘ پُرکشش عنوانات کے ساتھ۔ چند عنوانات درج ذیل ہیں: ’انھیں موت دوست لگتی ہے‘، ’خالی ہاتھوں والوں کو کوئی کیسے یاد رکھے‘، ’غلط فیصلوں کے پہاڑ اکثر سر نہیں ہوتے‘، ’جتنا بڑا یقین اتنی بڑی کامرانی‘، ’اتنے سخت دل تو نہ ہوجایا کرو‘۔
اخترعباس نوجوان قلم کار ہیں جنھوں نے قلمی جہاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔واعظانہ انداز کے بجاے خاموشی سے اپنی بات اس طرح کہتے ہیں جس سے امید‘ سرشاری کے جذبات اُجاگر ہوتے ہیں۔ یہی ان کی تحریر کی خوبی اور بات کہنے کا وہ ڈھنگ ہے جو ان کو موجودہ دور کے اہلِ قلم میں ممتاز کرتا ہے۔ اگرچہ یہ کالم پھول ڈائجسٹ میں بچوں کے لیے لکھے گئے ہیں مگر یہ ہرعمرکے قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ جہادِ زندگی میں نئے راستوں اور منزلوں کے متلاشی حضرات کے لیے یہ کتاب ایک انمول تحفہ ہے۔ (عمران ظہور غازی )