’مستقبل کا چیلنج اور ہم‘ (اکتوبر ۲۰۰۷ء) میں امامت کی حقیقت جس دل نشین پیرایے میں بیان کی گئی ہے‘ وہ نہ صرف قابلِ ستایش بلکہ قابلِ تقلید ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی و فروعی مسائل نے دورِحاضر کے امام کی فکرونظر کو محدود کردیا ہے۔ عالم گیر اسلامی انقلاب کی منزل کے حصول کے لیے مفید فکری لوازمہ ہے۔
محترم محمد یوسف اصلاحی کی تحریر: ’آپ کا گھر‘ (اکتوبر ۲۰۰۷ء) اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اپنے گھروں کی طرف توجہ اور اہلِ خانہ کی تربیت اور اسلامی روایات سے گہرا رشتہ جوڑنے کے لیے نہ صرف دل سوزی سے توجہ دلائی گئی ہے بلکہ عملی رہنمائی بھی دی گئی ہے۔
’افیون کی گولیاں‘ (ستمبر ۲۰۰۷ء) بہت ہی alarming ہے۔ ’پاک امریکا تعلقات‘ میں جو کچھ آپ نے فرمایاہے‘ اگر اُس پر پاکستانی قوم پوری سنجیدگی سے غور کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری اجتماعی خرابیِ بسیار کا پتا نہ چل سکے۔اتنے واشگاف الفاظ میں ’انجیوگرافی‘ کرانے کے بعد بھی اگر ہم علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو شاید مستقبل قریب میںہم ایسی ’دلدل‘ میں پھنس بلکہ دھنس جائیں کہ جہاں سے قومیں صدیوں بعد ہی کہیں جاکر نکلا کرتی ہیں۔ تعلق مع اللہ سے کٹ کر‘ ہمارے لیے سواے ذلت و رسوائی کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔
حکمت مودودی کے تحت ’دعوت دین کی تڑپ‘ (ستمبر ۲۰۰۷ء) میں‘ سیدمودودیؒ نے انقلاب برپا کرنے کے لیے اَن پڑھ لوگوں تک دعوت پہنچانے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اصل رکاوٹ جذبۂ تبلیغ کی کمی کو قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ’تجوید و قرا ء ت کی فضیلت‘ میں صحیح مخرج کی ادایگی پر بہت زوردیا گیا ہے اور صحیح ادایگی نہ ہونے پر سخت تنبیہہ کی گئی ہے اور وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ یہاں تضاد محسوس ہوتا ہے۔ تجوید و قراء ت کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ لیکن اصل ترجیح پیغامِ قرآن اور روحِ قرآن سے آشنا کرنا‘ ہونی چاہیے۔ کسی عجمی سے مخرج کی صحیح ادایگی امرمحال ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ نبی کریمؐ نے دعوت دین دیتے ہوئے مخرج کی ادایگی پر اتنا زور نہیں دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید سیدنا بلالؓ اذان ہی نہ دے پاتے کیوں کہ ان کے لیے مخرج کی صحیح ادایگی ممکن نہ تھی۔