ایران اور النصرۃ فرنٹ کے درمیان لبنان سے متصل شام کے ضلع الزبدانی کے مستقبل کے بارے میں استنبول میں ہونے والی بات چیت سے کئی غورطلب پہلو سامنے آئے:
۱- یہ معاملہ ایران کے ساتھ آسٹریا میں ۵+۱ کے ’معاہدئہ وی آنا‘ پر دستخط کے فوراً بعد ہوا ہے۔ جس کے بعض خفیہ پہلو بھی ہیں جن کا اعلان تو نہیں ہوا مگر ان پر عمل شروع ہوچکا ہے۔
۲- یہ عمل ضلع الزبدانی کے علاقے سے سُنّی مسلم آبادی کے انخلا اور ان کی جگہ شیعہ آبادی کو بسانے سے شروع ہو رہا ہے جو مبینہ طور پر ایک شیعہ ریاست کا جز ہوگا۔ یہ ریاست بحرروم کے مشرقی دھانے پر ہوگی اور جو لازقیہ سے شروع ہو کر الزبدانی پر سے گزرتی ہوئی لبنان کے شیعی اکثریتی علاقے البقاع تک جائے گی۔
۳- ترکی کا کرد علاقے میں PKK (کردستان ورکرز پارٹی) پر اچانک ہلّہ بول دینا ، جس کی کامیابی کے لیے ترکی نے کوبانی تک عراقی کردوں کو پہنچایا، تاکہ داعش کو کوبانی سے نکالا جاسکے۔ ترکی کے موقف میں یہ تبدیلی اس لیے ہوئی کہ صدر طیب اردگان کو احساس ہوگیا کہ عراقی کردستان کے ساتھ اب ترکی کردستان بھی بنے گا، جس میں صرف ایرانی کردستان کو شامل کرنا باقی رہے گا۔ اس طرح ایک آزاد کرد ریاست وجود میں آجانے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ عراق میں ’فضائی سروس کی ممانعت‘ (نوفلائی زون) کا علاقہ، عراقی کردستان کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے، کیوںکہ امریکا اس کو اپنی مدد کے ذریعے اسی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس طرح شیعہ ریاست کی حدود وسیع تر کرکے عراقی سُنّی ریاست سے جوڑ ا جانا پیش نظر ہے۔یہ امریکی وزیرخارجہ کونڈا لیزارائس کے منصوبے میں ایک اہم پیش رفت کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ مارچ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد، اس وقت اپنا منصوبہ بنا رہی تھیں جب بش انتظامیہ ایران سے بات چیت شروع کر رہی تھی۔
۴- عراقی کردستان بننے کا مطلب جنوبی عراق کی شیعہ آبادی اور علاقے میں ایک اور شیعہ ریاست وجود میں لانا پیش نظر ہے اور عراقی کرد اور عراقی شیعہ آبادی کے درمیان ایک سُنّی ریاست وجود میں لانے کا منصوبہ ہے۔
۵- نئی شیعہ ریاست جنوب میں کویت، الخبر، الدمام اور ظہران کے تیل کے ذخائر والے علاقوں اور بحرین اور شاید قطر پر بھی بنانا پیش نظر ہے۔
انھوں نے ایران کو خلیج کے مشرقی دہانے سے اُٹھا کر خلیج کے مغربی دھانے سلفی عرب تک پہنچا دیا ہے۔ غالباً یہ ایرانی کردستان کا خراج ہو، مگر یہ عربوں کے پہلو میں ایک زہریلا کانٹا ہوگا جس کو استعماری طاقتیں عرب ایران تعلقات کو کشیدہ بنانے کے لیے ہمیشہ استعمال کرتی رہیں گی۔ یہ استعماری طاقتوں کا پرانا حربہ ہے، جس کے ذریعے وہ کشیدگی پیدا کرکے اپنے ہتھیار فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ اس پس منظر میں ایران اور عربوں کو اس طرف سے بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
۶- وہابستان کے نام سے امریکا ایک نئی ریاست بنانے میں دل چسپی ظاہر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ شاید پٹرول، کپاس اور ساحلِ سمندر سے محروم ہوگی۔
۷- گذشتہ کچھ عرصہ امریکا نے یمن کو متحد رکھا تھا مگر جدید نقشے کے مطابق نہ صرف امریکا، برطانیہ حوثیوں اور علی صالح کو عبدربہ ھادی کے برابر کا درجہ دینے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ اقوامِ متحدہ بھی امریکا، برطانیہ اور حوثیوں کے ساتھ علی الاعلان ہوگئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مستقبل قریب میں کویت یا عمان میں منعقد ہونے والی بات چیت میں دائمی جنگ بندی کا جو شوشہ چھوڑا جا رہا ہے، اس کا اصل مقصد شمالی یمن میں زیدی ریاست کا قیام تو نہیں ہے؟ یہ اندیشہ لفظ ’دائمی جنگ بندی‘ سے پیدا ہو رہا ہے، جس کا مطلب بات چیت کو طول دینا اور وقتی سرحدوں کو دائمی سرحدوں میں بدلنا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور ۵+۱ نے مل جل کر نہ صرف نقشے پر اتفاق کرلیا ہے بلکہ اس کو نافذ کرکے اس کے سیاسی، بین الاقوامی ماحول کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، روس اور چین کے ساتھ بھی مشاورت کی جارہی ہے۔
باخبر حلقے کہتے ہیں کہ یہ ہے وہ اصل راز جو ساڑھے بارہ برس پر محیط اس بات چیت میں چھپا ہوا تھا، جو ایران اور ۵+۱ کے درمیان ہوتی رہی۔ عالمِ اسلام میں شاید اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہو کہ اسرائیل اب اُردن کے ساتھ اپنی حدود کو آخری حدود تسلیم کرنے پرراضی ہوگیا ہے۔ گویا اب نیل سے فرات تک اسرائیل کا خواب انتہاپسند نیتن یاہو کے ہاتھوں دفن کیا جا رہاہے جیساکہ نیل سے شروع ہونے والے اسرائیل کو انتہاپسند مناحیم بیگن اور انتہاپسند گولڈامایئر نے دفن کیا تھا۔
یہ اعلان نیتن یاہو کے ہاتھوں اُردن کی سرحد سے لے کر ۲۹کلومیٹر طویل دیوار بنانے کے اعلان میں پوشیدہ ہے۔ یہ سب جمہوری ملک ہیں۔ اس لیے ان کے منصوبے اور ارادے کسی نہ کسی طریقے سے اور کسی نہ کسی وجہ سے اخبارات اور ٹی وی پر آجاتے ہیں۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ بحث مباحثہ کئی کئی برس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ داخلی اور خارجی پالیسی کا جزو بن جاتے ہیں اور ان کو نافذ کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔
عالمِ اسلام چونکہتعلیمی لحاظ سے پس ماندہ ہے، پھر سطحیت اور آسان کوشی اس امر کو دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے۔غیراخلاقی، غیرقانونی ریاست اسرائیل کا وجود ’کھلی‘ اور ’علی الاعلان‘ سازش کا نتیجہ ہے۔ شرقِ اوسط کی تقسیم سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزا رائس کے منصوبے کے تحت کرنے کی فضا بنائی جارہی ہے۔ ’شرقِ اوسط جدید‘ کی اصطلاح اسی خاتون نے ایک پریس کانفرنس کے دوران، جو تل ابیب میں جون ۲۰۰۶ء میں منعقد ہوئی استعمال کی تھی۔ پھر نومبر ۲۰۰۶ء میں گلوبل ریسرچ میں یہ تذکرہ شائع ہوا۔ اس میں ’جدید شرقِ اوسط‘ کا نقشہ بھی شائع کیا گیا تھا۔
اسی موضوع پر ایک تبصرہ رابن رائٹ کا نیویارک کے سنڈے ریویو میں ۲۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہوا۔اس میں ایک نقشہ بھی شائع ہوا ہے جس میں پانچ عرب ملکوں کو ۱۴ بنا دیا گیا ہے۔ مگر اس میں یمن کو دو حصوں میں ،جب کہ سعودی عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے دکھایا گیا ہے۔
امریکی حکومت کے منصوبہ ساز اس سُنّی ریاست کو شامی کردستان اور مجوزہ شامی ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جس طرح یمن زیدی اور شافعی یمنیوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت مارب میں سعودی، اماراتی، بحرینی، قطری فوجیں جمع ہیں مگر حرکت پذیر نہیں ہیں، جب کہ لحج کے سرحدی شہر کرش تک سعودی اتحاد کی فوجیں پہنچ کر رُک گئی ہیں اور تعز کو حوثی اور علی عبداللہ صالح کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اسی طرح کئی عرب مقتدر حلقوں کی طرف سے الجزیرہ ٹی وی پر اعتراف کیاجا رہا ہے کہ: ’’اسرائیل نے غزہ اور اُردن کے مغربی دہانے میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ یہ مغالطہ آرائی بھی اسی بڑے منصوبے کے لیے ذہنوں کو تیار کرنے کا پروپیگنڈا ہے۔ سازش کا رنگ بھرنے کے لیے یہ نقشہ طویل وقت چاہتا ہے، مگر ہوا کا رُخ یہی ہے۔ مستقبل کے امریکی نقشوں میں اسرائیل کی موجودہ حدودبتائی گئی ہیں۔ امریکی آقائوں کے اس فیصلے یا سوچ میں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں برابر کے شریک ہیں۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیا مسلم دنیا کی سیاسی، فوجی، فکری، تعلیمی، مذہبی اور ابلاغیاتی قیادت، امریکی سامراجیوں کی مرضی و منشا کو پورا کرنے میں مددگار بننا چاہتی ہے، یا دُوراندیشی اور سمجھ داری سے اس سازش کے تار و پود بکھیرنا چاہتی ہے؟