دسمبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

کتاب نما

| دسمبر ۲۰۱۵ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

اَلْوَلَاء وَلْبَرَاء فِی الْاِسْلَام  [اسلام میں دوستی اور دشمنی کا تصور]۔ تالیف: محمد بن سعید القحطانی ، ترجمہ: ابو احمد فرحان الٰہی۔ ناشر: تحریک تعمیر ملت،بی-۴۸، غلہ منڈی، بہاول پور ۔

شیخ محمد سعید القحطانی کی یہ تالیف ایسے زمانے میں منظر عام پر آئی ہے ،جب مسلم دنیا اندرونی اور بیرونی خطرات و خلفشار کا شکار ہے، اور ہر باشعور فرد کے ذہن میں سولات اٹھ رہے ہیں کہ اگر دو مسلمان گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں تو کیا کیا جائے ؟اگر کوئی مسلم ملک کسی ایسے ملک کا حلیف بن جائے جو اسلام دشمنی کے لیے معروف ہے تو اس کا حکم کیا ہو گا؟مسلمان کس کو دوست اور کس کو دشمن تصور کریں،محبت اور نفرت کی بنیاد کیا ہو ؟

فصل اول میں عقیدۂ توحید اور علامہ ابن القیمؒنے کفر کی اقسام سے جو بحث کی ہے، اس کا تذکرہ ہے۔فصل ثانی میں اللہ کے دوستوں اور شیطان کے دوستوں کے درمیان فطری عداوت کا بیان ہے ۔فصل ثالث میں اس تقسیم پر اہل سنت کا عقیدہ، اور فصل الرابع میں انبیاے کرام ؑکے  اسوۂ حسنہ کے تناظر میں موضوع کا جائزہ لیا گیا ہے ۔فصل الخامس اور فصل السادس میں مکہ اور مدینہ کے تناظر میں اللہ کے دوست اور دشمنوں کا تذکرہ ہے ۔بعد کے مضامین میں غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا رویہ ،دارلحرب کے احکام اور پھر دور حاضر میں مسلمانوں کے تعلقات پرگفتگو کی گئی ہے۔ مغربی سازشوں کاتذکرہ ہے اور بعض ان مسلمان مفکرین پر تنقید ہے جنھوںنے مغرب سے مرعوبیت کا اظہار کیا۔ آخر میں امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے باہمی اخوت پر زور دیتے ہوئے  اسلام دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ایک ایسے معاشرے کے قیام پرمتوجہ کیا گیا ہے، جو اسلام کے دورِ اول کی یاد تازہ کرد ے ۔

بعض مقامات پر مفہوم الجھ گیا ہے، مثلاً: ص۵۹ پر خوارج کے حوالے سے درج ہے: ’’اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا:تم انھیں جہاں پائو قتل کر ڈالو۔اگر وہ مجھے مل جائیں تو میں قوم عاد کی طرح ان کو قتل کروں گا‘‘۔ تاریخی طور پر خوارج کا ظہور حضرت علی ؓ کے دور میں ہوا۔اگر حدیث میں اس کا تذکرہ بطور کسی پیش گوئی یا علامت کے  طور پر ہے تو ضروری ہے کہ سیاق وسباق بیان کرنے کے بعد حدیث کے الفاظ نقل کیے جائیں ۔ یہ ایک اہم دعوتی مسئلہ ہے۔ایمان کا تقاضا ہے کہ شرک کے ساتھ مکمل دشمنی اور براء ت کا اظہار ہو، لیکن مشرک کو دائرۂ اسلام میں لانے کے لیے اس سے رابطہ ، تبادلۂ خیال اور اپنے اعلیٰ اخلاقی طرزِعمل سے اسے اسلام سے قریب لانا قرآن و سنت کا مطالبہ ہے۔

مصنف نے اس معاملے میں قدرے عدم توازن کا اظہار کیا ہے ۔ص ۱۶۶ پر کہا گیا ہے: ’’الثالث! جس سے مکمل عداوت وبُغض رکھا جائے گا، یعنی جوشخص جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں ،رسولوں اور یوم آخرت کا کفر کرتا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات میں اہل اسلام کے سوا کسی اور راستے پر چلتے ہوئے الحاد کا شکار ہوجائے، یا اہل بدعت اور خواہش پرستوں کے مسلک پر چل پڑے، یا دس نواقضِ اسلام میں سے کسی ایک کا مرتکب ہو ،تو ان تمام صورتوں میں یہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج متصور ہو گا ۔اس کے ساتھ من جملہ بُغض رکھنا واجب ہو جائے گاـ‘‘۔

جس قطعیت کے ساتھ کتاب میں بعض موضوعات پر اظہار ِ خیال کیا گیا ہے ،اس پر دعوتی نقطۂ نظر سے نظرثانی کی ضرورت ہے ۔شرک اور بدعت سے نفرت تقاضاے ایمان ہے، لیکن مشرک اور بدعتی کو حکمت و نرمی کے ساتھ قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریقے اور سنت کو سامنے رکھتے ہوئے دین سے قریب لانا اور ہدایت سے روشناس کرانا ایک فریضہ ہے ۔ فرعون سے زیادہ باغی اور کون ہوسکتا ہے، اس کے پاس حضرت موسٰی ؑاور حضرت ہارون ؑ کو بھیجتے وقت جو ہدایت کی گئی وہ جامع دستورِ دعوت ہے :  فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا(طٰہٰ ۲۰:۴۴) ’’اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا‘‘۔

عصر حاضر میں دعوت کاا بلاغ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم شرک والحاد سے مکمل بے تعلقی کے ساتھ مشرکین و ملحدین اور گمراہ افراد تک اپنی دعوت قول و عمل کے ساتھ لے کر پہنچیں، اور اپنی حکمت عملی سے انھیں جہنم سے کھینچ کر جنت کی طرف لانے میں کامیاب ہوں۔(ڈاکٹر انیس احمد)


پاکستان میری محبت،ڈاکٹر صفدر محمود۔ ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۵- شاہراہِ پاکستان (لوئر مال)، لاہور۔ صفحات: ۴۶۸۔ قیمت: ۹۹۵روپے۔

ڈاکٹر صفدر محمود دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’پاکستان، قائداعظم، تحریکِ پاکستان، علامہ اقبال اور پاکستان کی تاریخ میری پہلی اور سچی محبتیں ہیں، اور میں زندگی بھر ان محبتوں سے وفا کرنے کی کوششیں کرتا رہا‘‘۔ ۱۴۹مضامین (جن میں سے بعض نسبتاً مختصر ہیں یا کالم) پر مشتمل ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ مجموعہ،ان کی مذکورہ بالا کوششوں کا ثمر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ موضوعات: ’’میرے قلب ِ ذہن کے نہایت قریب‘‘ تھے۔ کتاب کی جملہ تحریروں کو چھے حصوں(قائداعظم، علامہ اقبال، سقوطِ مشرقی پاکستان، مشاہیر، قیامِ پاکستان، متفرقات) میں تقسیم کر کے پیش کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ قائداعظم پر ۵۱ تحریروں پر مشتمل ہے اور سب سے طویل۔ گذشتہ ماہ انھی صفحات میں ہم نے ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب اقبال، جناح اور پاکستان کا مطالعہ پیش کیا تھا۔ اس کتاب کا بنیادی اور بڑا موضوع بھی قائداعظم علیہ رحمۃ تھے۔ تیسرا حصہ ’سقوطِ مشرقی پاکستان‘ ۱۵ تحریروں پر مشتمل ہے۔ اس موضوع پر کئی برس پہلے وہ ایک پوری کتاب (پاکستان کیسے ٹوٹا؟) لکھ چکے ہیں۔ مشاہیر کو انھوں نے ایک پاکستانی اور مسلمان کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ایک ماہر اور زیرک مؤرخ اور دانش ور ہیں، جن کے خلوص اور راست فکری میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ انھوں نے اپنوں کی خوبیوں کے ساتھ ان کی کمزوریوں کی نشان دہی بھی کی ہے اور غیروں کی خرابیوں کے ساتھ ان کی خوبیوں کا ذکر بھی کیا ہے، یعنی مثبت اور منفی دونوں پہلو بڑے مہذب اور معتدل انداز سے پیش کیے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان مضامین میں آپ کو ’’تحقیق اور غوروفکر کی روشنی بھی ملے گی اور بعض ایسے حقائق کی جھلک بھی، جن کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے جن موضوعات کے ساتھ علمی زندگی بسر کی ہے، ان کے بارے میں نئے نکات و حقائق کا انکشاف اُنھیں ہی روا ہے۔ ان مضامین سے خود ڈاکٹر صفدرمحمود کے ذاتی احوال، اور تحقیق و تفتیش کے لیے  افتادِ طبع کا بھی خاصی حد تک اندازہ ہوتا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


روشن آبگینے، مرتبہ: روبینہ فرید۔ ملنے کے پتے: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱، مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔صفحات: ۳۴۴۔ قیمت: ۴۰۰ر وپے

ـاس کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آج دین کے کارِعظیم سے وابستہ خواتین یہ سبق حاصل کریں کہ جذبے کو جنوں کیسے بنایا جاتا ہے؟ رکاوٹوں کے درمیان راستہ کیسے تلاش کیا جاتا ہے؟ نصب العین کو مقصد بنا کر اوقات کی تقسیم کس طرح کی جاتی ہے ؟

کتاب میں جماعت اسلامی کی ۲۲ خواتین ارکان کے حالات اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے دی گئی ہدایت کے بعد یہ جماعت اسلامی کے نظام تربیت اور اجتماعی ماحول کی برکت ہی سے ممکن ہو سکا، کہ یہ خواتین اس کارِعظیم کے لیے اس لگن کے ساتھ مصروفِ کار رہیں۔ ڈاکٹر رخسانہ جبیں کے بقول: ’’ اگرچہ وقت کے یہی ۲۴گھنٹے ان خواتین کے پاس بھی تھے، جو ہمارے پاس ہیں لیکن وہ ان کا بہترین استعمال کر کے ہم سب کے لیے رول ماڈل بن گئیں‘‘ ۔ ایک کتاب میں سبھی محسن خواتین کا ذکر نہیں ہوسکتا، اس لیے بہت سے اہم نام رہ بھی گئے ہیں، ان شاء اللہ آیندہ مجموعوں میں آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آج کی خواتین کارکنوں اور قائدات کو ان اچھے نمونوں پر عمل کرنے اور زندگیاں ان کی طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!  (عارفہ اقبال)