اس وقت ملک و ملّت کے تقریباً ہر طبقے میں، اور ہر میدانِ کار میں چند بنیادی مسائل پر بحث و گفتگو کا سلسلہ گرم ہے۔ نجی محفلوں، سیاسی اجتماعات اور اخبارات و رسائل کے صفحات سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوانوں تک ہر جگہ یہی مسائل زیربحث ہیں: امن و امان کی زبوں حالی، معاشی بحران، علاقائی عصبیت کی زہرناکی، فرقہ واریت کے عفریت کی کارفرمائیاں، لوٹ کھسوٹ کی ہوش ربا داستانیں، خارجہ سیاست میں پاکستان کی آزمایش، بھارت کے جارحانہ عزائم کی افزونی، امریکا کی بے وفائیاں اور اندورنی قلابازیاں و ریشہ دوانیاں سرفہرست ہیں۔
اس پس منظر میں تحریکِ اسلامی نے قوم اور اس کی قیادت کو یہ سوچنے کی دعوت دی ہے کہ ان مسائل کے حقیقی اور دیرپا حل کے لیے جس فکرونظر کے انقلاب اور جس مضبوط اور ہمہ گیر ملّی اقدام کی ضرورت ہے، وہ نفاذِ شریعت ہے،مگر بدقسمتی سے ہماری سیاسی اور انتظامی قیادتوں نے اس مسئلے کو ہمیشہ ایک متنازع مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ساری توجہ شریعت کی کلید سے زندگی کے مسائل حل کرنے سے ہٹ کر سیاسی اور قانونی موشگافیوں ہی پر نہیں، بلکہ نیتوں کے فتور اور انفرادی اور گروہی اقتدار کی شرم ناک جنگ پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یہ مقتدر طبقہ جو خواہ اپنی تعداد اور عوامی بنیاد کے اعتبار سے کتنا ہی قلیل اور غیرثقہ کیوں نہ ہو، مگر سیاسی اثرات، ذرائع ابلاغ میں اپنی قوت اور بیرونی تائید و معاونت کے اعتبار سے بڑا زورآور ہے، کھل کر اسلام، اسلامی ریاست، شریعت کی بالادستی اور اجتماعی زندگی میں دین کے کردار ہی پر حملہ آور ہے۔
ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس شوروغوغا میں اس بنیادی مسئلے کو گم ہوجانے سے بچایا جائے۔ ہر جماعتی، گروہی اور ذاتی اختلاف، مفاد اور تعصب سے بالا ہوکر نفاذِ شریعت کی حقیقت کو سمجھا جائے اوراسے حقیقت بنانے کے لیے جس طرزِ فکر، طریق کار اور عملی اقدام کی ضرورت ہے، اس کی نشان دہی کی جائے تاکہ شریعت، جو نام ہے دین اسلام اور اس کے دیے ہوئے طرزِ فکروعمل کا، اور جس کی امتیازی خصوصیت ہی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ منزلِ مقصود تک لے جانے والا (حنیفیہ) ،نرمی اور آسانی پیدا کرنے والا (سمحہ)، سہولت بخش (سہلہ)، منور، تابناک (بیضائ)، اور اتنا واضح ہے کہ اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے (لیلھا کنھارھا)، عملاً نافذ ہو۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم ان چند بنیادی غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کی تصحیح کرنا چاہتے ہیں جو اس بحث میں بڑے بڑے جغادری اور بااثر افراد کی طرف سے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں۔
سب سے افسوس ناک اور باغیانہ رویہ ملک کی سیکولر اور غیرمسلم لابی کا ہے۔ یہ لابی کھل کر اسلامی ریاست اور شریعت کی بالادستی کے خلاف محاذآرائی میں پیش پیش ہے اور بڑے تند اور تلخ انداز میں جارحانہ طور پر حملہ آور ہے۔ اس میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کا نام لینے والے منظم گروہ اور ایک وہ گروہ بھی شامل ہے جو اپنے آپ کو ’دین کی جدید تعبیر‘ کا حق دار قرار دے کر، نئی نئی موشگافیاں پھیلاتا اور لمحہ بہ لمحہ موقف تبدیل کرتا دکھائی دیتا ہے (اس گروہ میں اور منکرینِ سنت میں بس دو چار ہاتھ کا فرق ہے)۔ یہ سبھی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب نے کھل کر مذموم لبرلزم سے نسبت جوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں حقوقِ انسانی کے نام پر ہنگامہ برپا کرنے والا پورا طائفہ ہر طرف اپنی توپیں داغ رہا ہے اور مسلمانوں کو ان کے اپنے ملک میں ان کی اپنی شریعت نافذ کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور بے سروپا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ اور پالیسی ساز، جمہوریت اور اکثریت سے فیصلوں کے سارے دعوئوں کے اصول کو تسلیم کرنے کا دم بھرنے والے اس معمولی سی اقلیت کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں اور اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
ایک دوسرا طبقہ ذرا مختلف انداز میں کرم فرما ہوا ہے۔ اسے کھل کر سیکولرزم، لبرلزم اور لادینیت کی بات کرنے کی تو ہمت اور جرأت نہیں۔ اس لیے اس نے ایک خیالی خطرے کا ہوّا اُٹھایا ہے، یعنی اس کا نشانہ نام نہاد مذہبی پیشوائیت، تھیوکریسی اور ’مُلّاکا اسلام‘ ہے اور ’اقبال اور قائداعظم کے اسلام‘ کا نام لے کر یہ نفاذِ شریعت کی راہ کھوٹی کرنا چاہتا ہے۔
اندریں حالات ملک کے عوام اور اس کی اسلامی قیادت کو اصل سوال___ یعنی شریعت کی بالادستی کے قیام کی تحریک کو، خواہ وہ کسی بھی سمت سے آئے اور کسی بھی شکل میں ہو، تقویت پہنچانے اور اس مسئلے کو دستوری اور قانونی اعتبار سے ایک بار مکمل طور پر طے کرا لینے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اور تحریکِ پاکستان کے حقیقی مقاصد کو پورا کرنا اور ان قربانیوں کا حق ادا کرنا ہے جو پاکستان کو دورِحاضر میں اسلام کی حقیقی تجربہ گاہ بنانے کے لیے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں نے دی تھیں اور جس کے لیے تحریک اسلامی نے ۱۹۴۸ء میں مطالبہ نظامِ اسلام کی آواز بلند کی اور اس دن سے لے کر آج تک شریعت کی بالادستی اور دین حق کی اقامت کے لیے جدوجہد کی ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے بندے کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے مالک و آقا اور رب کو تسلیم کرے یا نہ کرے اور اپنے لیے اللہ کی بندگی یا اس سے بغاوت کا راستہ اختیار کرے (اور یہی معنی ہیں: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی ضمانت کے) تو بلاشبہہ ہم یا کوئی مسلمان ملک انسانوں کو ان کے اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔لیکن دو باتیں صاف ہونے چاہییں:
o جہاں کفر اور انکار کی راہ اختیار کرنے والوں کو اپنے ذاتی عقیدے اور عمل کی آزادی کا اختیار حاصل ہے، وہاں انھیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو، جو اپنے عقیدے اور ایمان کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی بالادستی کی بنیاد پر استوار کرنا چاہتے ہیں، اس عمل سے روکیں اور اس کے لیے بیرونی، سیاسی اور تہذیبی قوتوں کی معاونت سے زورآوری کا ہر حربہ استعمال کریں۔ سیکولر لابی جو دوسروں کو ’مذہبی فسطائیت‘ ، ’انتہاپسندی‘ اور ’عدم برداشت وغیرہ کا طعنہ دیتی ہے، خود بدترین ’سیکولر فسطائیت‘ کی مرتکب ہورہی ہے۔ اس محدود اقلیت کو، اپنے سارے اثرورسوخ اور وسائل ابلاغ پر قدرت کے باوجود، یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے روکے۔ ان حضرات کو اپنی بات پر قائم رہنے اور اس کے اظہار کی آزادی کا حق ہے اور ہم اس کا دفاع کریں گے۔ تاہم، دلیل اور شائستگی کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنی بات کہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر وہ اس دائرے سے باہر نکلتے ہیں تو خود پاکستان میں ان کی تحدید اور گرفت کے لیے قوانین موجود ہیں۔ لہٰذا انھیں اپنی راے اور ترجیحات کو ملّت اسلامیہ پاکستان کی عظیم اکثریت پر مسلط کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ جمہوریت کو اصل خطرہ اس آمرانہ اور جارحانہ ذہنیت سے ہے اور اسے قابو میں رکھنا خود جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔
خود مسلم معاشرے میں جو کمزوریاں اور نظریاتی تنوع بہت سے تاریخی اسباب کی بناپر پیدا ہوگیا ہے اس کو برداشت کرنا ضروری ہے۔ افہام و تفہیم، تعلیم و تعلّم اور بحث و مباحثہ اور مکالمے کے ذریعے مختلف علیہ اور مختلف فیہ کا تعین ہوسکتا ہے۔ اتفاق کے وسیع دائرے میں تعاون ہو اور اختلاف کا احترام بھی اصول کے معاملات میں یکسوئی اور استقامت کی طرح ضروری سمجھا جائے۔ مسلم معاشرہ آزادی اور رواداری کی بنیاد پر وجود میں آتا اور ترقی کرتا ہے۔ کثرت میں وحدت اور حدود اللہ کے دائرے میں تنوع اس کی امتیازی شان ہے۔ اس کی مثال اس باغ کی سی ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوں۔
سارے اختلافات کے باوجود نرمی اور توسع ہمارا شعار رہا ہے اور آج بھی اسی میں بقا اور ترقی کا راز مضمر ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جن چیزوں پر عظیم اکثریت یکسو ہے، جن کو وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہے اور جن پر اپنی اُخروی زندگی کی کامیابی کا یقین رکھتی ہے، ان کے بارے میں محض کسی اختلافی نقطۂ نظر کے دبائو میں عمل نہ کیا جائے۔ جس طرح نظریاتی اقلیت کے حقوق ہیں، اسی طرح نظریاتی اکثریت کے بھی حقوق ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔
o یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان ہونے اور قرآن و سنت پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ ایک شخص اسلام قبول کرتا ہے یا نہیں، یہاں تک تو اس کو آزادی حاصل ہے، لیکن اسلام کو قبول کرنا ایک ذمہ داری ہے۔ ہر ذمہ داری کے کچھ بنیادی تقاضے ہوتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انسان کی یہ آزادی کچھ میدانوں میں محدود ہوجاتی ہے، اس لیے کہ اسلام نام ہی اس عہد کا ہے کہ انسان اللہ کو اپنا رب، خاتم الانبیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول، ہادی، آقا اور رہبر اور اسلام کو اپنا دین اور طریق زندگی تسلیم کرلے اور اس پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ ’جزوی مسلمان‘ یا ’نیم مسلمان‘ کا کوئی تصور دائرۂ اسلام میں نہیں اور عقل بھی اسے گوارا نہیں کرتی۔ قرآن کریم نے صاف صاف فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ ۲:۲۰۸) اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائو پورے کے پورے، اور شیطان کے طریقے پر عمل پیرا نہ ہو۔
اسلام کی کچھ تعلیمات اور احکام کو ماننا اور کچھ کا انکار کر دینا، اللہ کی اطاعت اور بندگی کا راستہ نہیں ہے۔ اسلام کے شعوری اقرار کے بعد بندہ اپنی آزادی کو اللہ کی حدود کا پابند کرلیتا ہے اور پھر صرف ان حدود کے دائرے میں اپنے اختیار کو استعمال کرتا ہے۔ یہ تحدید وہ اپنی مرضی سے قبول کرتا ہے، لیکن اس تحدید کے بعد یہ حق اسے نہیں رہتا کہ جس چیز کو چاہے اختیار کرے اور جسے چاہے رد کردے۔ یہ آزادی نہیں تناقض، دو رنگی اور منافقت ہے جس کی اسلام ہی نہیں کسی بھی نظام میں گنجایش نہیں ہوسکتی اور جس کے نتیجے میں بجز کش مکش اور صلاحیتوں اور وسائل کے ضیاع کے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ قرآنِ کریم کا فیصلہ ہے:
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (یوسف ۱۲:۴۰) فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ط (اعراف ۷:۳) لوگو، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o(المائدہ ۵:۴۴) اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا o(النساء ۴:۶۵) نہیں (اے محمدؐ) تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں۔
یہ ہے سچے مسلمانوں کی روش۔ اسی کا تقاضا ہے کہ شریعت کو بالادستی حاصل ہو۔ ماننے والوں کے لیے صحیح راستہ یہی ہے اور نہ ماننے والوں کو حق نہیں کہ ماننے والوں کو اپنے ایمان اور عقیدے کے مطابق اپنی زندگی کی شاہراہ تعمیر کرنے سے روکیں۔
یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہیے کہ اسلام ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اللہ کا بھیجا ہوا دین اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دکھایا ہوا راستہ ہے۔ یہ مکمل نظامِ حیات ہے اور اس میں زندگی کے تمام مسائل اور معاملات کا حل بھی موجود ہے اور انسانی معاشرے میں تغیر و تبدل اور ترقی و ارتقا کی جو حقیقی ضروریات ہیں ان کا بھی پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس فریم ورک میں اطاعت، آزادی، اختلاف اور تنوع ہر ایک کا اپنا مقام ہے لیکن یہ سب کچھ اس کے اپنے اصول اور ضابطوں کے مطابق ہے۔ جہاں اسلام زندگی کے بنیادی معاملات کے بارے میں واضح اور دوٹوک راہ نمائی دیتا ہے وہیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے لیے بھی خود اپنے نظام میں کافی و شافی گنجایش اور مواقع رکھتا ہے۔ البتہ وہ کسی ایسی چیز کو قبول نہیں کرتا، جو اس کے نظامِ اقدار کی ضد اور نفی کرنے والی یا ان کو مجروح کرنے والی ہو۔ خُذْ مَا صَفَا وَدَع مَا کَدَر (جو صحیح اور صحت مند ہے اسے قبول کرلو اور جو نامواقف ہے اسے ترک کر دو) کا اصول اس عمل کو ہمیشہ جاری و ساری رکھتا ہے۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدہ۵:۳) کے اعلان کے بعد زمان و مکاں کے تمام تغیرات اور وسعتوں کے باوجود آج تک اسلام ایک ہی رہا ہے۔نہ عربوں کا اسلام کوئی الگ ہے اور نہ پاکستان، ایران، ترکی، یورپ، امریکا اور افریقہ کے مسلمانوں کا۔ اسی طرح پہلی صدی کا اسلام، چوتھی صدی کا اسلام اور بیسویں صدی کا اسلام اپنا کوئی الگ الگ وجود نہیں رکھتے۔ اسلام تو ایک ہی رواں دواں دریا کے ما نند ہے، جس میں پانی کے نئے دھارے ملتے بھی رہتے ہیں اور اس کی نوعیت اور سمت پھر بھی ایک جیسی ہی رہتی ہے خواہ ابوحنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل، مالک، غزالی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ کا تصورِ اسلام ہو یا اقبال اور قائداعظم کا تصور۔ یہ سب اسی ایک اسلام کے علَم بردار تھے اور قرآن و سنت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے باہر یا اس میں غیراسلام کی آمیزش کے رُونما ہونے والے کسی نظرثانی شدہ اسلام کے نہ قائل تھے اور نہ داعی۔ ان پر اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ ان کے اسلام اور مُلّا کے نام نہاد اسلام کو دست و گریباں کیا جائے۔ اور اقبال اور قائداعظم کا نام لے کر اللہ اور اس کے رسولؐ کی شریعت سے فرار کی راہیں تلاش کی جائیں۔ علامہ اقبال کی تو پوری زندگی کا مشن اور پیغام ہی یہ تھا کہ:
علمِ حق غیر از شریعت ہیچ نیست
اصلِ سُنت جز محبت ہیچ نیست
ملّت از آئینِ حق گیرد نظام
از نظامِ محکمے خیزد دوام
قدرت اندر علم او پیدا ستے
ہم عصا و ہم یدِبیضا ستے
با تو گویم سِّرِ اسلام است شرع
شرع آغاز است و انجام است شرع
ہست دینِ مصطفیٰؐ دینِ حیات
شرعِ او تفسیرِ آئینِ حیات
تا شعارِ مصطفٰےؐ از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت
(رموزِ بے خودی)
سچا علم، شریعت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، اور سنت ِ رسولؐ کی بنیاد محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ملّت کو بھی شریعت ہی سے نظام حاصل ہوتا ہے اور پختہ نظام اسے دوام عطا کرتا ہے۔
شریعت کے علم ہی سے (عمل پر) قدرت حاصل ہوتی ہے: یہ عصا (قوت کا نشان) اور یدِبیضا (نورِ ہدایت) بھی حاصل ہوتا ہے۔
میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام کا راز ہے ہی ’شرع‘ کا آغاز اور ’شرع‘ ہی کا انجام۔
حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہی دینِ فطرت ہے، اور شرعِ محمدیؐ آئینِ حیات کی تفسیر ہے۔
جب حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا شعار (یعنی شریعت) ہاتھ سے نکل گیا تو قوم رمزِبقا سے بھی محروم ہوگئی۔
رہے قائداعظمؒ اور ان کے حقیقی رفقا (نواب زادہ لیاقت علی خاں، نواب اسماعیل خاں، بہادر یار جنگ، سردار عبدالرب نشتر، مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ) تو تحریکِ پاکستان کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد کم ز کم ڈیڑھ دو سو ایسے واضح بیانات تو صرف قائداعظمؒ کے موجود ہیں، جن میں اسلام کو اس جدوجہد کی منزل اور قرآن، اسوئہ رسولؐ، اسلامی قوانین اور اسلامی تہذیب و تمدن کی بالادستی کے قیام کو پاکستان کا مشن اور ہدف قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کی دو ایک تقاریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ان کے تصورات کی غلط تصویر پیش کرنے کی مذموم سعی کی جاتی ہے۔ یہ روش ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہے اور تمام حقائق کے سامنے آجانے کے باوجود ایک گروہ وہی رٹ لگائے جا رہا ہے ۔ اس سے خود اس گروہ کی بدنیتی بے نقاب ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان حضرات کا مقصد قائداعظم کے پورے تصور کو پیش کرنا نہیں، بلکہ اپنے مقاصد کے لیے چند جملوں کو استعمال کرنا ہے۔ ایسی صریح بددیانتی پر اُٹھائی جانے والی دیوار ریت کی دیوار ہی ہوسکتی ہے جو کسی تعمیر میں کام نہیں آسکتی۔
وہ کون سی چٹان ہے جس پر ملّت کی عمارت قائم ہے اور وہ کون سا لنگر ہے جو سفینۂ ملّی کو تھامے ہوئے ہے؟ مسلم انڈیا کے سفینۂ ملّی کا مستحکم لنگر عظیم المرتبت کتاب قرآنِ مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے ویسے ہماری یہ وحدت بھی بڑھتی جائے گی۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسولؐ، ایک قبلہ اور ایک قوم!
پاکستان کا مطلب صرف آزادی و حُریت کا حصول نہیں ہے بلکہ اسلامی نظریے کا تحفظ بھی ہے جس کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ یہ قیمتی تحفے اور بیش بہا خزانے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔
بہ جز ان لوگوں کے جو بے خبر ہیں ہرشخص آگاہ ہے کہ قرآنِ مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر و بالاتر اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی بھی، معاشی و معاشرتی بھی، دیوانی بھی، فوج داری بھی، تجارتی بھی، عدالتی بھی اور تعزیری بھی___ یہ ضابطہ زندگی کی ایک ایک چیز کو باقاعدگی اور ترتیب عطا کرتا ہے۔
میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات ان سنہری قواعد اور زریں احکام کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے رہن سہن اور معاملاتِ زندگی کو درست رکھنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیے ہیں۔ آیئے! ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورت پر استوار کریں۔ خداے قادر و مطلق نے ہمیں سکھایا ہے کہ مملکت کے تمام اُمور میں ہمارے فیصلے بحث و تمحیص اور مشاورت کی راہ نمائی میں ہوں۔
ہمیں بتایا جائے کہ قرآن و سنت کی واضح شاہراہ اور اسلام کے ضابطۂ قانون سے ہٹ کر اقبالؒ اور قائداعظمؒ کا اسلام کون سا ہے؟ یہ ان دونوں بزرگوں پر تہمت اور خلط مبحث کی ایک شرم ناک کوشش ہے۔ شریعت میں کوئی ابہام نہیں اور ہرمسلمان اس شریعت کا علَم بردار اور طالب ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی امانت کی شکل میں دی ہے۔ شریعت جو ہماری آزادی ، دنیوی فلاح اور اُخروی کامیابی کی ضامن ہے، جو تمام انبیا کی سنت رہی ہے اور جسے اپنی آخری اور مکمل شکل میں محمد عربیؐ نے انسانیت تک پہنچایا اور آج جس کی امین اُمت مسلمہ ہے۔ کامیاب اب وہی ہوگا جو اس راستے پر گامزن ہو:
(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (اعراف ۷:۱۵۷)
شریعت اور اس کے نفاذ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کی نوعیت اور حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور جو فرق شریعت یا اسلامی قانون اور مغربی قانون میں ہے، اسے نظر میں رکھا جائے۔ لغت کے اعتبار سے ’شرع‘ اور ’شریعت‘ کے معنی راستے کے ہیں۔ پرانے زمانے میں گھریلو استعمال کے لیے پانی، محلے یا دیہات کے کنویں، تالاب، نہر یا چشمے وغیرہ سے لایا جاتا تھا اور انسانوں اور مویشیوں کے باربار وہاں آنے جانے سے ایک ایسا راستہ بن جاتا تھا، جو سیدھا، مختصر، کشادہ، واضح اور صاف ہوتا تھا۔ اسی راستے کو عربی لغت میں شریعت کہا جاتا تھا۔ گویا وہ سیدھا، کشادہ اور واضح راستہ جو کسی بستی کے لوگوں کو پانی کے ذخیرے اور مصدر و ماخذ تک پہنچا دے۔
اصطلاحی اعتبار سے ’شریعت‘ سے مراد زندگی گزارنے کا وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانوں کے لیے مقرر فرمایا اور جو دین کے احکام اور اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور انسانی زندگی کی ان اصولوں کے مطابق عملی تشکیل کرنے کا واحد راستہ ہے۔
قرآن و سنت اس شریعت کے اصل اور بنیادی ماخذ ہیں۔ اس کے ایک حصے کا تعلق عقائد، افکار اور احساسات سے ہے اور دوسرے کا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے۔ فقہ یا اسلامی قانون، شریعت کے اس حصے کا نام ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اسلامی تشکیل سے بحث کرتا ہے۔ فقہاے کرام ’فقہ‘ کی یہی تعریف کرتے ہیں: ’’فقہ وہ علم ہے، جس کے ذریعے شریعت کے عملی احکام کو ان کے تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے‘‘۔
شریعت انسان کی عملی زندگی کے کم و بیش ہر پہلو کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس کے احکام جہاں ایک طرف امرونہی، حلال و حرام، مستحب اور مکروہ کی نشان دہی کرتے ہیں، وہیں حدود کی اس صف بندی کے ساتھ ساتھ مباح اور انسانی آزادی کے میدان کو بھی واضح اور نمایاں کردیتے ہیں۔ اور یہی وہ میدان ہے جس میں ہردور میں اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے نئی قانون سازی کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔
شریعت کے صرف ایک حصے کا نفاذ ہر فرد اور ادارہ اپنی ذاتی مرضی اور پیش قدمی (initiative) کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس طرح ایک خودکار نظام (self-executing system) کے ذریعے شریعت مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رچی بسی ہے۔ عبادات و مناکحات میں معاملات کا ایک بڑا حصہ آجاتاہے۔ لیکن شریعت کا ایک حصہ وہ ہے، جسے نافذ کرنے کے لیے معاشرے اور ریاست کی اجتماعی قوت درکار ہوتی ہے۔ یہی وہ حصہ ہے جس کے لیے آج کے دور میں دستور، قانون، ریاستی مشینری اور ضابطۂ کار اور عدالتی نظام کو شریعت کے مقاصد اور احکام کا خادم اور کارندہ بنانا ضروری ہے۔
اسلامی قانون بیک وقت ایک خالص مذہبی، نظریاتی اور روحانی قانون ہی نہیں بلکہ ملکی اور عدالتی قانون بھی ہے۔ دوسری تہذیبوں اور مذاہب میں مذہبی قانون اور ملکی اور عدالتی قانون میں فرق کیا گیا ہے۔ مذہبی قانون بالعموم فرد کا ذاتی معاملہ سمجھا گیا ہے اور اس کے نفاذ کو بھی اس کے فہم و ارادے اور ضمیر پر چھوڑ دیا گیا۔ ریاستی اور عدالتی قانون صرف دنیاوی معاملات سے متعلق رہا اور اس کا انحصار رسم و رواج، بادشاہ کے حکم یا کسی بالاتر مقتدر یا مقننہ کے فیصلے اور عدالت کے فیصلے کی نظیر پر رہا۔ اسلامی قانون میں وحدت، ہم آہنگی اور ہمہ گیری ہے۔ یہ قانون محض عبادات اور اللہ اور بندے کے تعلق تک محدود نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کا تعلق انسانوں سے اور فرد کا معاشرے، اجتماع اور ریاست سے تعلق بھی اس کے دائرۂ کار میں شامل ہے۔ اسلام کا قانون شخصی، معاشی، دیوانی، تعزیری، بین الاقوامی تمام دائروں پر محیط ہے۔ یہ عبادات سے لے کر خاندانی زندگی، معاشی تگ و دو، عمرانی معاملات، جرم و سزا، جنگ و صلح، غرض ان سب کی شیرازہ بندی کرتا ہے۔
ایک مذہبی قانون ہونے کی حیثیت سے یہ ہرمسلمان کے ایمان کا معاملہ ہے اور اس پر عمل اس کے ایمان اور عقیدے کا تقاضا ہے۔ اس لیے قانون محض جبر اور قوتِ قاہرہ کی علامت نہیں، بلکہ ایمان کا تقاضا، دل کی پکار، زندگی کی آرزو اور اجتماعی زندگی کا ادب بن جاتا ہے۔ اس کا نفاذ صرف ڈنڈے اور پولیس کے ذریعے نہیں، بلکہ ضمیر کی آمادگی اور رب کی طاعت گزاری کے جذبے سے عبارت ہے۔ بلاشبہہ پولیس اور عدالت کا بھی ایک مقام ہے، لیکن جو چیز اسلام کے قانون کو منفرد درجہ دیتی ہے، وہ اندر کی آواز اور باہر کے قانون کی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کو تقویت دینے کی صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون پر پولیس کے پہرے اور مخبروں کے خوف سے کہیں زیادہ ضمیر کی خلش اور آخرت کی کامیابی کے جذبے سے عمل ہوا ہے۔ رات کی تاریکیوں اور تنہائوں میں بھی اس پر عمل درآمد کا جذبہ ویسا ہی قوی ہوتا ہے جیسا دن کی روشنی اور محتسب کی موجودگی میں۔ اور جرم کے ارتکاب کے بعد توبہ ہی نہیں بلکہ پاکی کے حصول کے لیے ’مجرم‘ خود سزا کا طالب بن جاتا ہے۔
جہاں اسلامی قانون کی یہ روح ہے، وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شریعت اپنے نفاذ کو محض ضمیر اور فرد کے ذاتی جذبے پر نہیں چھوڑتی، بلکہ انسانی فطرت اور معاشرے کی ضروریات کو سامنے رکھ کر ریاست کی شیرازہ بندی کے واضح احکام دیتی ہے، نظامِ امر قائم کرتی ہے، انتظامی مشینری وجود میں لاتی ہے، پولیس اور عدالت کے نظام کو قائم کرتی ہے ،اور اس طرح اندرونی قوت اور جذبے کی تکمیل بیرونی قوت اور نظام کے ذریعے کرتی ہے۔ ریاست اپنے تمام اداروں کے ذریعے ایک طرف تلقین، تعلیم اور بہتر نمونے کا اہتمام کرتی ہے تو دوسری طرف ریاستی قوت اور عدالتی اداروں کے ذریعے قانون توڑنے والوں کی گرفت اور معاشرے کو جرم اور ظلم سے پاک کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ دین اور ریاست ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن جاتے ہیں۔ سیکولر ریاست اور اس کے تمام ادارے دین کی رہنمائی سے آزاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دین ریاست اور معاشرے کے وسائل سے محروم رہتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے حضرت عثمانؓ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ:
اسلام ایک بنیاد ہے جس پر مسلمانوں کی زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے اور حکومت ایک نگہبان اور محافظ ہے۔ اگر کسی عمارت کی بنیاد نہ ہو تو وہ کمزور رہتی ہے اور گر جاتی ہے، اور اگر کسی عمارت کا کوئی محافظ اور نگہبان نہ ہو تو وہ ضائع ہوجاتی ہے، اس کو لوٹ لیا جاتا ہے یا اس پر دوسرے قابض ہوجاتے ہیں۔
یہ عمل ہر فرد سے دل کی گہرائیوں سے اور آخرت کی کامیابی کے جذبے سے سرشار ہوکر شرکت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت، ریاست اور اس کے تمام اداروں کے لیے بھی لازم کرتا ہے کہ وہ تعلیم و تلقین اور اچھی مثال کے ساتھ ساتھ نیکی کا حکم اور برائیوں کے روکنے کا کام انجام دیں۔ حق دار کو اس کا حق پہنچانا اور ظالم کو ظلم سے روکنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا نماز اور روزے کا اہتمام___ بلکہ نماز تو ہے ہی اس لیے کہ بُرائیوں سے روکے (اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ - العنکبوت ۲۹:۴۵)۔ اور روزے کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ لوگ متقی بنیں اور قانون کی پاس داری کریں (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ)۔
شریعت کے نفاذ کا کام بڑا منفرد اور بابرکت ہے۔ اس میں قانون اور اس کی حقیقی اسپرٹ دونوں کا ساتھ ساتھ اہتمام ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمل میں فرد، عوام، نظامِ تعلیم، ذرائع ابلاغ، اجتماعی اداروں اور حکومت سب کی شرکت ضروری ہے۔البتہ دو وجوہ سے حکومت کا کردار سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے اور وہ یہ ہیں:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
غیراسلامی اور مغربی دنیا سے درآمد شدہ ادارے اور انتظامی در و بست مسلم معاشرے پر بزور ٹھونسے جاچکے ہیں۔ ان حالات میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فرد کی کوششوں کے ساتھ معاشرہ، ریاست اور اس کے تمام ادارے ظلم اور باطل سے نجات اور حق اور معروف کے قیام میں مکمل طور پر شریک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف انفرادی کوششیں بارآور نہیں ہو رہیں۔ نجی طور پر خیر کے فروغ اور بدی کے مٹانے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ بہت غنیمت ہے اور اس کے اچھے اثرات بچشم سر دیکھے جاسکتے ہیں، مگر مطلوبہ تبدیلی کے لیے وہ کافی نہیں۔ پاکستان کی گذشتہ تاریخ میں اس کش مکش اور اس کے بُرے نتائج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ زندگی کو اس تناقض (contradiction) اور تصادم سے پاک کیے بغیر ہم اپنے انسانی اور مادی وسائل کو صحیح صحیح استعمال نہیں کرسکتے اور مطلوبہ نتائج رُونما نہیں ہوسکتے۔
آج مسئلہ صرف انفرادی خطا اور بے راہ روی نہیں اجتماعی فساد اور منظم ظلم ہے۔ اس کی بھی یہ کیفیت ہے کہ گویا زمین و آسمان بگاڑ اور فساد سے بھر گئے ہیں (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ- الروم ۳۰:۴۱)۔ ان حالات میں اجتماعی قوتوں کو تعلیم و تلقین، مظلوم کی دادرسی، حق دار کو حق پہنچانے اور ظلم اور فساد دُور نہیں ہوجاتے، غربت اور افلاس کا خاتمہ نہیں ہوتا، مجبور اور مظلوم قوی نہیں بن جاتے اور منہ زور اور ظالم قابو میں نہیں کر دیے جاتے___ شریعت کے اہداف حاصل نہ ہوسکیں گے۔اور یہی وہ میدان ہے جس کی اصلاح کے لیے ریاست اور اس کی اجتماعی قوتوں کو اسلام کے لیے مسخر کرنا ضروری ہے، تاکہ قرآن کے الفاظ میں انسانوں کے لیے انصاف اور عدل قائم ہوسکے (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ - الحدید ۵۷:۲۵)۔
سوال یہ ہے کہ اس منزل کی طرف پیش قدمی کیوں نہیں ہوپاتی؟ اصل کمی، کسر اور بگاڑ کہاں ہے؟ شریعت کے نفاذ کی راہ میں اصل رکاوٹیں کیا ہیں اور ان کا سدباب کیسے ممکن ہے؟
جیساکہ ہم نے اُوپر نشان دہی کی شریعت نے اپنے نفاذ کے لیے چار راستے اختیار کیے ہیں، یعنی: ۱- ایمان اور اندرونی محرک، ۲- تعلیم و تلقین اور وعظ و نصیحت کا ایک ہمہ گیر نظامِ دعوت، ۳-معاشرہ اور اس کے ادارے، خاندان سے لے کر وقف اور تکافل اجتماعی (رفاہ عامہ) تک، اور ۴- ریاست، قانون اور نظامِ قضا (عدالتی نظام)۔
شریعت چاہتی ہے، یہ تمام کام انفرادی اور نجی سطح پر بھی انجام دیے جائیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ چونکہ ریاست نظامِ امر کا مرکز ہے، اور اللہ کے رسولؐ نے جو وظائف بحیثیت سربراہ انجام دیے، ان کی امین ہے۔ اس لیے ریاست اور حکومت کی ذمہ داری دوہری ہے، یعنی خود اپنے دائرے میں اپنے فرائض کی انجام دہی اور دوسرے تمام اداروں کی معاونت و سرپرستی، تاکہ فرد اور سول ادارے اپنے اپنے کردار بخوبی انجام دے سکیں۔
اجتماعی دائرے میں نفاذِ شریعت کے لیے جو حکمت عملی مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں اختیار کی ہے اس میں تنوع اور جدت ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے حالات او ر مسائل کی روشنی میں انھوں نے کیا کیا راستے اختیار کیے۔ اصل نمونہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہے جو داعی اور مربی اور معلّم بھی تھے اور سربراہِ مملکت، قاضی اور حاکم بھی۔ آپؐ کی راہ نمائی میں ایک مرکزی نظام کے ذریعے مندرجہ بالا چاروں دائروں کی رہنمائی کا حق ادا کیا گیا اور تاریخ کا روشن اور کامیاب ترین انقلاب رُونما ہوا۔
خلافت راشدہ نے اسی نمونے پر عمل کیا اور نظامِ ریاست و قیادت میں شگاف پڑنے کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اُموی دور میں اس نمونے کے احیا کی کامیاب کوشش کی۔ بعد کے اَدوار میں یہ مرکزیت اور ہمہ گیری باقی نہ رہی لیکن ہر ہر میدان کے لیے مؤثر انتظام کی کوشش کی گئی اور وقت کے چیلنجوں کی روشنی میں خصوصیت سے ریاست، قانون اور نظامِ عدالت کو اسلام کے مطابق اور شریعت کی حدود میں رکھنے کے لیے نئے تجربات اور نئے انتظامات کیے گئے۔ اس سلسلے کا سب سے عظیم اور تاریخی کارنامہ اُمت کے معتبر اور معتمد علما کا غیرسرکاری انتظام کے تحت فقہ اور اصولِ فقہ کی تدوین ہے۔ یہ قانون اخلاقی اور اجتماعی عوامی قوت و تائید سے ملک کا قانون بنا اور ایک مؤثر اور آزاد نظام قضا (عدل) کا قیام عمل میں آیا جو شریعت کے نفاذ کا ضامن بن گیا اور خود اربابِ اقتدار بھی اس قانون کے اسی طرح تابع ہوگئے جس طرح باقی انسان۔
اس طرح قانون کا وہ تصور جو دوسری تہذیبوں اور مملکتوں میں ’حکمران کی مرضی‘ کے مترادف تھا، بالکل بدل گیا۔ اسلامی قلمرو میں ’شریعت‘ ہی ملک کا قانون بن گئی اور حکمران کی مرضی بھی اس کے تابع ہوگئی۔ یہ قانون کسی قانون ساز اسمبلی نے نہیں بنایا تھا، مگراس کی تشکیل و ترقی میں: سرکاری سرپرستی یا نظام سے وابستہ کسی ادارے نے نہیں بلکہ مسلمان اُمت اور اس کے آزاد فکری قائدین، علما، فقہا اور دوسرے اُمور زندگی کے ماہرین نے حصہ لیا۔ علمی، عوامی اور جمہوری طریقے اور عمل سے یہ قانون وجود میں آیا اور مسلسل ترقی کرتا رہا۔ اجتہاد، قیاس، استنباط، استحسان، مصالح مرسلہ، استدراک اور اجماع کے ذریعے تازہ فکر، مشاہدہ اور تجربہ، اپنی اصل بنیاد سے تعلق قائم رکھتے ہوئے ترقی کرتا رہا اور ایک ہزار سال تک پوری اسلامی قلمرو کو سیراب کرتا رہا۔
ایسی مثالیں بھی ہیں کہ کچھ خدا ترس حکمرانوں نے اس قانون کو مرتب اور مدون کر کے اپنی قلمرو میں نافذ کرنے کی کوششیں کیں۔ اسلامی قانون کا یہ مزاج ہے کہ وہ محض حکمران کی مرضی یا ترجیحات یا مقننہ (قانون ساز ادارے) کی آزاد مرضی کا نام نہیں ہے، بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام، منشا و مرضی اور قرآن وسنت کے اصولوں کی روشنی میں پیش آمدہ معاملات کے بارے میں اصل ماخذ اور ان سے استفادے کے ضوابط کار کے مطابق رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کا نام ’اسلامی قانون‘ ہے۔
یہی وہ قانون ہے جسے دورِ غلامی سے نجات پانے اور آزاد مسلمان ریاست کے قیام کے بعد حاصل کردہ اختیار اور اقتدار کے اس زمانے میں ملّت اسلامیہ پاکستان، نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ برطانوی اقتدار کے نقصانات اور مظالم کی فہرست تو بہت طویل ہے لیکن بیرونی استعمار کا سب سے پہلا ہدف شریعت اور نظامِ قضا (نظامِ عدل) ہی تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سارے ہی ادارے تباہ کردیے گئے اور آخری حصار، یعنی خاندانی نظام پر بھی مختلف سمتوں سے تابڑ توڑ حملے کیے گئے اور اس عظیم الشان نظام کو تہ و بالا کردیا گیا جو مسلمانوں نے اجتماعی میدان میں قائم کیا تھا۔
حصولِ آزادی کے بعد پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ریاست کا قبلہ درست کیا جائے، اس کے مقاصد اور اہداف کو متعین کیا جائے اور نظامِ قانون کے مطابق اصول و ضوابط مرتب کیے جائیں۔ برطانوی دور میں تقریباً چار ہزار قوانین حکومت نے اپنے فرمان کے ذریعے مسلط کیے تھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ دستور کی صحیح بنیادں پر تدوین کے بعد قانون کا جائزہ لیا جاتا۔ ایمان اور آزادی کے تقاضوں کے مطابق پورے قانونی ورثے کا جائزہ لے کر نہ صرف ان تقاضوں سے متصادم قوانین یا قوانین کے حصوں کو ختم کیا جاتا، بلکہ نئی قانون سازی ہو تی، تاکہ مثبت انداز میں ان دونوں ضرورتوں کے مطابق نیا قانونی نظام اور عدالتی ڈھانچا وجود میں آتا اور اس طرح وجود میں آتا کہ کوئی بحرانی کیفیت نہ پیداہوتی۔ مگر اس سمت میں اول تو کوئی کوشش نہ کی گئی، اور اگر کوئی قدم اُٹھایا گیا تو وہ بھی نیم دلی کی تصویر بنا رہا۔
قراردادِ مقاصد اس سمت میں پہلا روشن اور تابناک قدم تھا۔ لیکن اس کے بعد سے آج تک ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی گردان کی جاتی رہی ہے اور اس سے وہ حالات پیدا ہوتے ہیں جن میں باربار نفاذِ شریعت کے مطالبے اُٹھتے ہیں اور حکمران جان بچانے کے لیے چند نمایشی اقدام تو کرتے ہیں لیکن کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوتی۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا بہت قریب سے تجربہ صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ہوا۔ ہم نے پورے خلوص سے ان کو اسلامی نظام کے نفاذ کا ایک مربوط اور مکمل پروگرام دیا، مگر اسلام کے لیے مخلصانہ جذبات کے اظہار کے باوجود وہ اس طرف کوئی حقیقی اور دیرپا پیش رفت نہ کرسکے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نفاذِ شریعت کے مسئلے کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیاجائے۔ پھر مسئلے کی نوعیت کی مناسبت سے عملی اقدامات کا ایک ہمہ جہتی پروگرام مرتب کیا جائے اور اس کے نفاذ کے لیے مؤثر اور کارفرما مشینری وضع کی جائے۔
نفاذِ شریعت کسی ایک اعلان کا نام نہیں۔ یہ تو ایک مسلسل عمل ( process) ہے جس کی مختلف جہتیں ہیں اور ہرجہت کو دوسری کا معاون و مددگار اور اس کی تقویت کا باعث ہونا چاہیے، تب ہی مربوط اور دیرپا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء صاحب بار بار کہتے تھے کہ آپ مجھے کوئی ایک چیز بتا دیں جس کے اعلان سے شریعت نافذ ہوجائے، اور میں ہمیشہ ان کو یہی سمجھاتا تھا کہ اگر آپ فی الحقیقت نفاذِ شریعت چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک اعلان نہیں، تبدیلی کا ایک مفصل اور مربوط پروگرام بنانا ہوگا___ اس کے اہم اجزا یہ ہیں:
۱- دستور میں قرآن و سنت (شریعت) کی بالادستی کا اظہار اور اسے قانون سازی اور پالیسی سازی کے لیے مستقل ماخذ قرار دینا۔نیز دستور میں ایسی ترامیم جو اس کو شریعت سے متصادم اجزا سے پاک کردے۔ دستور کو بار بار ادھیڑنا صحیح نہیں۔ اسی لیے دستور سازی اور قانون سازی میں فرق کیا جاتاہے اور اس کا احترام ہونا چاہیے۔ خاص طور پر جب ہم نے تحریری دستور کا راستہ اختیار کیا ہے تو اس کے تقاضے بھی پورے کرنے چاہییں۔
۲- دستور میں شریعت کے قانونی احکام کے نفاذ کے لیے ایک واضح اور مؤثر نظامِ کار کا تعین۔
___ دفعہ ۲۲۷ ایک اہم انتظام ہے لیکن اس کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ ایک متعین مدت میں اپنا فرض انجام دے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس کے لیے سات سال کی مدت رکھی گئی تھی کہ اس زمانے میں تمام مروجہ قوانین کو شریعت سے ہم آہنگ کرلیا جائے گا۔ یہ کام آج تک نہیں ہوا ہے۔
___ اسی دفعہ کی رُو سے آیندہ کے لیے بھی شریعت کے احکام کے نفاذ کے لیے قانون سازی ضروری ہے اور یہ قانون سازی، اسمبلی اور سینیٹ کو ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کے مشورے اور معاونت سے کرنا تھی۔ مگر اس باب میں بھی ہمارا قومی ریکارڈ بڑا ہی افسوس ناک ہے۔
۳- دستو ر نے شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں دفعہ ۲۲۷ کے ساتھ ایک دوسرا راستہ ’پالیسی رہنما اصول‘ (باب ۲، دفعہ ۲۹ تا ۴۰) کی شکل میں نکالا۔ جو عدالتوں کے ذریعے نافذالعمل نہیں تھا مگر ہر سال پارلیمنٹ کو کارکردگی کی رپورٹ کی شکل میں اس عمل کو آگے بڑھانا پیش نظر تھا۔ اس سلسلے میں بھی پیش رفت صفر ہی رہی ہے۔
ان تینوں کے عملاً غیرمؤثر ہوجانے کے بعد نفاذِ شریعت کا ایک دوسرا نسبتاً مختصر راستہ عدلیہ کو یہ اختیار دینا تھا کہ خود اپنے ایما یا اختیار (suo moto)، یا کسی کے توجہ دلانے اور استغاثہ کرنے پر کسی قانون کا جائزہ لے کر متعین کرسکے کہ وہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہے یا متصادم،اور تصادم اور عدم تطابق کی صورت میں اسے کس طرح کالعدم کیا جائے۔
یہاں مسئلہ یہ پیش آیا کہ عدالتوں کے جج حضرات بالعموم اس بنیادی علم سے آراستہ نہیں جو اس کام کو انجام دینے کے لیے درکار ہے۔ صحیح راستہ تو یہ تھا کہ قانون کی تعلیم کے نظام کو، وکلا اور ججوں کی تربیت،انتخاب، ترقی کے اصول و ضوابط کو تبدیل کیا جائے۔ ایک ایسا انتظام کیا جائے کہ ایک معقول مدت میں نیچے سے اُوپر تک جج قانون کے علم کے ساتھ شریعت کا علم بھی رکھتے ہوں اور اخلاق و تقویٰ کے اعتبار سے بھی دینی معاملات میں قوم کے اعتماد کے مستحق ہوسکیں۔ یہ عمل صحیح اور معیاری ہونے کے باوجود وقت طلب تھا۔ اس لیے صدرضیاء الحق کے دور میں پہلے تمام ہائی کورٹوں میں شریعت بنچ کے قیام کی تجویز آئی، جسے عدلیہ نے پسند نہیں کیا۔ وفاقی شرعی عدالت کا راستہ اختیار کیا گیا، جس پر ۱۹۸۰ء سے عمل ہو رہا ہے اور جس کے لیے دستور میں ایک پورے باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس میں چند بڑی بڑی خامیاں رہ گئیں:
۱- اس کا دائرۂ کار محدود تھا۔ قوانین کی اکثریت اس کے دائرۂ کار سے باہر تھی۔
۲- یہ صرف قانون یا اس کے کسی حصے پر کلام کرسکتی تھی۔ انتظامی احکام اس کے دائرے سے باہر تھے۔
۳- اس کے ججوں کا تقرر، تبدیلی، تنزلی وغیرہ کے بارے میں ایسے من مانے ضابطے بنائے گئے جو نہ صرف عدلیہ کی آزادی اور اس عدالت کے مستقل وجود کے منافی تھے، بلکہ خود اسلام کے تصورِ عدل کے ساتھ بھی مذاق تھے۔
۴- اسے داد رسی اور عارضی احکام (interim injunctions)کا اختیار حاصل نہ تھا، یعنی یہ عدالت بالکل بے طاقت تھی۔
۵- اس کو صرف حدود کے معاملات میں اپیلوں کی سماعت کا اختیار حاصل تھا۔ باقی اس کا اصل دائرئہ اختیار صرف قوانین کے بارے میں راے دینے تک محدود تھا۔ غنیمت ہے کہ اتنی گنجایش تھی کہ اگر اس کے دیے ہوئے وقت میں مقننہ قانون سازی نہ کرے یا سپریم کورٹ میں اپیل نہ ہوجائے تو کم از کم زیرنظر قانون کا خلافِ شریعت حصہ معدوم ہوجائے گا۔ گو اس کی نوبت کم ہی آسکی۔
اس طرح نفاذِ شریعت (قانون کے جدید تصور کی حد تک) کے جو جو راستے ہو سکتے ہیں، عملاً دونوں ہی غیرمؤثر رہے۔ اور اس وقت سب سے اہم فیصلہ یہی کرنا ہے کہ ان میں سے کون سا راستہ اختیار کیا جائے، یا دونوں طریقوں کو بہ یک وقت جاری رکھا جائے۔
نفاذِ شریعت کا عمل محض قانونی عمل نہیں ہے، گو قانونی دائرے میں قانونی مشینری کے ذریعے اس کام کو انجام دینا ازبس ضروری بھی ہے اور اس کے لیے مزید مؤثر اقدامات بھی درکار ہیں۔ اس قانونی عمل کے ساتھ جن دوسرے اقدامات کی ضرورت ہے ہم ان کی نشان دہی کرتے ہیں:
’پاکستان قومی اتحاد‘ ۱۹۷۸ء کے وسط سے ۱۹۷۹ء کے اوائل تک، چند ماہ کے لیے ضیاء حکومت کا حصہ رہا۔ مگر قومی اتحاد کے حکومت سے نکلنے کے بعد (۱۹۷۹ئ) سارا انتظام بتاشے کی طرح بیٹھ گیا۔ اس سے دو سبق حاصل ہوتے ہیں: ایک یہ کہ جب تک تمام پالیسی ساز اداروں اور افراد کو عملاً اس کام میں شریک نہ کیا جائے کوئی پیش رفت مشکل ہے۔ دوسرے، یہ کام محض وقتی طور پر نہیں، مستقل بلکہ اداراتی انتظام کی شکل میں ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے سب سے اہم چیز سیاسی اثرورسوخ، عزم و ارادہ اور جذبۂ عمل (political will) ہے۔ پاکستان کی گذشتہ تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نفاذِ اسلام کے عمل کو غیرمؤثر اور غیرنتیجہ خیز کرنے والی چیز اسی سیاسی ارادے کی کمی ہے اور یہ صرف ایک فرد کے عزم کا مسئلہ نہیں، یہ پوری سیاسی مشینری اور اجتماعی قیادت کے ارادے اور عزم کا مسئلہ ہے۔ اور جب تک یہ حل نہ ہوگا، گاڑی آگے نہیں چل سکتی۔
اول: اس کا اپنا عزم، وژن، کردار اور نمونہ۔
دوم: اس کا علم، تجربہ، صلاحیت کار، مشاورتی نظام اور اعلیٰ کارکردگی۔
سوم: ایک مؤثر نظامِ شوریٰ اور احتساب تاکہ قیادت صحیح راستے پر قائم اور گامزن رہ سکے۔
اس سلسلے میں اہم ترین مثال سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی ہے کہ کس طرح ایک ایسے نظام میں جس میں بگاڑ واقع ہوگیا تھا اور قدیم جاہلیت نے اسلام کی انقلابی اصلاحات کو غیرمؤثر یا معدوم کرکے پیچھے کی طرف چلانا شروع کر دیا تھا، انھوں نے ڈھائی سال کے مختصر وقت میں دوبارہ نظامِ حکومت و ریاست کو خلافت راشدہ کی راہ پر ڈالا۔ اور بے نفسی، قربانی، مفاد پرست طبقات پر ضرب اور ریاست کو اس کے اسلامی مقاصد کے لیے دوبارہ منظم کرنے کا کام انجام دیا۔ اپنی ذات سے اصلاح کا آغاز کر کے، اپنے خاندان اور قبیلے کو لگام دی۔ حق پرستی، اصولوں پر عدم لچک، مظلوموں کی دادرسی، میرٹ کا اہتمام اور نتائج سے بے پروا ہوکر باطل سے سمجھوتوں کی روش سے اجتناب کیا۔ یہ تھا قیادت کا وہ نمونہ جو عمرثانی رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا اور یہی وہ نمونہ ہے جس کی آج ضرورت ہے۔
یہ بڑی معنی خیز حقیقت ہے کہ اسلام کے تعزیری قانون میں جن حدوں کے تحفظ کو قرآن و سنت نے سزائوں کے تعین کے ساتھ طے کردیا وہ یہی پانچ مقاصد ہیں۔ دنیا کے دوسرے تعزیری قوانین میں سیکڑوں نہیں ہزاروں جرائم اور ا ن کی سزائیں ہیں، لیکن اسلام نے جن جرائم اور ان کی سزائوں کو حدود کا مقام دیا وہ یہی پانچ چیزیں ہیں۔ دین و ایمان کی حفاظت کے لیے ارتداد کی سزا کی حد، جسم و جان کے تحفظ کے لیے قصاص و دیت کا قانون، اخلاق، خاندان، عزت و عصمت اور نسل کے تحفظ کے لیے زنا اور قذف کی حدود، عقل کے تحفظ کے لیے تحریمِ خمر اور شراب کی حد اور مال کے تحفظ کے لیے سرقہ اور حرابہ کی حدود___ یہ حدود محض سزائیں نہیں، یہ تو شریعت کے اصل مقاصد اور انسانی معاشرے کی اصل بنیادوں کے تحفظ کا نظام ہیں۔ مقصد سزا دینا نہیں، مقصد ان بنیادوں کا تحفظ، ان کی مضبوطی اور انسانی زندگی کو عدل و انصاف اور عزت و خوش حالی کی برکتوں سے مالا مال کرنا ہے۔
نفاذِ شریعت کے یہ ہیں وہ تمام پہلو ،جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور مل کر ایک نامیاتی کُل (organic whole) بناتے ہیں۔ نفاذِ شریعت کے عمل کو ان سب کا احاطہ کرنا چاہیے، ورنہ وہ نامکمل اور غیرمؤثر رہے گا۔ اس مقصد کے لیے تمام اہلِ وطن کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔