سوال : دو مقولے ہیں جنھیں ہم عام طور پر لوگوں کی زبانوں سے سنتے ہیں اور وہ دونوں مقولے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پہلا مقولہ یہ ہے کہ ’جلدبازی شیطان کا کام ہے‘ اور دوسرا یہ کہ ’سب سے بھلی نیکی وہ ہے، جو جلد کرلی جائے‘۔ کیا یہ دونوں مقولے حدیث نبویؐ ہیں؟ اگرہیں تو ان دونوں کے درمیان مطابقت کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اگر حدیث نہیں ہیں تو ان میں صحیح کون سا ہے؟
جواب: پہلا مقولہ تو ایک حدیث نبویؐ کا جزو ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:
اَلْأَنَاۃُ مِنَ اللّٰہِ وَالْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ، ٹھیر ٹھیر کر عمدگی سے کام کرنا اللہ کی صفت ہے اور جلدبازی شیطان کی صفت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جلدبازی کو ہر زمانے میں اور ہرقوم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کے برعکس ٹھیر ٹھیرکر خوش اسلوبی کے ساتھ کام نمٹانے کی تعریف ہر زمانے کے ذی شعور لوگوں نے کی ہے۔ اس مفہوم کا حامل ایک مشہور مقولہ ہے:
فِی التَّأَنِیّ اَلسَّلَامَۃَ وَفِی الْعُجْلَۃِ اَلنِّدَامَۃَ، سوچ بچار کر ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے میں سلامتی ہے اور جلدبازی میں ندامت ہے۔
ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جلدبازی کو شیطان کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جلدبازی میں جو فیصلہ کیا جاتا ہے اس میں ہلکا پن، غصہ اور طیش شامل ہوتا ہے جو بندے کو وقار، بُردباری اور ثابت قدمی سے دُور کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے نتائج اکثر و بیش تر بُرے ہی ہوتے ہیں۔
ایک حدیث نبویؐ ہے:یُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ یَسْتَعْجِلْ،’’بندے کی دعا قبول ہوتی ہے، اگر وہ جلدی نہ مچائے‘‘۔
رہا دوسرا مقولہ تو وہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ البتہ حضرت عباسؓ سے اسی مفہوم کا قول مروی ہے، آپؓ نے فرمایا کہ: لَا یُتَمَّمُ الْمَعْرُوْفُ اِلَّا بِتَعْجِیْلِہٖ،’’بھلا کام اُسی وقت پورا ہوتا ہے جب اسے جلداز جلد کرلیا جائے‘‘۔
اس قول میں بھلائی کے کام کو جلد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا اور اس کی طرف تیزی سے لپکنا ایک پسندیدہ اور قابلِ تعریف صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے:
اُوْلٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَo (المومنون ۲۳:۶۱) یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ (البقرہ ۲:۱۴۸) بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو۔
چنانچہ یہ دوسرا مقولہ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے۔ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے اور اس مقولے اور مذکورہ حدیث کے درمیان معنی و مفہوم کے اعتبار سے کوئی تناقض بھی نہیں ہے کہ مطابقت کی ضرورت ہو۔
علماے کرام نے ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کو قابلِ تعریف اور جلدبازی کو قابلِ مذمت تین شرطوں کے ساتھ ٹھیرایا ہے:
۱- پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جس کا کرنا مقصود ہو، اگر اطاعت ِ الٰہی اور بھلائی اور نیکی کے دائرے میں آتا ہے، تو اس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنا اور اس میں جلدبازی کرنا، نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ یہی مطلوب و مقصود ہے۔ نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ کو ہدایت کی تھی کہ: ’’اے علیؓ! تم تین چیزوں میں کبھی تاخیر نہ کرنا۔ نماز جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ جب سامنے لاکر رکھ دیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح جب اس کا بَر مل جائے‘‘۔
مشہور عالمِ دین ابوالعیناء کو کسی نے جلدبازی سے منع کیا تو آپؒ نے جواب دیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو حضرت موسٰی ؑ کبھی اللہ سے یہ نہ کہتے کہ:وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی o (طٰہٰ ۲۰:۸۴) ’’اور اے رب، میں تیرے پاس جلدی چلا آیا تاکہ تو راضی ہوجائے‘‘۔
۲- وہ جلدبازی قابلِ مذمت ہے ، جو بغیر غوروفکر اور تدبر کے ہو۔ کسی کام میں غوروفکر اور مشورہ کرلینے کے بعد اس میں ٹال مٹول سے کام لینا کوئی تعریف کی بات نہیں۔ یہ تو سُستی اور کاہلی کی علامت ہے۔ قرآن فرماتا ہے:
وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹) اور دین کے کام میں ان کو بھی شریکِ مشورہ رکھو۔ پھر جب تمھارا عزم کسی راے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسا کرو۔
۳- ٹھیر ٹھیر کر کام کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اتنی تاخیر کردے کہ مقصد ہی فوت ہوجائے یا مطلوبہ کام کا وقت ہی نکل جائے ۔ اس لیے کہ وقت نکل جانے کے بعد کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ (ڈاکٹر یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، اوّل، ص۵۵-۶۰، دسمبر ۱۹۹۸ئ)
س : ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو برکت و فضل عطا فرما اور بخل کرنے والوں کو بربادی۔ لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں عملی طور پر بہت سے ایسے افراد ملیں گے، جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنگ دامانی نہیں جاتی اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور دادِ عیش دے رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
ج:آپ نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا، وہ ایک صحیح حدیث کا مفہوم ہے اور بخاری و مسلم میں اس طرح موجود ہے: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دن جب شروع ہوتا ہے تو دوفرشے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک دعا کرتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو برکت عطا فرما، اور دوسرا بددعا کرتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے حصے میں بربادی رکھ دے۔
اسی مفہوم میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ قرآن میں بھی متعدد آیات اسی مفہوم کو پیش کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (السبا ۳۴:۳۹) ’’جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے‘‘۔
سوال کرنے والے کو اس حدیث کو سمجھنے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے، وہ یہ کہ انھوں نے برکت اور بربادی کو مال ودولت کی حد تک محدود کر دیا ہے، جب کہ برکت کا مفہوم محض مال و دولت میں اضافہ اور بربادی کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ برکت کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ برکت کبھی صحت و تن درستی کی شکل میں ملتی ہے تو کبھی نیک اولاد کی شکل میں۔ کبھی مال و دولت کی فراوانی کی صورت میں برکت ہوتی ہے تو کبھی محض معنوی برکت عطا ہوتی ہے، مثلاً ہدایت کی توفیق، سکونِ قلب اور لوگوں میں عزت و مقبولیت وغیرہ وغیرہ۔ ان سب پر مستزاد وہ اجر ہے، جو اللہ نے ان کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔ برکت کو محض دولت کے چند نوٹوں میں محصور کرلینا ایک زبردست غلط فہمی ہے۔ اس لیے کہ سبھی جانتے ہیں: ’’ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸) ’’کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔
اسی طرح ’بربادی‘ کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے۔ بربادی کبھی بیماری کی صورت میں آسکتی ہے تو کبھی غیرصالح اولاد کی صورت میں۔ کبھی لوگوں میں نفرت کی صورت میں اور کبھی ذہنی خلفشار کی صورت میں۔کبھی انسان کو ایسی بے چینی اور خلش لاحق ہوجاتی ہے، جو ہزار نعمت کے باوجود مستقلاً اسے اندر ہی اندر گھلائے جاتی ہے۔ ان سب پر مستزاد وہ عذاب ہے جو اللہ نے اس کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔( ایضاً، ص ۵۷-۵۹)