سیّد عبدالقادر جیلانی.ؒ (۱۰۷۷ئ-۱۱۶۶ئ) اللہ کی برگزیدہ ہستیوں میں سے ہیں۔ خواہش تھی کہ اللہ کے اس برگزیدہ بندے سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے بارے میں جامع معلومات حاصل ہوں۔ بدقسمتی سے ان کے بارے میں ملنے والی کتب اور ہمارے معاشرے میں ان کے کروائے جانے والے تعارف نے ان کی اصل شان دار شخصیت ہم سے چھین لی ہے۔ صرف وہی نہیں عالم اسلام اور بالخصوص برعظیم پاک و ہند کی اکثر بزرگ ہستیوں کو بے بنیاد اختلافات و خرافات کی نذر کردیا گیا ہے۔ بعض پیشہ ور، ان کا نام اپنی اور اپنی نسلوں کی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان کی حقیقی تعلیمات کو ہندوانہ رسوم و رواج سے مشابہ چند بدعات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اللہ بھلا کرے عراق کے ایک معروف سکالر ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی کا انھوں نے اپنی کتاب: ھَکَذَا ظَہَرَ جِیْلُ صَلَاحِ الدِّین (سلطان صلاح الدین ایوبی کی نسل یوں تیار ہوئی) میں حضرت عبدالقادر جیلانی.ؒ کا اصل تعارف کروادیا۔ کتاب کا عنوان دیکھیں تو دونوں شخصیات میں بظاہر کوئی ربط و تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ صلاح الدین ایوبی (۱۱۳۸ء -۱۱۹۳ئ) ایک سپہ سالار اور حکمران تھے، جب کہ سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ ایک عالم باعمل، عظیم مصلح، مربی اور فقیہ تھے۔ دونوں کا باہم کوئی براہِ راست رابطہ معلوم نہیں ہوسکا۔لیکن دونوں عظیم شخصیتوں نے بچپن ہی سے اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سچی محبت دل میں بسائی کہ دونوں سراپا اخلاص و عمل بن گئے۔
الشیخ عبد القادر جیلانی.ؒ کے بارے میںخود ان کی اپنی مایہ ناز تصنیفات اور ان کے بارے میں لکھی جانے والی بے شمار کتب اور مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ اُردن کے ڈاکٹر سعود ابو محفوظ اور لیبیا کے ڈاکٹر علی صلابی کی کتب سے بھی بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ ان کے بارے میں سب سے پہلی حیرت یہ جان کر ہوئی کہ وہ نہ صرف حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، بلکہ ان کا شمار فقہ حنبلی کے نمایاں ترین علماے کرام میں ہوتا تھا۔ اپنے اس عظیم علمی مقام کے ساتھ ساتھ انھوںنے معاشرے میں پھیلی معاشرتی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی تصوف کو زندہ کیا۔ فقہ و تصوف کا یہی حسین امتزاج بالآخر انھیں دوجہاں میں رتبۂ بلند عطا کرنے کا سبب بنا۔ ان کے اس اعلیٰ علمی و اصلاحی مقام کا تقریباً ہر منصف مؤرخ نے انتہائی شان دار الفاظ میںذکر کیا ہے۔
ان میں سے ایک اہم ترین تذکرہ امام ابن تیمیہؒ کے ہاں ملتا ہے، جنھوں نے اپنے فتاویٰ کی جلد آٹھ اور گیارہ میں انھیں شریعت کے احکام و نواہی کی اتباع کرنے میں اس دور میں سب سے آگے بڑھ جانے والا قرار دیا ہے۔
اگر سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ اور ان سے پہلے امام غزالیؒ (م: ۱۰۵۸ئ) کے دور کے احوال پڑھیں تو لگتا ہے کہ جیسے ہم آج ہی کے دور میں جا پہنچے ہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ انحطاط و فساد کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔ ایک طرف تاتاریوں اور صلیبیوں کی یلغار اور دوسری طرف طوائف الملوکی، قتل و غارت، اخلاقی تباہی، علم اور علما کی زبوں حالی، ہر طرف اور ہر نوع کی شہوتوں کی غلامی، غرض ہر وہ لعنت و آزمایش جو آج مسلم اُمت کو درپیش ہے، اس دور میں عروج پر تھی۔ سیّد عبدالقادر جیلانی.ؒ جو امام غزالی ؒکے علم و فکر اور تجربات و احوال کا قریب سے مشاہدہ کررہے تھے، اس دوران تحصیل علم کے ساتھ ساتھ اصلاح احوال کے لیے بھی کوشاں رہے۔ انھوں نے حکمرانوں، علماے کرام، طلبہ و نوجوانوں، تجّار و عُمال ،ہر طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے ان پر ان کے اعمال کی حقیقت واضح کی۔ ان کی اصلاح کے لیے اپنا ایک مدرسہ و مرکز قائم کیا۔ جہاں تعلیم و تعلم کے علاوہ لوگوں کو مختلف اصلاحی تربیت گاہوں سے بھی گزارا جاتا۔
۵۰ برس کی عمر میں ان کا چرچا نمایاں طور پر عام ہوچکا تھا۔ فقہ حنبلی کے چوٹی کے عالم دین اور سیّد عبد القادر جیلانی ؒکے استاذ ابو سعید المخرمیؒ کا انتقال ہونے پر سب نے ان سے بغداد کے ایک علاقے ’ازج‘ میں واقع ان کے مدرسے کو اپنا مرکز بنانے کی درخواست کی۔ انھوں نے نہ صرف درخواست قبول کی بلکہ اس مدرسے کی توسیع و تعمیرِ نو کا بِیڑا اُٹھایا۔ ۱۱۳۳ء میں مدرسے کی تعمیر مکمل ہوئی تو پھر وفات تک، یعنی ۳۳ برس یہی مدرسہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز بنارہا۔
آپ اس کے علاوہ بھی مختلف علاقوں میں جاتے، لیکن مرکز اصلاح و تربیت یہی مدرسہ ٹھیرا، جہاں ۱۳ علوم میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی لیکن علم الکلام اور فلسفے کی بے فائدہ بحثیں خارج از نصاب قرار دے دی گئی تھیں۔ ان کی جگہ انھوں نے سات اسلامی اقدار ہر طالب علم کے قلب و نگاہ میں راسخ کرنے کا اہتمام کیا۔ یہ سات بنیادی نکات تھے: (۱) توحید(۲) قضا و قدر کا صحیح مفہوم (۳)حقیقت ایمان(۴) امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور اولی الامر کا حقیقی مفہوم (۵) حقیقت دنیا و آخرت (۶) مقام نبوت و انبیا (۷) حقیقت زہد۔ یہ ارکان تربیت کوئی مجرد نصابی سرگرمی نہیں بلکہ تمام متعلقین کو ان کا عملی پابند بنایا جاتا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے پورے عالم تصوف کو اس کی کمزوریوں اور خامیوں سے پاک کرنے کا بِیڑا اُٹھایا۔ بالخصوص ۱۱۵۱ء سے ۱۱۵۵ء تک کے چار سالہ عرصے میں انھوں نے مختلف مسالک و طریقہ ہاے ارادت کو جمع کیا۔ قطب، ابدال، اوتاد اور اولیا جیسی اصطلاحات اسی پورے کام کو منظم کرنے کا عنوان تھیں۔ اس مدرسہ قادریہ میں مختلف علاقوں سے آنے والے طلبہ فیض یاب ہوئے لیکن ان علاقوں سے کہ جن پر دشمن قابض ہوچکے تھے آنے والے طلبہ کو خصوصی طور پر تربیت دے کر اپنے علاقوں میں واپس بھیجا جاتا۔ ان طلبہ میں سے بھی بالخصوص بیت المقدس سے آنے والے طلبہ کو اہمیت دی جاتی۔ یہ طلبہ ’مقادسہ‘ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔
سیّد عبدالقادر جیلانی ؒکی ان تمام سرگرمیوں میں بظاہر اس دور کے بڑے بیرونی خطرات سے کوئی تعارض دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن وہ اس امر پر یکسو تھے کہ افراد و معاشرے کی اصلاح کے بغیر کسی بڑے خطرے کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی شخصیت و مقام کا مطالعہ کرنے والے تمام مؤرخ یہ نتیجہ اخذ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر سلطان صلاح الدین ایوبی کی پشت پر اصلاحِ معاشرہ کی یہ پوری تحریک اصلاحِ معاشرہ نہ ہوتی تو وہ کبھی بیت المقدس آزاد نہیں کرواسکتے تھے۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اور مجاہدین کو جس عظیم الشان انداز سے تیار کیا، اس میں ان کی ایمانی و اخلاقی تربیت بنیاد و ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہاں ہمیں امام غزالی، سیّد عبدالقادر جیلانی، نور الدین محمود زنگی اور صلاح الدین ایوبی جیسی چار عظیم شخصیات کی جدوجہد ایک سنگم پر یکجا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ دونوں سپہ سالاروں نے ان دونوں جلیل القدر ہستیوں اور ان کے مخلص شاگردوں کے اثرات و خدمات سے بھرپور استفادہ کیا۔ فقہ حنبلی کی معروف کتاب المُغْنِي کے مؤلف ،موقف الدین ابن قدامہ ہوں یا اپنے زمانے کے معروف مدرس اور واعظ ’ابن نجا‘ دونوں حضرات سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے خصوصی شاگرد تھے اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے انھیں اپنا خصوصی مشیر بنایا۔ ان دونوں عظیم شخصیات کی طرح انھوں نے اپنے دور کے تمام دیگر علماے ربانی کی خدمات حاصل کیں۔ قوم کو معصیتوں بھری زندگی سے نکال باہر لانے اور اس میں روح جہاد پھونکنے کا اصل فریضہ انھی مبارک ہستیوں کے ذریعے تکمیل تک پہنچا۔ سلطان صلاح الدین اس حقیقت کا برملا اظہار کیا کرتے تھے کہ ’’میں نے بیت المقدس کو اپنی تلوار سے نہیں ان علماے کرام کے علم و فضل اور رہنمائی کے ذریعے آزاد کروایا ہے‘‘۔
o اصلاح و نجات کی اسلامی تحریکیں بعض اوقات کئی نسلوں تک جاری رہنے کے بعد فتح و نصرت کی منزل حاصل کرتی ہیں۔ پروردگار مختلف ادوار میں مختلف افراد سے مختلف کام لے رہا ہوتا ہے لیکن عملاً وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے اور قافلے کو فتح و کامیابی کی جانب آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔
o اصلاحِ اقوام کے لیے اصلاحِ افراد بے حد ضروری ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ فاسق افراد مل کر کوئی صالح قوم تشکیل دے دیں۔ ارشاد ربانی کے مطابق: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط(الرعد۱۳:۱۱) ’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
o اصلاحِ افراد و معاشرہ کے لیے وہی اصول اپنانا ہوں گے جو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے اپنائے۔ امام غزالیؒ اور سیّد عبدالقادرجیلانی.ؒ نے سب سے زیادہ زور توحید خالص کو اپنانے اور شرک، جھوٹ، منافقت اور بدعنوانی و خیانت چھوڑنے پر دی۔ جھوٹ نہ بولنے کی وجہ سے بچپن ہی میں سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ کے سامنے ڈاکوؤں اور ان کے سردار کی توبہ کا واقعہ معروف ہے۔
o روحانیت اور تمام تر شرک و شوائب سے پاک راہِ تصوف، توحید و جہاد اور اقامتِ دین کی نفی نہیں، اس کی تکمیل کرتی ہے۔ آج کے دور میں بھی دیکھیں تو الاخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا نے اس کا خصوصی اہتمام کیا۔
o ان ہستیوں نے فروعی اختلافات اور علم الکلام کی مختلف بحثوں یا لفظی موشگافیوں میں اُلجھ یا اُلجھا کر معاشرے میں تقسیم و نفرت کی آگ نہیں بھڑکائی۔ سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ نے ایسے علماے کرام کو کہ جو دین کو دکانوں کا درجہ دیے بیٹھے تھے اور سلاطین کو خوش کرنے کے لیے فتویٰ فروشی کے مرتکب ہوتے تھے، راہِ شریعت کھوٹی کرنے والے ڈاکو قرار دے کر بے نقاب کیا۔
o تبدیلی اس وقت آتی ہے جب محدود و مخصوص افراد کے بجاے معاشرے کے تمام افراد کو اپنا ہم نوا بنایا جائے۔ صلاح الدین ایوبی نے سیّد عبد القادر جیلانی.ؒ اور ان کے دیگر حنبلی علما و فقہا کے علاوہ شافعی علما کی نمایاں تعداد بھی ساتھ ملائی۔ سب نے مل کر اصلاح و جہاد کا فریضہ سرانجام دیا۔ البتہ جہاں مختلف باطنی تحریکوں سے واسطہ پڑا چاروں شخصیات امام غزالیؒ و سیّد عبدالقادر جیلانی ؒاور نورالدین زنگی و صلاح الدین ایوبی نے ان کی مکمل سرکوبی کی۔
پروردگار ہمیں بھی اپنے ان محبوب بندوں کے نقشِ قدم پر چلنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے اور دوجہاں کی سرخروئی عطا فرمائے، آمین!