دسمبر ۲۰۱۵

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | دسمبر ۲۰۱۵ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔(متفق علیہ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت جزوِ ایمان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کی مظہر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عبدیت میں تمام مخلوق سے بلندوبالا ہیں اور جِنّ و انس اور کائنات پر آپؐ  کی نوازشیں بھی سب سے بڑھ کر ہیں۔ آپؐ  کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کا دین ملا جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو   رحمۃ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ہے۔ آپؐ  سے توحید و سنت کا درس ملا۔ آپؐ  سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام ملا۔ آپؐ  نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا راستہ بتلایا۔ آپؐ  نے انسانوں کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کے روشن راستے پر ڈالا۔ دنیا لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا شکار تھی، لوگوں کے لیے دنیا جہنم بن چکی تھی، لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ بھوک، ننگ اور ذہنی پستی میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ  نے فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ ، ’’اے انسانو! اپنے رب کی عبادت کرو‘‘۔ قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا ، ’’لا الٰہ الا اللہ کہو، کامیاب ہوجائو گے‘‘۔آپؐ  نے یہ نسخۂ کیمیا انسانوں کے سامنے پیش کیا۔ لوگوں نے اس پر آمنا وصدقنا کہا تو ان کو زندگی مل گئی۔ وہ امن و سکون اور راحت سے سرفراز ہوئے۔ وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے، ایک دوسرے کے غم گسار اور مددگار ہوگئے۔ ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت و آبرو کے محافظ بن گئے۔ ایک دوسرے کے لیے ایثار کرنے والے بن گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ پاک ہرلحاظ سے محبت کی مستحق ہے، اور محب اپنے محبوب کی مرضی پورا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعوری محبت ہو تو مومن آپؐ  سے محبت کے ساتھ ساتھ آپؐ  کی اطاعت بھی کرے گا۔ آپؐ  کے دین سے بھی محبت کرے گا، آپؐ  کے مقصد ِ بعثت سے بھی محبت کرے گا۔ آپؐ  کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ آپؐ  کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرے۔    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا(التوبہ ۹:۳۳) ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے کہ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردے‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شعوری محبت رکھنے والا اسلامی احکام کا پابند ہوگا، فرائض و واجبات اور سنن کو ادا کرنے والا اور منکرات اور مکروہات سے بچنے والا ہوگا۔ اس کی زندگی ایک پاک باز انسان کی زندگی ہوگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے داروں کو سوچنا چاہیے کہ آیا وہ آپؐ  کی محبت کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں؟ کیا قرآن و سنت کے مطابق دن رات بسر کر رہے ہیں؟ کیا اس مشن کے لیے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں تکلیفیں اُٹھائیں، مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی، بدرواُحد، اَحزاب اور حنین اور تبوک کے معرکوں میں جان کی بازی لگائی، اس کے لیے وہ پُرجوش اور پُرعزم ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں؟ کیا اپنے آپ  کو مکہ کی گلیوں، طائف کی وادیوں اور بدر و اُحد اور تبوک کے پُرمشقت راستوں میں پاتے ہیں؟ کیا اپنے ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ سود، جوے، شراب، فحاشی و عریانی اور دین کی تذلیل کے خلاف جہاد کر رہے ہیں؟ ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کے لیے منظم ہو رہے ہیں؟ یہ ہمارے سوچنے کی باتیں ہیں۔ اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کر رہے ہیں تو اس پر شکر بجا لانا چاہیے اور اتباع میں آگے بڑھنا چاہیے اور اگر کچھ کمی ہے تو اس کا ازالہ کرنا چاہیے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی فکر کرنا چاہیے۔ اور اپنے ملک کو اسلامی بنانے کے لیے بھرپور جدوجہد کرنا چاہیے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا کرسکتے ہیں اور آپؐ  کے احسانات کی قدر اور شکرانہ ادا کرسکتے ہیں۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؐ  مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے کہ میں اس پر عمل کرکے جنت میں داخل ہوجائوں۔ آپؐ  نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ فرض نماز قائم کرو اور    زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ یہ سن کر اس نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اس پر میں کوئی اضافہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا (یعنی اپنے طور پر اضافہ نہیں کروں گا، اگر اللہ تعالیٰ کوئی اور حکم دیں گے تو اس کی تعمیل کروں گا)۔ یہ کہہ کر جب وہ چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو اس بات کی خواہش ہو کہ وہ جنتی آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے تو وہ اس شخص کو دیکھے۔ (متفق علیہ)

جس آدمی میں دین پر عمل کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کا جذبہ ہو، وہ اس دنیا میں چلتا پھرتا جنتی ہے۔ ہم میں سے ہرشخص اپنے آپ کو اس دیہاتی جیسا بنا سکتا ہے۔ اس دیہاتی نے جس عزم کا اظہار کیا، اللہ تعالیٰ کی قسم اُٹھا کر دین حق کے احکام پر چلنے کا اعلان کیا،  اس عزم کا ہم بھی اظہار کریں۔ صرف نام کے مسلمان نہ رہیں، عملاً مسلمان بن جائیں تو یہ بڑا قیمتی سودا ہے، جنت کا سودا! اگر جنت کی قدروقیمت ذہن میں ہو تو پھر اس کا شوق بھی ہوگا۔ جنت کیا ہے؟   وہ قیمتی نعمتیں جن کی مثال دنیا میں نہیں ہے۔ دنیا کی چیزیںجنت کی نعمتوں کے ساتھ صرف نام کی حد تک شریک ہیں۔ رہی حقیقت تو جنت کی چیزوں کی حقیقت جنت میں پہنچ کر ہی واضح ہوگی۔ جنت میں ادنیٰ درجے کے مومن کو اتنی جگہ ملے گی جو پوری دنیا کے برابر ہوگی۔گویا اسے بادشاہت مل جائے گی، اورکیوں نہ ملے جس نے دنیا میں اللہ کی بادشاہت کو مانا، اسے قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی،    اللہ تعالیٰ اسے بادشاہت عطا فرمائیں گے۔

o

حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمدوثنا کے بعد فرمایا: سب سے بہتر کلام اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہتر سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، اور تمام کاموں سے بڑھ کر بُرا کام بدعات ہیں (جو اپنی خواہشِ نفس کی بنا پر ایجاد کی جاتی اور انھیں رواج دیا جاتا ہے، یعنی خواہش کی بنیاد پر انسانوں کے اپنے گھڑے ہوئے، قوانین اور رسوم و رواج)، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسلم)

قرآن و سنت کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے اُتارا ہے کہ ان پر عمل کیا جائے، اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کی جائے، اور اس نظام کا بہترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا۔ اسی لیے آپؐ  کی سیرت کو تمام سیرتوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ماڈل ہے، اور آپؐ  کے بعد صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین ، اولیا عظام اور مجددین اُمت کی زندگیاں جو آپؐ  کی سیرتِ پاک کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ  کے دین سے آزاد زندگی بدعت کی زندگی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دین سے آزادنظام بدعت کے نظام ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرالامور، ’’تمام کاموں سے بڑھ کر بُرے کام‘‘ قرار دیا ہے۔  وہ ہمارے لیے ماڈل نہیں ہیں۔ ان کو ماڈل سمجھنا ان کو اپنانا اور ان کو اپنے ملک میں درآمدکرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی رُو سے بدترین جرم ہے۔ آج ہمارے ملک میں نظریۂ پاکستان لا الٰہ الااللہ کے مقابلے میں ’لبرل ازم‘ کی آوازین بلند ہورہی ہیں اور ملک کو لبرل بنانے کے نعرے    لگ رہے ہیں۔ لبرل کا معنی دین سے آزادی، قرآن و سنت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے آزادی ہے، تو پھر ایسی صورت میں یہ لوگ کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ دعویٰ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا کریں لیکن نظام وہ ہو جو دین سے اور   آپؐ  کی سیرت سے آزاد ہو۔ نظام مغرب یا مشرق سے درآمد ہو، سرمایہ دارانہ نظام ہو یاسوشلزم یا کوئی بھی ہو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے کی تردید کرتاہے۔

o

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسے میں لے کر آیا ہوں۔(شرح السنۃ، کتاب الحجۃ، نووی، اربعین نووی)

دنیا کے اندر جتنے ادیان ہیں ان کی دو ہی قسمیں ہیں: باطل ادیان، یعنی دینِ ھویٰ (خواہش نفسِ کے دین، اور دینِ حق ایک ہے اور وہ ہے دینِ ھدیٰ، دینِ حق، دینِ اسلام ۔ آدمی اسی وقت مومن ہوگا جب اپنی خواہشِ نفس کو دینِ حق کے مقابلے میں چھوڑ دے گا اور اسی وقت مسلمان شمار ہوگا جب باطل نظام کو دینِ حق کے مقابلے میں چھوڑ دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں جو رہنمائی فرمائی ہے وہ ہمیشہ کے لیے ہے لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آج عالمِ اسلام اس ہدایت کا محتاج ہے۔ اس ہدایت پر عمل ہو تو اسلامی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ دنیا میں اسلامی تحریک اس ارشاد کی تعمیل میں سرگرمِ عمل ہے۔ اس گروہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، ان کے مخالف ان کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گے‘‘۔