ستمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

اسٹاک مارکٹس کا عالمی بحران

سید حامد عبدالرحمن الکاف | ستمبر۲۰۰۷ | شذرات

Responsive image Responsive image

۹ اور ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء اسٹاک مارکٹس کی تاریخ کے یادگار دن رہیں گے کیونکہ ۹ اگست سے نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی قیمتیں دھڑا دھڑ گرنا شروع ہوئیں۔ پھر یہ وبا جاپان‘ جنوب ایشیا سے ہوتی ہوئی سارے یورپ میں جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزرفتاری سے   پھیل گئی۔ ہر جگہ مرکزی بنک نے کئی کئی بلین ڈالر سے مارکٹوں کو غرق ___ہاں‘ ہرمعنی میں غرق کردیا مگر یہ گراوٹ نہ رُکنی تھی اور نہ رُکی۔۱۰ اگست اس اعتبار سے اسٹاک مارکٹس کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا کہ اُس دن صرف مرکزی بنکوں نے مارکٹوں کو کئی کئی سو بلین ڈالروں سے ’غرق‘ کیا۔ یہاں تک کہ وہ ان معنوں میں ناکام ہوگئیں کہ ان کے احتیاطی ذخیروں (reserves) کو یہ نہ تھمنے والا طوفان بہا لے گیا۔ پھر کیا ہوتا؟

ہوا وہی جو ہونا تھا۔ ان مرکزی بنکوں کے عالمی بنک‘ یعنی آئی ایم ایف (international monetary fund) کو تھک ہار کر مداخلت کرنا پڑی۔ وہ اس طرح کہ اس فنڈ نے ان مرکزی بنکوں کو ان کے حقوق سمیت drawing rights کو استعمال کرنے کا حکم دے کر ان کے حسابات میں اتنے بلین ڈالر کا اضافہ کریڈٹ کردیا۔ پھر وہ ان نئے کئی کئی بلین ڈالر لے کر اپنے اپنے قومی مارکیٹوں میں ڈالر کی بارشیں کرنے لگے مگر نتیجہ کچھ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ صورتِ حال بڑی گمبھیر حد تک بحرانی ہی رہی۔

جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی ۳۰‘ ۴۰برسوں میں پہلی بار آئی ایم ایف نے عالمی پیمانے پر عالمی بحران پر قابو پانے کے لیے مداخلت کی ہے۔ مجھے تو اس کی کوئی نظیر (precedence) یاد نہیں ہے۔ایسا کیوں ہوا؟کہا جاتا ہے کہ اس کا سبب یہ خوف ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی مارکیٹ___ مکانوں‘ عمارتوں اور زمینوں کے رہن کی مارکیٹ___ ڈوبنے پر اس لیے تلی ہوئی ہے کہ افراد اور کمپنیاں کئی ٹریلین ڈالر کے قرض سے ذاتی یا کاروباری مقاصد کے لیے خریدے ہوے مکانوں‘ عمارتوں اور زمینوں کی قیمتوں کی ماہوار اقساط ادا کرنے سے عاجز ہوچکی ہے۔ ہے نا یہ ایک حیران کن  اور محیر عقل بات!

یہ بات عام آدمیوں کی عقل سے باہر ہے کہ امریکا جیسے ملک کے شہریوں اور کمپنیوں کے پاس اتنا نقد پیسہ (liquid money) نہ ہو کہ وہ ان چھوٹی سی ماہوار اقساط کو ادا کرنے سے عاجز آجائیں جو اس رقم کا بہت ہی چھوٹا حصہ ہے جو ان کو ۱۵‘ ۲۰‘ ۲۵ برس پر ادا کی جانے والی قسطوں کی شکل میں ادا کرنا ہے؟ کیا یہ عام امریکی شہری آبادی‘ اس کی کئی کئی بلین ڈالر کی قیمت کی کمپنیوں اور پوری امریکی معیشت اور امریکی قوم کی افلاس کی علامت بلکہ اعلان نہیں ہے؟

اگر ایسا ہے‘ اور ایسا ہی حقیقت میں ہے تو اس کی تفصیل جاننے کی ضرورت ہے۔

  •  بحران کا حقیقی سبب: نائن الیون کے بعد امریکا غرور اور بدحواسی میں ہوش کھوبیٹھا۔ اس نے پہلے افغانستان اور پھر عراق پر تابڑ توڑ حملے کر کے دونوں ملکوں پر فوجی قبضہ کرلیا مگر مقامی آبادیوں کی شدید جنگی اور فوجی مزاحمت اور جوابی کارروائیوں اور عالمی پیمانے پر دہشت گرد نادیدہ بھوت (invisible terror ghost)سے اعلانِ جنگ کرنے اور خود اندرونِ امریکا متوقع حملوں کو روکنے کے لیے جو بے تحاشا اخراجات مسلسل کرنے پڑے اور کرنا پڑ رہے ہیں‘ اس نے امریکی معیشت اور مال کے بہت بڑے سمندر ___ ہاں‘ سمندر ___ یا کم از کم اس کے   ایک معتدبہ حصے کو خشک کردیاہے۔ خصوصاً اندرونی امن و امان کا وہ ادارہ جو سوویت بلاک کی جاں گسل کش مکش میں بھی وجود پذیر نہ ہوا تھا اور نہ کئی سو بلین ڈالر کے اخراجات کا سبب بنا تھا۔ علاوہ ازیں سوویت امریکی کش مکش کے زمانے میں افغانستان اور عراق جیسے محاذ بہت زیادہ اور بے تکے اخراجات کا مطالبہ نہیں کررہے تھے۔ اس پر مستزاد ان فوجی اخراجات کا اب تک جاری رہنا اور امتدادِ زمانہ سے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہونا ہے‘ جو سوویت امریکی کش مکش کے زمانے سے چلے آرہے ہیں‘ جب کہ وہ خطرہ زائل ہوچکا ہے اور فریق مدمقابل یکسر اُن موہوم (fictional) اخراجات سے نجات پاکر انھی اموال کوا پنی اقتصادیات کو قوی کرنے میں لگا رہا ہے۔
  •  نتائج و اثرات: امریکی بجٹ بھیانک بلکہ ناقابل برداشت قرضوں کے بوجھ تلے کچلا گیا۔ ڈالر کی قیمت میں زبردست کمی ہوتی رہی اوربیرونی تجارتی خساروں (deficit)‘ جاپان اور چین کے ساتھ تجارت میں‘ اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔اس کو ناپنے کا ہمارے پاس ایک پیمانہ ہے___ وہ ہے سکوں کے میدان میں اُترنے والا جدید ترین عنصر‘ یعنی یورو۔ یورو جب مارکیٹ میں داخل ہوا تو اس کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں تقریباً آدھی تھی اور اب دوگنے سے بھی آگے بڑھ چکی۔ اب ایک یورو ۲ ڈالر ۷ سینٹ کے برابر ہے۔

بالفاظ دیگر امریکی فرد اور کمپنیوں اور امریکی معاشرے کا معیارِ زندگی نائن الیون سے  لے کر آج تک ۱۰۰ فی صد گرچکا ہے۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ امریکی فرد/کمپنی کی آمدنی ۱۰۰فی صد گھٹ چکی ہے۔ اسے اس طرح بھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ ڈالر کی قوتِ خرید یورو کے مقابلے میں ۱۰۰ فی صد گھٹ چکی ہے۔

اب آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ شخص جس نے اب سے سات سال پہلے اپنی آمدنی کو ۱۵۰۰ ڈالر ماہانہ فرض کر کے ۳۰۰ یا ۴۰۰ ڈالر ماہانہ قسط بھرنے کی منصوبہ بندی کی تھی‘ اب کس طرح  یہ ۳۰۰ یا ۴۰۰ ڈالر ماہانہ بچا کر اپنی ماہوار قسط ادا کرسکتا ہے‘ جب کہ اس کی حقیقی آمدنی (real income )صرف ۷۵۰ ڈالر رہ گئی ہے؟ اگر وہ یہ قسط ادا کردے تو کیا کھائے پیے گا اور زندگی کے دوسرے اخراجات سے کیوں کر نمٹے گا؟اس لیے وہ قسط/قسطیں ادا کرنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ کلیتاً عاجز ہوچکا ہے۔

اس میدان میں سرگرم کمپنیوں کی طرف آیئے۔ انھوں نے شان دار مکانات اور عمارتیں کھڑی کرلی ہیں اور ماہانہ کرایے بھی مقرر کر لیے ہیں مگر کرایہ دار ۳۰‘ ۴۰ فی صد سے زیادہ نہیں آئے‘ یا جو آئے وہ کرایے ادا کرنے سے عاجز ہوچکے ہیں۔ اس لیے وہ بھی اپنی اپنی ماہانہ قسطیں اداکرنے سے مکمل طور پر ہاتھ اٹھا چکی ہیں۔

بالفاظ دیگر یہ گھر گھر اور فردفرد کی کہانی اور آپ بیتی ہے۔ یہ پوری امریکی معیشت کی خوف ناک دلدل اور دماغوں کو پھاڑنے والی تصویر ہے۔ اس وجہ سے یہ تباہ کن طوفان ٹارنیڈو کی رفتار سے بھی زیادہ تیزرفتاری سے بلکہ برق رفتاری سے___ ساری دنیا میں پھیل گیا اور آئی ایم ایف کی مداخلت بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے۔

مجھے تو یہ صورت حال سابق سوویت یونین کے آخری مہینوں ___ بلکہ آخری دنوں کی یاد دلا رہی ہے۔ جب وہ اسی افغانستان میں آٹھ سال لڑتے لڑتے‘ جب کہ وہ پڑوس تھا اور اس کی سرحدیں ملی ہوئی تھیں‘ مالی حیثیت سے نڈھال ہوکر گر پڑا۔ امریکا نے دو جگہ ___ امریکا سے بہت دُور ___ دو محاذ (افغانی و عراقی محاذ) اور دوسرا اندرونی اور عالمی محاذ کھول کر اپنی معیشت کی جڑیں کھود ڈالیں۔ اگر وہ آئی ایم ایف کے ذریعے دنیا کے سارے بازاروں میں ہر روز بلکہ ہر گھنٹہ ڈالر انجکٹ کرتا رہے گا تووہ اب ایسی مشک میں پانی بھررہاہے جس میں تین بلکہ چار پانچ بڑے بڑے ایسے سوراخ ہیں جوبھرے جانے والے پانی کو مسلسل خارج کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ سوراخ‘ افغانستان‘ عراق‘ اندرونی وبیرونی نظر نہ آنے والے دہشت گرد بھوت کے خلاف جنگ اور دیگر چھوٹی بڑی جنگیں‘ بند نہ ہوںگے‘ یہ ایک سعی لاحاصل ہے اوراس کا انجام پہلے ہی سے معلوم ہے۔ رہے نام اللہ کا!

کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِo (رحمٰن ۵۵:۲۶-۲۷) روے زمین پر جو کوئی اور جو کچھ ہے وہ فنا ہوکر رہے گا اور باقی تو صرف تمھارے  ُپرجلال و  ُپراکرام رب کا چہرہ رہے گا۔