تفسیر قرآن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے تفسیری اقوال کو جو مقام حاصل ہے‘ خلفاے راشدین کے بعد کسی اور صحابیؓ کے اقوال کو وہ مقام حاصل نہیں۔ آپ کو بارگاہِ نبوت سے ’ترجمان القرآن‘ ، ’حبرالامّہ‘ کے خطاب اور تاویلِ آیات کے علم اور تفقہ فی الدین کی دعا سے نوازا گیا۔ کوئی بھی مفسر خواہ وہ قرآن کی فقہی تفسیر لکھنا چاہے یا لغوی و ادبی‘ تفسیر القرآن بالقرآن کا دعویٰ رکھے یا روایات کی روشنی میں تفسیر بالماثور کااہتمام کرے‘ ابن عباسؓ کے تفسیری اقوال سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ان کا علم تفسیر جامع اور تفسیری آرا ہمہ جہت ہیں۔ وہ ادب جاہلی پر گہری نظر اور عربوں کے محاورے و لہجے کا ادراک رکھتے تھے۔ تفسیری روایات انھیں ازبر تھیں اور عہدخلفاے راشدین میں اسلامی تمدن کی وسعت پذیری کے باعث پیش آمدہ نت نئے مسائل کی گتھیوں کو اپنے ذوقِ قرآنی اور فقہی و اجتہادی بصیرت سے سلجھانے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔
حضرت ابن عباسؓ کے تفسیری اقوال صحاح ستہ کے علاوہ مسانید و کتبِ سنن میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور تفسیری مجموعے بھی ان سے مروی ہیں جن میں سے ایک مجموعہ تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس ہے جسے صاحب القاموس ابوطاہر محمد بن یعقوب الفیروز آبادی (۷۴۹ھ- ۸۱۷ھ) نے مرتب کیا‘ اور بقول مترجم اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے (ص۷)۔ اگرچہ اس مجموعے میں موضوع و الحاقی روایات بھی ہیں (ص۷)‘اور تفسیری روایات اور شانِ نزول کا موضوع ہردور کے محدثین و مفسرین کے ہاں مختلف فیہ رہا ہے لیکن حضرت ابن عباسؓ جیسے عظیم مفسر کی تفسیری آرا جاننے کے لیے ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی مجموعہ نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ علم ابن عباسؓ سے منسوب تفسیری اقوال و آرا کی پرکھ‘ روایت و درایت کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں کریں۔
قرآنی الفاظ اور آیات کی طویل تشریحات اور مفسر کی ذاتی آرا قرآنی مفاہیم کو قاری پر کھولنے کے بجاے قاری اور قرآن کے درمیان حجاب بن جاتی ہیں۔ اس تفسیر کی یہ خاصیت ہے کہ مفہوم کی سادگی‘ مضمون کے اختصار اور متنِ قرآن سے قریب تر ہونے کے باعث یہ مرادِ الٰہی کے سمجھنے میں معاون ہے۔ تفسیر کا موضوع ذاتی آرا و رجحانات کی دخل اندازی کے حوالے سے جس احتیاط کا متقاضی ہے‘ اس تفسیر میں اس کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔
قرآنی مطالب کی تفہیم میں سہولت پیدا کرنے کے لیے عبارات کا تسلسل ضروری ہے اور عربی تفسیر کے ترجمے میں یہ چیز عربی محذوفات کو کھولے بغیر ممکن نہ تھی‘ اس لیے مترجم نے ترجمے کے بجاے ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ اصل تفسیر میں موجود نامکمل واقعات کو مکمل کردیا ہے۔ حسب ضرورت ذیلی عنوانات کے قیام اور پیرابندی کے ذریعے مضامین کی تفہیم میںآسانی پیدا کردی ہے۔ اس طرح قدیم کتابوں کے پڑھنے اور سمجھنے میں عصرِحاضر کے قاری کو جو پیچیدگی اور یبوست محسوس ہوتی ہے اس کا ازالہ احسن طریقے سے کردیا گیا ہے۔
اس تفسیر کی ایک نمایاں خصوصیت آیات اور سورتوں کے شانِ نزول کا بیان ہے۔ اسبابِ نزول سے متعلق امام سیوطی کا ایک رسالہ بھی شاملِ مجموعہ ہے جس سے اسبابِ نزول کے موضوع پر مفسرین کے مختلف نقطۂ ہاے نظر سامنے آگئے ہیں۔ پہلی جلد میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے حالات وعلمی مقام‘ علامہ جلال الدین سیوطی اور مؤلف تفسیر محمدبن یعقوب الفیروز آبادی کے تعارف کے باعث تفسیر کی افادیت میںاضافہ ہواہے۔(اختر حسین عزمی)
اگرچہ عہدصدیقیؓ میں بھی جمع و تدوین قرآن کی کوشش کی گئی لیکن قرآن مجید کی حتمی اور کامل ترین تدوین عہدِعثمانیؓ میں ہوئی۔ یوں کسی ایک نسخے اور اندازِ قرأت پر اجماعِ اُمت ہوگیا اور اس کا سہراجناب ذوالنورینؓ کے سر ہے۔ زیرنظر کتاب میں عہدعثمانیؓ میں جمع و تدوین قرآن کی کاوش اور خاص طور پر قرآنی رسم الخط کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس وقت تین عربی رسم الخط رائج تھے۔ قرآنی رسم الخط میں تینوں رسوم کی املا موجود ہے‘ تاہم اختلاف کے سبب صحابہ کرامؓ کے مشورے سے ایک نیا رسم الخط ایجاد کرلیا گیا جسے رسمِ عثمانیؓ کا نام دیا گیا۔
رسمِ عثمانی کیا ہے؟ کس طرح لکھا جاتاتھا اور صحابہ کو اس پر کیا اور کیوں اعتراض تھا؟ زیربحث کتاب میں ان سوالات پر مفصل اور مدلل بحث کی گئی ہے۔ بعض صحابہؓ کو اس سے اختلاف تھا لیکن بعد میں انھوں نے بھی اتفاق کرلیا۔ اسی لیے اس کتاب میں اس کی شرعی حیثیت کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عثمانی نسخہ‘ مدینہ سے تاشقند کیسے پہنچا؟
یہ کتاب ایم فل کا تحقیقی مقالہ ہے جو بڑی محنت اور تحقیق سے لکھا گیا ہے۔ کتاب حوالوں سے مزین ہے۔ آخر میں اشخاص اور اماکن کا اشاریہ شامل ہے۔ اس پر نفیس الحسینی شاہ کی تقریظ کتاب کی جامعیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ کتاب کے نام سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حضرت عثمانؓ کے دور کی کسی رسم کی شرعی حیثیت متعین کی جارہی ہے۔ عنوان ’عثمانی رسم الخط اور اس کی شرعی حیثیت‘ زیادہ موزوں تھا۔ مجموعی طور پر یہ ایک حوالے کی کتاب ہے جس سے تحقیق کے طلبہ بہت استفادہ کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب دینی و علمی ذخیرے میں ایک عمدہ اور اہم اضافہ ہے جس میں قرآن مجید پر مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جوابات بھی موجود ہیں۔(قاسم محمود وینس)
اشاریہ سازی کا کام بلاشبہہ دقت طلب‘ صبر آزما اور عرق ریزی کا کام ہے مگر اشاریے محققین کے لیے تازہ ہوا اور صاف پانی کی مانند ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سفیراختر کے نزدیک کتابیات‘ اشاریہ سازی اور ان سے ملتے جلتے کام ’سبیل‘ کی مانند ہیں۔ تپتی دھوپ میں راہ گیر راستے پر سبیل سے پیاس بجھاتا‘ تازہ دم ہوتا اور دعا دیتا آگے بڑھ جاتا ہے۔
مرتب نے اشاریہ سازی کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے اعظم گڑھ سے شائع ہونے والے علمی‘ تحقیقی اور ادبی مجلے معارف کا ایک عمدہ اشاریہ تیار کیا ہے۔معارف کے علمی و تحقیقی مقام و مرتبے کے پیش نظر یہ ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ زیرمطالعہ اشاریے سے پہلے بھی معارف کے چار جزوی اشاریے مرتب کیے جاچکے ہیں۔ یہ اشاریہ محمد سہیل شفیق نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے طور پر مرتب کیا ہے۔ مرتب نے اس اشاریے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں فقط زمانی اعتبارسے مقالات کی فہرست دی گئی ہے‘ دوسرے حصے میں مقالات کو ۳۶ مختلف موضوعات کے تحت تقسیم کرکے دیاگیاہے۔ موضوعات میں قرآن اور علومِ قرآن‘ حدیث و سنت‘ سیرت نبویؐ‘ فقہ اسلام‘ عقائد و عباداتِ اسلامی‘ اسلام‘ تاریخ‘ مذاہبِ عالم ‘ تہذیب و تمدن‘ اخلاقیات‘ تصوف‘ فلسفہ‘ تعلیم و تربیت‘طب و سائنس‘ سیاسیات‘ خلافت‘ اقتصادیات‘ لسانیات‘ زبان و ادب‘ اقبالیات‘ آثار و مقامات‘ شخصیات‘ آرٹ اور آرکیٹکچر‘ استشراق اور مستشرقین‘ علوم و فنون‘ عالمِ اسلام‘ عرب‘ مسلم اقلیتیں‘ہندستان‘کتب خانے‘ جامعات/تعلیمی ادارے‘ خطبات/ا نجمنیں/ ادارے ‘ تحریکیں‘ قلمی نسخے/مخطوطات‘ کتابیں اور متفرق موضوعات شامل ہیں۔ تیسراحصہ الف بائی ترتیب سے مصنفین کے اشاریے پر مشتمل ہے۔ پھر تبصرہ شدہ کتب کی فہرست دی گئی ہے۔ چھٹے حصے میں وفیات کا الف بائی اندراج ہے۔ساتویں باب میں معارف کے بعض پرچوں میں جلد نمبر‘ مہینہ‘ ہجری سال وغیرہ کے حوالے سے پائے جانے والے چند ایک تسامحات کی تصحیح کی گئی ہے۔ آخری حصے میں اُن کتب خانوں کی فہرست دی گئی ہے جہاں یہ پرچے موجود ہیں‘ پھر مخففات کی وضاحت ہے۔
معارف کے مذکورہ اشاریے کے مطالعے کے بعد مرتب کے علمی اخلاص اور محنت و کاوش کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یقینا یہ اشاریہ اپنی علمی وسعت اور حسنِ ترتیب کی بدولت مسافرانِ علم وادب کو ہرمرحلے پر اپنی اہمیت و افادیت کا احساس دلاتا رہے گا اور محققین و ناقدین مرتب کے لیے جزاے خیر کی دعا کرتے رہیں گے۔(خالد ندیم)
مصنف نے اپنے مقالے کو ’دین، دعوتِ دین اور اقبال‘، ’قرآن اور اقبال‘، ’دعوتی ادب کی تخلیق و ترویج میں اقبال کا کردار‘، ’دعوتی، دینی، تحقیقی انجمنوں اور اداروں کے ساتھ علامہ اقبال کے روابط‘، ’علامہ اقبال کے معاصر علما‘ مشائخ اور اہلِ قلم کے ساتھ دعوتی مقاصد کے لیے روابط‘ اور ’علامہ اقبال کی غیرمسلموں کو دین کی دعوت‘ کے نام سے چھے ابواب میںتقسیم کیا ہے۔ محقق نے جہاں اپنے مقالے کو تحقیقی اعتبار سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہے‘ وہیں اس نے اس کے اسلوب کو تحقیقی سے زیادہ تخلیقی بنانے پر توجہ صرف کی ہے ‘چنانچہ قاری مطالعے کے دوران ایک خوش گوار تاثر کے ساتھ آگے بڑھتا چلاجاتاہے۔ محقق کی صحیح نظر کا اندازہ مقالے کے تیسرے باب سے ہوتا ہے‘ جس میں انھوں نے ’قوموں کی زندگی میں ادب کی اہمیت‘، ’عہداقبال کا ادبی منظرنامہ‘، ’معاصر ادب اور تصوف پر علامہ اقبال کی تنقید‘، ’علامہ اقبال کانظریۂ ادب‘، ’اہلِ قلم کو دعوتی ادب تخلیق کرنے کی براہِ راست دعوت‘اور ’علامہ اقبال کاادبی مقام اور ان کے تخلیق کردہ دعوتی ادب کے اثرات‘ کے تحت خوب دادِتحقیق دی ہے۔ اس باب کو حاصلِ مطالعہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا۔
یہ مقالہ بہت سے نئے موضوعات کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ حیران خٹک نے اس اچھوتے موضوع پر قلم اٹھاکر اقبالیات کی سرحدوں کو مزید توسیع عطا کردی ہے۔ امید ہے کہ یہ مقالہ اقبالیاتی ادب میں تازہ ہوا کاجھونکا ثابت ہوگا۔(خ - ن)
نماز پر ایسی جامع عملی کتاب اس سے پہلے نظر سے نہیں گزری۔ اس میں نماز سے متعلق صرف معلومات ہی نہیں دی گئی ہیں‘ بلکہ ایک جذبے کے ساتھ تذکیر کرتے ہوئے استاد اور مربی کے انداز سے رہبری کی گئی ہے۔ نظری بحث بھی ہے‘ اور عملی ہدایات بھی۔ اُمت کے عروج اور فرد کی سیرت کی تعمیر میں اقامت صلوٰۃ کے کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ نماز اور توحید و آخرت‘ نمازاور ارکانِ اسلام کے تعلق پر مفید گفتگو ہے۔ آخری ۱۶ سورتیں مع ترجمہ دی ہیں۔ دعا کے باب میں تمام قرآنی اور مسنون دعائیں جمع کی گئی ہیں۔ ضروری مسائل کا بیان بھی آگیا ہے۔ ریٹائرڈ اسکواڈرن لیڈر کی تصنیف ہے‘ اس لیے ڈسپلن اور پابندی کا عنصر کچھ زیادہ ہے۔ آخر میں جائزے کے لیے چارٹ اور روزمرہ کے ماڈل نظام الاوقات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو ذاتی اصلاح کے لیے نہایت مفید ہے۔ (مسلم سجاد)
چنار کہانی ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہزاروں کہانیوں سے اخذکردہ وہ منتخب کہانیاں ہیں جنھیں صغیرقمر نے بڑی توجہ کے ساتھ الفاظ کے پیکر میںڈھالا ہے۔ وہ قارئین کی نفسیات کو سامنے رکھ کر لکھتے ہیںاورایسے الفاظ اور جملے استعمال کرتے ہیں جو براہِ راست قاری کے دل پر اثر کرتے ہیں بلکہ دلوں کے تار اس طرح چھیڑتے ہیں کہ آنکھیں باربار نم ہوجاتی ہیں اور بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔
مصنف کی اوّل و آخر شناخت کشمیر اور جہادکشمیر ہے جس کی وہ آبیاری ایک طویل عرصے سے اپنے قلم سے کر رہے ہیں۔ چنارکہانی میں کشمیر‘ افغانستان‘ فلسطین‘ اور دیگر حوالوں سے جسدِ ملّت کے زخموں اور جدوجہد کا تذکرہ ہے۔ یہ تحریریں اس سے قبل جہادکشمیر اور روزنامہ خبریں میں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ کالم دراصل اپنے دین‘ وطن اور اقدار و رویات کے ساتھ وابستگی کا رنگ گہرا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایسے میں جب الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا روشن خیالی کے نام پر دین و مذہب سے بے زاری اور نفرت پیدا کر رہا ہے‘ زیرنظر کتاب نہ صرف نوجوان نسل بلکہ ہرطبقۂ فکر کے لیے سوچ بچار اور غوروفکر کی نئی راہیں متعین کرتی ہے۔ (عمران ظہور غازی )