پروفیسر خورشید احمد | ستمبر۲۰۰۷ | اشارات
جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِاقتدار میںزندگی کے ہر شعبے میں خرابی اور بگاڑ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک پہلو وہ ضرب کاری ہے جو ملک کی آزادی اور حاکمیت‘ سلامتی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیی شناخت پر لگی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے آزادی کی ۶۰سالہ تاریخ میں یومِ آزادی کے موقع پر سوگواری‘ بے یقینی اور اضطراب کا جو عالم اس سال تھا وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ قوم کے سر شرم سے جھک گئے جب یہ خبر آئی کہ قبائلی علاقوں میں سیاہ جھنڈے تک لہرائے گئے اور اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ کھلی فضا میں قومی پرچم کی رونمائی کریں۔ اس تقریب کا اہتمام بھی کانفرنس ہال کی پختہ چھت تلے کیا گیا!
اس یومِ آزادی پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونی المیے کا سایہ تھا اور معصوم بچوں اور بچیوں کی دل گداز چیخیں اور قران پاک کے انسانوں کے خونی لوتھڑوں میں گڈمڈ اوراق نوحہ کناں تھے۔ وزیرستان‘ سوات‘ ہنگو‘ بنوں‘ کوئٹہ اور کوہلو میں بندوقوں کی گھن گرج اور بموں کی بارش اور انسانی لاشوں کے کشتے تھے۔ اور ان سب پر مستزاد امریکی انتظامیہ اور صدارتی امیدواروں کی دھمکیاں اور اعلانات تھے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی اوقات پہچانو‘ سیدھے سیدھے ہمارے احکام کی تعمیل کرو اور ساتھ ہی تیار رہو کہ’قابل اعتماد‘ معلومات ملنے پر ہم خود تمھارے علاقوں پر بھی فوج کشی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ کچھ توافغانستان میں امریکا اور ناٹو کے کمانڈر اور واشنگٹن میں ترجمان کہہ رہے تھے‘ جب کہ صدربش خود بھی گول مول انداز میں یہی پیغام دے رہے تھے مگر وہاں کے ایک صدارتی امیدوار نے تو تمام حدود کو پھاند کر صرف پاکستان ہی نہیں‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر بھی بم باری اور لشکرکشی کی دھمکیاں دے ڈالیں۔
امریکی کانگریس نے ۲۷ جولائی کو نائن الیون کمیشن کی سفارشات پر وہ قانون منظور کرلیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کو شرم ناک اور ذلت آمیز شرائط اور سالانہ سرٹی فکیٹ کے اجراسے مشروط کر کے پاکستانی قیادت کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ تمھاری چھے سالہ ’گراںقدر خدمات‘ اور امریکا کی خوش نودی کے لیے خود اپنے مسلمان بھائیوں‘ بہنوں اور بچوں کا خون بہانے کا یہ ہے صلہ۔ ساتھ ہی بھارت سے نیوکلیر تعاون کے معاہدے کو قانون کا درجہ دے دیا گیا تاکہ علاقے پر بھارت کی بالادستی کے قیام‘ پاکستان پر نیوکلیر دبائو میں اضافے اور اس کی توانائی کی ضروریات کے بارے میں ہتک آمیز تمسخر کا مظاہرہ‘ اور پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد دوست چین کے گرد ائرہ تنگ کرنے کا امریکی منصوبہ آگے بڑھایا جاسکے۔
نائن الیون کمیشن کی سفاشات پر مبنی قانون صرف ہماری آزادی اور حاکمیت پر ہی ضرب نہیں لگاتا بلکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے ایک قانونی بنیادی ڈھانچا (infra-structure) وضع کردیتا ہے۔ یہ پاکستان اور اس کی قیادت پر کھلی بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پاکستان کو دائمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا انتظام بھی۔ اس میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہرسال صدرِ امریکا کو یہ سرٹی فکیٹ جاری کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکی احکام پر قرارواقعی عمل کر رہا ہے اور ان احکام میں صرف نام نہاد دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے فوج کشی‘ گرفتاریاں اور دوسری تمام کارروائیاں ہی شامل نہیں‘ بلکہ پاکستان اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے اثرورسوخ کو ختم کرنا‘ اور پاکستان میں ’سیکولر تعلیم‘ کا فروغ اور ’اسلامی شدت پسندی‘ کے خلاف مستقل کارروائی بھی سرفہرست ہے۔
غلامی کی اس دستاویز کو امریکی کانگریس نے بھاری اکثریت سے منظورکیا ہے اور اس پر عمل کے لیے نہ صرف جنرل پرویز مشرف پر دبائو ہے بلکہ دوسری لبرل قوتوں کو بھی ان کا حلیف اور شریک کار بنانے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملک کے اندرونی نظام میں ہرطرح کی مداخلت کا راستہ استوار کیا جا رہا ہے جس کا کھلا ثبوت برطانیہ میں جیک اسٹراکے ذریعے پیپلزپارٹی کی قیادت کو مشرف سے تعاون پر تیار کرنا‘ امریکی انتظامیہ اور میڈیا کی مشرف بے نظیر اتحاد بنانے کی کوششیں‘ اور ۹ اگست کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کی جنرل پرویز مشرف سے ۱۷منٹ کی ٹیلی فون کال ہے جس کے نتیجے میں ایمرجنسی کے اعلان کوروکا گیا اور انکار کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہوئے کابل یاترا اختیار کرلی گئی۔
۲۰۰۷ء کا یومِ آزادی قوم نے آزادی‘ حاکمیت‘ عزت و وقار اور نظریاتی تشخص پر حملوں کی اس فضا میں منایا ہے___ لیکن غم و اندوہ اور اضطراب اور بے چینی کے ساتھ ساتھ اس نئے احساس اور اس عزم کے ساتھ منایا ہے کہ قوم کو اپنی آزادی اور اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک نئی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ۲۰جولائی کے بعد عدلیہ کی آزادی سے جس دور کا آغاز ہواہے‘ اس کی تکمیل جرنیلی آمریت سے مکمل اور مستقل آزادی کے حصول اور بیرونی استعمار کی نئی زنجیروں سے گلوخلاصی کے ذریعے اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا ___ عزت اور آزادی کی زندگی کا صرف اور صرف یہی ایک راستہ ہے۔ اس موقع پر ذرا سی کمزوری بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا اقتدار فوج اور امریکا کی بیساکھیوں پر قائم ہے‘ لیکن وقت آگیا ہے کہ ان دونوں بیساکھیوں سے نجات حاصل کی جائے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو یک سربند کردیا جائے‘ اور امریکا سے تعلقات کو ازسرنو اپنی حاکمیت اور نظریاتی شناخت کی بنیاد پر استوار کیاجائے۔ خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جس طرح خارجہ پالیسی اورداخلی سیاست دونوں کو امریکی ایجنڈے کے تابع کردیاہے‘ اس کو یک سر تبدیل کیا جائے تاکہ ملک ایک بار پھر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے عزت سے سر اُٹھاکر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔
امریکا سے پاکستان کے تعلقات کے ابتدائی خطوطِ کار قائداعظم اور قائدملّت لیاقت علی خان کے دور میں مرتب ہوئے لیکن جلد ہی اس آزاد اور باوقاردوستانہ تعلق کو سردجنگ کے پس منظر میں امریکا کی چھتری تلے آنے کے نام پر ایک نئی محکومی اور محتاجی کی شکل دے دی گئی‘ اور خارجہ سیاست کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے اور اس نئی سمت میں ڈالنے میں کلیدی کردار غلام محمد‘ سرظفراللہ خاں اور جنرل محمد ایوب خان کا تھا۔ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت ہے اور ہم برابری کی بنیاد پر اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں امریکا سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ لیاقت علی خان نے بہت کھل کر پاکستان کی آزاد پالیسی اور نظریاتی کردارکا اعلان و اظہار کیا تھا اوریہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی آزادی اور ہماری روحانی شناخت کوئی قابلِ فروخت شے نہیںہے۔ لیکن بعد کی قیادتوں نے ان دونوں ہی کا لحاظ نہ رکھا اور امریکی سیاست کے جال میں پھنس گئے۔ امریکا نے خاص طور پر اپنے تعلقات اور اثرات کو محکم کرنے کے لیے فوج سے بلاواسطہ تعلقات کو ذریعہ بنایا اور پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کو کبھی بھی سارے حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ معاشی اور عسکری اعتبار سے کچھ مثبت فوائد بھی حاصل ہوئے لیکن جن بنیادوں کو محفوظ نہ رکھا جاسکا‘ وہ آزادی‘ حاکمیت اور نظریاتی تشخص ہیں جس کی بڑی بھاری قیمت ہر دور میں اور سب سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں قوم کو ادا کرنا پڑی۔
اس سب کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات پراگر نظر ڈالی جائے تو ان میں بڑے نشیب و فراز صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ کبھی دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں اور کبھی صاف پیٹھ دکھا دی جاتی ہے۔ یہ تجربہ بار بار ہوا اور یہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں‘ امریکا کی خارجہ سیاست کا طریق واردات یہی ہے۔ ایک اسرائیل کو چھوڑ کر کوئی ملک ایسا نہیںہے جس کے ساتھ امریکا نے مستقل دوستی نبھائی ہو۔ ضرورت پڑنے پر ساتھ ملانے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا ہے جسے carrot and stick ،یعنی چارہ اور چابک کی پالیسی کہا گیا ہے۔ اگرچارے (political bribe) سے کام چل گیا تو فہوالمراد‘ورنہ چابک اور ڈنڈا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا گاہک(client) اور غلام (serf)تو حاصل کرسکا ہے مگر کبھی دوسروں کو وہ دوست اور ساتھی نہیں بناسکا۔ پاکستان کو اس کا تجربہ ۱۹۶۵ء میں‘ پھر ۱۹۷۱ء میں‘ پھر ۱۹۷۶ء میں‘ پھر ۹۰-۱۹۸۸ء میں‘ پھر ۱۹۹۸ء میںہوا‘ مگر مجال ہے جو ہماری قیادتوں نے اس سے کوئی سبق سیکھا ہو۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ ع
ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
لیکن افسوس صد افسوس کہ اس ملک کی قیادتوں نے تو ٹھوکریں ہی نہیں‘ جوتے کھانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔
پاک امریکا تعلقات کا سب سے ذلت آمیز دور پرویز مشرف کا دورِاقتدار ہے۔ اس کا آغاز بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے جس میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک پارٹنر بنایا گیا‘ پانچ دن وہاں شادیانے بجائے گئے اور پانچ گھنٹے کے لیے پاکستان میں اس انداز میں آئے کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کوئی تصویر نہیں کھنچوائی‘ کوئی مشترک پریس کانفرنس نہیں کی‘ اور بلاواسطہ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے پاکستانی قوم سے خطاب فرمایا۔ وردی پوش جنرل صاحب نے یہ سب ذلت بخوشی قبول کی اور شکریہ ادا کیا کہ انھیں اس لائق توسمجھا گیا! لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔
۹ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی رعونت اپنے عروج پر تھی اور پاکستان کی گوشمالی کا بدترین دور ۱۲ستمبر کی اس ٹیلی فون کال سے شروع ہوتا ہے جو جنرل کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف کو کی۔ یہ گفتگو اس دھمکی کے زیرسایہ ہوئی تھی جو پہلے ہی امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمی ٹیج نے پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو واشنگٹن میں دے دی تھی‘ اور بش صاحب کا فرمان شاہی پہنچا دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تمھیں پتھر کے دور میں پھینک دیاجائے گا۔ اس کی پوری تفصیل امریکی صحافی باب ووڈورڈ نے اپنی کتاب Bush at Warمیں دی ہے اور دسیوں کتابوں میں وہ پوری صورت حال آچکی ہے جس میں دھونس‘ دھمکی اور ننگی جارحیت کی تلوار دکھا کر پاکستان کی فوجی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا گیا‘ اور جس کا اعتراف ’محکوم کی دانش مندی‘ کی مغالطہ آمیز منظرکشی کے روپ میں خود جنرل پرویز مشرف نے اپنی خودنوشت In the Line of Fire میں کیا ہے۔
آج جو ہتک آمیز سلوک امریکا‘ جنرل صاحب اور پاکستان سے کر رہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے اس ہمالیہ کے برابر غلطی کا جو ستمبر۲۰۰۱ء میں جنرل صاحب نے کی۔ اس کے بعد سے مسلسل امریکا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ غلامی کی زنجیروں کو زیور بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب اس شیطانی گرفت سے نکلنے کی ان کوکوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔
بحیثیت سوپر پاور روس کے خاتمے کے بعد سے امریکا کی خارجہ پالیسی کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ پوری دنیا پر اپنی سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا قیام‘ دنیا کے دوسرے ممالک کے وسائل اور خصوصیت سے توانائی کے ذخائر پر قبضہ‘ اور نیوکلیر اثاثوں پر کنٹرول اور اس امر کو واقعی بنانا ہے کہ امریکا کی اس بالادستی کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت کسی شکل میں بھی اُبھر نہ سکے۔ نائن الیون دراصل اس سامراجی عمل (hubris)کا ایک حصہ ہے اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انھی مقاصد کو زیادہ بھونڈے اور زیادہ خون آشام انداز میں حاصل کرنے کی عالم گیر جدوجہد کاآغاز ہوا ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اب ایک فوری ہدف چند مسلمان ممالک (خصوصیت سے افغانستان‘ عراق‘ ایران‘ شام اور پاکستان)‘ اور اسلام کا وہ تصور قرار پایا جسے سیاسی اسلام‘ اسلامی بنیادپرستی‘ جہاد اور زیادہ اکھڑاور صاف الفاظ میں اسلامی دہشت گردی اور اسلامی فاشزم کہا جا رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کو ترغیب اور ترہیب کا ہرحربہ استعمال کرکے اپنا شریک کار بنایا گیا ہے اور یہی وہ جال ہے جس میں جنرل پرویز مشرف بخوشی قدم افروز ہوئے ہیں اور چھے سال تک ذلت آمیز خدمات انجام دینے کے بعد بھی ھل من مزید (more, more and more)کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
صدربش نے اپنے عالمی دہشت گردی کے مقاصد کوکسی پردے میں نہیں رکھا۔ بقول باب ووڈ ورڈ امریکا نے اپنا ہدف بہت صاف لفظوں میں دنیا کو بتا دیا ہے کہ:
ہم اپنی عظیم قوم کے دفاع میں دنیا کے کونے کونے میں موت اور تشدد پھیلائیں گے۔ (Bush At War،باب وڈ ورڈ‘ سائمن اینڈ شوسٹر‘ نیویارک‘ ۲۰۰۲ء‘ ص ۳۵۲)
دیکھیے پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کو قابو میں کر کے کس طرح اس شکنجے میں کساگیا ہے۔ بش صاحب نے نائن الیون کے فوراً بعد اپنی پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’ہمیں طاقت کا استعمال کر کے ملکوں سے فیصلے کروانا ہوں گے‘‘۔(ص ۳۳)
آرمی ٹیج نے جنرل محمود سے کہا:
پاکستان کو ایک اہم فیصلہ کرنا ہے ___ یا وہ ہمارے ساتھ ہے یا نہیں ہے۔ یہ سفیداور سیاہ میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے۔ درمیان میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ الفاظ کہ ’’مستقبل آج شروع ہورہا ہے‘‘ پاکستانی صدر جنرل مشرف کو بتا دو: ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف‘‘۔ (ص ۴۷)
جنرل کولن پاول نے صدربش سے کہہ دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ اور بن لادن اور القاعدہ پر گرفت پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں‘ اس لیے :
پاکستانیوں کو نوٹس دینے کی ضرورت ہے… مشرف پر بہت زیادہ دبائو ڈالنے میں اندیشہ ہے‘ لیکن بالکل دبائو نہ ڈالنے میںزیادہ اندیشہ ہے۔(ص ۵۸)
۱۲ ستمبر کورات کو ۳۰:۱۲ بجے کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف سے "As one general to another"بات کی اور ’’یا ہمارے ساتھ ہو، یا ہمارے مقابلے میں ہو‘‘ کی دھمکی دی‘ نیز سات مطالبات کیے جن کے نتیجے میں پاکستان امریکا کے جنگی پشتے (war base)میں تبدیل ہوگیا۔ کولن پاول نے باب ووڈ ورڈ سے کہا اور پھر اپنی خودنوشت میں اعتراف کیا ہے کہ وہ سمجھتا تھا کہ مشرف سات میں سے ایک دو مطالبات مان لے گا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے جنرل صاحب نے ساتوں مطالبات بے چون وچرا ں مان لیے۔ ووڈ ورڈ لکھتا ہے:
پاول کو حیرت ہوئی جب مشرف نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتوں میں سے ہر ایک اقدام میں حمایت کرے گا۔ (ص ۵۹)
بعد میں صدر بش سے جنرل پرویز مشرف نے دو درخواستیںکیں۔ ایک یہ کہ: ’’افغانستان کے بارے میںانھیں خدشہ ہے کہ شمالی اتحاد جسے امریکا بھی مانتا ہے کہ وہ قبائلی ٹھگوں کے گروہ سے زیادہ نہیں‘ افغانستان پر قابض ہوجائے گا‘‘۔ جس کے جواب میں صدربش نے خسروان شاہی سے فرمایا کہ: ’’شمالی اتحاد کے بارے میں آپ کی تشویش کا مجھے بخوبی احساس ہے‘‘۔
ملاقات کے بعد پریس کے سامنے بش نے وعدہ کیا کہ:
ہم اپنے دوستوں کی جنوب میں شامالی میدان کی طرف پیش قدمی کی حوصلہ افزائی کریں گے نہ کہ شہر کابل پر قبضہ کے لیے‘ بش نے کہا۔ (ص ۳۰۴)
اور پھر ہوا کیا؟ پورا افغانستان طشتری میں سجا کر شمالی اتحاد کی خدمت میں پیش کردیا گیا اور جنرل صاحب دیکھتے رہ گئے۔ دوسری گزارش جنرل صاحب نے صدربش سے یہ کی کہ پاکستان کے نیوکلیر اثاثہ جات کو اسرائیل سے خطرہ ہے‘ آپ ان کے تحفظ کا یقین دلائیں۔ بش نے بات کو مذاق میں اڑا دیا اور جنرل صاحب خوش ہوگئے کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر دست درازی نہیں کرے گا۔
جنرل صاحب نے بڑی ہمت کر کے افغانستان میں روس کے خلاف جہادکے خاتمے پر امریکا کے آنکھیں پھیر لینے کے پاکستانی احساس کا ذکر کیا تو بش نے پوری ڈھٹائی سے کہا: ایسا نہیں ہوگا۔ ملاحظہ فرمایئے:
مشرف نے کہاکہ اس کو یہ خطرہ ہے کہ امریکا آخر میں پاکستان کو چھوڑ دے گا اور دوسرے مفادات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کم کردیں گے۔ بش نے اپنی نگاہ مرکوز کرکے کہا: پاکستانی عوام کو بتا دیں کہ امریکی صدر نے آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ (ص ۳۰۳)
حسب عادت امریکا نے وہی کیا اور کر رہا ہے‘ یعنی آنکھیں پھیر لینا۔ بدعہدی اور طوطا چشمی کے علاوہ اس سے کوئی توقع رکھنا خوش فہمی ہی نہیں حماقت ہے۔ اس موقع پر صدر نکسن کی دل چسپ مگر عبرت آموز گواہی بھی ریکارڈ پر لانا مفید ہوگی جس میں امریکا کا ساتھ دینے والے چار کرداروں کا ذکر ہے جن میں سے دو کا تعلق پاکستان سے ہے۔ رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب In the Arena: A Memoir of Victory, Defeat and Renewalمیں جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی تھی‘ لکھا ہے:
بیرونی سفر میں میرا سب سے زیادہ افسوس ناک تجربہ جولائی ۱۹۸۰ء میں‘قاہرہ میں‘ شاہِ ایران کے جنازے میں شرکت تھی۔ واشنگٹن سے کوئی بھی امریکا کی نمایندگی کے لیے ایک ایسے لیڈر کے جنازے میں نہیں بھیجا گیا جو ہمارے نہایت وفادار اور گہرے دوستوں میں سے تھا۔ مجھے پاکستان کے صدر ایوب خان کا ایک جملہ یاد آیا جو انھوں نے ۱۹۶۴ء میں‘ جنوبی ویت نام کے صدر ڈیم کے قتل میں امریکا کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ اس واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کا دوست ہونا خطرناک ہوتا ہے۔ غیرجانب دار ہونے کا فائدہ ہوتا ہے‘ اور بعض وقت دشمن ہونے سے کام نکلتا ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں اس وقت پھر آئی جب امریکا کے ایک اور گہرے دوست پاکستان کے صدر ضیاء الحق کی پُراسرار موت کی اطلاع ملی جو ہوائی جہاز کے حادثے میں ہوئی جو بظاہر سبوتاژ کا نتیجہ تھی۔
یہ ہے امریکا کا ٹریک ریکارڈ۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے امریکا کا دامن تھاما اور اس کی چاکری کی خدمات انجام دیں‘ جن میں افغانستان کے اپنے دوست حکمران طالبان سے نائن الیون کے واقعے میں ان کے ملوث ہونے کے کسی واضح ثبوت کے باوجود بے وفائی‘ افغانستان پرفوجی یلغار اور اس کو تباہ و برباد کرنے کی امریکی اور بعد میں ناٹو کی جنگ میں شرکت‘ خود اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی مشترک ۴۰ہزار کی فوج کے مقابلے میں ۸۰ ہزار سے ایک لاکھ فوج کو قبائلی علاقوں میں جھونک دینا‘ ۸۰۰ پاکستانی افسران اور جوانوں اور ایک ہزار سے زیادہ قبائلی مسلمانوں کی جانوں کا اتلاف اور سیکڑوں افراد کو کسی ثبوت اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر گرفتار کر کے امریکا کی تعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے ان کی تحویل میں دے دینا شامل ہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی معاملات حتیٰ کہ سیکولر تعلیمی نظام کو فروغ دینے اور ملک میں امریکا کی مرضی کی سیاسی قیادت کو برسرِاقتدار لانے کے معاملات میں امریکی ایجنڈے کی تعمیل کی راہیںاستوار کیں۔ یاد رکھیے جو پالیسی مالی منفعت یا بہ الفاظ صحیح تر سیاسی رشوت یا بیرونی دبائو‘ بلیک میل‘ ہاتھ مروڑنے اور تازیانہ بازی کا نشانہ بننے کے نتیجے میں بنے گی‘ یا ان دونوں کے امتزاج کا نتیجہ ہوگی وہ کبھی قومی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے حکم اور مطالبے کے تحت قومی مفاد کو جس طرح قربان کیا ہے اور ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیوں میں جو بنیادی تبدیلیاں کی ہیں وہ قوم‘ اور اس کے عزائم سے بدترین بے وفائی اور قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے تقاضوں سے متصادم ہیں۔ اور یہ سب کچھ چند بلین ڈالر حاصل کرنے اورامریکا کے دبائو اور ڈنڈوں کے سائے تلے کیا گیا ہے۔ اس کی چند مثالیں ریکارڈ کی خاطر پیش کی جاتی ہیں۔
امریکا کی ناردرن کمانڈ کا سربراہ (۲۰۰۳ء-۲۰۰۰ء) جنرل ٹامی فرینک اپنی خودنوشت میں جو ۲۰۰۴ء میں American Soldier کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ لکھتا ہے:
میں نے ارادہ کیا کہ سفر جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں صدر مشرف سے مل لوں۔ اس لیے کہ اگر بازو مروڑنے کا کوئی موقع تھا تو یہی تھا۔ انھیں فیصلہ کرنا ہوگا‘ اور بہت جلدی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف ہیں۔
اسی کتاب میں جنرل ٹامی فرینک انکشاف کرتا ہے کہ افغانستان پر امریکا کی یورش میں بھارت کی سیاسی‘ سفارتی اور فوجی شرکت بھی تھی جس پر جنرل پرویز مشرف کو اصولی اختلاف نہیں تھا البتہ صرف اس لیے پریشان تھے کہ اس سے ان کی سیاسی پوزیشن خراب ہوتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ معاملہ اس پر طے ہواکہ بھارت کی شرکت کو نمایاں نہیں کیا جائے گا۔ یہ دل خراش داستان انھی کی زبان میں سن لیجیے:
مشرف نے درخواست کی کہ مہم کے منصوبے میں بھارتی حکومت یا بھارتی فوج کی شرکت نہ ہو۔ خاص طور پر کسی بھی صورت میں اس طرح کہ بھارتی فوجیں پاکستان کے بحری اور فضائی حدود میں داخل ہوں۔ انھوں نے یہ بھی چاہا کہ اتحادی بھارت کی سیاسی شرکت کوبھی بہت نمایاں نہ کریں جس سے پاکستان میں جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ میں نے امریکی سفیر وینڈی سے کہا کہ وہ صدر مشرف کو میرا ذاتی شکریہ پہنچا دیں اور انھیں بتائیں کہ میں بھارتی شرکت کا مظاہرہ کم سے کم کرنے کی کوشش کروں گا۔ (ص ۲۷۳)
جنرل ٹامی فرینک اپنی افغان جنگ کے پورے تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ:
علاقے میں اپنے ساتھی تلاش کرنے کے لیے اپنے ۳۰ سے زیادہ دوروں میں‘ مَیں نے بہت زیادہ چارہ اور چند ہی چابک استعمال کیے۔
اور پھر جنرل پرویز مشرف کی تابع داری کا بیان یوں رقم کرتا ہے:
اور گو کہ دنیا کو اس جنگ میں پاکستان کے فوجی کردار کا کم پتا ہے لیکن پرویز مشرف نے اپنا کہا پورا کیا‘ اور آج بھی وہ اسی طرح ہے۔ پاکستان کے گیارھویں کور کے تجربہ کار فوجیوں نے بھاگنے والے سیکڑوں القاعدہ کے دہشت گردوں کو قتل کیا اور پکڑااور وہ آج بھی وزیرستان کے پہاڑوں میں ان دہشت گردوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز شہروں میں ان کا پتا چلاتی ہیں۔ حال ہی میں القاعدہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں جاری مہم کی تازہ کامیابیاں ہیں۔ جب صدر بش نے کہا تھا کہ دنیا کی قومیں یا ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف تو پاکستان نے ٹھیک ٹھیک سمجھ لیا (کہ اب اسے کیا کرنا ہے)۔
ٹامی فرینک کی گواہی کافی نہیں۔ تصویر مکمل کرنے کے لیے سی آئی اے کے ڈائرکٹر جارج ٹی نٹ (Tenet)کی شہادت بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ یہ نومبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ ہے اور پس منظر میں پاکستان کی نیوکلیر ٹکنالوجی کے افغانستان جانے کا خطرہ ہے۔صدربش نے خصوصی طیارے سے سی آئی اے کے سربراہ کو پاکستان بھیجا۔باب ووڈ ورڈ نے اپنی دوسری کتاب Plan to Attack میں اس کی اس طرح منظرکشی کی ہے۔ پہلے صدربش کی ہدایت دیکھیے:
بش نے ٹی نٹ سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی وہاں جائو اور جو چاہیے وہ حاصل کرلو۔ اپنا جہاز پکڑو اور ابھی پاکستان چلے جائو۔
جارج ٹی نٹ پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملتے ہیں۔ ذرا زبان اور عزائم ملاحظہ فرمائیں:
وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے خوب خبر لینے (raising holy hell) کے ارادے سے ملنے گیا۔ اگر امریکا میں کوئی ایٹمی ہتھیار ہوا اور یہ چل گیا تو ذمہ داری تمھاری ہوگی‘ مشرف کے بارے میں اس نے کہا۔ ہم نے اس پر خوب دبائو ڈالا۔ ایک اہل کار نے کہا: ہم گوشمالی کرتے رہے (we were turning the screws) یہاں تک کہ اس کے ساتھ ہم اس مقام پر پہنچ گئے کہ پاکستانی ہمارے ساتھ کام کرنے لگے۔ (ص ۴۷)
جنرل پرویز مشرف اور ان کے وزیرخارجہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے کسی کے اشارے پر یا دبائو کے تحت کچھ نہیں کیا۔ اس سے بڑا جھوٹ آسمان تلے نہیں ہوسکتا۔ قوم نے جس فوج کو ملک کی آزادی اور قوم کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر تیار کیا تھا‘ اس کی قیادت نے چند ڈالروں کے لیے اور دوسروں کی دھمکیوں کے تحت خود مسلمانوں کا خون بہایا اور امریکا کی بالادستی کے قیام کے لیے خود اپنی جانیں اور عزت قربان کی۔ اقبال نے تو کشمیر کا نوحہ کیا تھا‘ کیا خبر تھی کہ پاکستان کے بارے میں بھی کہنا پڑے گا کہ اس کے جرنیلوں نے ع
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!
امریکا کس طرح ہمارے معاملات میںمداخلت کر رہا ہے‘ وہ صرف افغانستان کے لیے کندھا فراہم کرنے اور وزیرستان میں فوج کشی کرنے تک محدود نہیں۔ چند اور مثالیں مشتے نمونہ ازخروارے پیش خدمت ہیں۔
امریکا اور برطانیہ کے اشاروں پر کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست برداری اختیار کی گئی اور نہ صرف عملاً تحریک آزادیِ کشمیر کی ہر مدد بند کردی‘ بلکہ اسے آزادی کی جنگ بھی کہنے سے توبہ کرڈالی۔ افسوس کہ بالآخر جنوری ۲۰۰۴ء میں یہاں تک اعلان کردیا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن جسے پاکستان نے کبھی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا تھا‘ اسے کشمیری مجاہدین کے لیے بند کردیا جائے گا اور ان کے سرحدپار کرنے کو دہشت گردی کی ایک صورت تسلیم کرلیا۔
اس سلسلے میں ٹونی بلیئر نے صدربش کے کارندے کی خدمات انجام دیں اور جنرل پرویز مشرف کوقائل کرلیا کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کو تحریکِ آزادی بھی نہ کہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل ہی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ایڈوائزر اور پالیسی کے شعبے کے مدیر الیسٹیرکیمپبل کی کتاب The Blair Years شائع ہوئی ہے۔اس میں ٹونی بلیئر کے کارنامے اور پاکستانی جرنیل کا ’تیرا مجبور کردینا، مرا مجبور ہوجانا‘ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے‘ عبرت کے لیے اس کا جاننا ضروری ہے۔ جنرل صاحب سے یہ ملاقات ۷جنوری ۲۰۰۲ء میں‘ اسلام آباد میں ہوتی ہے اور اس کے بعد ۱۲فروری ۲۰۰۲ء کو وہ کشمیر کی جنگ آزادی سے دست برداری کا اعلان فرما دیتے ہیں۔الیسٹیر کیمپبل لکھتا ہے کہ:
بلیئر کا پہلا قدم یہ ہونا تھا کہ مشرف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ سخت ہوجائے۔ بلیئر نے مشرف سے کہا کہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے دہشت گردی کی حمایت ختم ہونی چاہیے۔ مشرف نے حیران ہوکر دیکھا۔ بلیئر نے کہا: یہ اس لیے ٹھیک نہیں ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ اس کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر یہ کہے کہ وہ دہشت گردی کی ہرشکل کا مخالف ہے۔ ہم نے اسے اس پر قائل کرلیا کہ کشمیر کے بارے میں وہاں ہونے والی جدوجہد کو جنگِ آزادی نہ کہاجائے۔ اس لیے کہ یہ ہم اور امریکی راے عامہ نہیں سمجھیں گے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ایک مقامی جدوجہد کہا جائے۔ ہمیں اس پر بہت وقت خرچ کرنا پڑا لیکن بالآخر وہ مان گیا۔ (The Blair Years‘ ص ۵۹۹)
امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہو یا پاکستان کی کشمیرپالیسی‘ نیز بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور دوستی کی پینگیں___ سب کچھ امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو پرہوا لیکن الفاظ و معانی اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ بقول جنرل صاحب یہ سب ’قومی مفاد میں ہوا‘، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
لال مسجداور جامعہ حفصہ کے خلاف جو فوجی آپریشن ہوا وہ بھی امریکا اوراس کے حواریوں کے مطالبات اور مغربی میڈیا اور خود پاکستان میں لبرل قیادت کے شوروغوغا اور اس کی سرخیل محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہہ پر ہوا۔ صدربش‘ گورڈن برائون (برطانوی وزیراعظم) آسٹریلیا کے وزیراعظم اور خود بے نظیر صاحبہ نے باقاعدہ اس اقدام کی تحسین فرمائی اور معصوم بچوں اور بچیوں کے کشت و خون اور مدرسے کی مسماری پر مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ اب اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ امریکا نے ایکشن سے ایک دن پہلے باقاعدہ ہدایات جاری کیں‘ اس فرق کے ساتھ ان کا مطالبہ تھا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مکینوں کو گرفتار کیا جائے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی یہ تھی ان کو نیست و نابود کیا جائے‘ بلکہ جامعہ حفصہ کو بھی اس طرح مسمار کیا جائے کہ بقول چیف جسٹس آف پاکستان اس آپریشن کے بارے میں ساری معلومات اور شہادتیں بھی ختم ہوجائیں۔ امریکی ہدایات ریکارڈ کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ ۹جولائی ۲۰۰۷ء کے The Nation کے مطابق فوجی ایکشن سے ایک دن قبل(واضح رہے کہ یہی وہ دن ہے جب مصالحت کی کوششیں اپنے عروج پر تھیں‘ معاملات طے ہورہے تھے کہ ان کو سبوتاژ کردیا گیا) یہ ہدایات نازل ہوئیں:
امریکا نہیں چاہتاکہ ان درجنوں خطرناک جنگجوؤں کو جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہیں‘ محفوظ راستہ دیا جائے بلکہ سخت اقدام چاہتا ہے تاکہ وہ گرفتار ہوں۔ بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی کے مطالبے کے مطابق مسجد خالی کرنے اور لڑکیوں کے متصل مدرسے کو خالی کرنے کی شرط پر جنگجوؤں کو محفوظ راستہ نہ دیا جائے… واشنگٹن کو ان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے مقابلے میں گرفتار کرنے میں زیادہ دل چسپی تھی‘ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم سراغ ملیں گے… انھوں نے کہا کہ امریکا کے اعلیٰ سیکورٹی اہل کار پاکستانی دارالحکومت کے واقعات کو مانٹیر کر رہے تھے اور اپنی حکومت کو باقاعدگی سے تازہ اطلاعات پہنچا رہے تھے۔
اسی طرح جنوبی اور شمالی وزیرستان میں جو امن معاہدہ ہوا اس سے امریکاسخت ناخوش تھا۔ اس نے اپنا سارا اثرورسوخ اور بازو مروڑنے (arm-twisting) کے حربے استعمال کرکے شمالی وزیرستان اور اس سے بڑھ کر صوبہ سرحد کے چند اہم مقامات خصوصیت سے سوات‘ بنوں اور دوسرے علاقوں میں فوج بھیجنے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالا اور بالآخر اس علاقے میں ایک بار پھر خون ریزی اور تصادم کا سماں پیدا کردیا۔ واشنگٹن سے ڈان کے نمایندے کی ۱۶جولائی کی رپورٹ قابلِ غورہے:
امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نے بتایا کہ امریکا پاکستان کو وہ تمام آلات فراہم کرے گا جن کی انھیں صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے لیے ایک مجوزہ کریک ڈائون کے لیے ضرورت ہوگی۔ اسٹیفن رِڈلے نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ جنرل مشرف نے قبائلی علاقوں میں مزید افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور امریکا اس اقدام کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ہمیں اس ملک کو اس حالت میںلاناہے جہاںاس کے پاس دہشت گردی کے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری آلات ہوں‘ جو بدقسمتی سے ہمارے ساتھ طویل مدت تک رہے گا۔
بھارت کے جریدے فرنٹ لائن نے اپنی ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں پاکستان پر تفصیلی کور اسٹوری شائع کی ہے جس میں جان شیریں (John Cherian) نے اپنے دو مضامین میں حالات کی یوں عکاسی کی ہے:
جب انھیں یاد دلایا گیا کہ قبائلی سرداروں نے گذشتہ سال ستمبر کا معاہدہ ختم کردیا ہے تو انھوں نے کہا کہ معاہدے نے اس طرح کام نہیں کیا جس طرح صدرمشرف چاہتے تھے‘ بلکہ اس طرح بھی نہیں کیا جس طرح ہم چاہتے تھے۔ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری رچرڈ بائوچر نے کانگریس کو بتایا کہ امریکا قبائلی پٹی اور سرحد کی نگرانی کے لیے پاکستانی فوج کو ہرمہینے ۱۰۰ ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔
اگر امریکی احکام پر عمل کیا جائے تو پاکستانی فوج افغانستان سے متصل اپنے سرحدی علاقے میں پشتون قبائل کے ساتھ عملاً حالت ِ جنگ میں ہوگی…
امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد بش انتظامیہ نے پاکستان پر دبائو ڈال کر اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشرف کو بتایا گیا کہ اگر اس نے طالبان کی حمایت ترک نہ کی تو واشنگٹن بم باری کرکے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا سکتا ہے‘ اور نئی دہلی کو اشارہ کرے گا کہ پاکستانی کشمیر کے متنازع علاقے پر قبضہ کرلے۔
پاکستانی صدر پرویز مشرف کی حالیہ پریشانیوں کی بڑی وجہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کا احیا ہے۔ امریکا اور ناٹو کی افواج کی طالبان کو شکست دینے میں ناکامی نے پاکستان میں اس کے حامیوں کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ بش انتظامیہ کو سیاسی طور پر یہ مناسب لگتا ہے کہ طالبان اور اس کے عسکری حلیفوں کو افغان سرحدی علاقوں میں قابو کرنے کے لیے کافی کچھ نہ کرنے کے الزام پاکستان پر رکھ دے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے احیا کی حقیقی ذمہ داری واشنگٹن اور اس کے حلیفوں پر ہے۔
بش انتظامیہ حکومتِ پاکستان پر دبائو ڈال رہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں پھر بھرپور حملہ کرے۔ اپنے علانیہ بیانات میں سینئر امریکی اہل کار کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستانی فوج آگے بڑھ کر اقدام نہیں کرتی تو امریکا خود اقدام کرسکتا ہے۔ ماضی میں کئی موقعوں پر امریکی فضائیہ نے القاعدہ کے اہداف کو پاکستانی حدود میں نشانہ بنایا ہے۔ امریکی اسپیشل فورسز بھی محدود پیمانے پر آپریشن کر رہی ہیں۔
امریکی مداخلت کی تازہ ترین مثال مشرف بے نظیر مفاہمت کی کوششیں اور اس کے لیے کی جانے والی طرح طرح کی سازشیں ہیں۔ ایمرجنسی کی بات اور پھر امریکی وزیرخارجہ کی مداخلت اس کی تازہ ترین نظیر ہیں۔ نیویارک ٹائمز ۱۱اگست ۲۰۰۷ء کے اداریے میں امریکا کے کردار کویوں بیان کرتا ہے:
وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے جمعرات کی رات کو ۲ بجے صدرمشرف کو فون کر کے ایک سیاسی طوفان کو دُور کرنے میں مدد دی‘ اور پارلیمنٹ کو معطل کرنے‘ عدالتوں کو بے اختیار کرنے‘ مظاہروں پر پابندی لگانے اور اس کے لیے ایک نئی صدارتی مدت کے سلسلے میں بات کی۔
لیکن یہ بحران شاید صرف ملتوی ہوا ہے۔ آٹھ سال کی مطلق العنان حکومت اور عہدشکنیوں کے بعد مشرف نے وہ حمایت کھو دی ہے جو اسے عام پاکستانیوں میں‘ تعلیم یافتہ پروفیشنل طبقے میں‘ حتیٰ کہ ساتھی فوجی افسروں میں کبھی حاصل تھی۔ مشرف کو صرف یہ بتانا کہ وہ مزید اختیارات حاصل نہ کرے کافی نہیں۔ واشنگٹن کو اسے یہ بتانا چاہیے کہ تاخیر ہونے سے قبل مذاکرات کے ذریعے جمہوریت کی طرف جلدواپس ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ یہاں جمہوریت کے معنی امریکا کی پسندیدہ قیادت کو برسرِاقتدار لانا ہے‘ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ امریکا کوجمہوریت کا کتنا پاس ہے۔
اس دل خراش داستان کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم نے صرف چنددستاویزاتی شہادتیں پیش کی ہیں تاکہ ’قومی مفاد‘ کی بات کرنے والوں کااصل چہرہ سامنے آسکے۔ امریکا کے ایجنڈے کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے قوم‘ پارلیمنٹ‘ حتیٰ کہ کابینہ اور دفترخارجہ تک کو نظرانداز کرکے وحدت اقتدار (unity of command) کے نام پر خارجہ پالیسی کا جو تیاپانچہ کیا ہے‘ اس سے ملک اور اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے چند اہم پہلوئوں کی نشان دہی کی جاتی ہے:
۱- صدر بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نہ بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے جنگ ہے اور نہ اس کا ہدف حقیقی دہشت گردی ہے۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا تو سب سے زیادہ ارتکاب خود امریکا نے کیا ہے یا اس کے حلیفِ خاص اسرائیل اور پھر بھارت نے۔ اس وقت خود امریکی اور یورپی اہلِ علم ’وار آن ٹیررزم‘ کے پورے paradigmکو چیلنج کررہے ہیں‘ اور صاف کہہ رہے ہیں کہ جنگ کا لفظ صرف اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ سویلین افراد کو محارب (combatant) قرار دے کر قانون سے بالابالا ختم کیا جاسکے۔ ان کے بقول جن پر دہشت گردی کا شبہہ ہو جب تک الزام عدالت کے نظام کے تحت ثابت نہ ہو‘ انھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور جو فی الحقیقت دہشت گرد ہیں وہ بھی محارب نہیں صرف ’مجرم‘ (criminal) ہیں اور ایک مجرم کو جرم کی حد تک قانون کے عام پروسس کے ذریعے ہی سزا دی جاسکتی ہے۔ ’وار آن ٹیررزم‘ ایک قانونی فراڈ ہے اور جنرل پرویز مشرف صدر بش کے ساتھ اس فراڈ میں‘ جو اب انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم (crime against humanity) بن چکا ہے‘ شریک ہیں اور پاکستانی فوج کو اس نے اس میں ملوث کر کے پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کوسخت عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے‘ جب کہ دنیا کی سوچ اب اس طرح بدل رہی ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم گارڈن برائون نے دو ہفتے قبل یہ ہدایت جاری کی ہے کہ آیندہ کوئی برطانوی وزیر اسے ’وار آن ٹیرر‘ نہ کہے۔
۲- پاکستان کی کشمیر پالیسی کو یک سر بدل کر اور تحریک حریت کشمیر سے غداری کرکے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضرب کاری لگائی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کشمیر کے عوام کو پاکستان سے مایوس اور بددل کرکے نہ صرف ۵لاکھ شہیدوں کے خون سے بے وفائی کی ہے بلکہ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو بھارت کے استبداد کا نشانہ بننے اور ان کی زندگی کو جہنم بنانے کا سامان کیا ہے۔ اس کے جو دُور رس اثرات خود پاکستان کی سلامتی‘ معاشی خودانحصاری اور نظریاتی تشخص پر پڑیں گے دل ہلا دینے والے ہیں۔
۳- بھارت سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں بھارت کی طرف سے تمام خطرات کو نظرانداز کردیا ہے جو وہ پاکستان اور اس پورے علاقے کے لیے پیدا کر رہا ہے۔ یہاں بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک پارٹنر اور ایٹمی سمجھوتے کی وجہ سے جو مسائل اور خطرات پاکستان‘ چین‘ ایران کو پیش آنے والے ہیں‘ ان سے آنکھیں بند کرلینا اپنے اندر بڑے مہلک امکانات رکھتا ہے۔ ان سارے پہلوؤں کا جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی میں کوئی شعور نظر نہیں آتا۔
۴- افغانستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے‘ بلاشبہہ اس کی اوّلین ذمہ داری امریکا اور ناٹو کی فوجوں پر ہے لیکن پاکستان بھی اس ذمہ داری میں شریک ہے‘ اور یہی وجہ ہے افغان عوام پاکستان سے دُور سے دُور تر ہوتے جارہے ہیں۔ شمالی اتحاد تو اوّل روزسے پاکستان کے خلاف اور بھارت کا حلیف اور آلۂ کار تھا لیکن وہ تمام قوتیں جو پاکستان کے لیے محبت‘ ہمدردی اور احسان مندی کے جذبات رکھتی تھیں‘ وہ بھی نائن الیون کے بعد ہم سے نالاںاور دُور ہوگئی ہیں۔ یہ دُوری اب بداعتمادی اور نفرت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنالیا اور دشمن اور زیادہ شیر ہوگیا۔ نیز افغانستان میں بھارت نے بڑی مضبوطی اور عیاری سے اپنے قدم جما لیے ہیں جن کا ہدف بالآخر پاکستان ہے۔ بلوچستان میں اس کے اثرات نظر آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔
۵- ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور ایران میں بھی اب پاکستان کے لیے وہ گرم جوشی نہیں جو ایک تاریخی حقیقت اور ہمارا بڑا قیمتی اثاثہ تھی۔ آج ہمارے تمام ہمسایہ ملک پہلے کے مقابلے میں ہم سے دُور اور شاکی ہیں۔یہ سب نتیجہ ہے ایک تباہ کن خارجہ پالیسی کا جو امریکا کے مفاد میں ہے یا اس کا فائدہ ذاتی طور پر گنے چنے افراد کو پہنچ رہا ہے۔
۶- دینی اورتہذیبی اعتبار سے بھی یہ سودا بڑے خسارے کا سوداہے۔ مسلم معاشرے کو محض امریکا کو خوش کرنے کے لیے لبرل اور انتہاپسند طبقوں میں تقسیم کیاگیا ہے اور ان کو باہم تصادم کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔ سیاسی مسائل کو ننگی قوت کے ذریعے حل کرنے کی احمقانہ پالیسی پر بگ ٹٹ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس سے معاشرے میں تصادم اور تشدد پرستی کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ قوم اور اس کے حکمرانوں کے درمیان جنگ کی کیفیت ہے جو سیاسی اور تہذیبی عدمِ استحکام کی طرف لے جا رہی ہے۔
۷- اس پالیسی کا ایک اور بڑا ہی نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ قوم اور فوج میں نہ صرف مغائرت پیدا ہوئی ہے بلکہ یہ بے اعتمادی اب نفرت کو جنم دے رہی ہے۔ وہ فوج جسے قوم اپنی آنکھ کا تارا قرار دیتی ہے اور جس پر عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرتی تھی آج وہ عوام کے غصے کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ۲۹ جولائی کے اخبارات میں وزارتِ داخلہ کی یہ ہدایت شائع ہوئی ہے اور ہماری اطلاع ہے کہ فوجی ذرائع نے بھی اپنے اپنے گیریژن کو ایسی ہی ہدایات دی ہیں‘ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف سے بھی یہ بات منسوب کی جارہی ہے کہ انھوں نے ہدایت کی ہے کہ فوجی افسر اور جوان بسوں میں‘ بستیوں میں اپنی وردی میں نہ گھومیں کہ ان پر حملوں کا خطرہ ہے۔
ڈیلی ٹائمز میں ۲۹ جولائی کو اس سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ: ’’فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو عوام میں وردی پہن کر جانے سے متنبہ کیا گیا ہے‘‘۔ خبر کا صرف یہ جملہ سرپیٹ لینے کے لیے کافی ہے کہ: ’’وزارتِ داخلہ نے پاکستانی فوج‘ فرنٹیئرکانسٹیبلری‘ الائیٹ فورس‘ اینٹی رائٹ فورس‘ پنجاب کانسٹیبلری اور پنجاب رینجرز کے افسران اور سپاہیوں کو متنبہ کیا ہے کہ پبلک مقامات پر وردی میں نہ آئیں اور نہ نجی گاڑی وردی میں چلائیں‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون
سپریم کورٹ کے محترم جج جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو ۲۰ جولائی کے فیصلے سے عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں اورجن کی راے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں‘ انھوں نے ناروے میں وہاں کے وزیرخارجہ کی موجودگی میں پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی کتنی سچی ترجمانی کی ہے:
پاکستان مغرب کے مفادات کے لیے لڑ رہا ہے مگر اس سب کے باوجود شرمندگی کا سامنا ہے۔ وہ دوست جن کے لیے ہم یہ سب کر رہے ہیں‘ ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک سفارت کار نہیں بلکہ ایک جج ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ کہیں گے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ قربانی دی ہے اور اب بھی دے رہا ہے مگر اس کی قدر نہیں کی جارہی۔
جنرل صاحب کے وردی سے چمٹے رہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب یہ وردی محبت کے بجاے نفرت کا اور حفاظت اور آشتی کی جگہ عدم تحفظ کا نشان اور تصادم اور انتقام کی دعوت کی علامت بن گئی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کو حقیقی قانونی جواز تو کبھی بھی میسر نہ تھا اور اس کے حصول کا ایک موقع جو ان کو ۱۷ویں ترمیم نے دیا تھا‘ اسے انھوں نے وردی نہ اتار کر ختم کردیا۔ ان کی آٹھ سالہ کارکردگی نے ان کی ساکھ (credibility)کو تار تار کردیا ہے اور رہی ان کی اور فوجی حکمرانی کے نظام کی کارکردگی (competence) تواس کا بھانڈا بھی اب پھوٹ چکا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے پہلے ہفتے میں ڈان‘ ڈان نیوز اور سی این این نے جو سروے کیاہے‘ اس کی رو سے پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت (۲ء۶۵ فی صد) ان سے نجات پانے کا اعلان کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ صدارت سے فوراً دست کش ہوجائیںاور ۵ء۵۴فی صد کہتی ہے کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل ختم کیا جائے۔ بی بی سی کے سروے میں چھے ناموں میں میاںنواز شریف سب سے اوّل مقام پر آئے ہیں اور مشرف صاحب سب سے آخر میں۔ یہ پاکستان کے عوام کی دل کی آواز ہے اور ہم بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ ٹائم میگزین کے تازہ شمارے سے یہ جملہ نقل کررہے ہیں جو افغانستان کے حالیہ جرگے کے بعد وہاں کے حالات پر مبنی رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کہ افغانستان میں ’مشرف‘ کا نام اب کتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے(ٹائم‘ ۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ جنرل ایوب تو صرف بچوں کی زبان سے یہ لفظ سن کر اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا لیکن روے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ؟
آخر میں ہم صرف ایک بات اور کہنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے اس تمام ناکامی کی بڑی وجہ ملک میں جمہوریت کا فقدان‘ فوج کی سیاست میں مداخلت‘ فردِواحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کے کردارکا فقدان‘ قومی احتساب کی کمزوری اور عوام کی حکمرانی سے دُوری ہے۔ اداروں کے ذریعے فیصلہ سازی میں بڑاخیرہے اور جہاں یہ نہ ہو وہاں پالیسی سازی کا وہی حشر ہوتا ہے جو جنرل صاحب کے دورِاقتدار میں پاکستان میں ہواہے۔ حالات کی اصلاح کی راہ بھی ایک ہی ہے: یعنی جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ اداروں کے ذریعے پالیسی سازی‘ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کا قومی احتساب‘ اور کسی کے لیے بھی من مانی کرنے کے راستوں کو مسدود کر دینا۔
آیندہ چند مہینے پاکستان کے لیے بڑے اہم ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ قوم اپنا حق حکمرانی غاصبوں سے چھین لے‘ اور دستور اور قانون کی حقیقی بالادستی کا نظام قائم کرے جس میں ایک طرف لوگوں کو عزت اور انصاف مل سکے تو دوسری طرف ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیاں عوام کی مرضی کے مطابق اور ان مقاصد کی روشنی میں تشکیل پاسکیں جن کے لیے پاکستان قائم ہواتھا۔