ستمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

نماز: تعدیل ارکان

پروفیسر محمد اسحاق | ستمبر۲۰۰۷ | تذکیر

Responsive image Responsive image

رمضان المبارک کی آمد سے اہلِ ایمان کے ایمان اور عبادت اور بندگی کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگوں کا مساجد کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ نماز کے دیگر احکامات کے ساتھ ساتھ تعدیل ارکان‘ یعنی نماز کو ٹھیر ٹھیر کر ادا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر ایک تحریر نذرِ قارئین ہے۔(ادارہ)

اللہ تعالیٰ کو بندوں کے ایسے اعمال پسند ہیں جو سنوار کر کیے گئے ہوں اور حُسن و خوبی سے متصف ہوں۔ قرآن پاک میں ہے:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۱-۲) اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے زیادہ خوب صورت عمل کس کے ہیں۔

دیکھیے یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل کس کے ہیں بلکہ فرمایا خوب صورت عمل کس کے ہیں۔ گویا اللہ کو ہماری طرف سے صرف اعمال نہیں‘ خوب صورت اعمال مطلوب ہیں۔ ہم اپنی نمازوں کو کس طرح مؤثر اور خوب صورت بنائیں؟ اس ضمن میں ہم تعدیل ارکان کا ذکر کریں گے۔

  •  مفھوم اور تقاضے: تعدیل بمعنی توازن و اعتدال میں دو باتیںشامل ہیں: ایک یہ کہ اعمال نماز میں سے ہرعمل کو ٹھیرٹھیر کر اطمینان سے ادا کیا جائے۔ عجلت اور تیزرفتاری سے پڑھے جانے والے اذکار و آیات پر تفکر و تدبر ممکن نہیں ہوتا۔ جملے اور الفاظ غیرشعوری طور پر‘ سرعت کے ساتھ یکے بعددیگرے زبان سے ادا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن الفاظ پر ٹک ہی نہیں سکتا۔

تعدیل کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ ارکان و اعمال باہم متوازن و متناسب ہوں‘ مثلاً ایسا نہ ہو کہ رکوع بہت مختصر اور سجدہ بہت طویل ہو‘ یا قومہ (رکوع کے بعد کھڑے ہونے کا وقفہ) بس براے نام ہی ہو اور نمازی رکوع سے سر اُٹھاتے ہی سجدے میں گر پڑے۔ نماز میں حُسن اسی صورت میں پیدا ہوگا جب نماز کے تمام اعمال باہم متناسب و متوازن بھی ہوںاور ادا بھی ٹھیر ٹھیر کر اطمینان سے کیے جائیں۔

عہدنبویؐ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک آدمی نے مسجد نبویؐ میں نماز پڑھی۔ نبی اکرمؐ بھی قریب ہی تشریف فرما تھے۔ نمازی نے جلدی جلدی نماز ادا کی۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اورسلام کر کے بیٹھ گیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا: لوٹ جا اوردوبارہ نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ راوی حدیث حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اس شخص نے تین یا چار مرتبہ نماز پڑھی کیونکہ حضوؐر ہرمرتبہ فرماتے کہ پھر نماز پڑھ‘ تیری نماز نہیں ہوئی۔ آخر اس نے عرض کیا: حضوؐر مجھے سکھایئے کس طرح پڑھوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہر رکن کو اطمینان و سکون سے ٹھیرٹھیر کرادا کر۔ آپؐ نے قومے‘ جلسے‘ رکوع اورسجدے کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا اور ہر ایک کو اطمینان وسکون سے ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہ واقعہ حدیث کی صحیح ترین کتابوں بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔

آپ نے غور فرمایا اس آدمی کی نماز میں کیا خامی تھی۔ وہ نماز کو جلدی جلدی اورسر سے بوجھ اُتارنے کے انداز میں پڑھتا تھا۔ آپؐ نے اسے تاکید فرمائی کہ نماز کے سارے اعمال ٹھیرٹھیر کر اور سنوار کر ادا کرے۔ یہی تعدیل ہے اس کے بغیرنماز اللہ تعالیٰ کے ہاںقابلِ قبول نہیں ہوتی۔

  • مجدد الف ثانیؒ کی راے: حضرت مجدد الف ثانیؒ تعدیل ارکان کے ضمن میں اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ایک نمازی کے پاس سے گزرے۔ دیکھا کہ ارکان قومہ‘ جلسہ وغیرہ کو ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر رہا توفرمایا: ’’گر تواسی عادت پر مرگیا تو قیامت کے دن میری اُمت میں نہ اٹھے گا‘‘۔

ایک اور روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’زید بن وہب نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور رکوع و سجود وغیرہ ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر رہا۔ آپؐ نے اسے بلاکر پوچھا: تو کب سے اس طرح کی نماز پڑھ رہا ہے؟ اس نے کہا: ۴۰سال سے۔ فرمایا: اس ۴۰سال کے عرصے میں تیری کوئی نماز نہیں ہوئی۔ اگر تو مرگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہ مرے گا‘‘۔

ذرا آگے چل کر مکتوب الیہ کومخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’پس چاہیے کہ تعدیل ارکان‘ یعنی رکوع‘ سجود اور قومہ‘ جلسہ کی بخوبی ادایگی کے لیے کوشش کی جائے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کی جائے‘ کیوں کہ اکثر لوگ اس دولت سے محروم ہیں اور یہ عمل متروک ہوتا جا رہا ہے۔ اس عمل کا زندہ کرنا دین کی ضروریات میں سے ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو شخص میری کسی مُردہ سنت کو زندہ کرتا ہے تو اسے سوشہیدوں کاثواب ملتاہے‘‘۔ (مکتوب ۶۹‘ دفتر دوم)

یہ بھی ضروری ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے الفاظ کو نمازی زبان سے ادا کرے۔ ہونٹ ہلائے بغیر دل ہی دل میں پڑھنا درست نہ ہوگا۔ نماز انفرادی ہو تو پھر موقع چاہے قیام کا ہو یا تشہد کا‘ رکوع کا ہو یا سجدے کا‘ الفاظ کو اس طرح اداکرناچاہیے کہ پڑھنے والے کے اپنے کان انھیں سنیں۔ نیز ہمیشہ ایک ہی سورت‘ مثلاً سورۂ اخلاص کی تکرار نہ کی جائے۔ سورئہ فاتحہ کے ساتھ دوسری سوروں کو بدل بدل کر پڑھنا چاہیے۔ اس طرح قراء ت میں مشینی انداز ختم ہوگا اور شعوری طور پر پڑھنے کا رجحان پیدا ہوگا۔

چند تدابیر

نماز میں تیزرفتاری کی عادت نہایت ناپسندیدہ ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس کا علاج یہ ہے کہ:

                ۱- آیات و اذکار کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے ایک ایک جملے کو ٹک کر پڑھتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ نمازی ہر جملہ ارادے سے پڑھے‘ نہ کہ یاد سے۔

                ۲- انفرادی نمازوں میں رکوع اورسجدے میں صرف تین مرتبہ تسبیح پڑھنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ پانچ یا سات یا دس مرتبہ پڑھی جائیں اور ٹھیرٹھیر کر اطمینان سے پڑھی جائیں۔

                ۳- وہ دعائیں اور اذکار یاد کر کے پڑھنے کو معمول بنایا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود وغیرہ میں پڑھتے تھے‘ مثلاً قومے میں رَبَّنَا لَکَ الْحَمد کے بعد یہ دعا پڑھی جائے: حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارکاً فِیْہِ (ایسی تعریف جو کثرت والی ہے‘ پاکیزہ ہے اور برکت والی ہے)۔ دونوں سجدوں کے درمیان پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھائی گئی ہے: اَللّٰھُمَ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ (اے اللہ! میری بخشش فرما‘ مجھ پر رحم فرما‘ مجھے عافیت‘ ہدایت اور رزق عطا فرما)۔ علی ہذاالقیاس۔ دعائوں کی تفصیل کے لیے کسی حدیث کی کتاب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

                ۴-  ’’…اور رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ کو اطمینان سے ادا کرنا چاہیے‘ یعنی رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہوکر ایک تسبیح کی مقدار رکنا چاہیے اوردو سجدوں کے درمیان ایک تسبیح کی مقدار بیٹھنا چاہیے تاکہ قومہ اورجلسہ میں اطمینان حاصل ہو۔ جو شخص ایسانہ کرے وہ چوروں میں داخل ہے‘‘۔ (اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس کا مضمون یہ ہے کہ بدترین چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرے)۔

یہ اقتباس حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے ایک مکتوب سے اخذ کیا گیا ہے۔ جلدبازی کی عادت ختم کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ تدبیر ہے اور احادیث ہی سے اخذ کی گئی ہے‘ یعنی ایک رکن ختم ہونے پر فوراً دوسرا نہ شروع کیا جائے۔ قیام میں قراء ت مکمل ہونے پرفوراً رکوع میں جانے کے بجاے ذرا توقف کیا جائے۔ رکوع کی تسبیحات پڑھ لینے کے بعد فوراً قومے کے لیے کھڑے ہونے کے بجاے معمولی ساتوقف کرلیا جائے۔ یوں اعمالِ نماز میں ایک طرح کا ٹھیرائو اور وقار پیدا ہوگا۔ حضرت مجدد نے صرف قومے اورجلسے کے توقف کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اسی میں کوتاہی کرتے ہیں۔