ستمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

تجوید و قرأت کی فضیلت

مولانا قاری ہدایت اللہ خان | ستمبر۲۰۰۷ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

کسی بھی زبان اور لہجے کی خوب صورتی اُس کے حُسنِ ادایگی سے ہوتی ہے۔ ہرزبان کا ایک الگ انداز ہوتا ہے اور اگر وہ زبان اُس لہجے اور انداز میں نہ بولی جائے تواُس زبان کی لذّت کو محسوس نہیں کیاجاسکتا۔بعض اوقات تو انداز ولہجے کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں۔یہی بلکہ اِس سے بھی زیادہ عجیب صورتِ حال عربی زبان کی ہے اور خاص طور پر قرآن کامعاملہ توبالکل مختلف ہے۔ عربی زبان کی ادایگی میںزبر‘زیر‘پیش کالحاظ رکھنابہت ضروری ہے اور اسی طرح حروف کی صحیح ادایگی بھی بہت ضروری ہے۔رسولؐ اللہ کاطریقہ تھاکہ جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپؐ نازل شدہ آیات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یاد کرادیتے تھے۔

روایات میں آیاہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کوقرآن مجید پڑھ کے سناتے تھے۔

حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے حضرت ابی بن کعبؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں تمھیں قرآن مجید پڑھ کر سنائوں۔انھوںنے عرض کیاکہ کیااللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر فرمایاہے؟۔آپؐ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے تیرانام لے کرمجھے  فرمایا ہے۔راوی نے کہاکہ حضرت اُبیؓ یہ سن کر(مارے خوشی کے)رونے لگے۔(متفق علیہ)

حضرت اُبی بن کعبؓ کے بارے میں حضوؐرنے فرمایا: صحابہؓ میں سب سے بڑے قاری  اُبی بن کعبؓ ہیں۔(ترمذی‘ ابن ماجہ)

حضوؐر صحابہؓ کو نصیحت فرماتے تھے کہ ’جو شخص چاہتاہے کہ قرآن اُس طرح پڑھے کہ جس طرح نازل ہواہے تواُسے چاہیے کہ وہ ’ابن امّ عبد‘(عبداللہ ابن مسعودؓ)کی طرح پڑھے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ قرآن چار شخصیتوں سے سیکھو: ۱-عبداللہ ابن مسعودؓ ۲-سالمؓ (مولیٰ ابوحذیفہؓ)۳-ابی بن کعبؓ ۴-معاذبن جبلؓ (متفق علیہ)

تجوید کامعنٰی

تجوید لغوی معنوں میں’تحسین الشّئی‘یعنی کسی چیز کی خوب صورتی یا عمدگی کوکہتے ہیں‘ اور جب یہ لفظ قرآن مجیدکی تلاوت کے لیے بولاجائے تو اس کامطلب ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حسن کے مطابق کی جائے۔ہم اردو زبان میں اس جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں‘ مثلاًجیّد، تجدید کرناوغیرہ ۔اِن تمام الفاظ کامطلب نیاکرنا،بہترکرنااورعمدہ کرنا ہوتا ہے۔ اِسی لیے حضوؐرنے فرمایاکہ زَیِّنُوا القرُآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ  ، ’’اچھی آوازوں سے قرآن کو زینت دو‘‘۔ بخاری‘ نسائی‘ابن ماجہ‘ دارمی اور بیہقی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ دارمی کی ایک روایت میں زَیِّنُواکی جگہ حَسِّنُوا کالفظ آیاہے۔

قرآن مجیدکا یہ اعجاز ہے کہ جب انسان اِسے خوب صورت لہجے میں پڑھتا یاسنتاہے تو اس پر عجیب ساسحر طاری ہوجاتاہے ا ور اِس سلسلے کوموقوف کرنے کوجی نہیں چاہتا۔قرآن مجید کو ٹھیرٹھیر کر پڑھنا ضروری ہے۔ اِس لیے کہ جلدی پڑھنے میں اکثر انسان سے خطا ہوجاتی ہے۔ اِسی لیے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً (المزمل ۷۳:۴)’’قرآن ٹھیرٹھیر کے پڑھو‘‘۔ٹھیرٹھیر کر پڑھنے کافائدہ یہ ہوتاہے کہ جب تجوید کے قواعد کے مطابق انسان تلاوت کرتا ہے تو تلاوت کے دوران اُس کے معانی ومفاہیم بھی ذہن نشین کرتاہے ۔تجوید کے قواعد بالخصوص ’غنّہ‘ اور’مد‘توادا ہی ترتیل سے تلاوت کرنے میں ہوں گے۔ اگر جلدی جلدی پڑھیں گے تویہ دوصفات قرآن مجید کی تلاوت سے خارج ہوجا ئیں گی اور اِس وجہ سے تلاوتِ قرآن کاحُسن باقی نہیں رہے گا۔

مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کاکرم ہے کہ جہاں اُس نے الفاظ کی حفاظت فرمائی اور آج تک تمام الفاظ من وعن اُسی طرح موجود ہیں کہ جس طرح نازل ہوئے‘ اِسی طرح اس نے الفاظِ قرآن کے لہجوں کوبھی محفوظ فرمایا۔ اِس سلسلے میں علماے اُمّت کی قابل قدر کاوشیںہیں۔ اِس لیے اہل عرب کو بالعموم اورغیراہل عرب کو بالخصوص قرآنی رسم الخط اور تجوید کاعلم حاصل کرنابہت ضروری ہے۔ اِس لیے کہ اگر طریقہ قرأت معلوم نہ ہو توجہاں وقف نہیں کرنا‘وہاں وقف کریں گے اور جہاں رُکناہے‘ وہاں پڑھتے چلے جائیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گاکہ قرآن کامطلب وہ نہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہے ،مثلاًاردو میں ہم کہتے ہیں کہ ’اُٹھو،مت بیٹھو‘۔ اِس جملے میںاُٹھنے کاحکم دیاگیاہے اور بیٹھنے سے منع کیاگیاہے۔ اگر کوئی اِس طرح پڑھے کہ جہاں وقف کرناہے وہاں وقف نہ کرے تومعنیٰ برعکس ہوجائے گا کہ’ ’اُٹھو مت، بیٹھو‘، اِس جملے میں بیٹھنے کاحکم ہے اورکھڑے ہونے سے منع کیاگیاہے ۔اِسی طرح قرآن مجید کی تلاوت میں بھی وقوف کاخیال رکھنانہایت ضروری ہے۔

تجوید کی اھمیت

یہ علم ہمیں اِس بات کی تعلیم دیتاہے کہ حروف کو صحیح طریقے سے ان کے مقررہ مخارج سے ادا کیا جائے۔ اِس کافائدہ یہ ہوگاکہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حُسن کے مطابق ہوگی اور معانی و مفاہیم پر بھی کوئی اثرنہیں پڑے گا۔حضوؐرنے فرمایاکہ ’’قرآن اُسی طرح پڑھو جس طرح تمھیں سکھایا گیا ہے، یعنی قرآن مجیدصحیح طریقے سے پڑھوکیونکہ تمھیں صحیح قرأت کی تعلیم دی گئی ہے۔صحیح قرأت سے مراد قرآن مجید کوتجوید سے پڑھناہے کیونکہ قرآن اِسی طرح نازل ہوا ہے۔ اِس حدیث میں حضوؐراُمّت کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ قرآن مجیدصحیح طریقے سے پڑھو اور سب سے صحیح اندازتووہی ہے جسے حضوؐرنے بیان فرمایا ہے۔

حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضوؐرنے فرمایا:قرآن عرب کے لہجوں اورآوازوں میں پڑھو اور اپنے آپ کوعشقیہ نغموں اور اہل کتاب کے طریقوں سے بچاؤ۔ میرے بعد ایک قوم آئے گی جو قرآن کوبنابناکرپڑھے گی(یعنی نغموںکے انداز میں)اور گاگاکر جس طرح راگ اور نوحے گائے جاتے ہیں‘ اور حالت یہ ہو گی کہ قرآن اُن کے حلق سے نہ اُترے گا(یعنی دل پر کوئی اثرنہ کرے گایاوہ قبول نہیں کیاجائے گا)۔ اِن لوگوں کے دل فتنے میں پڑے ہوں گے اور اِن لوگوں کے دل بھی جن کویہ گاگاکرپڑھنااچھامعلوم ہوگا‘‘۔ (بیہقی، فی شعب الایمان)

اِس حدیث کامدَّعابھی یہی ہے کہ غیرعرب مسلمانوں کے لیے سب سے بہترطریقۂ تعلیم یہی ہے کہ وہ اہلِ عرب کی پیروی کریں اوراُس لہجے کی ادایگی اور طریقۂ تعلیم پرنگاہ رکھتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خودقرآن مجید اُنھی کے درمیان نازل ہوا، اِس لیے اہلِ زبان ہونے کی وجہ سے قرآنِ مجید کی تلاوت ان سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔

اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (البقرۃ ۲:۱۲۱ )’’وہ لوگ کہ جن کو ہم نے قرآن عطا کیاہے وہ اِس کی تلاوت کرتے ہیں کہ جیسے تلاوت کرنے کاحق ہے‘‘۔ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کافرمان ہے کہ ’’تجوید حرفوں کا(اُن کے مخرج سے )اداکرنا اور وقوف پرنگاہ رکھناہے‘‘۔حضرت علی ؓ نے اِس قول میں دواُمورکی طرف توجہ دلائی کہ حروف کومخارج سے اداکریں کیونکہ اگر حروف مخارج سے ادانہیں ہوں گے توحروف ہی بدل جائیں گے‘ اوردوسری بات یہ کہ وقوف پر نگاہ رکھنے کامطلب یہ ہے کہ جہاں رکناہے وہاں رکیں‘ کیونکہ جہاں بات ختم ہورہی ہوتی ہے وہاں وقف کرناضروری ہوتا ہے۔

یہ بات بھی حق تلاوت میں شامل ہے کہ قرآن پاک پر عمل کیا جائے۔ جو لوگ قرآن پاک کو خوش الحانی اور تجوید کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے وہ اس کی آیات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

دورانِ تلاوت غلطیوں کی چند مثالیں

چند مثالوں کے ذریعے ہم یہ بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر حروف مخارج سے ادا نہ ہوں توکس قسم کی شدید غلطیاں ہم سے سرزدہوسکتی ہیں۔(معاذاللّٰہ من ذٰلک)

  •  سورۂ اخلاص میں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ ، ’’کہو وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ اب ا گر یہاں ’ق‘کی جگہ’ک‘ پڑھیں تو جملہ ہوگا کُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ اورمعنیٰ ہوگا’’کھاؤ وہ اللہ ایک ہے‘‘۔کیونکہ ’قُلْ‘کا مطلب ہے ’کہو‘اور’کُلْ‘کامطلب ہے ’کھاؤ‘۔دونوں ہی امرکے صیغے ہیں لیکن ایک حرف کی تبدیلی سے پورا مطلب تبدیل ہوگیااوراللہ تعالیٰ کی جومرادہے وہ نہیں رہی۔
  •  ’قلب‘کامطلب ہے ’دل‘۔اگر ’قلب‘ کی ادایگی میں’ق‘کی جگہ’ک‘ادا کردیا تو لفظ ’کلب‘ہوجائے گااور’کلب‘کامطلب ہے ’کتّا‘۔ یہاںپربھی صرف ایک حرف کی تبدیلی سے پورا معنیٰ بدل گیا۔
  •  صکی جگہ س پڑھنابھی شدید قسم کی غلطی ہے مثلاً: اِذَاجَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ میں نصرکامطلب ہے ’مدد‘ اور اگر نصر کی ادایگی میں ’ص‘کی جگہ’س‘پڑھ دیاتو نسر ہوگیا جس کا مطلب ہے ’گدھ‘ (پرندہ)۔ یہاں ایک حرف کی تبدیلی سے پورامطلب ہی تبدیل ہوجائے گا۔
  •  خَلَقَ کا مطلب ہے’ پیداکیا‘۔ اگر’خ‘کی جگہ ’ح‘پڑھ دیایعنی حَلَقَ تو معنیٰ ہوں گے’سرمونڈھنا‘۔ اب یہاں غور کریں کہ ایک حرف کی تبدیلی سے کتنی بڑی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔
  •  زبر( -.َ)کی جگہ زیر( -.َ) پڑھنے سے بھی معنی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اَلْعٰلَمِیْنَ کا مطلب ہے ’سارے جہاں ۔اگر اَلْعٰلَمِیْنَ کی جگہ اَلْعٰلِمِیْنَ  یعنی لام پر زبر کی جگہ زیر پڑھ دیا تومعنیٰ ہوگا ’علم والے‘۔سورۂ فاتحہ میں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَکی تلاوت میں اَلْعٰلَمِیْنَ کے لام کے نیچے زیر پڑھ دیا تو معنیٰ ہوں گے’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ جو رب ہے علم والوں کا‘ (معاذاللّٰہ)۔
  •  زیر کی جگہ زبرلگادیں‘ اِس سے بھی معنیٰ بدل جاتے ہیں‘مثلاً دِیْنٌکا مطلب ہے’ نظامِ زندگی‘،اگریہاں ’دال ‘پرزبرلگادیں تووہ دَیْنٌہوجائے گااور مطلب ہوگا ’قرض‘۔ اصل مدّعا، مطلب اور مراد وہ نہیں ہوں گے جو کہنے والابیان کرناچاہتاہے۔
  •  عین کی جگہ ہمزہ یاہمزہ کی جگہ عین پڑھنے سے بھی معنی بدل جاتے ہیں‘ مثلاً عَلِیْمٌ (علم والا)۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسما میں سے ہے۔ اگر یہاں ’عین ‘کی جگہ ’ہمزہ‘ لگادیاتویہ لفظ عَلِیْمٌکی جگہ اَلِیْمٌ ہوجائے گااور معنیٰ ہوگا (دردناک)۔اِسی مثال کو برعکس بھی کرسکتے ہیںکہ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(درد ناک عذاب) لکھا ہواہے اور وہاں پڑھ دیا عَذَابٌ عَلِیْمٌ، تومعنیٰ ہوگا’علم والاعذاب‘۔
  •  حروف متشابہات کاخیال رکھنابہت ضروری ہے۔بہت سے حروف ایسے ہیں کہ جن کی آوازوں میں کافی مشابہت ہے ۔مثال کے طور پر ’ض‘اور’ظ‘کی آواز میں کافی مشابہت ہے۔ اِسی طرح ’ذ‘اور’ز‘میں بھی کافی مشابہت ہے۔اگر اِن چاروں حروف کی ادایگی میں احتیاط نہ کی جائے تو معنیٰ کس حد تک بدل جائے گا اِس کا اندازہ اِن مثالوں سے لگایا جاسکتاہے: ذَلَّ (وہ ذلیل ہوا)‘ زَلَّ(وہ پھسلا)‘ ظَلَّ(وہ گیا)‘ضَلَّ(وہ گمراہ ہوا)۔اِن مثالوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر حروف ِ متشابہات کی ادایگی میں احتیاط نہ کی جائے تومعنیٰ بدل جائے گا۔

تجوید کی ضرورت

مذکورہ بالاتمام مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید کو تجوید کے مطابق پڑھنا نہایت ضروری ہے ۔اِ س لیے جہاں ہم دنیاکے دیگر علوم حاصل کرتے ہیںاور اُس میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘اگرہم تھوڑاسابھی وقت قرآن کودیں توقرآن ہماری زندگیاں بدل دے گا۔

اُستاد المجوّیّدین علّامہ جزریؒ علم تجوید کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں اور اُن کی کتاب مقدّمۃ الجزری علم تجوید کے حوالے سے مستند کتاب ہے۔حضرت علّامہ فرماتے ہیں کہ: علم تجوید کا حاصل کرناواجب اور ضروری ہے۔ جوشخص قرآن تجوید کے قواعد کے مطابق نہ پڑھے وہ گناہ گار ہوگا۔ اِس لیے کہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے تجوید کے ساتھ نازل کیاہے۔ اور اِسی شان سے اللہ تعالیٰ نے ہم تک پہنچایاہے۔

رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ: بے شک اللہ تعالیٰ یہ بات پسند فرماتے ہیں کہ قرآن اس طرح پڑھاجائے کہ جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔ (رواہ ابن خزیمۃ فی الصّحیح)

اِس حدیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص کی تلاوت کوناپسند فرماتے ہیںکہ جو غلط طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت کرے اور حروف کے مخارج کاخیال نہ رکھے ۔قرآن اچھی آوازوں، بہترین ادایگی اور عمدہ قرأت کے ساتھ نازل ہواہے۔اِس لیے اُمّت کوبھی یہی حکم دیاکہ جس طرح قرآن مجیدنازل ہواہے اُسی طرح پڑھو۔رسولؐ اللہ نے فرمایاکہ: وہ ہم میں سے نہیں ہے جوقرآن کو اچھی آوازوں سے نہ پڑھے۔ اِس حدیث کو امام بخاری ؒ،امام ابوداؤدؒ،امام دارمیؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام بیہقیؒ نے اپنی کتب احادیث میں نقل کیاہے۔ اِسی عنوان کی ایک اور حدیث ابن ماجہؒ نے اپنی سنن میں نقل کی ہے۔

حضرت عبدالرحمن بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن وقاصؓ ہمارے ہاں تشریف لائے ، اُن کی بینائی ختم ہوچکی تھی‘میں نے اُن کوسلام کیا۔فرمایا:کون؟میں نے بتایا‘ توفرمایا: مرحبا بھتیجے! مجھے معلوم ہوا کہ تم خوش الحانی سے قرآن پڑھتے ہو۔ میں نے رسولؐ اللہ کویہ فرماتے سناہے کہ یہ قرآن آخرت کی فکرلے کراُتراہے۔ اِس لیے جب تم تلاوت کروتو(فکرِآخرت سے)رُؤو، اگر رونا نہ آئے تورونے کی کوشش کرواور قرآن کوخوش الحانی سے پڑھو۔ جو قرآن کوخوش الحانی سے نہ پڑھے (یعنی قواعدِتجوید کی رُوسے غلط پڑھے )تووہ ہم میں سے نہیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ،باب فی حسن الصّوت بالقرآن، باب نمبر۱۷۶)

اِن دونوں احادیث میں ایک طرح سے سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ اچھی آوازوں سے قرآن مجید پڑھا کرو۔ اِن احادیث کایہ مطلب نہیں کہ ہرشخص کسی بڑے قاری کی طرح خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھے یایہ کہ صرف حسین آوازوں والے ہی تلاوت کریں اور جس کی آوازاچھی نہیں وہ تلاوت ہی نہ کرے‘بلکہ مراد یہ ہے کہ اچھی آوازوں والے توخوب صورتی سے تلاوت کریں گے ہی لیکن سادہ آواز والے بھی مشق اُسی نہج پر کریں تاکہ اُن کا انداز بہتر ہوسکے ۔ حقیقت تویہ ہے کہ اگر سادہ آواز میں صاف شفاف اندازسے تلاوت کی جارہی ہو توسننے میں بہت لطف آتاہے۔ خوش الحانی تو    اللہ تعالیٰ کی دین ہے لیکن اچھی طرح اورصاف لہجے میں توہر فردپڑھ سکتا ہے ۔بس یہی مراد ہے کہ قرآن مجید بہتر انداز سے پڑھاجائے۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ (غلط پڑھنے کی وجہ سے)قرآن اُن پر لعنت بھیجتاہے‘‘۔(بیہقی)

بہت سے لوگ خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنے کی کوشش میں تلاوت کی صحت کاخیال نہیں رکھتے اورحروف کے مخارج وصفات کوبھی مدّنظر نہیں رکھتے۔ اِسی وجہ سے قرآن مجیدکی تلاوت وہ نہیں ہوتی جوقرآن مجیدمیں لکھی ہوئی ہے،بلکہ وہ عجیب وغریب چیزبن جاتی ہے ۔مخارج کاخیال رکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ حروف بدل جائیں گے اور خاص طور پر مشابہت والے حروف کاخیال رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ’ض‘کی جگہ ’ظ‘ادا ہورہاہو اور ’ص‘کی جگہ ’س‘پڑھا جارہا ہو۔اگر کوئی اپنی اصلاح نہیں کرے گاتووہ صحیح تلاوت کبھی نہیں سیکھ سکتا اورہمیشہ غلط طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت کرتارہے گا۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایاکہ قرآن لعنت کرتا ہے اُن پرجوقرآن مجید غلط طریقے سے پڑھتے ہوں۔ اسی طرح تجوید اور صحت کے ساتھ پڑھنے والا اس پر عمل نہ کرے تو اس پر بھی قرآن پاک لعنت کرتاہے۔

علمِ تجوید کاموضوع

علمِ تجوید کابنیادی موضوع قرآن مجید کے الفاظ وحروف ہیں‘ تلفّظ اورادایگی میں عمدگی اور بہتری کے اعتبار سے۔اگرچہ یہی حروف توعربی گرامر کابھی موضوع ہیں لیکن وہ بناوٹ کے اعتبار سے ہیں کہ یہ لفظ کس طرح بنااور کس طرح بنے گااوراِس میں کون سا قاعدہ جاری ہوگا۔ علم تجوید حروف کی ادایگی اور صحیح تلفّظ کے بارے میں معلومات فراہم کرتاہے کہ یہ حرف اداکس طرح ہوگااور یہ کہ مشابہت والے حروف میںفرق وامتیاز کس طرح کیاجائے گا۔قرآن مجیدکو آہستہ آہستہ اور حروف والفاظ پرغور کرتے ہوئے ٹھیرٹھیر کے پڑھنے میں کتنااَجر ہے‘ اِس کااندازہ اِس حدیث سے لگایاجاسکتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن پڑھنے والے مسلمان سے قیامت کے دن کہاجائے گا: پڑھتاجا (منازلِ جنت) چڑھتا جا۔ اوردنیامیں جس طرح ترتیل سے (ٹھیرٹھیرکر)پڑھتاتھااب بھی اُسی انداز میں پڑھ (تاکہ زیادہ منزلیںطے کرسکے)کیونکہ جنّت میں تیری آخری منزل وہی ہوگی جہاں تو آخری آیت ختم کرے گا‘‘۔ اِس حدیث کو امام ترمذی ؒ،امام ابوداؤدؒ،امام بیہقی ؒ نے اپنی کتب احادیث میں نقل کیاہے۔

اِس حدیثِ مذکور پر غور کیاجائے تومعلوم ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدکوتجوید سے پڑھنے والے کے لیے کتناعظیم الشّان اَجررکھاہے۔اِس حدیث میں درحقیقت اللہ تعالیٰ مومنوں کو حکم فرمارہے ہیں کہ قرآن مجید تجوید سے پڑھو ۔ تجوید سے قرآن مجید پڑھنے سے جہاں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور جہاں قرآن مجید کی تلاوت کاحق اداہوتاہے‘ وہاںخود قاری ِ قرآن کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں اور جنّت میں بلند درجوں کے اہل لوگوں میںاس کا شمار ہوتاہے۔ یہ قرآن کااعزاز ہے کہ اِ س کے پڑھنے والوں کواللہ تعالیٰ اتناعظیم الشّان اَجر عطا فرمائیں گے۔

خود حضوؐرکو اللہ تعالیٰ نے ترتیل سے قرآن مجید پڑھنے کاحکم دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَقُراٰناً فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ(بنیٓ اسرائیل۱۷:۱۰۶) ’’اور اِس قرآن کوہم نے تھوڑاتھوڑا کرکے نازل کیاہے تاکہ تم ٹھیرٹھیرکراِسے لوگوں کوسناؤ‘‘۔ ’مکث‘ٹھیرنے کے معنیٰ میں استعمال ہوتاہے۔اِس کامقصد بھی وہی ہے جو ترتیل کاہے کہ قرآن مجید آہستہ پڑھنے سے مراد غور وفکر سے تلاوت کرنا ہے۔اگرترتیل سے قرآن مجیدنہیں پڑھیں گے توبجاے ثواب کے گناہ لازم آئے گا۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ہرچیزکاایک زیورہے اور قرآن کازیور خوش الحانی ہے‘‘۔

یہاں زیور سے مراد ’حسن‘ہے اورحقیقت یہ ہے کہ قرآن کاحسن قرآن کوحسین آوازوں سے پڑھناہے ۔اِسی لیے تو حضوؐرنے فرمایا:’’خوب صورت آوازوں سے قرآن کوحُسن دو کیونکہ خوش الحانی سے قرآن کاحُسن دوبالاہوجاتاہے‘‘۔(دارمی)

قرآن مجیدکو اچھی طرح اورصاف صاف پڑھناچاہیے اورگنگنی آوازوں یاالفاظ کو بہت زیادہ کھینچنے سے اجتناب کرناچاہیے۔یہ قرآن کامعجزہ ہے کہ صرف قرأتِ قرآن مجید ہی بہت اثر رکھتی ہے اور سننے والا بے خود ہوکے سنتاہی چلاجاتاہے۔اورجب اِسے توجہ سے سناجائے تویہ دل پر اَثر انداز ہوتاہے اور دل کو انتہائی سکون واطمینان نصیب ہوتاہے۔

خوش الحانی سے حضوؐر کی محبت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ؐخوش الحانی کوبہت پسند فرماتے تھے اور خوش الحان قاریوں کی تلاوت فرمایش کرکے سنتے تھے۔حضوؐرکوخوش الحانی کتنی پسند تھی‘ اِس کااندازہ اِن احادیث سے لگایاجاسکتاہے:

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے اِن سے فرمایا:’’تجھے اٰل داؤدکے لحن سے خوش الحانی کاایک حصہ عطا ہواہے‘‘(متفق علیہ)۔ مسلم کی روایت میںیہ بھی ہے کہ  رسولؐ اللہ نے اُن سے فرمایا:’’اگر تم مجھے گذشتہ رات دیکھتے جب میں تمھاراقرآن سن رہاتھا(تو بہت خوش ہوتے)‘‘۔ (مسلم)

روایات میں آتاہے کہ نبی مہربانؐصحابہؓ سے حسن الصّوت سے تلاوت سماعت فرماتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے اِن سے فرمایاکہ ’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے تعجب سے عرض کیا:یارسولؐ اللہ !میں‘ اور آپؐ کوقرآن سناؤں؟آپؐ پر توقرآن نازل ہوا ہے۔آپ ؐ نے فرمایا:’’مجھے دوسروں سے سننا اچھا لگتاہے‘‘۔ چنانچہ میں نے سورۂ نساء آپؐ کو سنائی اورجب میں اس آیتفَکَیْفَ اِذَاجِئْنَامِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ …الخ پرپہنچا توآپ ؐ نے فرمایا: بس کافی ہے ۔تب میں نے آپؐ کی طرف دیکھاتوآپؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موتی گر رہے تھے۔(متفق علیہ)

حضوؐرکی خوش الحانی

حضوؐرخودبھی نہایت خوش الحانی سے تلاوت فرماتے تھے۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کویہ فرماتے سناہے کہ’’اللہ تعالیٰ کسی آواز کی طرف اتنا متوجہ نہیں ہوتا جتنانبیؐ کی خوش الحانی اور بلند آواز سے قرآن پڑھنے پر متوجہ ہوتاہے‘‘۔ (متفق علیہ)

حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ’ ’میں نے رسولؐ اللہ کو عشاء کی نماز میںوالتِّیْن پڑھتے سنا (تو اُس وقت کی کیفیت بتانہیں سکتا)۔حقیقت یہ ہے کہ میں نے تو ایسی خوش الحانی کبھی نہیں سنی تھی‘‘۔(بخاری،باب قول النّبیؐ)

اِن احادیث کا مقصد یہ ہے کہ حضوؐر کواچھی آوازوں میں تلاوت سننابہت پسند تھااورآپؐ خود بھی انتہائی خوب صورت آوازمیں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔ اس لیے قرآن مجید کواچھی آواز اور اچھی ادایگی سے پڑھنا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اوررضاکاباعث بھی ہوگی اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت بھی ہوگی۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’قرآن کوٹھیر ٹھیر کرصاف صاف پڑھو اوراِس کے غرائب پرعمل کرو۔ غرائب سے مراد اوامر اور نواہی ہیں‘‘(مشکٰوۃ، باب فضائل القراٰن،فصل الثالث بحوالہ بیہقی)۔ غرائب‘ یعنی حلال وحرام پرنظررکھو،قرآن نے جن چیزوں کو حلال کیاہے اُنھیں حلال جانو اورجن چیزوں کوحرام کیاہے اُ ن کوحرام سمجھتے ہوئے بچو۔اِس حدیث میں دواحکام دیے گئے ہیں: پہلا حکم قرآن مجید کو تجوید سے پڑھنے کااوردوسراحکم قرآن حکیم کو تفسیر سے پڑھنے کادیاہے۔

تجوید القرآن کے حوالے سے تقریباً۱۰۰سے زائداحادیث وارد ہیں۔ یہاں صرف تذکیر کے لیے چند بطورمثال پیش کی گئی ہیں۔

تجویدکے چند بنیادی اُصول

دیگر علوم کی طرح تجویدوقرأت کے بھی کچھ اُصول ہیں‘ اگرتلاوت میں اِن اُصولوں کو  پیش نظر رکھاجائے توتلاوت مزیدبہترہوجائے گی:

۱-قرآن کریم کواس کی اصل زبان عربی میں پڑھناچاہیے‘ یعنی مجہول تلاوت سے اجتناب کرناچاہیے۔مجہول تلاوت کی مثال:بسم اللہ کو بَیْسْمِ اللّٰہ پڑھنا۔

۲-حرکات کواتنانہ کھینچناکہ وہ حروف بن جائیں ،کیونکہ زبرآدھاالف،زیرآدھی یا[ی] اور پیش آدھا واو ہوتاہے۔

۳- پُرحروف (موٹی ادایگی والے)کو پُر اور باریک ادایگی والے حروف کو باریک پڑھنا۔ ایسانہ کرنے سے بعض حالات میں حروف بدل جاتے ہیںیاپھرتلاوت کی خوب صورتی ختم ہوجاتی ہے۔

۴-حروف کواُن کے مخارج سے ان کی صفات کے ساتھ اداکرنا۔

۵-عیوبِ تلاوت سے احتراز کرنا۔ عیوبِ تلاوت سے مرادایسے طرزسے تلاوت کرنا جو مکروہ یاحرام ہو‘ مثلاً:گانے کے طریقے پرپڑھنا،کلمے کے بیچ میں وقف کرنااوربجاے پیچھے سے ملاکے پڑھنے کے آگے سے پڑھناشروع کردینا،مخفف کومشدّداورمشدّدکومخفف پڑھناوغیرہ وغیرہ۔

تجوید کا فائدہ

یہ علم ہمیں اِس بات کی تعلیم دیتاہے کہ حروف صحیح طریقے سے ‘مقررہ مخارج سے اداکیے جائیں۔اِس کافائدہ یہ ہوگاکہ قرآن مجید کی تلاوت اُس کے حُسن کے مطابق ہوگی اور معانی ومفاہیم پر بھی کوئی اثرنہیں پڑے گا۔اِس کادوسرافائدہ یہ ہوگاکہ انسان تلاوتِ قرآن مجید کے دوران ہرقسم کی غلطیوں سے محفوظ رہے گا۔ اِس کاتیسرا اور بڑافائدہ یہ ہوگا کہ اِس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی۔بہت سے لوگ تلاوت اِس زعم سے کرتے ہیں کہ وہ بہت اعلیٰ تلاوت کر رہے ہیں اور اُنھیں کسی کے پاس جاکرسیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ بات بالکل غلط ہے۔اکثر مشاہدے میں آیاہے کہ جولوگ بزعم خود یہ سمجھتے تھے کہ وہ صحیح تلاوت کررہے ہیں‘ کافی اصلاح کے طالب تھے ۔لہٰذاآج ہی اللہ تعالیٰ سے عہدکریں کہ روزانہ ایک رکوع یاآخری پارے کی آخری سورتوں میںسے ایک سورت تجوید کے قواعد کے مطابق پڑھیں گے۔

اس تحریر کا واحدمقصد یہ ہے کہ مسلمان صحیح طریقے سے تلاوت کریں ۔آج کل تو یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ ہرمحلّے میں قرآن کے قاری موجودہیں ،تجوید کے موضوع وقواعدپر لاتعداد کتابیں موجود ہیںاور اب تو تجوید کے قواعد سی ڈیز پر بھی دستیاب ہیں ۔لہٰذا صرف محنت کی ضرورت ہے اور انسان جب ہمت کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے نیک ارادوں میں برکت عطا فرماتے ہیں۔یہاں تومعاملہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے بندوں کے درمیان ہے‘ تواندازہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ کتنی رحمت فرمائیں گے اُس پر جو اُس کاکلام صحیح پڑھنے کی کوشش کرے گا۔تجوید کے مطابق قرآن مجید پڑھنے کاآسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ ایک مخرج کی مشق کریں اور جب تک اُس میں کمال حاصل نہ کرلیں دوسرے مخرج کو شروع نہ کریں۔ جب پہلامخرج ذہن نشین ہوجائے اور اجرا صحیح ہورہاہو تو دوسرامخرج شروع کریں اور مخارج کے بعدتلاوت کی صفات پرغور کریں اور اِس طرح تمام قواعد کو تلاوت کے دوران جاری کریں۔ آپ محسوس کریں گے کہ جلد ہی آپ بہترین انداز میں تلاوت کرسکیں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں تجوید سے قرآن مجید پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور قرآن کو پڑھنے ،سمجھنے ،عمل کرنے اور دوسروں تک اِس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین