ستمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| ستمبر۲۰۰۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

بلوغت اور معاشرتی مسائل

سوال: ہمارے معاشرے میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ بلوغت کے بعد بیٹے کی معاشی کفالت والد کے ذمے نہیں‘ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جب اولاد بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردیا جائے‘ نیز جس میں نکاح کی استطاعت نہ ہو‘ وہ روزے رکھے۔ اس ضمن میں چند پہلو وضاحت طلب ہیں۔

معاشی کفالت کے حوالے سے شریعت کا کیا حکم ہے؟ہمارے معاشرے میں والد ۲۵‘۳۰ سال کی عمرتک اولادکابوجھ اٹھاتا ہے اور اس کا مقصد سواے اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ اولاد تعلیم یافتہ ہوکر اچھا روزگار حاصل کرلے اور بقیہ خاندان کو معاشی تحفظ فراہم کرے۔ کیا یہ روش غلط ہے؟ اس ضمن میںجو فرد اولاد میں سب سے بڑا ہوتا ہے‘ وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اس پر یہ دبائو ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھے عہدے پر فائز ہو‘ اور اس کے نکاح پر بھی توجہ نہیں دی جاتی اور یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ اس کی تعلیم مکمل ہوجائے پھر نکاح کیا جائے۔ کیا تعلیم حقیقتاً گھر بسانے کی راہ میں رکاوٹ ہے اورشادی کے بعد تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے؟

بلوغت پر نکاح سے کتنی عمر مراد ہے؟ پاکستان میں لڑکے/لڑکی کی بلوغت کی عمر بالترتیب ۱۲ تا ۱۴ سال اور ۱۱ سے ۱۳ سال ہے۔ اگر اس سے مرادیہی عمر ہے تو ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اس عمر میں شادی کے بعد فرد اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرسکے۔ اگر نکاح کے لیے استطاعت سے مراد معاشی استطاعت ہے تواس کی کوئی حد شریعت میں موجود ہے؟

یہاں وہ حدیث بھی پیش نظر رہے جس میں حضوؐر نے معاشی تنگی پر ایک سے زائد شادی کی ہدایت کی تھی۔ آج ہمارے معاشرے میں میڈیا کے ذریعے فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ جگہ جگہ گناہ کے مواقع موجود ہیں۔ ان حالات میں نفس کو دبانے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ ایک صورت روزہ رکھنا ہے۔ اگر طالب علموں اور ملازمت پیشہ افراد کے لیے روزہ رکھنا ممکن نہ ہو تو کیا کریں‘ اور روزہ تو دن میں ہوتا ہے‘ رات کو کیاکرناچاہیے؟ایک جوان آدمی جو معاشرتی روایات کے باعث نکاح نہیں کرسکتا‘ وہ اگر ان مخصوص حالات میں صوتی یا بصری طریقوں (موسیقی یا فلم)سے کبھی کبھار خواہش کی تکمیل کرلیتا ہو اور اس طرح ایک بڑے گناہ سے بچ جاتا ہو اور دل میں یہ احساس بھی موجود ہو کہ وہ غلط کر رہا ہے تو کیا اس صورت میں وہ گناہ کا مرتکب ہوگا؟

جواب: آپ نے اپنے خط میں تین اہم معاشرتی مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے۔ پہلا مسئلہ والدین پر اولاد کے حقوق سے متعلق ہے۔ قرآن کریم نے والدین اور اعزہ کے جو حقوق متعین کردیے ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ ’’اپنے والدین پر خرچ کرو اور    ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا‘‘(الاحقاف ۴۶:۱۵)۔ اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل میں اعلیٰ سلوک و احترام کا حکم دیا گیا(۱۷:۲۳-۲۴)۔ پوری دنیا کی مساجد میں ہرصلوٰۃ الجمعہ میں خطیب قرآن کریم کی سورۂ نحل کی آیت نمبر۹۰ بطور جزوِ خطبہ تلاوت کرتا ہے جس کا مفہوم ہے: اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ وغیرہ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ سورۂ نور میں رشتہ داروں کو ان کا حق نہ دینے سے روکاگیا ہے (النور ۲۴:۲۲)۔ قرآن وسنت میں موجود عمومی اور خصوصی ہدایات پر غور کیا جائے تو جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہیں‘ اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے حقوق ہیں جن میں ان کی اسلامی تربیت‘ غذا‘ لباس‘ مکان اور دیگر ضروریات کی فراہمی شامل ہے۔

بلاشبہہ عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ بلوغ طبعی کے بعد ایک اولاد اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے اور اولاد کو اس کی حاجت نہ رہے توپھر والد کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اگر والد ضرورت کی صورت میں یا بلاضرورت بآسانی اپنی اولاد پر بلوغ کے بعد ان کی تعلیم یا دیگر ضروریات پر خرچ کرتا ہے تو شریعت اس کی تحسین کرتی ہے۔ اسی طرح اگر اولاد بلوغ تک پہنچنے پر اس قابل ہوجاتی ہے کہ اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکے اور نہ صرف اپنے اخراجات بلکہ والدین پر بھی خرچ کرسکے تو یہ اس کے لیے سعادت ہے۔

اسلامی معاشرت میں خاندان ایک سرمایہ دارانہ معاشی یونٹ نہیں ہے بلکہ وسائل‘ احساسات‘ حقوق و فرائض اور احسان کی یک جائی پر مبنی ایک ادارہ ہے۔اولاد کی پرورش کا بنیادی مقصدمعاشی کارکن پیدا کرنا نہیں بلکہ انھیں معاشرے کے لیے فعال‘ متقی‘ مومن اور متحرک کارکن بنانا ہے۔ صلۂ رحمی کا مطلب محض معاشی ضروریات پورا کرنانہیں بلکہ فکر‘ تعلق‘ محبت‘ رشتہ اور نصیحت پر مبنی خاندان کاقیام ہے۔ یہاں کوئی ایسی واضح لکیر نہیں کھینچی جاسکتی کہ ۱۶ یا ۱۸ سال کے بعد والدین پر کسی قسم کی ذمہ دری نہیں رہی اور نہ اس کی ضد کو درست سمجھا جاسکتا ہے کہ ۱۸سال تک والدین سے استفادے کے بعد اب ہر کمایا جانے والا روپیہ اولاد کی ’ذاتی ملکیت‘ ہے۔ اسلامی اجتماعیت نہ سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھتی ہے اور نہ اشتراکیت زدہ ہے۔ اس کا اپنا مزاج اور اپنی اقدار ہیں۔

ہمارے معاشرے میں لازماً بڑی اولاد سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ پورے گھر کا بوجھ اٹھائے جو درست نہیں ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے ‘ پھر اعلیٰ ملازمت اختیار کرے اور اس کے بعد کہیں نکاح پر غور کیا جائے۔ اسلامی معاشرت کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے اور قرآن نے صاف کہا ہے کہ تم میں جو مجرد ہوں ان کے نکاح کردو۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے لیے وسائل پیدا کر دے گا۔یہی بات اُس حدیث میں فرمائی گئی ہے جو آپ نے نقل کی ہے کہ اگر ایک نکاح کے بعد ایک شخص کو کشادگی حاصل نہیں ہوتی تو وہ مزید نکاح کرسکتا ہے۔

تکمیلِ تعلیم کو کبھی بھی نکاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوناچاہیے۔ عصمت و کردار کا تحفظ ہرچیز پر بھاری ہے۔ اس لیے بلوغ کے بعد‘ یعنی اپنے اچھے برے کی عقل آنے پر نکاح کر دینا انتظار کرتے رہنے سے لازماً افضل ہے۔

بلوغ میں جسمانی اور ذہنی دونوں پہلو شامل ہیں اور اس کے لیے کسی عمر کی قید لگانا ایک غیرفطری عمل ہے۔ بعض خِطوں میں لڑکے اور لڑکیاں جلد جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ ہوجاتے ہیں  بعض میں تاخیر سے۔ آج کے معلوماتی اور انقلابی دور میں ذہنی بلوغ جسمانی بلوغ سے بہت پہلے آجاتا ہے۔ اس لیے جسمانی بلوغ کے بعد نکاح کی فکر ہونی چاہیے۔

اس سلسلے میں کوئی لگابندھا ضابطہ نہیں بن سکتا کہ جس کا نکاح ہوجائے وہ لازماً معاشی طور پر خودکفیل بھی ہو۔ اگر والدین ایک وسیع خاندان میں رہتے ہیں تو گھر میں ایک فرد کے اضافے سے کوئی قیامت نہیں آجاتی۔ اس کے ساتھ اولاد پر بھی یہ غور کرنا فرض ہے کہ وہ کب تک بغیر کوئی کام کیے اپنے والدین کے سہارے رہے۔ گویا یہ ایک باہمی غوروفکر اور باہمی محبت و تعلق کا معاملہ ہے۔ اسے خالص قانونی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ پاکستان کے قانون میں ۱۸سال کی عمر لڑکے کے لیے اور ۱۶ سال کی عمر لڑکی کے لیے جو متعین کی گئی ہے یہ غیرعقلی‘ غیر عملی اور غیرشرعی ہے۔ بلوغت کے لیے عمر کی اس حد کو اس وقت دیکھا جاتا ہے جب بلوغت کے آثار ظاہر نہ ہوں۔

استطاعت کی کوئی حد متعین نہیں ہے۔ یہ ہمیشہ اضافی ہوگی اور ایک خاندان اور فرد کے معیارِ زندگی‘ ضروریات و مطالبات کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوگی۔ ہاں‘ اسے عدل‘ توازن‘ قسط اور میانہ روی کے تابع ہوناچاہیے۔ جوشخص استطاعت نہ رکھتا ہو اس کے لیے اسلامی ریاست کو    (وہ جب بھی قائم ہو) پابند کیا گیا ہے کہ وہ اس کے نکاح اور متعلقہ ضروریات کا بندوبست کرے۔ ان شاء اللہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد نوجوانوں کو محض اس بنا پر روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ البتہ روزہ رکھنے کا مقصد نفس کو لگام دینا ہے اور یہ لگام دن میں روزے اور رات کو نوافل سے ہی دی جاسکتی ہے۔ خیال رہے کہ اسلام نے نکاح کو بہت آسان بنایا ہے۔ چند گواہوں کی موجودگی میں حسب ِ استطاعت حق مہر اور ولیمہ سے یہ فریضہ بآسانی اداکیا جاسکتا ہے۔ ہم نے معاشرتی رسوم و رواج کے پیش نظر خود اس کو بوجھل اور مشکل بنایا ہے۔

تیسری بات آپ نے یہ اٹھائی ہے کہ آج کے معاشرے میں جہاںفحاشی و عریانی ایک نوجوان کے جذبات کو متاثر کرتی ہے‘ اگر کوئی ناجائز جنسی عمل سے بچنے کے لیے موسیقی یا فلموں سے شوق کرلے تو کیا گناہ کا مرتکب ہوگا؟یہ سوال بہت معصومانہ ہے۔ موسیقی اور فلم‘ وڈیو یا نیٹ پر موجود بے شمار تفریحی پروگرام جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانے کا غیرمعمولی مؤثر ذریعہ ہیں۔ ان کے ذریعے آپ کس طرح بڑی برائی سے بچ سکتے ہیں۔ یہ تو اس کی ترغیب دینے والے عوامل ہیں۔

اس بات کو بھی پیش نظر رکھیے کہ زندگی کسی اعلیٰ مقصد کے تحت گزاری جانی چاہیے۔ لوگ محض دنیوی کیریئر بنانے کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دیتے ہیں‘ خواہشات کا خون کرتے ہیںاور کتنی محنت اورجدوجہد کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کے سامنے آخرت میں سرخروئی ‘ نبی کریمؐ کا مشن‘    غلبۂ دین‘ نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا اور اسلامی انقلاب جیسے عظیم مقاصد ہوتے ہیں۔ اگر  ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے‘ اپنے آپ کو سرگرم رکھا جائے تو بھی انسان نفسانی خواہشات کے غلبے اور شیطانی وساوس سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاذکر‘ اس کی یاد‘ اس کی محبت اور اس کی ناراضی کا خوف ہی وہ ڈھال ہے جو ایک نوجوان کو بے راہ روی سے بچاسکتی ہے۔ اس بنا پر صادق الامین علیہ السلام نے صوم کی تلقین فرمائی کہ اس میں انسان اپنے رب سے بہت قریب ہوجاتا ہے اور اپنے تمام جسم کو بشمول ذہن و روح کو اپنے رب کی بندگی میں دے دیتا ہے اور اس طرح ایک مثبت عمل کے نتیجے میں شیطان کے حملوں کو ناکام بنادیتا ہے۔ وساوس‘ جنسی ترغیبات‘ خیالی بے راہ روی‘ غرض وہ سب اعمال جو برائی کی طرف لے جانے والے ہیں‘ صوم کی وجہ سے انسان ان سب سے بچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجانا خود برائی سے بچ جانے کی ضمانت ہے‘ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

ایک سے زائد حج

معاشرے میں نفلی حج کا رواج فیشن اور دکھاوے کے طور پر بھی بڑھ رہا ہے‘ اس حوالے سے  علامہ یوسف قرضاوی کی ایک تحریر پیش کی جارہی ہے۔ (ادارہ)

وہ شخص جو اسلام کی ترجیحات سے واقف ہو اور ہرچیز کے درست مقام کا علم رکھتا ہو‘ کبھی ان ترجیحات کے سلسلے میں شک و شبہے کا شکار نہیں ہوگا جن کا لحاظ کرنا ناگزیر ہے۔ میں کئی برسوں سے اسی کی طرف توجہ دلا رہا ہوں۔ اسے میں نے ’فقہ ترجیحی‘ کا نام دیاہے۔

ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام نے ہمیں جن چیزوں کا مکلف بنایا ہے‘ وہ ایک درجے کی نہیں ہیں‘ بلکہ ہر عمل کا الگ الگ درجہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ایمان کے ۷۰ سے زائد شعبے ہیں جن میں سب سے بلند مرتبہ لا الٰہ الا اللہ کا ہے اور سب سے کم درجے کا عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ہے‘‘۔ اس سے پتا چلا کہ سب سے کمتر اور سب سے بلند درجے کے علاوہ بیچ کے بھی درجات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ کوئی شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور خدایا کی راہ میں جہاد کیا؟ یہ دونوں اللہ کے یہاں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے‘‘۔(التوبہ ۹:۱۹)

اس سے معلوم ہوا کہ تمام اعمال آپس میں برابر نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو  اس فقہ سے واقف کرائیں۔ میں ایک مدت سے ایسے لوگوں کو دیکھتا آرہا ہوں جو اپنے مزدوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اپنی زمینوں میں اُجرت پر کام کرنے والوں کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔ میں نے اپنے گائوں کے ان کسانوں کو بھی دیکھا ہے جو دوسروں کی زمینوں میں اُجرت پر کام کرتے ہیں‘ ان کے مالکوں کا حال یہ ہے کہ ان کی زمینیں برباد ہوجاتی ہیں‘ لیکن وہ ان غریبوں کو ایک پیسہ دینا گوارا نہیں کرتے۔ دوسری طرف وہ تین تین بار یہاں تک کہ دس دس بار حج کے لیے جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان غریبوں کے حقوق ادا کرتے توان کا یہ عمل بار بار حج کرنے سے افضل ہوتا۔

علما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرض کی ادایگی سے قبل نوافل کو قبول نہیں کرتا اور جو شخص فرض کی ادایگی کے بعد نفل کی فرصت نہ پائے تو وہ معذور ہے‘ لیکن جس شخص کی نفل میں مشغولیت اسے فرض سے محروم کردے وہ مغرور ہے۔ ہمیں اس وقت اس نکتے کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: آخری زمانے میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے۔ ان کے لیے سفر انتہائی آسان ہوگا اور مال و دولت کی فراوانی ہوگی۔ ان میں سے ایک شخص ریگستان اور بے آب و گیاہ زمین میں اپنا اُونٹ دوڑائے گا اور حج کا سفر کرے گا‘ حالانکہ اس کا پڑوسی بدحال ہوگا اور وہ اس کی غم خواری نہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ حج کے ارادے سے ریگستانوں اور بے آب و گیاہ زمینوں میں سفر کرے گا اور اپنے پڑوسی کو  اس حال میں چھوڑ دے گا کہ وہ بھوک‘ فقر اور ضرورت سے بدحال ہوگا اور کوئی اس کا پرسانِ حال نہ ہوگا۔ یہی آج کل ہو رہا ہے۔

بشر بن حارثؒ جو کہ متصوفین و زہّاد میں شہرت کے حامل ہیں اور جن کا شمار اُمت کے معروف زاہدوں اور اللہ والوں میں ہوتا ہے‘ ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اے ابونصر! میں نے حج کا ارادہ کیا ہے اور آپ کے پاس کچھ نصیحت کی باتیں سننے آیا ہوں‘ تو کیا آپ مجھے کچھ نصیحت کریں گے؟ آپ نے اس سے پوچھا: تم نے حج کے لیے کتنا سفر خرچ اکٹھا کیا ہے؟ اس نے کہا: ۲ہزار درہم (ہزار درہم اس وقت کے لیے ایک بڑی رقم تھی اور اس کی قوت خرید بہت زیادہ تھی)۔ انھوں نے اس سے پھر دریافت کیا: تم اس حج کے ذریعے زہد و تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہو‘ یا   بیت اللہ کا اشتیاق تمھیں وہاں لیے جا رہا ہے‘ یا تم رضاے الٰہی کے حصول کے خواہش مند ہو؟ اس نے کہا: خدا کی قسم‘ رضاے الٰہی کا حصول میرا مقصد ہے۔ انھوں نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسا راستہ بتائوں جس سے تمھیں اپنے شہر ہی میں گھر بیٹھے خدا کی خوش نودی حاصل ہوجائے‘ اور اگر میں تمھیں یہ طریقہ بتائوں تو کیا تم اس کے مطابق عمل کرو گے؟ اس نے کہا: ضرور کروں گا۔ فرمایا: جائو اور یہ رقم ۱۰ لوگوں کو دے دو‘ کسی فقیر کو جس سے تم اس کی تنگ دستی دُور کردو‘ یتیم کو جس کی ضرورتیں پوری کردو‘ قرض دار جس کا قرض ادا کردو اور کسی کثیرالعیال شخص کو جس سے کہ تم اس کے اہل و عیال کا بوجھ ہلکا کردو… اس طرح انھوں نے ۱۰ لوگوں کا ذکر کیا اور کہا: اگر تم ان میں سے کسی ایک کو یہ رقم دے دو جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہوجائیں تویہ عمل افضل ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا:  اے ابونصر! میں سفر کا پختہ ارادہ کرچکا ہوں۔ فرمایا کہ جب مال گندی تجارت اور مشکوک ذرائع سے اکٹھا کیا جاتا ہے تو انسان کا نفس اسے اپنی خواہشات کے مطابق خرچ کرنا چاہتا ہے‘ یعنی ایسا شخص مسلمانوں کے لیے نفع بخش اور افضل چیزوں کو چھوڑ کر حج کی خوشیاں لوٹنا زیادہ پسند کرتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ بلاوجہ بار بار حج کرنا اور اس طرح سے ترجیحات کو ترک کر دینا بے بصیرتی کا نتیجہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ سمجھے کہ بھوکے کو کھلانا‘ مریض کا علاج کرانا‘ بے سہارا کو پناہ دینا‘ یتیم کی کفالت کرنا‘ بیوہ عورت کی ضروریات پوری کرنا‘ ایشیا یا افریقہ یا کہیں کی بھی   اسلامی برادری کے لیے مدرسہ یا مسجد بنانا اور خیر کے کسی بھی کام میں شریک ہونا اللہ کی نظر میں زیادہ بہتر ہے۔

ایک مسلمان پر فرض ہے کہ اس طرح کے ثواب والے کاموں میں بے پناہ سرور اور لذت محسوس کرے۔ اس کا یہ سرور اور لطف اس لذت سے بھی بڑھ کر ہو جس کا احساس اسے دو بار اور تین بار حج کرتے وقت ہوتا ہے‘ جب کہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوتا ہے اور لبیک اللّٰھم لبیک کی صدا بلند کرتا ہے۔ ان عظیم کارہاے خیر کے بجاے دوسری یا تیسری بار کے حج میں کیف و سرور محسوس کرنا یقینا افسوس ناک ہے‘ دین میں بے بصیرت ہونے کی دلیل ہے اور فقہ ترجیحی سے نابلد ہونے کی علامت ہے۔

اگر مسلمانوں کو اس کا شعور ہوجائے تو ہم ہر سال اربوں روپے سے صحیح فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی تنظیم اس کام کو منظم طریقے پر انجام دے اور ایک فنڈ بنائے جس کا نام حج کا متبادل فنڈ ہو اور وہ لوگ جو نفلی حج کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ اور وہ بھائی جو فائیواسٹار حج کرتے ہیں‘ وہ حج کا خرچ ’حج کے متبادل فنڈ‘ میں جمع کریں تاکہ اس رقم کو ساری دنیا کے مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کیا جائے تو ایک بڑی ضرورت پوری ہوگی اور مسلمانوں کی زندگی کا ایک بڑا خلا پُر ہوجائے گا۔ اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ کاش! اُمت میں   یہ بیداری پیدا ہوجائے۔(بہ شکریہ دارالعلوم‘ دیوبند‘ مارچ ۲۰۰۷ء)