اللہ تعالیٰ کی سخاوت کائنات کی نعمتوں کی شکل میں ہمارے مشاہدے میں ہے۔ موافق‘ مخالف سب کو نوازتے ہیں‘ لیکن اس کی سب سے بڑی سخاوت قرآن پاک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے دنیا و آخرت بن جاتی ہے اور جنت ملتی ہے جو دائمی عزت اور وسیع و عریض حکمرانی ہے۔ نزول قرآن پاک اور منصب نبوت سے سرفرازی جناب رسول اکرمؐ کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہوئی۔ اسی مہینے میں لیلۃ القدر کی شکل میں سخاوت ہے کہ ایک رات ہزاروں راتوں (۸۴ سال سے) کی عبادت سے بھی افضل ہے۔ اسی مہینے میں روزہ داروں کے لیے شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (بخاری) اس کا پہلا حصہ رحمت‘ دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے آزادی کا عشرہ ہے۔ جس نے کوئی بھی نفلی کام کیاگویا اس نے ایک فرض کو ادا کیا‘ جس نے ایک فرض ادا کیا اس نے گویا ۷۰ فرض ادا کیے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق زیادہ کیا جاتا ہے۔ جس نے روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوگی اور اسے روزہ دارکے روزے کا ثواب بھی ملے گا۔ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ جس نے اپنے غلام/ملازم کے کام میں کچھ تخفیف کردی‘ اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کردیں گے اور دوزخ کی آگ سے آزاد کردیں گے۔ (مشکوٰۃبحوالہ بیہقیفی شعب الایمان‘ رمضان کی آمد پر آپؐ کا خطبہ روایت سلمان فارسیؓ)
یہ اللہ تعالیٰ کی وہ سخاوتیں ہیں جواس مہینے میں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سخاوت قرآن پاک ہے جو آپؐ کے سینۂ اطہر پر اسی مہینے میں نازل ہوا اور آپؐ کے ذریعے اُمت کو اسی مہینے میں ملنا شروع ہوا‘ اور اسی وجہ سے قرآن پاک کے عالم اور معلم کو آپؐ نے اپنے بعد سب سے زیادہ سخی قرار دیا۔ اس لیے کہ خلقِ خدا کو سب سے زیادہ ضرورت قرآن پاک‘ اس کی تعلیمات اور اس کے نظام کی ہے۔ جو لوگ قرآن پاک کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں‘ سب سے زیادہ سخاوت کا کام کررہے ہیں۔
رمضان المبارک کا پہلا حق یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کی جائے‘ اس کا ذوق و شوق اور جذبے سے استقبال کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا استقبال‘ اس کی فضیلت کو بیان فرمایا کرتے تھے تاکہ اُمت اس کے حقوق کو ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم پر سایہ فگن ہورہا ہے ایک عظیم مہینہ‘ ایک مبارک مہینہ‘ ایک ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزاروں راتوں سے بہتر ہے‘‘۔ (عن سلمان فارسی‘ مشکٰوۃ بحوالہ بیہقی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے بعدرمضان المبارک میں خود بھی روزہ رکھنے‘ تلاوت قرآن‘ قرآن پاک کے دور اور خیر کے تمام کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے۔ صدقہ خیرات‘ مسلمانوں کی ہمدردی‘ عزیزوں سے صلہ رحمی‘ روزہ داروں کے روزے افطار کرانا‘ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے حصول اوربلندیِ درجات کی طلب کے لیے مشغول ہوجانا آپؐ کا معمول تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مہینے میں جومعمول تھے‘ ان کو محدثین نے بیان کیا ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے آپؐ کے ان معمولات میں بہت بڑی رہنمائی ہے۔ تمام حقوق اور معمولات کی اساس قرآن پاک کی قدردانی اور تعظیم ہے۔ اس کے تمام اوامر کو عملی جامہ پہنانا اور تمام نواہی سے بچنا اور قرآن پاک کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرنا ہے۔ قرآن پاک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کا سب سے بڑااحسان ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اسی احسان کو یاد دلاتا ہے‘ لیکن آج ہم اسی احسان کو بھولے ہوئے ہیں۔ قرآن پاک کا نظام معطل ہے اور اس وجہ سے ہم آج طرح طرح کے مصائب‘ آفات و بلیات اور خوں ریزوں سے دوچار ہیں اور تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ان سے نکلنے کا راستہ‘ قرآن پاک کی طرف رجوع کرناہے۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہے‘ آپؐ اس قدر اہتمام فرماتے ہیں تو امتیوں کے لیے سُستی کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ اگر نیند کا غلبہ ہوجائے تو پھر سو جانا چاہیے۔ ساری رات بیدار رہنے کے عوض دن کو آرام کرنا چاہیے۔ ساری رات‘ اور سارا دن بیدار رہنا ممکن نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری معمول یہ تھا‘ اس سے پہلے آپ نے پہلے دو عشروں میں بھی اعتکاف فرمایا تھا اور اس کا مقصدلیلۃ القدر کو پانا اور اس میں عبادت کرنا تھا۔ ایک رات میں ہزاروں رات سے زیادہ راتوں کی عبادت کتنی بڑی کمائی ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایک درہم کے بدلے میں ہزار درہم سے زیادہ کا اعلان کردے تو لوگوں کی قطاریں نہیں لگیں گی ‘ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑنے کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوتا!
رمضان کی بڑی اور بنیادی عبادتیں دو ہیں: روزہ اور قرآن پاک کی تلاوت۔ باقی نیکیاں ان دونوں کے تابع ہیں اور برائیوں سے بچنا ان دونوں کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!