ستمبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | ستمبر۲۰۰۷ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ آپؐ کی سخاوت کا سب سے زیادہ ظہور رمضان المبارک کے مہینے میں ہوتا تھا‘ جب کہ جبرئیل امین ؑآپؐ  سے ملتے تھے‘ اور جبرئیل امین ؑ آپؐ  سے ہر رات ملتے تھے اور آپؐ  کے ساتھ قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کے کاموں میں چومکھی‘ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔(بخاری)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ ووسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا: جانتے ہو سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپؐ  نے فرمایا: سب سے زیادہ سخی اللہ تعالیٰ ہیں۔ اس کے بعد میں تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی ہوں اور میرے بعد تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی وہ شخص ہے جس نے دین کا علم حاصل کیا پھر اسے پھیلایا۔ قیامت کے روز وہ امیر بن کر یا ایک اُمت بن کر آئے گا۔(مشکوٰۃ)

اللہ تعالیٰ کی سخاوت کائنات کی نعمتوں کی شکل میں ہمارے مشاہدے میں ہے۔ موافق‘ مخالف سب کو نوازتے ہیں‘ لیکن اس کی سب سے بڑی سخاوت قرآن پاک اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے کہ اس کے ذریعے دنیا و آخرت بن جاتی ہے اور جنت ملتی ہے جو دائمی عزت اور      وسیع و عریض حکمرانی ہے۔ نزول قرآن پاک اور منصب نبوت سے سرفرازی جناب رسول اکرمؐ کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہوئی۔ اسی مہینے میں لیلۃ القدر کی شکل میں سخاوت ہے کہ ایک رات ہزاروں راتوں (۸۴ سال سے) کی عبادت سے بھی افضل ہے۔ اسی مہینے میں روزہ داروں کے لیے شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (بخاری) اس کا پہلا حصہ رحمت‘ دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے آزادی کا عشرہ ہے۔ جس نے کوئی بھی نفلی کام کیاگویا اس نے ایک فرض کو ادا کیا‘ جس نے ایک فرض ادا کیا اس نے گویا ۷۰ فرض ادا کیے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق زیادہ کیا جاتا ہے۔ جس نے روزے دار کو افطار کرایا اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوگی اور اسے روزہ دارکے روزے کا ثواب بھی ملے گا۔ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ جس نے اپنے غلام/ملازم کے کام میں کچھ تخفیف کردی‘ اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کردیں گے اور دوزخ کی آگ سے آزاد کردیں گے۔ (مشکوٰۃبحوالہ بیہقیفی شعب الایمان‘ رمضان کی آمد پر آپؐ کا خطبہ روایت سلمان فارسیؓ)


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایمان اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے روزہ رکھا‘ اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے ایمان اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رات کو قیام کیا (تراویح پڑھی) اس کے بھی پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔(بخاری)


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپؐ  کی اُمت کی مغفرت کردی جاتی ہے رمضان المبارک کی آخری رات میں (رمضان المبارک کا حق اداکرنے والوں‘ روزے داروں اور گناہوں سے بچنے والوں کی)۔ عرض کیا گیا: یارسولؐ اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر کے بارے میں ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ کارکن جب کام پورا کردیتا ہے تو اسے اس کی اُجرت دے دی جاتی ہے۔ (مسنداحمد)

یہ اللہ تعالیٰ کی وہ سخاوتیں ہیں جواس مہینے میں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سخاوت قرآن پاک ہے جو آپؐ کے سینۂ اطہر پر اسی مہینے میں نازل ہوا اور آپؐ کے ذریعے اُمت کو اسی مہینے میں ملنا شروع ہوا‘ اور اسی وجہ سے قرآن پاک کے عالم اور معلم کو آپؐ نے اپنے بعد سب سے زیادہ سخی قرار دیا۔ اس لیے کہ خلقِ خدا کو سب سے زیادہ ضرورت قرآن پاک‘ اس کی تعلیمات اور اس کے نظام کی ہے۔ جو لوگ قرآن پاک کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں‘ سب سے زیادہ سخاوت کا کام کررہے ہیں۔

رمضان المبارک کا پہلا حق یہ ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کی جائے‘ اس کا ذوق و شوق اور جذبے سے استقبال کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا استقبال‘ اس کی فضیلت کو بیان فرمایا کرتے تھے تاکہ اُمت اس کے حقوق کو ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم پر سایہ فگن ہورہا ہے ایک عظیم مہینہ‘ ایک مبارک مہینہ‘ ایک ایسا مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزاروں راتوں سے بہتر ہے‘‘۔ (عن سلمان فارسی‘ مشکٰوۃ بحوالہ بیہقی)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے بعدرمضان المبارک میں خود بھی      روزہ رکھنے‘ تلاوت قرآن‘ قرآن پاک کے دور اور خیر کے تمام کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے۔ صدقہ خیرات‘ مسلمانوں کی ہمدردی‘ عزیزوں سے صلہ رحمی‘ روزہ داروں کے روزے افطار کرانا‘ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے حصول اوربلندیِ درجات کی طلب کے لیے مشغول ہوجانا آپؐ کا معمول تھا۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مہینے میں جومعمول تھے‘ ان کو محدثین نے بیان کیا ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے آپؐ کے ان معمولات میں بہت بڑی رہنمائی ہے۔ تمام حقوق اور معمولات کی اساس قرآن پاک کی قدردانی اور تعظیم ہے۔ اس کے تمام اوامر کو عملی جامہ پہنانا اور تمام نواہی سے بچنا اور قرآن پاک کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرنا ہے۔ قرآن پاک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کا سب سے بڑااحسان ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اسی احسان کو یاد دلاتا ہے‘ لیکن آج ہم اسی احسان کو بھولے ہوئے ہیں۔ قرآن پاک کا نظام معطل ہے اور اس وجہ سے ہم آج طرح طرح کے مصائب‘ آفات و بلیات اور خوں ریزوں سے دوچار ہیں اور تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ان سے نکلنے کا راستہ‘ قرآن پاک کی طرف رجوع کرناہے۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تذکرہ فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو آپؐ ساری رات بیدار رہتے اور اپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے اور اپنی کمرباندھ لیتے۔ پہلے دو عشروں میں بیدار رہ کر نماز پڑھتے اور سوتے بھی تھے اور آخری عشرے میں ساری رات بیدار رہتے اور کمرہمت باندھ لیتے تھے۔(مسلم‘ ترمذی‘ نسائی‘ ابن ماجہ‘ بیہقی)

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال ہے‘ آپؐ اس قدر اہتمام فرماتے ہیں تو امتیوں کے لیے سُستی کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ اگر نیند کا غلبہ ہوجائے تو پھر سو جانا چاہیے۔ ساری رات بیدار رہنے کے عوض دن کو آرام کرنا چاہیے۔ ساری رات‘ اور سارا دن بیدار رہنا ممکن نہیں ہے۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اس دنیاسے اُٹھا لیا اور آپؐ  کی ازواج مطہراتؓ نے آپؐ کے بعد اعتکاف کیا۔(متفق علیہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری معمول یہ تھا‘ اس سے پہلے آپ نے پہلے دو عشروں میں بھی اعتکاف فرمایا تھا اور اس کا مقصدلیلۃ القدر کو پانا اور اس میں عبادت کرنا تھا۔ ایک رات میں ہزاروں رات سے زیادہ راتوں کی عبادت کتنی بڑی کمائی ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایک درہم کے بدلے میں ہزار درہم سے زیادہ کا اعلان کردے تو لوگوں کی قطاریں نہیں لگیں گی ‘ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑنے کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوتا!


حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (روزہ دار کے لیے) روزہ اور (قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے لیے) قرآن پاک سفارش کرے گا۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور شہوتوں سے دن میں روکا (اور یہ رک گیا)‘ اس لیے میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ اور قرآن پاک اس کے حق میں سفارش کرے گا کہ اے میرے رب! میں نے اسے راتوں کو سونے سے روک دیا‘ پس اس کے بارے میں میری سفارش کو قبول فرما‘ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی (اور روزہ دار اور قرآن پاک پڑھنے والے کو جنت میں داخل کردیا جائے گا)۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

رمضان کی بڑی اور بنیادی عبادتیں دو ہیں: روزہ اور قرآن پاک کی تلاوت۔ باقی نیکیاں ان دونوں کے تابع ہیں اور برائیوں سے بچنا ان دونوں کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!