طوفانِ بادوباراں‘ سیلاب‘ زلزلے اور اسی نوعیت کی آفاتِ سماوی و ارضی نظامِ قدرت کا ایک حصہ اور تاریخ کامنقطع نہ ہونے والا عمل ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر طبیعی عمل اور نظام کی پیداوار ہیں‘ ان کا تعلق انسان کی ان سرگرمیوں سے بھی ہے جو قدرت کے نظام میں دراندازیاں کر رہی ہیں جنھیں عالمی حدت (global warming)اور ماحولیاتی مداخلت (ecological intervention)کا نام دیا جا رہا ہے‘ اور ان کے پیچھے اخلاقی اور تہذیبی عوامل کی بھی کارفرمائی ہے لیکن جو پہلو سب سے زیادہ غوروفکر کا مستحق ہے اس کا تعلق پیش بندی اور اصلاحِ احوال سے ہے جو ایمان‘ عقل اور تاریخی تجربات کا تقاضا ہیں۔
پاکستان کے حکمران اور پاکستانی قوم اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیالیکن قدرتی آفات کے نتائج اور تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے جو نظام National Crisis Management Authority کی شکل میں قائم کیا گیا ہے‘ اس کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہی نہیں‘ مجرمانہ حد تک ناکارہ رہی ہے۔ دو سال ہونے کوآرہے ہیں لیکن زلزلے کے متاثرین کا ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی طرح اب تک اس تباہی کے چنگل سے نکل نہیں سکا۔
اس سال جون کے آخر سے سیلاب اور بارشوں کا جو سلسلہ شروع ہواہے اس کے نتیجے میں ان دو ماہ میں ملک کے بڑے حصے‘ خصوصیت سے بلوچستان‘ سندھ اور صوبہ سرحد کے بالائی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچی ہوئی ہے۔سرکاری سطح پر خوش کن اعلانات کے باوجود آزاد ذرائع سے جو معلومات حاصل ہورہی ہیں اور ملکی اور غیرملکی میڈیا نے جو رپورٹیں دی ہیں‘ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ نقصان بہت ہی وسیع پیمانے پر ہوا ہے اور ریلیف کا کام ہر اعتبار سے غیرتسلی بخش ہے۔ فوج اور نجی خدمتی اداروںنے غیرمعمولی محنت کر کے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی مدد کی ہے مگر عام انتظامی مشینری بالکل ناکام ہوگئی ہے___ اور یہی وہ پہلو ہے جوفوری توجہ کا مستحق ہے۔
سیلاب اور بارشوں کی تباہی کا اب تک کوئی مکمل اور معتبر جائزہ سامنے نہیں آیا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹوں اور سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بحث سے جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ بڑی دل خراش اور اندوہناک ہے۔ ان دو مہینوں میں ان آفاتِ سماوی کی وجہ سے ۳۲۵ افراد کے ہلاک ہونے اور مزید ۲۲۴ کے لاپتا ہونے کا اندازہ ہے‘ یعنی ۵۵۰ جانیں تلف ہوگئی ہیں۔ ۸۰ہزار سے ایک لاکھ گھروں کے مکمل طور پر تباہ ہونے یا ناقابلِ رہایش ہوجانے اور ۲۵ لاکھ سے زیادہ افراد کے بے گھر ہونے کی اطلاع ہے۔ دو مہینے گزر جانے کے باوجود بھی ہزاروں افراد ابھی تک مختلف علاقوں میں خصوصیت سے بلوچستان میں چھت یا خیمے کی سہولت سے محروم ہیں۔۵ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں بشمول بلوچستان کی کوسٹل ہائی وے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔ ۲ لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زرعی زمین اور ان پر موجود فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں کا ۲۰فی صد اورسندھ کے تعلیمی اداروں کا ۱۰فی صد ناقابل استعمال ہوگیا ہے۔ مجموعی مالی خسارے کا اندازہ ۹۰ سے ۱۵۰ ارب روپے کا ہے۔ ان حالات میں جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں متاثرہ ہر خاندان کو ۱۵ ہزار روپے کی سرکاری مدد کی پیش کش کرکے ان کے زخموں پر نمک تو چھڑکا ہے مگر ان کے دکھوں کی تلافی کا کوئی سامان نہیں کیا۔
یہ صورت حال بڑی سنگین ہے۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لیے جنگی بنیادوں پر ریلیف اور آبادکاری (rehabilitation)کا نقشۂ کار بلاتاخیر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت اور اپوزیشن کی آویزش‘ مرکز اور صوبوں میں کش مکش یا ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے کا موقع نہیں بلکہ پورے ملک کے وسائل کو متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی فوری مدد اور مستقل آبادکاری میں جھونک دینے کا وقت ہے۔ البتہ چند بنیادی سوالات ہیںجن پر حکومت اور پارلیمنٹ کو پوری سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے لیے ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقل حکمت عملی اور مؤثر نظامِ کار وضع کیاجاسکے۔
۲- دوسری چیز مرکز سے لے کرصوبے‘ ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر آفاتِ سماوی کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب نظامِ کاروضع کرنا‘ اس کے لیے مستقل اور والنٹیرکور تیار کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہر طالب علم کو اس کی تربیت دینے کی ضرورت ہے اور ایک مستقل ریلیف کور ہرعلاقے میں موجود رہنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی آفات کے نتیجے میں پیداہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے جن آلات اور وسائل کار کی ضرورت ہے وہ ہرعلاقے میں موجود ہونے چاہییں۔ یہ وہ کام ہے جسے اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے بعد پوری تندہی سے پورے ملک میں کرلینا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں عملی پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اُس وقت ایک خطیر رقم کے اعلان کے ساتھ ایک قومی والنٹیر کور کا بھی بڑے طمطراق سے اعلان ہوا تھا مگر جولائی اگست کے ان لمحات میں ان کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آیا۔
۳- تیسری چیز بارشوں اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کرنے کے مستقل انتظامات سے متعلق ہے جس پر ۵۰سال سے بحث ہورہی ہے لیکن کوئی قابلِ عمل اسکیم نہیں بن پارہی۔ بڑے ڈیموں کی بات ہوتی ہے مگر وہ توتکار کی نذر ہوجاتی ہے۔ چھوٹے اور متوسط ڈیموں کی ضرورت بیان کی جاتی ہے مگر کوئی ملک گیر منصوبہ نہیں بن پاتا۔ آخر کب تک ہم ان بحثوں میں وقت ضائع کریں گے؟
۴- شہروں اور قصبات میں نکاسیِ آب کے مستقل انتظام کا مسئلہ ہے۔ملک کے تمام ہی علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔ دریائوں پر ایسے پشتے بنانے کا سوال ہے جن سے نشیبی علاقوں میں آباد بستیوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچایا جاسکتا ہو۔ دنیا بھر میں انسانوں نے اپنی حفاظت بہتر زندگی کی ضمانت اور معیشت کی ترقی کے لیے ہزارہا کامیاب تجربات کیے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اور ہماری قیادت ان کی طرف توجہ نہیں دیتی اور صرف نمایشی کاموںکے ذریعے امیج درست کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہے۔
۵- اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بہت سے منصوبے غلط حکمت عملی یا بددیانتی کی وجہ سے رحمت کے بجاے مصیبت کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ بلوچستان کے میرانی ڈیم کی ناقص منصوبہ بندی اور اربوں روپے کی کرپشن کی وجہ سے انفراسٹرکچر سے متعلق منصوبوں کی خام کاری نے بھی آفاتِ سماوی کی تباہ کاریوں کو دوچند کردیاہے۔ یہ تمام معاملات فوری توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔
۶- ان بنیادوں اور دُوررس اقدامات کے ساتھ فوری ریلیف اور متاثرہ افراد کی جلداز جلد آبادکاری کامسئلہ ہے جس کے لیے مرکز کو اپنے وسائل سے اور عالمی اداروں کے تعاون سے ضروری اقدامات کرنے چاہییں۔
۷- متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ علاقے قرار دے کر ٹیکس‘ آبیانہ‘ قرضوں کی واپسی‘ بجلی اورگیس کی ادایگیوں سے چھوٹ اور ضروریاتِ زندگی کی فوری فرہمی کا اہتمام ضروری ہے۔ اس کام میں مرکز اور صوبوں کو تو اپنے وسائل استعمال کرنے ہی چاہییں لیکن ملک کے ہرحصے میں بسنے والے اور بیرون ملک پاکستانی متمول افراد کا فرض ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ نجی شعبے میں کام کرنے والی رفاہی تنظیموںنے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں لیکن ضرورت موجودہ فراہم کردہ سہولتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے یہ سارا کام خدمتِ خلق کے جذبے سے حکومت اور عوام کو مل کر انجام دینا چاہیے۔
رمضان کے مبارک مہینے کی آمد آمد ہے۔ یہ نیکیوں کا مہینہ ہے اور انسانوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کی مشکلات کو دُور کرنے کا زریں موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری اُمت مسلمہ کو مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے اور ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین!