اسے ایک اتفاق قرار دے کر نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز ترکی میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے ووٹ ڈالے جارہے تھے‘ اسی روز ترک ساحلوں پر امریکی‘ اسرائیلی اور ترک افواج کی مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز ہو رہا تھا۔ ترک سیاست میں ترک فوج کا یک طرفہ اور جانب دارانہ کردار کسی سے مخفی نہیں ہے اور خود کو ترک سیکولرزم کی محافظ قرار دینے والی اس فوج میں صہیونی و امریکی اثرونفوذ بھی موقع بہ موقع سرچڑھ کر بولتا ہے۔
۲۰ اگست ۲۰۰۷ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج حسب توقع حکمران انصاف و ترقی پارٹی (AKP) کے امیدوار عبداللہ گل کی شکست کی صورت میں نکلے۔ اس مرحلے میں ان کی اصل کامیابی یہ قرار پائی کہ فوج‘ ایوانِ صدر اور اپوزیشن سیکولر پارٹی کی تمام دھمکیوں کے باوجود پارلیمنٹ میں موجود رہنے والے ارکان کی تعداد دو تہائی سے کہیں زیادہ تھی۔ گذشتہ اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اسی نکتے کو بنیاد بناکر اعلیٰ عدالت نے پورا انتخابی عمل کالعدم قرار دے دیا تھا‘ اور اس کے بعد قبل از وقت انتخابات منعقد کروانا پڑے تھے۔
اس انتخاب میں دوسرا امیدوار نیشنلسٹ تحریک کی طرف سے تھا۔ صباح الدین چکماک نامی اس امیدوار کو ۷۰ ووٹ ملے‘بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی (DSP) کے امیدوار تایفون اِچلی نے بھی وقت ختم ہونے سے دوگھنٹے پہلے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے تھے انھیں ۱۳ ووٹ ملے۔ دونوں امیدوارون کی پارٹی ارکان اسمبلی کی تعداد بھی اتنی ہی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں ایک اور اہم عنصر کرد ارکان ہیں۔ ترک پارلیمانی نظام کے مطابق اگر ۲۰ سے زائد ارکان اپنا الگ گروپ بناناچاہیں تو بناسکتے ہیں۔ آزاد حیثیت میں منتخب ہوکر آنے والے یہ ۲۴ ارکان اب کرد آبادی کی نمایندگی کرنے کے لیے ایک مؤثر گروپ ہیں۔ ترکی قانون کے مطابق کسی بھی پارٹی کو اسمبلی میں آنے کے لیے کم از کم ۱۰ فی صد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے ۱۳ برس تک کوئی کرد رکن پارلیمنٹ میں نہیںآسکا تھا کیونکہ وہ ہر بار ۱۰فی صد کی حد پار نہیں کرسکے تھے۔ اس بار وہ آزاد امیدواروں کی حیثیت سے آئے اور ۲۴ کا گروپ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
۵۷سالہ گل ۲۹ اکتوبر ۱۹۵۰ء کوقیصری شہر کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ استمبول یونی ورسٹی سے اقتصادیات میں ڈگری حاصل کی‘ پھر برطانیہ سے اقتصادیات ہی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۱ء تک اسلامی ڈویلپمنٹ بنک میں اقتصادی ماہر کی حیثیت سے کام کیا اور ۱۹۹۱ء میں ترکی واپس جاکر اپنے استاد اور قائد نجم الدین اربکان کے ساتھ انتخابی عمل میں باقاعدہ شریک ہوگئے۔ ۹۱ء سے لے کر اب تک قیصری سے ہر بار انتخاب جیتا۔ ۱۹۹۵ء میں مخلوط حکومت بنی تو عبداللہ وزیرمملکت براے امورخارجہ بنے لیکن ۱۹۹۷ء میں سیکولرزم کی حفاظت کے نام پر فوج نے اربکان حکومت کاخاتمہ کردیا۔ ۱۹۹۸ء میں رفاہ پارٹی ہی کو غیرقانونی قرار دیدیا گیا۔ اربکان نے فضیلت پارٹی بنائی تو گل اس کا نہ صرف حصہ تھے‘ بلکہ انھوں نے پارٹی کا صدارتی انتخاب لڑا‘ اور پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کے معتمدعلیہ ساتھی رجائی قوطان سے مقابلے میں ناکام رہے۔ ۲۰۰۱ء میں ’فضیلت‘ پر بھی پابندی لگی تو اربکان نے ’سعادت پارٹی‘ بنانے کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر گل‘ اردوگان اور تقریباً ۵۰ فی صد ارکان نے اس کا حصہ بننے کا بجاے انصاف و ترقی پارٹی (AKP) کا اعلان کردیا۔ گل اور اردوگان بھی پروفیسر اربکان کے انتہائی معتمدترین ساتھیوں میں سے تھے۔ رفاہ پارٹی کی حکومت اور اس سے پہلے ترک بلدیاتی اداروں میں رفاہ پارٹی کی خدمات میں دونوں کا کردار کلیدی تھا۔ رجب طیب نے استمبول کے میئر کی حیثیت سے انتہائی جانفشانی‘ ایمان داری اور اہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی تحریک کے بارے میں لوگوں کے عمومی تاثر کو یک سر بدل دیا تھا۔ دونوں نوجوان‘ یعنی صدر اور وزیراعظم اپنی اسلامی شناخت اور اسلامی فکر کے اعتبار سے اتنے ہی یکسو تھے جتنے خود ان کے بزرگ رہنما‘ پروفیسر اربکان اکثر وبیش تر اپنے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے عبداللہ گل ہی پر اعتماد کیا کرتے تھے۔ اپنے استاد و رہنما اربکان کی طرح رجب طیب اردوگان پر بھی سیکولرزم کو چیلنج کرنے کا الزام تھا۔ ایک اجتماع میں انھوں نے جب ترک قومی شاعر کی ایک نظم کو استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں اگر ہم پر دہشت گردی کا الزام ہے تو شاید تم درست کہتے ہو‘ دیکھو یہ مسجدیں ہماری بیرکیں‘ ان کے مینار ہمارے نیزے اور ان کے گنبد ہماری ڈھالیں ہیں‘‘ تو ان پر مقدمہ چلا‘ قید کی سزا سنا دی گئی اور سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔
جب اربکان سے علیحدگی اور انصاف و ترقی پارٹی بنالینے کے بعد طیب اردوگان دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تب بھی وہی مسجدوں کے ’دہشت گردانہ‘ استعارے کے الزام میں لگی اس پابندی کی مدت باقی تھی۔ ایک دوسرے کے سائے کی حیثیت اختیار کرجانے والے طیب و عبداللہ نے فیصلہ کیا کہ عبداللہ تب تک وزیراعظم ہوں گے جب تک طیب پر لگی پابندی کی مدت پوری نہ ہوجائے۔ یہ مدت پوری ہوئی‘ طیب رکن اسمبلی بنے‘ عبداللہ گل نے بغیر ادنیٰ تأمل کے وزارت عظمیٰ کی ’امانت‘ طیب اردوگان کے سپرد کی اور خود ان کی کابینہ میں وزیرخارجہ کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان لڑکپن ہی سے ’گل‘ اور ’بوے گل‘ جیسا یہ تعلق‘ ایک اکیلا اور دو گیارہ کی عملی تفسیر ہے۔
’انصاف و ترقی‘ کی تشکیل کے اعلان سے لے کران کی واضح جیت تک اور پہلی حکومت سازی سے لے کر حالیہ انتخابات تک ترکی کے اندر اور باہر ایک گہرا تاثر یہ اُبھرا کہ ان نوجوانوں کا یوں الگ ہوکر نئی پارٹی بنانے اور اپنے سابقہ تعارف و نسبت کا یک گونہ پردے میں لے جانے کا فیصلہ‘ بنیادی طور پر باہمی مشورے اور حکمت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ترک ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کا بھی یہی تاثر تھا کہ ’انصاف و ترقی‘ کو پروفیسر اربکان کی خاموش و خفیہ سرپرستی حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ کمال اتاترک کے ظالم جانشینوں نے سیکولر فوج کی مدد سے جب اربکان اور ان کی تحریک کے سامنے تمام راستے بند کردیے‘ ان کی ملی نظام پارٹی‘ ملی سلامت پارٹی‘ رفاہ پارٹی‘ فضیلت پارٹی اور پھر سعادت پارٹی کا ناطقہ بند کرنے کے لیے کسی اخلاقی و قانونی ضابطے کو خاطر میں نہیں رکھا گیا تو ’انصاف و ترقی‘ کے نام پر آگے بڑھنے کا فیصلہ‘ کسی خفیہ اتفاق راے سے کیا گیا۔ اس تاثر نے پروفیسر اربکان کے لاکھوں متوالوں کے ووٹ بھی اردوگان کے پلڑے میں ڈال دیے۔
حقیقت میں یہ تاثر بالکل خلافِ واقع ہے۔ حالیہ انتخابات میں ڈاکٹر اربکان نے اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے انتہائی جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ اگرچہ اس لہجے کا آغاز علیحدگی کے وقت سے ہی ہوگیا تھا‘ لیکن اب اردوگان اور ان کی پارٹی پر نجم الدین اربکان کی تنقید اپنے انتہائی عروج پر ہے۔ مئی کے اختتام میں ان سے تفصیلی ملاقاتوں کا موقع ملا‘ وہ اور ان کی سعادت پارٹی کے اکثر رہنما اس بات پر مکمل طور پر یک سو اور پختہ راے رکھتے تھے کہ ’انصاف و ترقی‘ پارٹی کی قیادت نہ صرف مکمل طور پر امریکی اطاعت قبول کرچکی ہے‘ بلکہ علاقے میں امریکی‘ صہیونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ان کے ایجنٹ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اربکان صاحب کے الفاظ میں: ’’اگر کوئی شخص نماز بھی پڑھتا ہو لیکن سلام پھیرتے ہی صہیونی دشمن کے صدقے واری جاتے ہوئے ان کی غلامی اختیار کرلے تو جوفرق اس میں اور ایک کھرے مسلمان میں ہے وہی فرق انصاف پارٹی اور سعادت پارٹی میں ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب دائیں اور بائیں کی تقسیم ختم ہوچکی ہے۔ اب دنیا کی تقسیم یوں ہے کہ ایک طرف صہیونی اور ان کے حلیف ہیں اور دوسری طرف ان کے مخالفین ہیں‘‘۔ ان کے ایک کارکن گویا ہوئے: پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ کے درمیان ملاقات کروانے میںاردوگان حکومت کا اہم کردار تھا‘ کیا اس کے بعد بھی تمھیں کوئی دلیل چاہیے ان کی صہیونیت نوازی کی؟‘‘
اردوگان اور ان کے رفقاے کار کے بارے میں زیادہ اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت ان کی سب سے اہم ترجیح ہے اور اس مقصد کی خاطر وہ تمام ایسے اقدامات کرتے چلے جارہے ہیں جن کا ان سے تقاضا کیا جائے خواہ وہ اسلامی تعلیمات سے کتنے ہی متصادم کیوں نہ ہوں۔ مثال کے طور پر باہمی رضامندی سے بدکاری کو جرم نہ قرار دینے کے لیے قانون سازی‘ دستور میں خاندان کی اس تعریف کے بجاے کہ ’’خاندان میاں بیوی سے عبارت ہے‘‘، یہ تعریف شامل کرنا کہ ’’خاندان دو افراد کی رضامندی سے تشکیل پاتا ہے‘‘ (یعنی خواہ دونوں ایک ہی جنس سے کیوں نہ ہوں)‘ خنزیر کے گوشت کی کھلے عام فروخت پرسے پابندی ختم کردینا وغیرہ۔ یہ اور اس طرح کے اقدامات کی ایک طویل فہرست پیش کی جاتی ہے کہ اب ان اقدامات کے بعد کوئی کیسے یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کے نظریات سے وفادار ہیں اور ان کے یہ سارے اقدامات صرف سیکولر فوج کے شر سے بچنے کی خاطر ہیں۔
اس تناظر میں عالمِ عرب میں یہ بحث بہت شدومد سے چھیڑی گئی کہ اگر ترکی میں ایک جماعت اپنے اسلامی نظریات سے (بظاہر یاحقیقتاً) دست بردار ہوکر کامیابی کے زینے طے کرسکتی ہے تو عالمِ اسلام کی باقی جماعتیں کیوں اپنی اسلامی شناخت پرمصر ہیں۔ وہ کیوں دورِحاضر کے تقاضوں سے مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہیں؟ اس سلسلۂ بحث میں انصاف و ترقی پارٹی کے دفاع و ستایش میں بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ معروف امریکی دانش ور گراہم وولر اپنے مضمون ’ترکی میں اسلامیوں کی جیت‘ میں لکھتے ہیں: ’’انصاف پارٹی کے اس اعلان کے بعد کہ وہ ملک میں نفاذِ شریعت کا ارادہ نہیں رکھتے اور سیکولرزم کی تائید کرتے ہیں‘ اس پر غیراسلامی پارٹی ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ کئی اسلامی عناصر اس پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے ترکی کومغرب کے ہاتھوں فروخت کرڈالا ہے۔ آیئے ان الزامات کاتجزیہ کرتے ہیں۔ ترکی کے دستور کے مطابق ہروہ پارٹی جو سیکولر نظام کا خاتمہ چاہتی ہے‘ غیرقانونی ہے۔ ایسے میں وہ اس کے علاوہ اورکیا بیان دے سکتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک فریق انھیں غیراسلامی کہہ رہا ہے اور دوسرا ان پر یہ الزام لگا رہا ہے کہ وہ ’تقیہ‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی اسلامی شناخت کو چھپانے کے لیے سیکولرزم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں‘‘۔
وہ مزید کہتے ہیں: ’’کیا صرف نفاذ شریعت ہی وہ اکلوتا معیاررہ گیا ہے جس سے کسی کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا تعین ہو؟ آج کے جدید معاشرے میں شریعت کے علاوہ اور بڑے گنجلک مسائل ہیں‘ جیسے جنگ یا امن‘ تعلیم اور ٹیکسوں کا نظام‘ عالمی قرضوں کا نظام اور عالمی سرمایہ کاری‘ ٹکنالوجی اور تجارت‘ یہ وہ تمام مسائل ہیں جن کا شریعت سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے‘‘۔
اگرچہ گراہم وولر کے اس پورے استنباط میں شریعت کے بارے میں خود ان کا اپنا تصور بہت ادھورا و ناقص ہوناواضح ہو رہا ہے لیکن اپنے تجزیے میں وہ اس بات پر خصوصی اصرار کرتے ہیں کہ ’’انصاف پارٹی کی جیت سے امریکا اسلامی تحریکوں کے بارے میں اپنے رویے پر نظرثانی کرسکتا ہے۔ امریکا جو ایرانی انقلاب اور خاص طور پر نائن الیون کے بعد اسلامی عناصر کے بارے میں بہت منفی نقطۂ نظر رکھتا ہے‘ اب انصاف پارٹی کی پالیسیوں اور واضح کامیابی کے بعد اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے ترکی میں منصفانہ انتخابات پر ترکی کو مبارک باد پیش کی ہے اور اگر انصاف و ترقی پارٹی اچھی حکومت تشکیل دیتی ہے تو امریکا اس سے اچھے تعلقات کاخواہاں ہوگا۔ یہ امرمستقبل میں دیگر اسلامی تحریکوں کو بھی قبول کرلینے کی نظیربن سکتا ہے‘‘۔ گراہم وولر مؤثر امریکی اداروں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ عالمِ اسلام کے بارے میں ان کی راے اہم قرار دی جاتی ہے۔ وہ جب اسلامی جماعتوں اور مسلم معاشرے کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ دین و شریعت سے سروکار رکھنے والی کسی پارٹی کو اقتدار میں آنا بھی نہیںچاہیے کیونکہ حکومتی معاملات چلانا دینی مسائل حل کرنے سے مختلف چیز ہے۔ دینی مسائل اہم چیز ہیں لیکن اگر کوئی جماعت بنیادی طور پرانھی مسائل کے گرد گھومتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ایک دعوتی تحریک بن جائے۔ دینی و اخلاقی خطاب کرے لیکن اسے حکومت نہیں بنانی چاہیے‘‘۔ تب یہ بحث ایک نئی جہت اور نئی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔
تیونس کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ راشدغنوشی نے بھی اس ضمن میں بہت اہم مضمون تحریر کیا ہے لیکن انھوں نے اس نظریے کی مذمت و تردید کی ہے کہ اسلامی تحریکوں کو جیتنے کے لیے اپنے اسلامی تشخص‘ اسلامی پروگرام اور اسلامی اقدار و تعلیمات سے دست بردار ہوجانا چاہیے۔ انھوں نے عالمِ اسلام کے سیکولر عناصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انصاف و ترقی پارٹی ترکی کے سیکولر دستور کا احترام کرتے ہوئے خود کو ایک سیکولر تحریک کے روپ میں پیش کرتی ہے تو پھر عالمِ اسلام کی سیکولر پارٹیوں کو بھی اپنے ممالک کے اسلامی دساتیر کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینا چاہیے۔
ان کے بقول: ’’ترکی کا تجربہ وہاں کے مخصوص حالات کا حتمی نتیجہ ہے۔ یہ دیگر اسلامی ممالک کے لیے مثال نہیں بن سکتا۔ یہ تجربہ وہاں کے جبر اور اضطراری کیفیت کا ماحصل ہے۔ سالہا سال کے تلخ تجربات کے بعد حالات نے اسلامیانِ ترکی کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے اس عقیدے کے خلاف نظریات اپنانے کا اعلان کریں کہ اسلام صرف عقیدہ ہی نہیں کامل منہاجِ حیات ہے… دنیا بھر میں اسلامی بیداری کی مضبوط سے مضبوط تر ہوئی لہر میں بالآخر ترک اسلام کو بھی ضم ہونا ہوگا۔ بالآخر سب کو اسلام کے اسی عظیم چشمۂ صافی سے سیراب ہونا ہے جس میں نہ کوئی تلچھٹ ہے‘ نہ کوئی تحریف‘‘۔
اگرچہ ہردور میں اس سوال کا جواب اپنے اپنے انداز میںدیا گیاہے لیکن اسلامی تحریکوں کو قابلِ قبول بننے اور خود کو عالمی حالات کے مطابق ڈھال لینے یا اکل کھرے انداز سے اپنے نظریات و مقاصد پر جمے رہنے کی اس اہم نظریاتی بحث پر بے لاگ‘ غیر جانب دارانہ‘ غیر معذرت خواہانہ اور مکمل طور پر کھلے دل و دماغ سے غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سید قطبؒ کی مفصل تحریر میںسے یہ مختصر اقتباس بھی پیش نظر رہے:
ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنھیں سب صادق و امین مانتے تھے‘ جنھیں قریش نے بھی حجراسود رکھنے کے معاملے میں فیصلے کا اختیار دیا اور جو بنی ہاشم سے اور قریش میں بھی اعلیٰ ترین نسب رکھتے تھے‘ کے لیے زیادہ مناسب ہو تاکہ وہ پہلے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ جب سب عرب ان کا اقتدار تسلیم کرتے ہوئے انھیں اپنا حکمران و سربراہ تسلیم کرلیتے تو پھر آپؐ اس پورے اقتدار کو عقیدۂ توحید راسخ کرنے اور لوگوں کو اپنا مطیع فرمان بنالینے کے بعد ان کے رب کے اقتدار کے سامنے جھکانے کے لیے صرف کردیتے… لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو علیم و حکیم ہے اپنے رسولؐ کو یہ راہ نہیں دکھائی بلکہ آغازِ کار ہی سے فرما دیا کہ لا الٰہ الا اللہ کا واضح اعلان کردیجیے۔ اس راستے میں آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو جو بھی اذیت پہنچے اسے برداشت کیجیے۔
مستقبل قریب میں ان انتخابات اور انصاف پارٹی کی مقبولیت کے حقیقی اثرات و نتائج سامنے آنا شروع ہوجائیں گے لیکن جو نتائج اس وقت دنیا کے سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ گذشتہ ۸۰برس سے زائد عرصے سے جاری نام نہاد روشن خیال پالیسیوں اور اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات کے جواب میں ترک عوام کی واضح اکثریت‘ ایک سروے کے مطابق ۶۵ فی صد نے سیکولر قوتوں سے نفرت کا اظہار کیا ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔