ویسے تو جنرل پرویزی دور کے ترجمان القرآن میں لکھے گئے تمام اشارات اہم ہیں مگر ’پاکستان فیصلہ کن دوراہے پر‘ نے نہ جانے کیوں البدر، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، سوناربنگلہ، چہرے جیسی (کتابیں نہیں بلکہ) تاریخی دستاویزات کی یاد دلا دی۔ مجھے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے آپ کے ’اشارات‘ بروقت نہیں بلکہ وقت سے پہلے ایک تاریخی دستاویز بنتے نظر آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں مزید وسعت اور قلم کو مزید بااثر بنائے۔اس دوراہے سے پوری قوم متحدہوکر ہی نکل سکتی ہے۔
پہلے سندھ کے لوگوں کو فوج سے نفرت یا ناپسند کرنے والا سمجھتا جاتا تھا۔ میرا تعلق سندھ سے ہے لیکن میں نے پاکستان کے ہرصوبے اور علاقے میں کئی کئی برس گزارے اور حالات و مزاج دیکھے ہیں۔ کاش! سندھ کے اس وقت کے جذبات کو حقیقی آئینے میں دیکھ کر فوج کو ان کی حدود تک محدود کرنے کا بندوبست کردیا جاتا تو آج سرحد‘ بلوچستان اور پنجاب کے علاقوں میں اس قدر شدید نفرت نہ دیکھی جاتی جو سندھ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اور خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو محفوظ رکھے اور قوم کو زندہ قوم کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین!
’پاکستان ، فیصلہ کن دوراہے پر‘ (اگست ۲۰۰۷ء) میں جن تین اہم واقعات (لال مسجد‘ جامعہ حفصہ اور چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی بحالی کا فیصلہ) پر دلائل و براہین کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے‘ اس سے صورت حال پوری طرح واضح ہوگئی اور حکومت کے غلط اقدامات پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ان تینوں واقعات کے بارے میں حکومت نے جورویہ اختیار کیا وہ کسی لحاظ سے بھی درست نہیں تھا۔
’اسلامی ریاست میں دعوت و جہاد کا منہج‘ (اگست ۲۰۰۷ء) تحریکِ شریعت محمدی‘جامعہ حفصہ اور دیگر اسلام کے غلبے کی خواہش مند تحریکوں کے پس منظر میں نہایت برمحل اور فکرانگیز ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے غلبے کے خواہش مند دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ ابھی تک ’طریق انقلاب‘ پر بھی متفق نہیں ہوسکے۔ تحریکِ اسلامی کی جدوجہد کو محض سیاسی کہہ کر استخفاف کیا جاتا ہے۔ مؤلف نے اپنی بات کو کتاب و سنت کے حوالوں سے مستند و مزین کیا ہے۔
’شیعہ سُنی مکالمہ‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) بلکہ مفاہمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مشترکہ ایمانیات‘ اسلامی اقدارِ حیات‘ صحابہ و اہلِ بیت کا اکرام‘ اکثریتی آبادی کے علاقوں میں اکثریت کے مسلک کی فقہ اور اقلیتی مسلک کو پرسنل لا کا تحفظ اتحاد اور بقاے باہمی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
’دورِ جدید میں بین المذاہب اتحاد کا تصور‘ (اگست ۲۰۰۷ء)‘ میںعہدِحاضر کے اہم مسائل میں سے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور غوروفکر اور عمل کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔
’شیعہ سُنی مکالمے‘ (جولائی ۲۰۰۷ء) کو اُمت مسلمہ کی ضرورت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایسی ضرورت جو اس اُمت کو ہمیشہ رہی۔ اُمت مسلمہ کو ہمیشہ ہی ان دو بنیادی فرقوں کے باہمی اختلافات سے جس قدر نقصان پہنچا اور پہنچایا گیا وہ ڈھکا چھپا نہیں۔ اہلِ علم‘ مفکرین اور اُمت کے علما کااحسان ہوگا جو وقت کے تقاضوں کے لوازمے کا اس طرح انتخاب کریں کہ عام آدمی تک شریعت کی درست تعلیمات پہنچ سکیں‘ اور پڑھنے والا ہرقاری اس فکروخیال کو آگے بڑھائے۔
امام حسن البناشہیدؒ نمبر (مئی ، جون ۲۰۰۷ء) سرورق سے اختتام تک معلومات کا گراں قدر شاہکار ہے جس کا مطالعہ ایمان کی نئی حرارت دے گیا۔ محنت کرنے والوں کو اللہ جزاے خیر دے۔ آمین
’حسن البناشہیدؒ نمبرسے پرتیں کھلیں‘کئی در وا ہوئے۔ اللہ رب العزت کی رضا کے حصول اور اس کے رنگ میں انفرادی و اجتماعی طور پر رنگ جانے کا علم بلند کرنے والے‘ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست ربط و تعلق اور آپؐ سے پُرخلوص عشق و محبت اور وابستگی و اطاعت کی مہکار میں ڈھلے ہوئے عالمِ اسلام کے قائد حسن البنا شہید کے بارے میں اتنا ضخیم اور وقیع شمارہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے بے مثل کردار کے حامل لوگوں کو یاد رکھنا اور اپنے خانۂ دل سے نہ بھلانا اور ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا اچھی روایت ہے۔
ماہ رمضان المبارک کی مناسبت سے دو کتابچے: ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟ تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ اور قــرآنی و مسنون دعائیں مع آسان ترجمہ بلامعاوضہ دستیاب ہیں۔خواہش مند خواتین و حضرات 6 روپے کے ڈاکٹ ٹکٹ بنام ڈاکٹرممتاز عمر‘ T-445 ‘ کورنگی نمبر2‘ کراچی -74900 کے پتے پر روانہ کرکے کتابچے حاصل کرسکتے ہیں۔