اگست ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کتاب نما

| اگست ۲۰۰۱ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

دینی مدارس کی مثالی خدمات ‘ مولانا زاہد الراشدی۔ ترتیب: عبدالوحید اشرفی۔ ناشر: مکہ کتاب گھر‘ سیکنڈفلور‘ الکریم مارکیٹ‘ اردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۶۰ روپے۔

دینی مدارس قومی اور ملّی سطح پر بین الاقوامی تناظر میں ایک گرم موضوع بن گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی کامیابی نے ان مدارس کو ایک نئی اہمیت دی ہے۔ مغرب بھی مسلمان معاشروں کو زیر کرنے میں انھیں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ ہمارے سیکولر ارباب اقتدار کوبھی ان کا وجود ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ ان پر حملے بھی ہوتے ہیں اور اصلاح کے لیے تدابیر و تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی کا نام اس لحاظ سے معروف ہے کہ سرگرم اور فعال حیثیت میں بہ خوبی دفاع بھی کرتے ہیں‘ اور دردمندی سے اصلاح کے لیے تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر عملی اور حالات حاضرہ کا لحاظ رکھنے والی اور راست فکر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

یہ ان کی کوئی مربوط کتاب نہیں ہے بلکہ اس موضوع کے حوالے سے ان کے رسالے الشریعہ اور دیگر اخبارات میں شائع شدہ مختلف تحریروں کی یک جا اشاعت ہے جسے عبدالوحید اشرفی صاحب نے جمع کر دیا ہے۔ عنوان کتاب کے مندرجات کی وسعت کا احاطہ نہیں کرتا جس میں خدمات‘ زبان‘ مسائل اور مستقبل کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ ۱۲ تحریروں میں سے کئی برطانیہ کے مدارس سے متعلق ہیں اور وہاں کی ضروریات کے لحاظ سے جامع نصاب تجویز کیا گیا ہے‘ البتہ طالبات پر گفتگو نہایت تشنہ ہے۔

مولانا زاہد الراشدی کا دفاع کا جارحانہ انداز چشم کشا ہوتا ہے۔ائمہ مساجد چندوں پر گزارا کیوں کرتے ہیں‘ محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ اس کے جواب میں انھوں نے یہ اصول بیان کیا کہ اجتماعی کام کرنے والوں کے اخراجات اجتماعی آمدنی میں سے ہی دیے جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کو تنخواہ بھی اسی طرح ادا کی جاتی ہے‘ یہ الگ بات ہے کہ اسے ٹیکس کہتے ہیں اور حکومت کے نظام کے تحت جمع کیا جاتا ہے۔ جج بھی تو نیکی کے کام کرتے ہیں‘ وہ تنخواہ نہ لیں‘ محنت مزدوری کرکے پیٹ پالیں۔ اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں کہتے! (ص ۷۲)

تبدیلی کی بات شروع سے کہی جا رہی ہے لیکن ذمہ داران مدارس‘ معاشرے کی مخصوص ضروریات پوری کرنے کو اوّلیت دیتے ہیں اس لیے اس نوعیت کی تبدیلیوں سے احتراز کرتے ہیں جو ان کے طلبہ کو دنیاوی مسابقت کی دوڑ میں لے جائیں۔ یہ قربانی کا سوچا سمجھا رویہ ہے۔ نظام حیدرآباد کی پیش کش تھی کہ ریاست کی ضروریات کے لحاظ سے نصاب میں تبدیلی کریں تو ملازمت بھی دی جائے گی اور مکمل اخراجات بھی اٹھائیں گے۔ مگر یہ پیش کش ردّ کر دی گئی ۔(ص ۲۴)

جمود‘ اور تبدیلی کی مزاحمت کی شدت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ترجمہ قرآن پڑھانے‘ اور ڈاک خانہ‘ ریلوے کے قواعد اور تعزیرات ہند پڑھانے کی تجاویز پیش کرتے کرتے تھک گئے کہ اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا ۔(ص ۱۰)

مصنف نے متعدد مفید اور عملی تجاویز پیش کی ہیں اور اس پر زور دیا ہے کہ مختلف مسالک کے مدرسوں کے ذمہ داروں کی باہمی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ تبدیلی کا کچھ نہ کچھ عمل جاری ہے لیکن ضرورت درست سمت میںرفتار بڑھانے کی ہے۔ (مسلم سجاد)


سقوطِ بغداد سے سقوطِ ڈھاکہ تک ‘میا ں محمد افضل۔ ناشر: مجاہد اکیڈمی ‘پوسٹ بکس ۲۰۲۱‘ لاہور۔ صفحات:۵۶۵۔ قیمت: ۳۶۰ روپے۔

مصنف نے اُمت مسلمہ کی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ کے ان حوادث و سانحات اور عبرت ناک واقعات کو بڑی کاوش اور محنت و تحقیق کے ساتھ جمع کیا ہے جو اگرچہ بہت تلخ‘ ناخوش گوار اور پریشان کن ہیں لیکن مصنف کا مقصد اس تفصیل سے سبق آموزی اور حصول عبرت ہے۔ سقوطِ بغداد (عذاب الٰہی کا پہلا کوڑا)‘ سمرقند سے عذاب الٰہی کا ظہور (فاتح اعظم تیمور اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار)‘ دہلی میں تیمور کی تلوارِ بے نیام (تذکرہ ایک قیامت ِ صغریٰ کا)‘ سرزمین اندلس مسلمانوں پر کیسے تنگ ہو گئی؟ وسط ایشیا اور قفقاز‘ روسی مسلمان اژدھا کے چنگل میں‘ سلطنت ِ مغلیہ کی ٹوٹ پھوٹ اور نادرشاہ کی شکل میں خدائی عذاب‘ تخت گاہ سے قتل گاہ تک (ہنگامہ ۱۸۵۷ء) ‘مسلمانوں کی آخری بڑی سلطنت (عثمانیہ) کی بربادی کی دل خراش داستان‘ سقوط ڈھاکہ (بیسویں صدی میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت کی کہانی) جیسے عنواناتِ ابواب سے کتاب کے وسیع کینوس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بقول مصنف: ’’اسلامی تاریخ میں ملت کو پیش آنے والے صدمات و حادثات میں سے ہم نے صرف انھی واقعات کو منتخب کیا ہے جن کے اثرات صدیوںتک محسوس کیے گئے یا کیے جائیں گے۔ یہ وہ دردناک حوادث ہیں جن کے لگائے ہوئے زخموں سے اب تک خون رِس رہا ہے‘‘۔ (ص ۱۴)

ملتِ اسلامیہ کو یہ حادثات کیوں پیش آئے ؟مصنف نے دیباچے میں متعدد وجوہ کی طرف اشارہ کیا ہے: ’’مسلمان گذشتہ کئی صدیوں سے فلسفہ توحید کو مکمل طور پر جزو ایمان نہ بنانے کی وجہ سے ذلت و نکبت میں مبتلا ہیں‘ خصوصاً اس قوم کے طبقہ اُمرا کے دل سے غیرت‘ حمیت اور ایمان کا نور بالکل ہی نکل چکا ہے‘‘۔ مصنف کہتے ہیں کہ خرابی ہمیشہ اندر سے واقع ہوتی ہے اور پھر سرطان کی طرح پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب پھوڑا متعفن ہو جاتا ہے تو پھر نشتر اور آپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے۔ قدرت کا کوڑا برستا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کے نشان چھوڑ جاتا ہے‘ یہ کوڑا کبھی چنگیز کی شکل میں نمودار ہوتا ہے‘ کبھی ہلاکو کی شکل میں‘ کبھی تیمور کی صورت میں اور کبھی آپس میں لڑلڑمرنے کی صورت میں۔

’’قدرت کی طرف سے یہ عذاب اس وقت نازل ہوتے ہیں جب اصلاح کا جذبہ اجتماعی طور پر ختم ہو جائے یا اصلاح کی طرف متوجہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کی بات نہ سنی جائے بلکہ ان کی تذلیل کی جائے‘‘ (ص ۱۸)۔مصنف نے حوادث وواقعات کے اسباب بھی بیان کیے ہیں اور ان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ ان کے نزدیک بعض اسباب ہر سانحے میں کارفرما نظر آتے ہیں ‘جیسے :عدم اتفاق‘ فرقہ وارانہ افتراق اور حکمرانوں کا شدید بے غیرتی اور فسق و فجور میں مبتلا ہونا۔

پوری کتاب عبرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نادر شاہ کی فوج دلی کی طرف بڑھی چلی آرہی تھی اور محمد شاہ رنگیلا (بلکہ بیش تر دہلی والے) عیش و عشرت میں ایسے منہمک تھے کہ نادر شاہی فوج کی آمد کی خبر سب سے پہلے ان گھسیاروں کو ملی جو صبح سویرے گھوڑوں کا چارہ حاصل کرنے کے لیے دلّی سے تین چار میل باہر چلے گئے تھے اور کسی طرح بچ بچا کر زخموں سے چور گرتے پڑتے واپس دلّی پہنچے۔ مگر اس سے بھی زیادہ عبرت ناک بات سقوطِ بغداد سے متعلق ہے۔ ہلاکو خان نے فتح بغداد کے بعد آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو کھانے پر بلایا‘ اس کے سامنے سونے چاندی کے ڈھیر رکھ دیے اور کہا: ’’اسے تناول فرمایئے‘‘۔ خلیفہ: ’’میں سونا کس طرح کھا سکتا ہوں؟‘‘۔ ہلاکو: ’’پھر آپ نے سونے کو اتنی حفاظت اور اہتمام سے کیوں رکھا ہوا تھا‘‘۔ ہلاکو نے سیم و زر اور جواہرات سے لبریز بڑے بڑے آہنی صندوقوں کی طرف تلوار سے اشارہ کرتے ہوئے خلیفہ سے کہا: ’’آپ نے ان صندوقوں کے فولاد سے فوج کے لیے تیر کیوں نہ بنوائے؟ اور یہ تمام سونا اور جواہر اپنے سپاہیوں میں تقسیم کیوں نہ کیے اور آپ نے بغداد سے باہر نکل کر پہاڑوں کے دامن ہی میں مجھے روکنے اور مقابلہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟‘‘۔ خلیفہ: ’’مشیت ایزدی یہی تھی‘‘۔ ہلاکو: ’’اچھا تو اب ہم جو سلوک آپ سے کریں‘اُسے بھی مشیت ایزدی سمجھنا‘‘۔ ہلاکو نے مستعصم اور اس کے بیٹوں کو نمدے میں زندہ لپیٹ کر سلوایا اور پھر خونخوار تاتاری سپاہیوں نے ان نمدوں پر گھوڑے دوڑائے اور سموں کے نیچے انھیں مکمل طور پر روند ڈالا۔ بغداد کی تباہی اسلامی تاریخ کا نہایت الم ناک واقعہ ہے۔ بغداد اس وقت مرکز خلافت تھا اور ’’دنیاے اسلام کا سب سے شان دار اور آباد شہر تھا۔ قلعہ بندیاں مضبوط تھیں ‘لیکن نہ دل اور نہ ایمان مستحکم تھے‘‘ ۔(ص ۲۲)

مصنف کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی نہیں ہے‘ وہ ہر جگہ ذلت و خواری میں مبتلا ہیں۔ کشمیر‘ بوسنیا‘ کوسووا‘ چیچنیا‘ عراق‘ افغانستان‘ بھارت‘ فلسطین غرض دنیا کے ہر گوشے میں مسلمانوں ہی کا خون بہہ رہا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اُمت مسلمہ جس اعلیٰ مشن کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوئی تھی وہ اس سے غافل ہو چکی ہے اور اس نے مادّی ضروریات کی تکمیل ہی کو مقصد زندگی بنا لیا ہے اور اسی لیے وہ حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ مصنف نے ملتِ اسلامیہ کی جو دل خراش داستان بیان کی ہے وہ عبرت انگیز ضرور ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ قدرت ابھی تک مسلمانوں سے مایوس نہیں ہوئی۔ یہ سانحے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ہیں۔ اگر قدرت اس قوم سے مایوس ہو چکی ہوتی تو یہ جھٹکے بار بار نہ لگائے جاتے۔ عضومعطل کو بحال کرنے کے لیے ہی بار بار جھٹکے لگائے جاتے ہیں۔

کتاب تمام تاریخ پر مبنی ہے‘ مگر افسانہ و داستان سے زیادہ دل چسپ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فکرانگیز بھی۔ بیش تر واقعات و احوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُمرا کی عیش کوشی‘ جاہ و مناصب اور اقتدار کی ہوس ‘ زر و مال سے محبت‘ شراب نوشی‘ باہمی نفاق و بغض‘ فریب کاری‘ دغابازی کے ساتھ ساتھ علما و صوفیا کی بے عملی اور ذہنی جمود‘علمی تحقیقات سے غفلت‘ اور جہاد سے بے اعتنائی بھی زوال و ادبار کی وجوہ میں شامل تھے۔ جب تلواریں کند ہو کر رہ جائیں تو قوموں کی تاریخ میں سانحات کا پیش آنا غیر فطری نہیں۔

اس بے اعتنائی‘ بے نیازی بلکہ بے حمیتی کو کیا نام دیا جائے کہ جب غرناطہ کے مجبور و محصور مسلمانوں نے سلطنت ِ عثمانیہ سے‘ جو اس زمانے میں ایک مضبوط و مستحکم قوت تھی‘ اسلامی اخوت کے نام پر مدد چاہی تو ترک شہنشاہ نے وہ خط پاپائے روم کو‘ اور اس نے غرناطہ کا محاصرہ کرنے والے عیسائی شاہ فرڈی ننڈ کو بھیج دیا۔

میاں محمد افضل صاحب نے جس محنت و تحقیق‘ خلوص و دل سوزی اور نہایت درجہ دردمندانہ ملّی جذبے کے ساتھ کتاب لکھی ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے‘ خصوصاً نوجوانوں کے لیے اس کا مطالعہ نسبتاً ضروری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


سیرت بانی دارالعلوم ‘  علامہ سید مناظر احسن گیلانی۔ مرتب: محمد عامر قمر۔ ناشر: مجلس یادگار گیلانی‘ ڈی-۴۸‘ گلی نمبر ۳‘ سیکٹر ۲/۱-۱۱‘ اورنگی ٹائون‘ کراچی۔ صفحات: ۱۳۲۔ قیمت: ۸۰ روپے۔

مولانا سید مناظر احسن گیلانی  ؒ (۱۸۹۲ء-۱۹۵۶ء) نے دارالعلوم دیوبند کے مجلہ القاسم میں اس کے اجرا کے موقع پر چھ قسطوں میں’’دارالعلوم کے بانی کی کہانی‘ انھی کی زبانی‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ شائع کیا تھا۔محمد عامر قمر نے مذکورہ مقالے کے ساتھ قاری طیب کی ایک تحریر ’’بانی دارالعلوم‘‘ بھی شامل کرکے زیر نظر کتاب مرتب کر دی ہے۔ پیش لفظ‘ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری کا ہے جس میں علامہ سیدمناظر احسن گیلانی  ؒ کی انشا پردازی اور اسلوب نگارش پر اظہارخیال کیا گیا ہے۔

علامہ سید مناظر احسن گیلانی  ؒکو اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا‘ طبیعت اخاذ اور نکتہ آفرینی عطا فرمائی تھی۔ وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو ان کے سامنے معلومات کا انبار اور ذہن میں افکار و خیالات کا ہجوم ہوتا۔ پھر چھوٹا سا عنوانِ مقالہ بھی ایک ضخیم تصنیف کی صورت اختیار کر لیتا۔ مولانا گیلانی ؒنے مختلف موضوعات: قرآن‘ حدیث سیرت‘ فقہ‘ تاریخ‘ مذاہب عالم‘ تصوف‘ معاشیات‘ تعلیم و تربیت وغیرہ پر علمی و تحقیقی تصنیفات یادگار چھوڑی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے سیکڑوں مقالات مختلف علمی و تحقیقی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ ان تحریرات کو محفوظ کرنے اور ازسرنو مرتب کرنے کے لیے ’’مجلس یادگار گیلانی‘‘ کا قیام عمل میںلایا گیا ہے اورزیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

زیرنظر مقالے کے علاوہ مولانا مناظر احسن گیلانی  ؒنے بعدازاں سوانح قاسمی کے عنوان سے مولانا قاسم نانوتوی ؒکے حالات زندگی پر ضخیم اور مبسوط کتاب تحریر کی‘ مگر زیرنظر تحریر کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ مولانا گیلانی  ؒ‘سوانح قاسمی کے مقدمے میں رقم طراز ہیں: ’’انشا  و علم نگاری کی ابتدا بھی القاسم ہی سے ہوئی تھی اور انتہا بھی القاسم پر ہو جائے‘‘۔ مولانا گیلانی  ؒنے اپنے مقالے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے جسے فاضل مرتب نے پانچ ابواب (سوانح حیات پر ایک سرسری نظر‘ تالیفات و تصنیفات‘ سیرت جلیلہ کا ایک زریں ورق‘ حضرت قاسم العلوم کی فطرت سلیمہ‘ شاہ جہان پور کا میلہ خدا شناسی) کے عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ مولانا گیلانی  ؒنے سیرت کا جو حسین مرقع تیار کیا ہے اس میں بانی دارالعلوم کا زہد و تقویٰ‘ علم و عرفان‘ اخلاص و للہیت‘ کمال استغنا اور عشق حبیب کبریا ؐکی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا گیلانی  ؒ ان قدسی صفات حضرات کی سیرت کے عملی مظاہر پیش کرتے ہوئے قارئین کو بھی ان صفات سے متصف ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔ کتاب عمدہ انداز میں شائع ہوئی ہے۔ (حافظ محمد سجاد تترالوی)


زندہ قائداعظم ‘ منظور حسین عباسی۔ ناشر: بُک مین‘الشجر بلڈنگ‘ نیلاگنبد‘ لاہور۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

یہ کتاب قائداعظم پر مختلف کتابوں اور مضامین سے اخذ کردہ اقتباسات کا مجموعہ ہے۔ اقتباسات سے بقول مرتب ’’قائداعظم کی ایک زندہ اور متحرک تصویر‘‘ بنتی ہے۔ ہر اقتباس اپنی جگہ مکمل ہے اور اُس پر عنوان بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کہیں سے کھولیں اور پڑھنا شروع کر دیں۔ قائداعظم کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی دل چسپ پہلوسامنے آئے گا۔ ہر اقتباس کے ساتھ مصنف کا نام تو دیا گیا ہے مگر کتاب یا رسالے کا حوالہ نہیں دیا اور یہ اس کتاب کی بنیادی خامی ہے۔اشاعت معیاری ہے۔ (ر-ہ)

تعارف کتب

  • محمّدؐبہ زبان محمّدؐ ،مرتب: غوث محی الدین۔ ناشر: مطبوعات ارحم‘ کراچی۔ صفحات: ۶۰۔ قیمت: ۱۵ روپے۔]مختلف عنوانات کے تحت احادیث نبویؐ کا انتخاب۔ متن مع اعراب اور اردو ترجمہ۔ مولف نے اولاً اسے Muhammad in His Own Wordsکے عنوان سے مرتب کیا تھا اب اس کا ’’اردو قالب‘‘ شائع کیا ہے تاکہ ہم نبیؐ کے پیغام کو سمجھ کر’’اپنے زندگی کے صبح و شام اور نشست و برخاست کا رُخ متعین کریں‘‘۔[
  •  سوانح حضرت مولانا عبدالحق  ؒ، مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈیمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔ ]دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے بانی مولانا عبدالحق کے سوانح ’’اندازِ تربیت‘ دینی و اصلاحی ‘ قومی و ملّی اور ملکی خدمات کا دل آویز اور ایمان افروز تذکرہ‘‘ (سرورق) فن سوانح نگاری سے قطع نظر‘ محبت‘ ارادت اور عقیدت کی بنیاد پر لکھے گئے‘ ایک عالم باعمل کے حالاتِ زندگی۔[
  •  ماہنامہ بتول‘ مدیرہ: سعیدہ احسن‘ ثریا اسما۔ دفتر بتول‘ کمرہ نمبر ۱۴‘ سیّد پلازا‘ ۳۰-فیروزپور روڈ‘ لاہور ۵۴۶۰۰۔ صفحات: ۸۰۔ قیمت: ۱۵ روپے۔ سالانہ: ۱۵۰ روپے۔]’’خواتین کا علمی‘ ادبی‘ اصلاحی جریدہ‘‘ نئے انتظامات اور نئی مجلس ادارت کے اہتمام میں دورِنو کا آغاز۔ مختلف موضوعات (قرآن‘ حدیث‘ حالاتِ حاضرہ‘ شاعری‘ افسانہ‘ طنز و مزاح‘ سفرنامہ‘ آدابِ معاشرت وغیرہ) پر دل چسپ اور عمدہ تحریریں۔[
  •  ترجمان صفہ‘ دارالعلوم دیوبندنمبر‘ مدیر: حمداللہ راہی۔ ناشر: صفہ فائونڈیشن‘ دی صفہ اسکول بدرسی نوشہرہ‘ صوبہ سرحد۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت: ۵۵ روپے۔]دارالعلوم دیوبند کا تعارف‘ اکابر دیوبند‘ تعلیمی نصاب ‘ اور ان کی دینی اور فقہی خدمات وغیرہ پر تحسینی مضامین کا مجموعہ۔[
  •  میرکا تغزل‘ ڈاکٹر عبدالمغنی۔ ناشر: خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری‘ پٹنہ۔ صفحات: ۴۲۔ قیمت: ۲۰ روپے۔]معروف کلاسیکی شاعر میرتقی میر کی شاعری کے اہم پہلو‘ تغزل کا تنقیدی جائزہ۔ مصنف کے نزدیک میر کی شاعری کا اصل کارنامہ‘ ان کا تغزل ہی ہے۔[