انسانی زندگی جب شکارچی دور (Hunter Gatherer Age) سے زرعی دور میں تبدیل ہوئی تو حکومت کے ادارے اور ذاتی ملکیت کے تصوّر نے جنم لیا۔ حکومتی ادارے کا آغاز قبائلی سردار کی شکل میں ہوا جو سارے قبیلے کی حفاظت کا ذمہ دار تھا۔ سارے ذائع پیداوار سردار کی ملکیت تھے۔ لوگ زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں کام کرتے۔ فصل کی کٹائی کے موقع پر سردار سب لوگوں کو ان کی ضروریات کے مطابق گندم اور دوسری اشیا فراہم کردیتے۔ چونکہ ساری ملکیت (زمین اور پیداوار) سردارکی تھی اس لیے قبائلی انتظامی اُمور کے لیے قبیلے کے لوگوں سے کسی قسم کی وصولی (ٹیکس وغیرہ کی شکل میں) نہ کی جاتی۔ معاشرتی زندگی کی یہ پہلی شکل دراصل ایک قسم کا ’فطری سوشلزم‘ (Natural Socialism) تھا، جس میں لوگ اپنی استعداد کے مطابق کام کرتے اور ضرورت کے مطابق ضروریاتِ زندگی حاصل کرلیتے۔
جب معاشرتی زندگی زیادہ منظّم ہوئی تو ذاتی ملکیت کا آغاز ہوا۔ افراد بڑے بڑے قطعاتِ اراضی پر قابض ہوئے اور اس زمین کی پیداوار کے مالک ٹھہرے۔ حکومت کا ادارہ اب قبائلی سردار سے بادشاہت میں تبدیل ہوا۔ بہت سے قبائلی سردار ایک طاقت ور بادشاہ کے وفادار ہوئے۔ معاشرہ تین قسم کے طبقات میں تقسیم ہوگیا: اوّل: شاہی خاندان، دوم: حکومتی مشینری کے کارندے، شاہ کے مصاحب اور فوج کے لوگ، سوم:عام لوگ، کسان، تاجر اور غلام وغیرہ۔ اُمورِ حکومت اور شاہی اخراجات پورے کرنے کے لیے زرعی ٹیکس لگایا گیا۔ اوّلین دور کی حکومتوں کا بڑا ذریعۂ آمدن زرعی پیداوار پر ٹیکس تھا۔ بادشاہ رعایا کو پُرامن ماحول مہیا کرتے اور اس کے عوض ان سے ٹیکس وصول کرتے ۔ کچھ عرصہ بعد تجارت پر بھی ٹیکس لگادیا گیا۔ کہا جاتا ہےکہ پہلا تجارتی ٹیکس رومن شہنشاہ جولیس سیزر نے لگایا تھا، جو شروع میں ایک فی صد تھا۔ ساتویں صدی کے آغاز میں دو بڑی عالمی طاقتوں (ایران اور روم) میں زراعت اور تجارت پر ٹیکس تھا۔ یہ محصولات کسی ضابطے اور قانون کے مطابق نہیں تھے کیونکہ شاہی اخراجات میں اضافہ اور دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے ان کی شرح میں اضافہ ہوجاتا تھا اور یہ وصولیاں طاقت کے زور پر کی جاتی تھیں۔
۶۲۲ء میں جب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کی تو شہر میں کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔ البتہ شہر میں معاشیات کی بنا پرطبقاتی تقسیم موجود تھی۔ اوس و خزرج کے دوبڑے قبیلے زراعت پیشہ تھے، جب کہ تجارت تمام تر یہودیوں کے پاس تھی۔ شہر میں چار تجارتی منڈیاں یہودیوں کی ملکیت تھیں اور تجارت پر ٹیکس تھا جو تاجروں سے یہودی وصول کرتے۔ تاجر ٹیکس کی رقوم اشیا کی قیمتوں میں شامل کرکے صارفین سے وصول کرلیتے۔ اس کے علاوہ یہودی سود پر لین دین بھی کرتے تھے۔ ’بیع‘ کا کاروبار (اشیا کی خریدوفروخت) میں یہودیوں کے خریدنے کے برتن اور تھے اور فروخت کرنے کے اور۔ سادہ الفاظ میں جب رسولؐ اللہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو یہ ریاست منظم سیاسی نظام کے بغیر تھی، جب کہ اس کا معاشی نظام استحصال پر مبنی تھا۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ دورِ حکومت کو عام طور پر یہودیوں کی اندرونی سازشوں اور قریش مکہ کی جارحیت کے حوالے سے ہی بیان کیا جاتاہے۔
درحقیقت ان جنگی مہمات کے ساتھ ساتھ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی اور معاشی نظام بھی نافذ کیا تھا، جس کی ہدایات قرآن میں نازل ہوئی تھیں۔ اس معاشی نظام میں تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔ حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے اسلام نے زکوٰۃ اور عُشر کا نظام دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صدقات کی ترغیب بھی تھی۔ مسلم تہذیب کے زوال کے بعد دین کا ذکر صرف عبادات اور اخلاقیات کے بیان تک محدود ہوگیا۔ آج اکیسویں صدی کی دُنیا مختلف قسموں کے ٹیکس کی زد میں ہے، جس سے عالمی سطح پر غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس مضمون میں ہم اسلامی نظامِ محصولات (زکوٰۃ، عُشر اور صدقات) کی بات کریں گے جو آج بھی مشترکہ خوش حالی (shared prosperity) کی ضمانت دیتا ہے۔
اگرچہ معاشیات کے بارے میں ذکر قرآن کی کئی صورتوں میں ملتا ہے، مگر سب سے زیادہ تفصیل سورئہ بقرہ کی آخری آیات (۲۶۱ سے ۲۸۴ تک) میں درج ہے، جن سے اسلامی معاشی نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ معاشی نظام سادہ الفاظ میں تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: اوّل، پیداوار کا عمل (production process)۔ دوم،اس پیداواری عمل کے ماحصل (نفع یانقصان) کی عاملین پیداوار میں تقسیم (distribution process)۔ سوم، کمائے ہوئے منافع میں سے خرچ۔ دورِحاضر کی اکنامکس میں خرچ کرنے پر بہت زور ہے کیونکہ اس سے اکانومی میں طلب پیدا ہوتی ہے اور کاروبار کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے۔ قرآن بھی معاشی نظام کے بیان کا آغاز خرچ کرنے سے کرتا ہے۔
سورئہ بقرہ کی ۲۶۱ سے لے کر ۲۷۴ آیت تک ایک ہی مفہوم کی باربار اور نئے نئے انداز سے خرچ کرنے کی تلقین اور تاکید ہے۔ یُنْفِقُوْنَ کا یہ تواتر اور تسلسل شاید ہی قرآن میں کسی اور جگہ آیا ہو۔ اس کا ایک خاص مقصد ہے کیونکہ معاشی نظام کا سب سے اہم پہلو اپنے زورِبازو سے کمائی ہوئی دولت کے خرچ کرنے کے بارے میں ہے۔ نظامِ سرمایہ داری میں دولت کے کمانے پر بہت زور ہے مگر کمائی ہوئی دولت کو خرچ کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ جب معاشرہ یُنْفِقُوْنَ کے تصور سے بے خبر اور ناآشنا ہوجاتا ہے، تو غریب اور امیر کی خلیج گہری ہوتی جاتی ہے جیساکہ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ہوا ہے۔ ان ممالک میں پیداواری عمل تو بہت زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں بے تحاشا دولت پیدا ہوئی ہے مگر وہ صرف سرمایہ رکھنے والے کی ذات کے لیے ہے۔
اگرچہ آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ’مشترکہ خوش حالی‘ کا بہت شوروغوغا ہے، مگر اس کے لیے کوئی نظامِ فکر اور پیمانۂ عمل موجود نہیں۔یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ وہ معاشی نظام کے آغاز ہی سے افراد کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ دولت جو تم بڑی محنت اور جانفشانی سے کماتے ہو، اس میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو زندگی کی معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس بات کا یقین کروانے کے لیے قرآن ایک اور دلیل بیان کرتا ہے کہ ’’دوسروں پر خرچ کرنے سے مال بڑھتا ہے‘‘۔ مروجہ عقل و دانش کے مطابق خرچ کرنے سے مال کم ہوتا ہے، مگر دانش بُرہانی اس کے برعکس ہے۔ پیداوار کے عمل میں مصروف افراد جب اس معاشی دانائی سے آگاہ ہوجائیں تو تجارت فلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ساتویں صدی کی ریاست مدینہ میں یہی ہوا تھا۔
یُنْفِقُوْنَ کی بصیرت سے افراد کو مزین کرنے کے بعد قرآن پیداواری عمل کی بات کرتا ہے، یعنی تجارت میں سرمایے کا استعمال۔ تجارت میں دولت پیدا کرنے کے لیے سرمایے کا دوطرح سے استعمال ہوتا ہے: پہلی صورت اشیا و خدمات (goods and services) کی تیاری اور مارکیٹ میں تبادلے کے سلسلے میں سرمایے کا استعمال ہے۔ اکنامکس کی زبان میں اسے use of money as medium of exchange کہتے ہیں۔ عربی زبان میں یہ ’بیع‘ کا کاروبار ہے، جس کا ماحصل نفع یا نقصان ہے۔ سرمایے کا دوسرا استعمال اسے دوسرے لوگوں کو معینہ عرصےاور پہلے سے طے شدہ اضافی قیمت پر بیچ دینا ہے، یعنی سرمایے کو سود پر اُدھار دے دینا۔اکنامکس کی زبان میں یہ use of money as commodity ہے، جسے عربی زبان میں ’ربا‘کہتے ہیں۔
سورئہ بقرہ کی ۹ آیات (۲۷۵ تا ۲۸۳) میں ’ربا‘ اور اس سے وابستہ معاملات کی وضاحت ہے۔ قرآن نے پہلے ’بیع ‘کو حلال اورساتھ ہی ’ربا‘ کو حرام قرار دیا۔ اس کے بعد تجارتی لین دین کا ذکر ہے۔ اُدھار قرض کی صورت میں (چاہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ) اسے بطورِ خاص ضابطۂ تحریر میں لانا اور اس پر گواہ قائم کرنا ضروری ہے۔ براہِ راست لین دین کو بطورِ خاص لکھنے کا حکم نہیں۔ اس کے علاوہ لکھنے والے اور گواہ بننے والے افراد پر ہرقسم کے دبائو سے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح قرآن،سارے پیداواری عمل (production process) سے سود کو مکمل طور پر نکال دیتا ہے۔ افراد کے یقین کو پختہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سود سے حاصل ہونے والی کمائی اللہ کی رحمت و برکت سے خالی ہوکر کم ہوجاتی ہے، جب کہ صدقات والی رقوم کو اللہ بڑھاتا ہے۔ ساتھ ہی سخت الفاظ میں خبردار کردیا گیا، اگر سود سے باز نہیں آئو گے تو اللہ اور اُس کے رسولؐ سے جنگ کے لیے تیارہوجائو۔ سادہ الفاظ میں اسلام کا معاشی پیداواری عمل تمام تر ’بیع‘ کے کاروبار پر مشتمل ہے۔
یہاں پر اس حقیقت سے آگاہ رہنا بہت ضروری ہے کہ ہجرت کے بعد حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں قرآنی احکام کی روشنی میں بیع پر مبنی معاشی نظام نافذ کرنے کے لیے مارکیٹ (منڈی) بنائی تھی۔ اُس وقت مدینہ میں یہودیوں کی چار مارکیٹیں تھیں، جن میں ’بیع‘ اور ’ربا‘ کے کاروبار موجود تھے۔ جب قرآن نے ’بیع‘ کو حلال اور ’ربا‘ کو حرام قرار دیا تو یہودیوں نے سوال اُٹھایا:’’ ’بیع‘ اور ’ربا‘ تو ایک دوسرے کی مانند ہیں‘‘۔ جس پر قرآن نے وضاحت فرمائی کہ ’بیع‘ میں فلاح اور سود میں ہلاکت ہے۔ یہودیوں کا سوال (’بیع‘ اور ’ربا‘ میں مماثلت) دراصل تجارت میں پوشیدہ ایک بہت بڑی حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ ہدایت ِ ربانی کی غیرموجودگی میں ’بیع‘ کا کاروبار بھی آخرکار دھوکا دہی، لوٹ کھسوٹ اور استحصال کی طرف لے جاتاہے۔ مدینہ میں یہودیوں کا ’بیع‘ کا کاروبار بھی جھوٹ اور دھوکادہی پر مبنی تھا۔ ان کے اشیا خریدنے اور بیچنے کے پیمانے (برتن) مختلف تھے۔ جن سے خرید کے وقت زیادہ اجناس لیتے اور فروخت کے وقت کم اجناس دیتے۔ اس استحصال کو ختم کرنے کے لیے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی مارکیٹ میں سچی تجارت اور سچے تاجر کی اہمیت پر زور دیا، جس کے باعث تجارت لوٹ کھسوٹ کے بجائے معاشرتی فلاح کا ذریعہ بن گئی۔
یہاں پھر سورئہ بقرہ کا ذکر ضروری ہے کہ جس میں دومرتبہ (آیت ۲۱۵ اور ۲۱۹) ایک ایسا سوال پوچھا گیا تھا، جس کا اس سے پہلے پوری انسانی تاریخ میں ذکر نہیں ملتا۔ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ (ہم کیا خرچ کریں؟)۔ قرآن کے دونوں جواب ایک دوسرے کی تکمیل کرتے تھے۔ پہلا ارشاد (آیت ۲۱۵) ’والدین، رشتہ دار، یتیم، ضرورت مند اور مسافروں پر خرچ‘ کرنے کا ہے۔ دوسرے جواب (آیت ۲۱۹) میں ’مشترکہ خوش حالی‘ کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ’جو ضرورت سے زیادہ ہے، وہ دوسروں کو دے دو‘۔ اس مختصر آیت میں اشتراکیت کے طریق کار کی نفی موجود ہے، جس کے تحت روسی حکومت فاضل سرمایہ رکھنے والے لوگوں سے زبردستی چھین کر غریب لوگوں میں تقسیم کرتی تھی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ قرآن نے ساتویں صدی میں ہی بعد میں پیدا ہونے والے معاشی مسائل کی نشان دہی کرکے ان کی پیش بندی کا ضابطہ بیان کردیا تھا۔
اُمورِ حکومت کو چلانے کے لیے اسلام دو بڑے محاصل کی اجازت دیتا ہے۔ تجارت سے آمدنی پر ۲ء۵ فی صد زکوٰۃ اور زمین سے پیداوار پر۱۰ فی صد کے حساب سے عُشر ہے۔عُشر فصل کی کٹائی کے وقت ادا کرنا ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کی ہدایات اور اس کے مصارف کی تفصیل سورئہ توبہ (۹:۶۰) اور عُشر کے احکامات سورئہ بقرہ (۲:۲۶۴) میں اور سورئہ انعام (۶: ۱۴۱) میں نازل ہوئے۔ انھی احکامات کے پیش نظر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کی جانے والی پہلی اسلامی مارکیٹ میں مقامی تجارت پر ہرقسم کا ٹیکس ختم کردیا تھا۔ اس انقلابی قدم نے یہودیوں کی مستحکم اور بڑی دیر سے کام کرنے والی چاروں منڈیوں کو چاروں شانے چت کردیا۔
ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ میں یہ معاشی انقلاب سہ طرفہ تھا۔ اوّل: اشیا کے پیدا کرنے والے لوگ اب اسلامی مارکیٹ میں اپنی اشیا لانے لگے، کیونکہ یہودیوں کی منڈیوں میں ان لوگوں کی اشیا پر ٹیکس تھے۔ دوم:یہودی تاجروں سے بھی ٹیکس وصول کرتے تھے۔ تاجروں کے لیے کاروبار میں آسانی اب ٹیکس فری اسلامی مارکیٹ میں تھی۔ اس لیے تاجر بھی اسلامی مارکیٹ میں آگئے۔ سوم: ٹیکس کے باعث اشیا کی قیمت یہودیوں کی مارکیٹ میں زیادہ تھی اور اسلامی مارکیٹ میں کم۔ کیونکہ تاجر ادا شدہ ٹیکس کو اشیا کی قیمتوں میں شامل کرلیتے تھے۔ اس طرح صارفین کی ترجیح بھی خیمے کے نیچے قائم کی جانے والی اسلامی مارکیٹ تھی۔ یہاں پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ’’اسلام میں مقامی تجارت پر ٹیکس ختم کرنے کی عقلی توجیہہ کیا ہے؟ حالانکہ اسلام سے پہلے بھی تجارت پر ٹیکس تھا۔ آج کی دُنیا میں تو تاجر اور عوام تجارت پر طرح طرح کے ٹیکسوں (خاص طور پر پاکستان میں جنرل سیلز ٹیکس) سے عاجز ہیں‘‘۔
ٹیکس لگانے کا یہ بنیادی اصول ہے کہ ’’جب کسی معاشی عمل کے نتیجے میں آمدن ہو تو اس پر ٹیکس کا نفاذ حکومت کی طرف سے کیا جاتا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے زرعی پیداوار پر ٹیکس کا آغاز ہوا تھا۔ جب آمدنی کے دوسرے ذرائع وجود میں آئے تو بالکل فطری طور پر ان پہ بھی ٹیکس وصول ہونا شروع ہوا۔ تجارت پر ٹیکس کے بارے میں کوئی دلیل اور جواز تاریخ میں نہیں ملتا۔ تجارت میں آخرکار آمدن تو تاجر کوہوتی ہے۔ خریدار تو اپنی آمدنی سے اشیاخریدتا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کی آمدن کم ہوجاتی ہے۔ جب تاجر پر ٹیکس لگایا جاتا ہے تو وہ اسے اشیا کی قیمتوں میں شامل کرکے صارفین سے وصول کرلیتا ہے۔ بادشاہ جنگی اخراجات کے لیے ٹیکس میں اضافہ کردیتے، اور عوام سے رقوم اکٹھی کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ڈھونڈلیتے تھے۔ جولیس سیزر سے منسوب ایک فی صد سیلز ٹیکس کی اختراع بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے۔ درحقیقت تجارت پر ٹیکس (سیلز ٹیکس) غیرفطری اور غیر حقیقی ہے کیونکہ عام طور پر یہ جنگی اخراجات اور انتظامیہ (بادشاہت ہو یا آمریت یا نام نہاد جمہوریت یا حکومتی انتظامی مشینری) ہی کے عیش و آرام کے لیے لوگوں سے وصول کیا جاتا ہے۔
جب قرآن نے زکوٰۃ اور عُشر کی اجازت دے دی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت پر استحصالی ٹیکس مکمل طور پر ختم کردیا۔ مسنداحمد میں ہے کہ صَاحِبُ الْمَکْسِ فِی النَّارِ: ’’ٹیکس وصول کرنے والا جہنم میں ہوگا‘‘۔ (مسنداحمد، مسندالشامین، حدیث رُویفیع الانصاری، حدیث: ۱۶۶۹۵)۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انقلابی قدم ایک بہت بڑی معاشی دانائی کا حامل تھا، جس نے یہودیوں سے مدینہ کی معاشیات بھی چھین لی تھی۔ یہودی سردار کعب بن اشرف کا مدینہ کی خیمہ والی اسلامی مارکیٹ کی رسیاں کاٹنا صرف جذباتی عمل نہیں تھا بلکہ ان کی دیرینہ معاشی برتری بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گئی تھی۔
مسلم دُنیا کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم نے قرآن اور سیرتِ نبویؐ کے مطالعے اور اس سے وابستگی کو صرف عبادات اور اخلاقیات کی حد تک ہی محدود رکھا ہے، جس کے باعث قرآن اور سیرتِ نبویؐ کے آفاقی پہلوئوں سے نہ ہم خود آگاہ ہوسکے اور نہ دوسری اقوام ہی کو اس کے بارے میں بتاسکے۔ یہی حال اسلام کے نظامِ ٹیکس کے ساتھ ہے۔
قرآن ہرقسم کے سرکاری اور ذاتی خرچ کو (غریبوں اور دوسرے لوگوں کے لیے) صدقات کے نام سے بیان کرتا ہے۔ زکوٰۃ کے مصارف (سورئہ توبہ) بھی قرآن کے مطابق صدقات ہی ہیں۔ یہ صدقات دو قسم کے ہیں: اوّل، صدقاتِ واجبہ جو زکوٰۃاور عُشر پر مشتمل ہیں۔ یہ لازمی طور پر حکومت ِ وقت کو ادا کرنے ہیں، جن سے اُمورِ حکومت پر مختلف اخراجات ہوں گے۔ سورئہ توبہ میں زکوٰۃ کے بیان کردہ آٹھ مصارف دورِحاضر کی زبان میں حکومت کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) ہے، جسے نجی شعبے (پرائیویٹ سیکٹر) کو سونپا نہیں جاسکتا۔ اس طرح اسلام مضبوط پبلک سیکٹر کا تصور دیتا ہے جس سے حکومت کا ادارہ مضبوط ہوتا ہے۔ دوسرے صدقاتِ نافلہ ہیں جو اہلِ ثروت اپنی مرضی سے ان لوگوں پر خرچ کرتے ہیں، جو زندگی کی معاشی دوڑ میں کسی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ان صدقات کا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے، کیونکہ یہ زکوٰۃ اور عُشر کی لازمی ادائیگی کے بعد بچ جانے والی رقم ہے۔ حکومت ِ وقت ایسے اخراجات پر لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتی۔
یہ غورطلب بات ہے کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت میں ایسا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ ’سرمایہ داری‘ میں سودی سرمایے کے باعث دولت کو جمع کرنا اور صرف اپنی ذات پر خرچ کرنا ہی زندگی کا نصب العین ہے۔ اور ’اشتراکیت‘ میں کوئی ٹیکس کا نظام نہیں کیونکہ ذاتی ملکیت کی نفی ہے۔ حکومت لوگوں کو صرف ان کی ضروریات کے مطابق ہی دیتی ہے۔ اس لیے ضرورت سے زائد رقوم دوسروں پر خرچ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اکیسویں صدی کی دُکھی انسانیت ’مشترکہ خوش حالی‘ کے لیے تڑپ رہی ہے۔ مگر موجودہ نظامِ سرمایہ داری میں یہ اہلیت موجود ہی نہیں کیونکہ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ جیسا سوال سرمایہ داری میں نہ کبھی پوچھا گیا اور نہ کبھی پوچھا جائے گا۔
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں طرح طرح کے ٹیکسوں کے باوجود ترقی پذیر ممالک (خاص طور پر پاکستان) کے حکومتی اخراجات پورے نہیں ہوتے تو صرف ڈھائی فی صد زکوٰۃ اور ۵ یا ۱۰ فی صد عُشر سے اُمورِ حکومت کیسے چلائے جائیں گے؟ ایڈم سمتھ نے ٹیکسوں کے حوالے سے چار اصول بیان کیے تھے۔ انصاف(fairness)، یقینیت (certainity)، آسانی (convenience) اور کارکردگی (efficiency) ۔ بڑی دل چسپ بات ہے کہ زکوٰۃ انکم ٹیکس کے مقابلے میں درج بالا چاروں اُصولوں کے زیادہ مطابق ہے:
اوّل، اس میں انصاف ہے کیونکہ اس کا نصاب موجود ہے اور سارے سال کی آمدنی سے اخراجات کرنے کے بعد بچ جانے والی رقم پر زکوٰۃ واجب ہے۔ دوم اس میں یقینیت ہے کیونکہ اس کی شرح (۲ء۵ فی صد) ہرحال میں طے شدہ ہے۔ تیسرے اس میں آسانی ہے کیونکہ اس کی شرح انتہائی کم اور سال میں ایک بار ادا کی جاتی ہے۔ چوتھے، یہ بوجھ نہیں ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کو ایک خوش گوار احساس ہوتا ہے کہ اس کا مال پاک ہوگیا جس سے زیادہ کام کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے کیونکہ زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور بڑھوتری کے ہیں۔ علاوہ اَزیں زکوٰۃ حاضرسال کی آمدنی (flow of income) اور پچھلے برسوں کی جمع شدہ دولت (stock of wealth) پر بھی ہے، جب کہ انکم ٹیکس رواں سال کی آمدنی پر ہی ہے۔
زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ، جب کہ عُشر سال میں کئی بارہرفصل کی کٹائی کے وقت ادا کرنا ہوتا ہے۔ تیسرے اس کی شرح زکوٰۃ سے خاصی زیادہ ہے، یعنی چاہی زمین (کنویں سے سیراب ہونے والی) پر ۵ فی صد اور نہری زمین پر ۱۰فی صد ہے۔ آج کے دور میں صنعتی پیداوار بھی زمین پر قائم کی ہوئی فیکٹریوں سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔ بعض فقہا تو اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ صنعتی پیداوار پر بھی عُشر لگایا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ زکوٰۃ کے نفاذ کے وقت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں پر زکوٰۃ نہیں لگائی تھی کیونکہ وہ سامانِ حرب (جنگ) میں شمار ہوتے تھے اور جنگ ِ بدر کےوقت مسلمان فوج میں صرف دو گھوڑے تھے۔ لیکن حضرت عمرؓ کے دور میں جب بہت زیادہ گھوڑے مالِ غنیمت میں آئے تو اُن پر بھی زکوٰۃ لگادی گئی۔ آج کے دور میں یہی صورتِ حال ہیرےجواہرات کے زیورات کی ہے جن پر زکوٰۃ لی جاسکتی ہے۔ اگر حکومت عوام کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوجائے تو اربوں روپے کے ذاتی صدقات بھی بیت المال میں جمع کروائے جاسکتے ہیں، لہٰذا یہ صرف خام خیالی ہے کہ زکوٰۃ اور عُشر کے نظام سے اُمورِ حکومت نہیں چلائے جاسکتے۔ اسی نکتے کی مزید وضاحت پاکستان کے حوالے سے پیش ہے۔
ہمارا موجودہ ٹیکس کا نظام استحصال اورظلم پر مبنی ہے، جس کا ۴۰ فی صد سے زیادہ حصہ تجارت پرٹیکس سے آتا ہے۔ ۲۳-۲۰۲۲ء کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف ۷۶۴۰ ؍ ارب روپے تھا، مگر عملی وصولی اس سے بہت کم ہوتی ہے۔
جیساکہ پچھلے دو سال کے اعداد و شمار سے واضح ہے:
۲۱-۲۰۲۰ء | ۲۲ -۲۰۲۱ء | |
انکم ٹیکس | ۱۷۳۱ ارب روپے | ۲۲۷۸ ارب روپے |
سیلزٹیکس | ۱۹۸۳ " | ۲۵۲۵ " |
کسٹم ڈیوٹی | ۷۴۷ " | ۱۰۰۰ " |
وفاقی ایکسائز ڈیوٹی | ۲۸۴ " | ۳۲۲ " |
کُل وصولیاں | ۴۷۴۵ ارب روپے | ۶۱۲۵ ارب روپے |
درج بالا اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ وصولی سیلزٹیکس (تجارت پر ٹیکس) سے ہوتی ہے، جو اپنی فطرت میں بالکل غیراسلامی ہے۔ اس وقت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) دوبڑے مسائل سے دوچارہے: اوّل یہ کہ بڑے لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ دوم یہ کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ زکوٰۃ سے کس قدر وصولی ہوسکتی ہے اس کی ہم صرف ایک مثال دیتے ہیں۔۲۵کروڑ کی آبادی میں خواتین کا تناسب تقریباً ۵۰ فی صد ہے، یعنی ساڑھے بارہ کروڑ کے لگ بھگ۔ ان میں ایک کروڑ عورتیں ایسی ہیں جن کے پاس ۲۰تولے یا اس سے زیادہ سونا ہے۔ دو لاکھ روپیہ فی تولہ کی قیمت سے ایسی ہرعورت پر ایک لاکھ روپے زکوٰۃ واجب ہے۔ اس طرح ایک ہزار ارب روپے صرف سونا، چاندی کی زکوٰۃ سے اکٹھا ہوگا اور ایف بی آر کو نئے ایک کروڑ ٹیکس فائلرز مل جائیں گے۔ مالِ تجارت، ذاتی گھر کے علاوہ خریدے ہوئے پلاٹ، مویشی اور اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز پر بھی ’زکوٰۃ‘ واجب ہے۔ زرعی پیداوار، صنعتی پیداوار اور سروسز سیکٹر کے شعبے کی خدمات پر ’عُشر‘ ہے۔ اس کے علاوہ اربوں روپے کے ذاتی ’صدقات‘ ہیں۔ اگر ان سب ادائیگیوں کو منظم کرلیا جائے تو پاکستان ہرسال نہ صرف ۷۶۴۰ ارب روپے سے زیادہ محصولات اکٹھا کرسکتا ہے بلکہ تجارت پر بے جا بوجھ اور مہنگائی سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے۔ یہ کام آئی ایم ایف کی شرائط کے اندر رہتے ہوئے کیاجاسکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں راہِ نجات تو موجود ہے، صرف ہمت اور ارادے سے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشی نظام کا نفاذ سیاسی حکومت کرتی ہے۔ اسی لیے شروع میں مغرب میں معاشیات کے مضمون کو ’پولیٹیکل اکانومی‘ کہا جاتا تھا۔ اسلام میں یہ ترتیب صلوٰۃ اور زکوٰۃ کے نظام سے ہے جس کا ذکر باربار قرآن میں آتا ہے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد جو سیاسی نظام قائم کیا تھا، اس میں حکمرانوں کے لیے سادگی اور ذمہ داری انتہائی ضروری تھی۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ حاکم مدینہ، حکومتی خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں لی اور اپنی محدود آمدنی سے خود اور آپؐ کے اہل خانہ نے انتہائی سادہ طرزِ زندگی اپنایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حکومتی وظیفہ (چھ ہزار درہم سالانہ) مدینہ کے عام شہری کی سالانہ آمدنی کے برابر تھا۔ تجارت پر ٹیکس ختم کرنے کا بڑا مقصد تجارت کا فروغ اور غریب لوگوں کو سستی اشیا فراہم کرنا تھا۔ دراصل معاشی نظام سے پہلے گڈگورننس ماڈل کی ضرورت ہے، جو فلاح پر مبنی معاشی نظام نافذ کرسکے۔ اسی لیے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے صلوٰۃ کا نظام اور اس کے بعد زکوٰۃ (معاشیات) کا نظام دیا تھا۔
پاکستان کا موجودہ سیاسی اور معاشی نظام ساتویں صدی کی ریاست ِ مدینہ کے فلاحی معاشرے کے بالکل برعکس اور انتہائی ظلم پر مبنی ہے۔ تجارت پر طرح طرح کے ٹیکس لگاکر غریب کی زندگی عذاب بنادی گئی ہے۔ بڑے ستم کی بات یہ ہے کہ ایک شوگر مل کا مالک اور اُس شوگر مل کے گیٹ پرکھڑا سیکورٹی گارڈ، پٹرول ، دودھ، گھی اور دوسری اشیائے ضروریہ کی ایک ہی قیمت ادا کرتے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے، مگر یہاں زرعی ٹیکس یا عُشر نہیں لگایا گیا، کیونکہ بڑے بڑے زمیندار (جو اَب سیاست دان بھی ہیں) اس کے مخالف ہیں۔ افسرشاہی کے اخراجات بے تحاشا ہیں۔ آج پاکستان کے بااختیار طبقے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں، جس سے غرب کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔
موجودہ معاشرتی زوال سے نکلنے کے لیے درج بالا بیان کردہ زکوٰۃ، عُشر اور صدقات کے نظام میں ہی راہِ نجات ہے۔ اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے سیاسی نظام کو ٹھیک کرنا ہوگا تاکہ عوام کو سیاست دانوں کی صداقت اور ایمان داری کا یقین ہوجائے اور وہ خوشی خوشی زکوٰۃ، عشر اور صدقات بیت المال میں جمع کروا دیں۔ اس کے لیے تاجر کو سچا، سرکاری آفیسر کو ذمہ دار اور عالمِ دین کو حقیقی رہنما بننا ہوگا، تاکہ پہلے ہم خود اسلامی نظامِ ٹیکس کو نافذ کریں اور کامیاب تجربے کے بعد اقوامِ عالم کو اسے پیش کرسکیں اور یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت عالم ہونے کی عملی دلیل ہوگا۔
پچھلے پانچ سو سال سے جاری زوال کے باعث ہم دینِ اسلام کی حقیقت اور فعالیت سے بڑی حد تک غافل اور بے خبر ہوچکے ہیں۔ آج کل مغرب میں ایک فی صد اور ۹۹ فی صد کی بحث کا بڑا شور ہے، کیونکہ معاشی ترقی کے ثمرات کا بڑا حصہ ایک فی صد لوگ لے جاتے ہیں۔ نظامِ سرمایہ داری میں اصلاح کی باتیں ہورہی ہیں، مگر ہمارے ملک کے اکانومسٹ، دانشِ افرنگ سے اس قدر مرعوب ہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا حل زبوں حال سرمایہ داری میں ڈھونڈتے ہیں۔ پاکستان اس وقت اخلاقی، سماجی اور معاشری ابتری سے دوچار ہے، مگر علمائے دین کی طرف سے کوئی قابلِ عمل حل سامنے نہیں آرہا، کیونکہ ان کے بیان اور مباحث علمی اور نظریاتی نوعیت کے ہیں، جن کا ملک کے موجودہ مسائل سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ زکوٰۃ، عُشر، صدقات کا نظام بنیادی طور پر قرآنی نظریہ ہے جس پر خاتم الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے عمل درآمد کام کرکے انسانیت کے پہلے فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ موجودہ گھٹاٹوپ اندھیرے اور مایوسی کے عالم میں ہمیں دانش افرنگ کے بجائے سیرتِ نبیؐ کے درخشاں پہلوئوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ علامہ اقبال نے تو اس راز سے ۱۹۳۰ء کے عشرے ہی میں ہمیں آگاہ کردیا تھا:
تو اے مولائے یثربؐ! آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناری