نومبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

کلامِ اقبالؒ اور پیامِ سیّد مودودیؒ

سعید احمد | نومبر ۲۰۲۳ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

علّامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار سے ایک انتخاب، اور پھر اسی مناسبت سے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃاللہ علیہ کی تحریروں سے افکار پیش کیے جارہے ہیں:

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

[بال جبریل،ص۱۲۸]

جس شخص کے دل میں ایمانِ راسخ موجود ہو گا، اور جو اللہ سے ایسا ڈرنے والا ہو گا جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے، اس کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی کو گمراہی میں مبتلا دیکھے اور راہِ حق کی طرف دعوت نہ دے ،کہیں بدی کا وجود پائے اور اس کو مٹانے کی کوشش نہ کرے۔

طبیعت ِمومن کی مثال ایسی ہے جیسے مشک کہ رائحۂ ایمان اس کے جَرم تک محدود نہیں رہتی بلکہ پھیلتی ہے جہاں تک پھیلنے کا اس کو موقع ملے۔ یا چراغ کہ نُورِ ایمان سے جہاں وہ منورہوا اور اس نے آس پاس کی فضا میں اپنی شعاعیں پھیلا دیں۔ مشک میں جب تک خوشبورہے گی وہ مشامِ جاں کو معطر کرتا رہے گا۔ چراغ جب تک روشن رہے گا روشن کرتا رہے گا ۔ مگر جب مشک کی خوشبو قریب سے قریب سونگھنے والے کو بھی محسوس نہ ہو اور چراغ کی روشنی اپنے قریب ترین ماحول کو بھی روشن نہ کرے، تو ہر شخص یہی حکم لگائے گا کہ مشک مشک نہیں رہا اور چراغ نے اپنی چراغیت کھودی۔

 یہی حال مومن کا ہے کہ اگر وہ خیر کی طرف دعوت نہ دے، نیکی کا حکم نہ دے ،بدی کو برداشت کرلے اور اس سے روکے نہیں،تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں خوف ِ خدا کی آگ سرد پڑ گئی ہے اور ایمان کی روشنی مدھم ہو گئی ہے۔ (تفہیمات، اوّل، ۱۹۷۱ء، ص ۱۵۱)


تھا جو ناخُوب، بتدریج وہی ’خُوب‘ ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

[ضرب  کلیم،۲۸]

بدقسمتی سے اس وقت کوئی اسلامی آبادی ایسی نہیں ہے، جو صحیح معنوںمیں سیاسی اور ذہنی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہو۔ جہاں ان کو سیاسی استقلال اور خود اختیاری حاصل بھی ہے، وہاں وہ ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہیں ۔

 ان کے مدرسے ،ان کے دفتر، ان کے بازار، ان کی انجمنیں، ان کے گھر، حتیٰ کہ ان کے جسم تک اپنی زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب،مغرب کے افکار، مغرب کے علوم وفنون حکمراں ہیں۔ وہ مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں، مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ مغرب کی بتائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں خواہ ان کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو، بہرصورت یہ مفروضہ ان کے دماغوں پر مسلّط ہے کہ حق وہ ہے جس کو مغرب حق سمجھتا ہے اور باطل وہ ہے جس کو مغرب نے باطل قرار دیا ہے۔

حق وصداقت ،تہذیب، اخلاق، انسانیت، شائستگی ، ہر ایک کا معیار ان کے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔ اپنے دین وایمان، اپنے افکار و تخیلات، اپنی تہذیب وشائستگی، اپنے اخلاق وآداب ، سب کو وہ اسی معیار پر جانچتے ہیں۔ جو چیز اس معیار پر پوری اُترتی ہے اسے درست سمجھتے ہیں، مطمئن ہوتے ہیں۔ فخر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں چیز مغرب کے معیار پر اترآئی اور جو چیز اس معیار پر پوری نہیں اُترتی اسے شعوری یا غیر شعوری طور پر غلط مان لیتے ہیں۔ کوئی علانیہ اس کو ٹھکرا دیتا ہے ،کوئی دل میں گھٹتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر اسے مغربی معیار کے مطابق کر دے۔ (تنقیحات،۱۹۶۸ء،ص ۷-۸)


جانتا ہُوں میں یہ اُمّت حامل قُرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں

[ارمغانِ حجاز،ص۱۷]

اِس زمانے میں وہ معاشی نظام جس کو اسلام نے قائم کیا تھا درہم برہم ہو چکا ہے، اس کے اصول ونظریات بھی دلوں سے محو ہو گئے ہیں، اور ہمارے گردوپیش کی دنیا پر ایک ایسا نظام پوری طرح حاوی ہو گیا ہے جس کی بنیاد ’’سرمایہ داری ‘‘ کے اصولوں پر رکھی گئی ہے ۔ یہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت نہ صرف عملاً ہم پر محیط ہے بلکہ ہمارے دل ودماغ پر بھی اس کے اصول ونظریات چھا گئے ہیں۔ اس لیے جب کسی معاشی مسئلہ پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر وہی ہوتا ہے، جو سرمایہ داری کا نقطۂ نظرہے۔ ہمارے بحث وتحقیق کی ابتدا ہی اس طرح ہوتی ہے کہ ہم پہلے معاشیات کے سرمایہ دارانہ نظریات اور اصولوں کو مان لیتے ہیں اور اس کے بعد کسی معاشی طریقہ کے جواز وعدم پر گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن اگر تھوڑی سی سمجھ سے کام لیا جائے تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ تحقیق کا یہ طریقہ اصلاًغلط ہے۔

اسلام کا نظم معیشت اپنے نظریہ اور اپنے اصول میں سرمایہ داری کے نظم معیشت سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں کے مقاصد الگ الگ ہیں۔ دونوں کی روح جدا جد ا ہے، دونوں کے مناہج علاحدہ علاحدہ ہیں۔ اب اگر کسی مسئلہ کے متعلق سرمایہ داری کے اصول ونظریات کو تسلیم کر کے اسلام کے معاشی احکام میں سے کسی حکم پر نظر ڈالی جائے گی تو لامحالہ یا تو وہ بالکل غلط نظر آئے گا یا اس میں ایسی ترمیم کر دی جائے گی، جس سے وہ اسلامی قانون کے اصول سے ہٹ کر بالکل سرمایہ داری کے قالب میں ڈھل جائے گا، اور اس میںنہ اسلامی روح باقی رہے گی، نہ اسلامی قانون کے اغراض ومقاصد اس سے حاصل ہو سکیں گے ، اور نہ وہ اپنے جوہر میں حقیقتاً ایک اسلامی حکم ہو گا۔


جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

[ضربِ    کلیم،ص۷۳]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی چیز مسلمانوں کو حاصل تھی۔ پھر اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا، تاریخ کے اوراق اس پر شاہد ہیں۔ اس زمانے میں جس نے لاالٰہ الا اللہ کہا اس کی کایا پلٹ گئی۔ مس خام سے یکایک وہ کندن بن گیا۔ اس کی ذات میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ دل اس کی طرف کھنچنے لگے۔ اس پر جس کی نظر پڑتی وہ محسوس کرتا کہ گویا تقویٰ اور پاکیزگی اور صداقت کو مجسم دیکھ رہا ہے۔ وہ اَن پڑھ ،مفلس، فاقہ کش، پشمینہ پوش اور بوریا نشین ہوتا، مگر پھر بھی اس کی ہیبت دلوں میں ایسی بیٹھتی کہ بڑے بڑے شان وشوکت والے فرماں روائوں کو نصیب نہ تھی۔ ایک مسلمان کا وجود گویا ایک چراغ تھا کہ جدھر وہ جاتا اس کی روشنی اطراف واکناف میں پھیل جاتی، اور اس چراغ سے سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن ہو جاتے ۔ پھر جو اس روشنی کو قبول نہ کرتا اور اس سے ٹکرانے کی جرأت کرتا تو اس کو جلانے اور فنا کردینے کی قوت بھی اس میں موجود تھی۔

ایسی ہی قوتِ ایمانی اور طاقت وسیرت رکھنے والے مسلمان تھے کہ جب وہ ساڑھے تین سو سے زیادہ نہ تھے، تو انھوں نے تمام عرب کو مقابلے کا چیلنج دے دیا اور جب وہ چند لاکھ کی تعداد کو پہنچے تو ساری دنیا کو مسخر کر لینے کے عزم سے اٹھ کھڑے ہوئے، اور جو قوت ان کے مقابلے پر آئی پاش پاش ہوگئی۔ (تنقیحات،ص۲۵۳-۲۵۴)


چہ کافرانہ قمارِ حیات می بازی
کہ با زمانہ بسازی بخود نمی سازی

[ارمغان حجاز،اُردو،ص۵۶]

[تو زندگی کا جوا کس کافرانہ انداز میں کھیل رہا ہے؟ یعنی دُنیاوی اغراض کے لیے زمانے کے ساتھ موافقت کر رہا ہے، مگر اپنی خودی اور خوداری سے وفا نہیں کر رہا۔]

قرآن تمھارے سامنے ہے۔ انبیا علیہم السلام کی سیرتیں تمھارے سامنے ہیں۔ ابتدا سے لے کر آج تک کے علَم بردارانِ اسلام کی زندگیاں تمھارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جدھر اڑا لے اُڑجائو ؟پانی جدھر بہائے اُدھر بہہ جائو ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جائو ؟

اگرمدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی کے بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ہوا کی موجیں تمھاری ہدایت کے لیے اور حیاتِ دُنیا کا بہائو تمھاری رہنمائی کے لیے اور زمانہ کی نیرنگیاں تمھیں گر گٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی، اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ اس ذاتِ حق کی طرف سے تو جو پیغام بھی آیا ہے اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے، ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے، اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے اور دنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے۔ ایمان داروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستہ پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔

انبیا علیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض کے لیے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں، نقصان برداشت کیے ہیں اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتارِ زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔

اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت ِآسمانی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نقصان اور مشکلات اور خطرات دیکھتا ہے، اور ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوش حال، کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں، تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے ۔مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو اور دنیاکو دھوکا دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اور اس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر بھی اس کا پیرو ہے ؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پر جھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کر کے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے؟ (تنقیحات، ص۲۶۳-۲۶۴)


حلقۂ صُوفی میں ذکر بے نم وبے سوزوساز
میں بھی رہا تشنہ کام ، تُو بھی رہا تشنہ کام

[بالِ جبریل،ص۶۶]

درجۂ احسان کی اہمیت اور اس کے حاصل کرنے کی ضرورت سے انکار کا کیا موقع ہے؟ میرے نزدیک تو وہی اصل میں مطلوب ہے، اور میں اس سے بھی انکار نہیں کرتا کہ محسنین سے خدا کی زمین نہ پہلے خالی تھی نہ اب خالی ہے ۔

یہ لوگ جہاں بھی ہیں، خدا کی رحمت کا ایک نشان ہیں اور ان کی صحبت، معیت ،رفافت ہمارے لیے سرمایۂ سعادت ہے۔ مگر جہاں بالعموم ان لوگوں کے زیادہ پائے جانے کا گمان کیا جاتا ہے وہاں یہ سب سے کم پائے جاتے ہیں، اور جن گوشوں کو ’اہل فن‘ اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ ’احسان‘ کی کوئی جھلک تک ان میں دیکھنے کی توقع نہیں رکھتے ،وہیں یہ اکثر مل جاتے ہیں۔اہلِ فن میں جن شخصیتوں کو ’مزکی‘ اور ’مربی‘ ہونے کی شہرت حاصل ہے ان میں بہتوں کے ساتھ مجھے کسی نہ کسی طور پر سابقہ پیش آیا ہے اور میں نے ان کے اندر وہ کمزوریاں پائی ہیں، جو معمولی انسانوں کے لیے بھی موزوں نہیں ہیں کجا کہ ماہرینِ تزکیۂ نفس کے لیے۔

اس کے برعکس غیر معروف لوگ، جو دنیا کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں اور جنھیں شاید کوئی مرتبہ بھی کسی اہل فن کے ہاں نہیں مل سکتا ، ان کے اندر ایسے ایسے بندۂ حق ملے ہیں جو خوف خدا سے کانپنے والے اور اس کی رضا جوئی کے لیے ہرفائدے کو قربان اور ہر نقصان کو گوارا کرنے والے ہیں، اور جنھیں قبولِ حق اور ادائے حق سے نہ کوئی نفسانیت باز رکھ سکتی ہے اور نہ کوئی عصبیت۔ (مولانا ظفر احمد عثمانی کے نام خط، رسائل و مسائل، دوم، ۱۹۹۷ء، ص ۱۴۱)


خِرد نے کہہ بھی دیا لَا اِلٰہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

[ضربِ کلیم،ص۴۷]

مسلمانوں کی اصلی طاقت یہی ایمان وسیرت صالحہ کی طاقت ہے، جو صرف ایک لااِلٰہ اِلااللہ کی حقیقت دل میں بیٹھ جانے سے حاصل ہوتی ہے، لیکن اگر یہ حقیقت دل میں جاگزیں نہ ہو، محض زبان پر یہ الفاظ جاری ہوں، مگر ذہنیت اور عملی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہ ہو، لا الٰہ الااللہ کہنے کے بعد بھی انسان وہی کا وہی رہے جو اس سے پہلے تھا، اور اس میں اور لا الٰہ الا اللہ کا انکار کرنے والوں میں اخلاقی وعملی حیثیت سے کوئی فرق نہ ہو۔ وہ بھی انھی کی طرح غیر اللہ کے آگے گردن جھکائے اور ہاتھ پھیلائے ۔ انھی کی طرح غیرِ خدا سے ڈرے اور غیرِ خدا کی رضا چاہے اور غیرِ خدا کی محبت میں گرفتار ہو۔ انھی کی طرح ہوائے نفس کا بندہ ہو اور قانون الٰہی کو چھوڑ کر انسانی قوانین یا اپنے نفس کی خواہشات کا اتباع کرے۔ اس کے خیالات اور ارادوں اور نیتوں میں بھی وہی گندگی ہو، جو ایک غیر مومن کے خیالات، ارادات اور نیّات میں ہو سکتی ہے، اور اس کے اقوال وافعال ومعاملات بھی ویسے ہی ہوں، جیسے ایک غیر مومن کے ہوتے ہیں، تو پھر مسلمان کو نا مسلمان پر فوقیت کس بنا پر ہو ؟ (تنقیحات،ص۲۵۴)


درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی ، نہ صفاہاں ، نہ سمرقند

[بالِ جبریل،ص۲۳]

انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے اس کا رقبہ یقینا ایک گز مربع سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس رقبے کو اگر وہ اپنا وطن قرار دے تو شاید وہ کسی ملک کو اپنا وطن نہیں کہہ سکتا ۔ لیکن وہ اس چھوٹے سے رقبے کے گرد میلوں اور کوسوں اور بسا اوقات سیکڑوں اور ہزاروں میل تک ایک سرحدی خط کھینچ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں تک میرا وطن ہے اور ا س سے باہر جو کچھ ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔

یہ محض اس کی نظر کی تنگی ہے ورنہ کوئی چیز اسے تمام روئے زمین کو اپنا وطن کہنے سے مانع نہیں ہے۔ جس دلیل کی بنا پر ایک مربع گز کا وطن پھیل کر ہزاروں مربع گز بن سکتا ہے، اسی دلیل کی بنا پر وہ پھیل کر پورا کرۂ ارض بھی بن سکتا ہے ۔ اگر آدمی اپنے زاویۂ نظر کو تنگ نہ کرے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ یہ دریا اور پہاڑ اور سمندر وغیرہ جن کو اس نے محض اپنے خیال میں حدودِ فاضل قرار دے کر ایک زمین اور دوسری زمین کے درمیان فرق کیا ہے، سب کے سب ایک ہی زمین کے اجزا ہیں۔ پھر کس بنا پر اس نے دریائوں اور پہاڑوں اور سمندروں کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ اسے ایک خاص خطّے میں قید کر دیں؟وہ کیوں نہیں کہتا کہ میں زمین کا باشندہ ہوں۔ سارا کرۂ زمین میرا وطن ہے۔ جتنے انسان ربع مسکون میں آباد ہیں، میرے ہم وطن ہیں، اس پورے سیارے پر میں وہی پیدائشی حقوق رکھتا ہوں جو اس گز بھر زمین پر مجھے حاصل ہیں، جہاں میں پیدا ہوا ہوں ؟ (مسئلہ قومیت، ۱۹۶۷ء،ص ۱۲-۱۳)


رہے ہیں، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِبیضا

[بالِ جبریل،ص۳۸]

اگر آپ [اسلام] کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول وعمل سے اس کی سچی شہادت دیں، اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے، تو آپ دنیا میں سربلند اور آخرت میں سرخرو ہو کر رہیں گے ۔ خوف اور حزن ،ذلّت اور مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جو آپ پر چھائے ہوئے ہیں، چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے ۔ آپ کی دعوتِ حق اور سیرتِ صالحہ دلوں کو اور دماغوں کو مسخر کرتی چلی جائے گی ۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسا آپ کی امانت ودیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ ائمۂ کفر کی کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی ومعاشی نظریے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ جو طاقتیں آج ان کے کیمپ میں نظر آ رہی ہیں، ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی۔

 حتیٰ کہ ایک وقت وہ آئے گا، جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچائو کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونی ورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہو گا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی___ اور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالم گیر وجہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بیوقوف ہوگئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ دیکھ کر  کانپ رہے تھے۔ یہ مستقبل تو آپ کا اس صورت میں ہے، جب کہ آپ اسلام کے مخلص پیرو اور سچّے گواہ ہوں۔ (اسلامی نظام  زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ۱۹۷۲ء، ۲۸۲-۲۸۳)


رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

[بالِ جبرئیل،ص۷۲]

جو دنیا کے معاملات ہی کو چلانے کا ڈھنگ لے کر اٹھے اور اسی ڈھنگ کی پیروی میں انسان کی فلاح ونجات کا معتقد ہو، اس کے لیے تو بجز اس سے کوئی چارہ ہی نہیں کہ اقتدار کی کنجیوں پر اختیار حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ جب تک وہ اپنے نقشے پر عمل درآمد کرنے کی طاقت حاصل نہ کرلے، اس کا نقشہ واقعات کی دنیا میں قائم نہیں ہو سکتا، بلکہ کاغذ پر اور ذہنوں میں بھی زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکتا ۔ جس تہذیب کے ہاتھ میں زمامِ کار ہوتی ہے، دنیا کا سارا کاروبار اسی کے نقشے پر چلتا ہے وہ علوم وافکار اور فنون وآداب کی رہنمائی کرتی ہے۔وہی اخلاق کے سانچے بناتی ہے۔ وہی تعلیم وتربیت عامہ کا انتظام کرتی ہے۔ اسی کے قوانین پر سارا نظام تمدن مبنی ہوتا ہے، اور اسی کی پالیسی ہر شعبۂ زندگی میں کارفرما ہوتی ہے۔

اس طرح زندگی میں کہیں بھی اُس تہذیب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی، جو اپنی حکومت نہ رکھتی ہو، یہاں تک کہ ایک طویل مدت تک حکمران تہذیب کا دور دورہ رہتا ہے تو غیر حکمران تہذیب عمل کی دنیا میں خارج از بحث ہو جاتی ہے۔ اس کی طرف ہمدردانہ نقطۂ نظر رکھنے والوں کو بھی اس امر میں شبہ ہو جاتا ہے کہ یہ طریقہ دنیا کی زندگی میں چل سکتا ہے یا نہیں! (تجدیدو احیائے دین، ۱۹۶۷ء،ص ۳۲-۳۳)

 


رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے

نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں ، تُو باقی نہیں ہے

[بالِ جبریل،ص ۹۰]

افسوس کہ عبادت کے اس صحیح اور حقیقی مفہوم کو مسلمان بھول گئے۔ انھوں نے چند مخصوص اعمال کا نام عبادت رکھ لیا اور سمجھے کہ بس انھی اعمال کو انجام دنیا عبادت ہے، اور انھی کو انجام دے کر عبادت کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس عظیم الشان غلط فہمی نے عوام اور خواص دونوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔

 عوام نے اوقات میں سے چند لمحے خدا کی عبادت کے لیے مختص کر کے باقی تمام اوقات کو اس سے آزاد کرلیا۔ قانون الٰہی کی دفعات میں سے ایک ایک دفعہ کی خلاف ورزی کی، حدودا للہ میں سے ایک ایک حد کو توڑا، جھوٹ بولے، غیبت کی، بدعہد یاں کیں، حرام کے مال کھائے ، حق داروں کے حق مارے ، کمزوروں پر ظلم کیا۔ نفس کی بندگی میں دل ،آنکھ، ہاتھ اور پائوں سب کو نافرمانی کے لیے وقف کر دیا۔ مگر پانچ وقت کی نماز پڑھ لی، زبان اور حلق کی حد تک قرآن کی تلاوت کر لی۔ سال میں مہینے بھر کے روزے رکھ لیے، اپنے مال میں سے کچھ خیرات کر دی ، ایک مرتبہ حج بھی کر آئے اور سمجھے کہ ہم خدا کے عبادت گزار بندے ہیں۔

کیا اسی کا نام خدا کی عبادت ہے ؟

اس کے سجدے سے سر اٹھا تے ہی ہر معبودِ باطل کے آگے جھک جائو، اس کے سوا ہر زندہ اور مُردہ کو حاجت روا بنائو،ہر اس بندے کو خدا بنا لو جس میں تم کو نقصان پہنچانے یا نفع دینے کی ذرّہ برابر بھی قوت نظر آئے۔ روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے کفا رومشرکین تک کے آگے ہاتھ جوڑو اور ان کے پائوں چومو۔ انھی کو رازق سمجھو، انھی کو عزت اور ذلت دینے والا سمجھو، انھی کے قانون کو قانون سمجھو، اس لیے کہ وہ طاقت رکھتے ہیں۔

خدا کے قانون کو بے تکلف توڑ دو، اس لیے کہ تمھارے زعم باطل میں وہ اپنے قانون کو نافذ کرنے کی قوت نہیں رکھتا، کیا یہی تمھارا اسلام ہے ؟ یہی تمھارے ایمان کی شان ہے ؟ اسی پر تمھیں گمان ہے کہ تم خدا کی عبادت کرتے ہو ؟اگر یہی اسلام اور ایمان ہے اور یہی اللہ کی عبادت ہے، تو پھر وہ کیا چیز ہے جس نے تم کو دنیا میں ذلیل وخوار کر رکھا ہے ؟ کیا چیز ہے جو تم سے خدا کے سوا ہر در کی گدائی کرا رہی ہے ؟ کس چیزنے تمھاری گردنوں میں غلامی اور ذلّت کے طوق ڈال رکھے ہیں ؟

خواص نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کیا۔ وہ تسبیح ومصلیٰ لے کر حجروں میں بیٹھ گئے۔ خدا کے بندے گمراہی میں مبتلا ہیں، دنیا میں ظلم پھیل رہا ہے،حق کی روشنی پر باطل کی ظلمت چھائی جارہی ہے ،خدا کی زمین پر باغیوں اور ظالموں کا قبضہ ہو رہا ہے، الٰہی قوانین کے بجائے شیطانی قوانین کی بندگی خدا کے بندوں سے کرائی جا رہی ہے، مگر یہ ہیں کہ نفل پر نفل پڑھ رہے ہیں، تسبیح کے دانوں کو گردش دے رہے ہیں، ’ہُو، حق‘ کے نعرے لگارہے ہیں،قرآن پڑھتے ہیں مگر محض ثوابِ تلاوت کی خاطر، حدیث پڑھتے ہیں مگر صرف تبرکاً،سیرتِ پاکؐ اور اسوۂ صحابہؓ پر وعظ فرماتے ہیں، مگر قصہ گوئی کا لطف اٹھانے کے سوا کچھ مقصود نہیں۔ دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کا سبق نہ ان کو قرآن میں ملتا ہے، نہ حدیث میں، نہ سیرت پاک میں، نہ اسوۂ صحابہؓ میں۔ کیا یہ عبادت ہے ؟

کیا یہی عبادت ہے کہ بدی کا طوفان تمھارے سامنے اُٹھ رہا ہو، اور تم آنکھیں بند کیے ہوئے مراقبے میں مشغول رہو؟کیا عبادت اسی کو کہتے ہیں کہ گمراہی کا سیلاب تمھارے حجرے کی دیواروں سے ٹکرارہا ہو اور تم دروازہ بند کر کے نفل پرنفل پڑھے جائو ؟ کیا عبادت اس کا نام ہے کہ کفّار چار دانگ عالم میں شیطانی فتوحات کے ڈنکے بجاتے پھریں، دنیا میں انھی کا علم پھیلے ، انھی کی حکومت کارفرما ہو، انھی کا قانون رواج پائے ، انھی کی تلوار چلے، انھی کے آگے بندگان خدا کی گردنیں جھکیں اور تم خدا کی زمین اور خدا کی مخلوق کو ان کے لیے چھوڑ کر نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور ذکر وشغل کرنے میں منہمک ہو جائو ؟

اگر عبادت یہی ہے جو تم کر رہے ہو اور اللہ کی عبادت کا حق اسی طرح ادا ہوتا ہے، تو پھر یہ کیا ہے کہ عبادت تم کرو اور زمین کی حکومت وفرماں روائی دوسروں کو ملے ؟ کیا معاذ اللہ خدا کا وہ وعدہ جھوٹا ہے جو اس نے قرآن میں تم سے کیا تھا :

وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ (النور ۲۴:۵۵) [اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں]۔

اگر خدا اپنے وعدے میں سچا ہے، اور اگر یہ واقعہ ہے کہ تمھاری اس عبادت کے باوجود نہ تم کو زمین کی خلافت حاصل ہے، نہ تمھارے دین کو تمکن نصیب ہے، نہ تم کو خوف کے بدلے میں امن میسر آ تا ہے، تو تم کو سمجھنا چاہیے کہ تم اور تمھاری ساری قوم عبادت گزار نہیںبلکہ تارکِ عبادت ہے اور اسی ترکِ عبادت کا وبال ہے، جس نے تم کو دنیا میں ذلیل کر رکھا ہے۔ (تفہیمات، اول ، ۱۹۷۱ء، ص ۷۱-۷۳)