’اسلامی بنکاری‘ کے ساتھ ایک طویل عرصہ سے منسلک رہنے کی وجہ سے مجھے اکثر اس سوال کا سامنا رہتا ہے کہ ’’کیا مروجہ اسلامی بنکاری حقیقتاً اسلامی ہے، اور اگر اسلامی ہے تو کتنی اسلامی ہے؟‘‘ ان دونوں سوالوں میں سوال کم اور اسلامی بنکاری کے حوالے سے پریشان کُن شکایت زیادہ نظر آتی ہے۔ دُنیا بھر کے درجنوں مسلم اور غیر مسلم ممالک میں چالیس پچاس سال سے رائج اسلامی بنکاری کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے: ’’رائج شکل میں اسلام کے نام پر جو بنکاری ہورہی ہے وہ نام کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘ اور یہ تاثر بھی عام ہے کہ: ’’اسلامی بنکاری میں سود کا نام نفع رکھ دیا گیا ہے‘‘۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ عمومی تاثر بڑی حد تک درست ہے۔
اسلامی بنکاری، لوگوں میں وہ اعتماد حاصل نہیں کرسکی، جو اسے ملنا چاہیے تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ قرآنی حکم اور عقیدے کے نام پر قائم ہونے والے اس نئے نظام پر اتنے زیادہ اعتراضات اور شکوک وشبہات کیوں ہیں؟ تو عرض یہ ہے کہ اسلامی بنکاری جس ماحول میں کام کررہی ہے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اسلامی بنکاری کو کامیابی کے لیے جو سماجی، معاشی اور سیاسی ماحول درکار ہے وہ کسی بھی مسلم یا غیرمسلم ملک میں موجود نہیں۔ اور نہ اسے مضبوط ریاستی، اداراتی اور حکومتی حمایت و سرپرستی میسر ہے۔ اخلاقی زوال بھی اسلامی بنکاری کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔ اہل اختیار کی سود کے وبال سے لاعلمی و جہالت اور مغربی نظام سے مرعوبیت بھی اسلامی بنکاری کے نفاذ کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ بے دلی اور جان چھڑاؤ قسم کے اقدامات نے اسلامی بنکاری کے درست سمت سفر میں ایک اور بڑی مشکل پیدا کردی ہے۔
عقیدے کی بنیاد پر بننے والا یہ بے آسرا، کمزور اور نحیف سا نظام صدیوں پرانے جمے جمائے ایسے بنکاری نظام کے تحت کام کررہا ہے، جسے پوری دنیا کی عالمی طاقتوں کی تائید اور غالب سیاسی نظام کا تحفظ اور سرپرستی حاصل ہے۔ دنیا کے غالب سیاسی نظام کا پسندیدہ بنکاری نظام سودی ہے۔ اسلامی بنکاری زیادہ تر سیاسی مجبوری، کاروباری مفادات (financial inclusion) کے لیے رائج کیا گیا ہے۔ اہل اختیار ایسے تعلیمی نظام کے سند یافتہ ہیں جہاں سود کمانا سکھایا جاتا ہے، سودکے دینی تصور کو ذہنوں سے دُور رکھا جاتا ہے۔ اسلامی بنکاری کی باگ ڈور ہر جگہ مکمل طور پر ایسے مرکزی بنکاری نظام کے ہاتھ میں ہے، جو اصلاً ونسلاً سرمایہ دارانہ طاغوتی استحصالی سودی نظام کا محافظ ہے۔ یہ مرکزی بنکاری نظام اپنی پالیسی اور قواعد وضوابط کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بنکاری نظام میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی سرمایہ دارانہ نظام کے مقاصد کی آبیاری میں کسی قسم کی رکاوٹ بننے کے بجائے اس کے لیے معاون اور مددگار بنی رہے۔
دولت اور وسائل کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ہی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا غیر علانیہ مقصد وہدف ہے۔ اس کے لیے سود اس کا سب سے مؤثر آلہ ہے، جسے وہ مالی اور بنکاری نظام میں استعمال کرتا ہے۔ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ سود کی شرح پہلے سے متعین، طے شدہ اور یقینی ہوتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مروجہ اسلامی بنک بھی ’شریعہ انجینیرنگ‘ کے ذریعے ’نفع‘ کو سود کی طرح پہلے سے متعین، طے شدہ اور یقینی بناتے ہیں۔ شریعت کے قوانین سے ناواقفیت کی وجہ سے بنکار یہ کام خود نہیں کرتے۔ اس کے لیے وہ معروف ’ماہرین شریعت‘ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ شریعہ کے ماہرین بنکاروں کو وہ راستے بتاتے ہیں جس سے شریعت کے قوانین پر عمل بھی ہوجاتا ہے اور بنکاری کے معاملات اور سرمایہ دارانہ استحصالی مقاصد پر کوئی اثر بھی نہیں پڑتا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تقریباً نصف صدی پرانا اسلامی بنکاری نظام سودی نظام کی چھتری تلے ’مغرب کے استحصالی سودی معاشی نظام کے مقاصد کے حصول کا شرعی طریق کار‘ بن کر کام کررہا ہے۔ شریعت کے ماہرین حیلوں کی مدد سے بنکاری کے شرعاً مشکل معاملات کو بڑی ’خوش اسلوبی‘ سے سنبھال لیتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ کمال کس طرح ہوتا ہے، یعنی ’نفع ‘کی شرح کو کس طرح سود کی صفات سے متصف کیا جاتا ہے؟
بنکوں کے معاملات سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ سودی بنکوں کا انحصار ایک ہی قسم کے معاہدے یعنی ’’سودی قرض‘‘ پر ہوتا ہے، جب کہ اسلامی بنک:
۱- ’مشارکہ‘ اور ’مضاربہ‘ کے تحت نفع و نقصان میں شراکت کے اصول پر کام کرتا ہے۔
۲- ’مرابحہ‘، ’مساومہ‘، ’سلم‘ اور ’استصناع‘ کے تحت اشیا کی خرید وفروخت سے نفع کماتا ہے۔
۳- ’اجارہ‘ کے تحت مشینری، گھر یا گاڑی کرایہ پر دے کر کرایہ حاصل کرتا ہے۔
۴- افراد اور اداروں کو خدمات فراہم کر کے اُجرت ’جعالہ‘(کمیشن) حاصل کرتا ہے۔
۵- وکالہ بالاستثمار کے تحت وکالت کی فیس لیتا ہے۔
شرح منافع، کمیشن، اُجرت، فیس اور اجارہ جیسے جائز مگر سود سے طبعاً مختلف کاروباری طریقوں کو سود کی طرح کیسے بنایا جاتا ہے؟ اس کے لیے درج ذیل مثالیں دیکھیے، نیز کچھ مثالوں کے ذریعے ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ بنکاری مجبوریوں کی وجہ سے بعض حرام معاملات کو حلال بنانے کے لیے کیا حیلے اختیار کیے جاتے ہیں۔mمضاربہ اکاؤنٹ کا نفع m وکالہ بالاستثمار کا منافع اور فیس mبیع العینہ mبیعتین فی بیع m کموڈٹی مرابحہ ___ اسلامی بنکوں کی حیلہ زدہ پراڈکٹس ہیں۔
’مضاربہ‘ اور ’مشارکہ‘ یعنی حصہ داری کی بنیاد پر کاروبار میں دو یا دو سے زیادہ افراد کی شرکت ایسے کاروباری طریقے ہیں، جن کو شریعت نے جائزقرار دیا ہے۔ اسلامی بنک میں بچت کھاتے زیادہ تر ’مضاربہ‘ اور ’وکالہ‘ یا ’مشارکہ‘ کی بنیاد پر کھولے جاتے ہیں (اسلامی بنک ان طریقوں پر سرمایہ کاروں کو مالکاری سہولت بھی مہیا کرتے ہیں)۔ یہاں ہم ’مضاربہ اکاؤنٹ‘ کے معاملات کو سمجھتے ہیں: ’مضاربہ‘ میں سرمایہ مہیا کرنے والے یعنی کھاتے دار کو ’ربّ المال‘ اور کاروبار کرنے والے یعنی بنک کو ’مضارب‘ کہتے ہیں۔ دیگر تمام اصولوں کے ساتھ ساتھ نفع ونقصان میں شراکت کا اصول یہ ہے کہ نفع میں طے شدہ شرح سے ’مضارب‘ اور ’ربُ المال‘ کا حصہ ہوگا۔ مثلاً نفع جو بھی ہوگا اس میں سے بنک یعنی ’مضارب‘ (مثال کے طور پر) ۷۰ فی صد کا اور ’ربُ المال‘ یعنی کھاتے دار ۳۰ فی صد کا حق دار ہوگا (شریعت کے اصولوں کے مطابق منافع کی تقسیم کی شرح ’ربُ المال‘ اور ’مضارب‘ کی باہمی رضامندی سے ۷۰:۳۰ یا ۵۰:۵۰ یا کچھ اور بھی ہوسکتی ہے)۔
نفع میں شراکت کی شرح معاہدے میں واضح طور پر طے کرنی ضروری ہے۔ نقصان کے بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ صرف ’ربُ المال‘ برداشت کرے گا۔ لیکن اسلامی بنک کے معاملے میں عمل کی دنیا میں یہ اصول کام ہی نہیں کرتا۔ بنک کھاتے دار کو بتاتا ہے کہ وہ اگر بنک کو ’مضاربہ‘ کی بنیاد پر رقم دے گا تو اسے اتنا ’متوقع منافع‘ ملے گا۔ مثلاً ایک لاکھ کی سرمایہ کاری پر سات فی صد تک نفع مل سکتا ہے۔ متوقع نفع تک تو بات درست ہے۔ اس میں کوئی شرعی طور پرخرابی نہیں۔
اصل خرابی یہ ہے کہ یہ متوقع نفع ہی دراصل وہ طے شدہ نفع ہے، جو ہر صورت کھاتے دار کو ملے گا۔اس کو معین اور یقینی بنانے کے لیے معاہدے میں ’اگر مگر‘ کے ساتھ کچھ شقیں ڈالی جاتی ہیں۔ اگر نفع متوقع سات فی صد سے کم ہوا تو بنک اپنے حصے میں سے ہبہ کرکے سات فی صد پورا کردے گا۔ اگر نفع متوقع سات فی صد سے زیادہ ہوا تو سات فی صد سے اوپر جو نفع ہے وہ بنک اپنی محنت کا انعام سمجھ کر اپنے پاس رکھ لے گا (عملی طور پر نفع نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ۔ یہ شقیں عموماً محض شرعی قواعد کی ضرورت کی تکمیل کے لیے معاہدے میں شامل کی جاتی ہیں)۔ باقی رہا نقصان تو اسلامی بنک کبھی نقصان میں جاتا ہی نہیں! کچھ ایسا ہی طریقہ ’وکالہ‘ میں بھی اختیار کیا جاتا ہے۔
’وکالہ‘ ایک متعین اُجرت والا معاہدہ ہے۔ اس میں بنک سرمایہ کاری وکیل کے طور پر پیسہ لیتا ہے۔ یعنی بنک گاہک (موکل) کا پیسہ کاروبار میں لگانے کے لیے لیتا ہے۔ اس میں اصول یہ ہے کہ وکیل ایمان داری سے موکل کے لیے کسی منافع بخش کاروبار میں پیسہ لگائے گا۔ کاروبار میں نفع ہو یا نقصان موکل اس کا حق دار ہوگا۔ بطور وکیل بنک ایک متعین اُجرت کا حق دار ہوگا۔ پیسہ لیتے وقت بنک گاہک کو کاروبار کے متوقع منافع کے بارے میں بتائے گا۔ اب اپنے نفع کو متعین، طے شدہ اور یقینی بنانے کے لیے یہ شقیں معاہدے میں شامل کرے گا کہ اگر اصل منافع، متوقع منافع سے زیادہ ہوا تو بطور وکیل زائد منافع محنت کے صلے کے طور پر وہ خود رکھ لے گا اور اگر نفع کم ہوا تو بنک اپنی اُجرت میں سے ہبہ کرکے اسے متوقع منافع کے برابر کرکے موکل کو دے گا۔ مطلب یہ کہ متوقع منافع ہی آخری اور طے شدہ منافع ہے جو گاہک کو ملے گا، نہ کم نہ زیادہ!
طریقۂ کار یہ ہے کہ سودی بنک کو دس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ اسلامی بنک کے پاس فالتو رقم دستیاب ہے۔ اسلامی بنک کموڈٹی مارکیٹ میں، ایک ایجنٹ کے ذریعے، دس لاکھ روپے مالیت کے برابر کپاس خریدتا ہے۔ اسلامی بنک اس دس لاکھ کی کپاس کو ایک لاکھ فائدہ کے ساتھ سودی بنک کو اُدھار پر گیارہ لاکھ کی بیچ دیتا ہے۔ سودی بنک اس کپاس کو جو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی اسی مارکیٹ میں دوسرے ایجنٹ کے ذریعے بیچ کر دس لاکھ’کما‘ لیتا ہے (خرید وفروخت کے اس تین منٹ کے سارے کھیل میں کموڈٹی یا زیر معاملہ کپاس جہاں رکھی تھی وہیں رکھی رہی)۔
سودی بنک اسلامی بنک کو قیمت نفع کے ساتھ قسطوں میں تین ماہ میں واپس کرے گا۔ یہ سارا معاملہ شریعت کے معیار پر فٹ کرنے کے لیے بنک کے شرعی مشیروں کو سخت محنت کرنی پڑی۔ بنک اور ماہر شریعت کی کوشش سے سودی بنک کو سرمایہ بھی فراہم کردیا گیا اور شریعت کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی کہ اگر کوئی غیر مسلم حلال گوشت لینا چاہے تو قصائی اسے منع تو نہیں کرسکتا! پوری اسلامی بنکاری کی عمارت اسی قسم کے جواز اور حیلوں پر کھڑی ہے اور یہی اس کی زندگی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان حیلوں سے نجات کے بارے میں فکر مندی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔