ایک امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ تجزیے کے مطابق: ’بھارت میں مئی ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کے دوران موجودہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، ۵۴۳ رکنی لوک سبھا میں ۱۷۹نشستوں تک سمٹ جائے گی‘۔ گویا اگر موجودہ عوامی رجحان برقرار رہتا ہے ، تو۲۰۱۴ء کے مقابلے اس کی ۱۰۷نشستیں کم ہوجائیں گی۔ اسی لیے بھارتی حکمران پارٹی ۲۰۱۹ء میں اقتدار میں اعتماد کے واضح ووٹ (مینڈیٹ) کے ساتھ واپسی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ پانچ ریاستی انتخابات کے تلخ نتائج کے بعد اس انتہاپسند قیادت کے بیانات میں یہ پیغام واضح انداز میں سامنے آرہا ہے کہ: ’’اب تعمیر و ترقی کے بجاے پاکستان کے نام پر ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ووٹ بٹورنے ہیں‘‘۔
فی الحال بی جے پی ، اس کی ذیلی اور مربی تنظیمیں اتر پردیش کے ایودھیا شہر میں مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے ایک عوامی تحریک برپا کرنے کی سوچ بچار میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور معیشت کی بے حالی سے توجہ ہٹاکر ہندو ووٹروں کو ایک بار پھر جذباتی نعروں میں الجھا کر کامیابی کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔ پارلیمان کے موجودہ اجلاس سے قبل بی جے پی کے اراکین خم ٹھونک کر اعلان کر رہے تھے کہ: ’’اس سیشن میں قانون پاس کرواکر رام مندر کی تعمیر کا کام شروع کروایا جائے گا، کیوںکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی فوری سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے‘‘۔ شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ بی جے پی بھی اس قضیے کو سلجھانے کے بجاے عوامی جذبات کی بھٹی تپائے رکھنا چاہتی ہے۔
ہندی کے ایک معروف صحافی شتیلا سنگھ نے اپنی کتاب ایودھیا- رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازعے کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ: تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ انتہا پسند تحریک ’ویشوا ہندو پریشد‘(VHP) کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی اور سرپرست تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو دیورس کا کہنا تھا:’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی تعمیر کی فکر چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندوؤں میں اُبھار پکڑتی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہی مفید ہوگا‘‘۔ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو پھر فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سلگا کر اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔
جہاں دیدہ تجزیہ کاروں کے مطابق بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے چھے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، دوسرا ۱۹۲۰ء میں گاندھی جی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور ’سوراج‘ [آزادی] کا مطالبہ، تیسرا ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ، اور چھٹا ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام، جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔
سچی بات ہے کہ بابری مسجدکی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا، مگر اس کے باوجود آج تک بھارت کو ایک سیکولر اور لبرل ملک کے طور پر مغرب میں پذیرائی حاصل ہے۔ اعتبار کی رہی سہی کسر ۳۰ دسمبر ۲۰۱۰ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے اس وقت پوری کر دی، جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اس نے قانون اور شواہد کو بالاے طاق رکھ کر، ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بنا کر بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنا دیا۔ بنچ کے ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ پھر بنچ نے آگے بڑھ کر ان نکات پر بھی فیصلہ دیا جو بحث میں شامل ہی نہ تھے۔
یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ ۱۹۴۹ء میں جب چند فتنہ پرور افراد نے مسجد کے منبر پر مورتی رکھ دی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسجد میں مسلمانوںکے عبادت کرنے پر پابندی لگادی، تو مقامی ’وقف بورڈ‘ اور ایک ذمہ دار فرد ہاشم انصاری نے اس کے خلاف عدالت میں فریاد کی کہ: ’’اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے‘‘۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ:’’ Law of Limitations [قانونِ تحدید]کا اطلاق ہندو دیوی دیوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں موجود ہوں‘‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ کسی بھی جگہ پر اگر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتلا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں کیوں نہ صدیوں سے مقیم ہو۔
اس فیصلے کا اعتبار اس وقت اور بھی زیادہ مضحکہ خیز ہو جاتا ہے، جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کرلیا کہ: ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا تھا، جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘ اور یہ بھی کہا کہ: ’’ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح، اسی جگہ پر موجود تھے‘‘۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثار ابھی تک نہیں ملے ہیں۔ پھر ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں سیاق و سباق کے برعکس مسلم حکمرانوں کے خلاف ایک لمبا چوڑا تبصرہ بھی تحریر کر ڈالا ہے اور ان کے دور میں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا ہے۔
اگر یہ بات درست مان لی جاتی ہے تو پھر ہندو حکمرانوں کے ہاتھوں لاتعداد بدھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے گی؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے جنوبی کشمیر کے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو بے دریغ تہہ تیغ کر دیا (جب کہ اس سے قبل ہندوئوں نے بڑے پیمانے پر جین مت اور بدھ مت کے مندروں کو توڑا، برباد کیا تھا)۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا، کیوںکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی ہوگی، جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی (ہم یہاں ان کہاوتوں، قصوں اور کہانیوں کی تصدیق کی بات نہیں کر رہے، محض انھیں دُہراتے رہنے کی بات کر رہے ہیں)، مگر اب آباواجداد کے گناہوںکی سزا سیکڑوں برس بعد ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔
۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی، جس پر ابھی راے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ ۷جولائی کو سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب اس جارحانہ اور حددرجہ اشتعال انگیز اقدام پر تاریخی بادشاہی مسجد لاہور سے مسلمانوں نے ۲۰جولائی احتجاجی جلوس نکالا تو ایک درجن سے زیادہ مسلمان مظاہرین کو پولیس نے گولیوں کی بوچھاڑ سے شہید کردیا۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اے جی نورانی کے بقول: ’قائد اعظم محمد علی جناح نے اس تجویز کو رد کر دیا ‘۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی صاحب کا کہناہے کہ: ’’انھوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا‘‘۔
پاکستان بننے کے ۷۲سال بعد آج بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں موجود ہے،جب کہ شاید ہی اب کوئی سکھ اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاست دان یا پاکستان کی کسی مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی [طرفہ تماشا دیکھیے کہ سیکولر، لبرل مخلوق پاکستان ہی کو عدم برداشت کا طعنہ دیتی ہے]۔ اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجاے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریہ زندگی قرار دے ڈالا ہے۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر اور گولوالکر کی تصانیف کے بجاے ’روشن خیال‘ مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کر کے ہندو انتہا پسندی کو جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی بابری مسجد مسمارکرنے کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجاے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند نظر آئے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے ان کی فکری خدمات کے اعتراف میں انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔
اے جی نورانی صاحب نے اس موضوع پر اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour (بابری مسجد کا انہدام: قومی روسیاہی)میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’کانگریس کے اندرا گاندھی دورِ اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ویشوا ہندو پریشد کے ساتھ سازباز ہوگئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس کو پھر زندہ کیا۔تاہم ، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی‘‘۔
مصنف کے بقول: ’’انھوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیے کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجاے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے، تاکہ پریشد کے ساتھ معاملہ فہمی کو آگے بڑھایا جاسکے، اور پھر یہی ہوا۔کانگریس کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، ان سبھی کا رویہ افسوس ناک رہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں نے ،جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں، جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا‘‘۔