اللہ تبارک وتعالیٰ نے خاتم الانبیا سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو قرآنِ کریم میں’خیر الامم‘ یعنی سب سے بہترین امت اور ’اُمَّتِ وَسَط‘کا لقب عطا فرمایاہے۔ ’وَسَط‘ کے معنی ہیں: ’’(عقیدہ وعمل میں)اعتدال اور توازن پر قائم رہنے والا،جو غُلُوّ اور افراط وتفریط سے پاک ہو۔ مفسّرین کرام نے ’وَسَط‘کا ایک معنی بہترین اور افضل امت بتایا ہے۔ اس اعتبار سے ’خیرالامم‘ اور ’وَسَطُ الامم‘ ہم معنی کلمات ہیں۔
قرآنِ کریم نے جہاں اس امت کو ’خیرالامم‘ کے اعزاز سے نوازا ہے ،وہاںاس کے فرائض بھی بیان فرمائے ہیں، ارشاد فرمایا: ’’جو امتیں لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہیں، تم ان میں سب سے بہترین امت ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، (اٰل عمران۳:۱۱۰)‘‘۔
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا ،دین کی تکمیل اور اتمامِ نعمت کا اعلان فرمایااور آپؐ کوسلسلۂ نبوت ورسالت کا آخری تاج دار بنایا۔ آپؐ سے پہلے یکے بعد دیگرے انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لاتے رہے اور راہِ راست سے بھٹکی ہوئی اپنی امتوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ درمیان میںانقطاعِ نبوت کے اَدوار بھی آئے۔ ان اَدوار میں انبیائے کرامؑ کی تعلیمات بھلادی گئیں ، اُن میں تحریف کردی گئی یا انھیں مسخ کردیا گیا، تو دین وشریعت کو اپنی اصل شکل پر بحال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرامؑ بھیجے۔ مگر چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکسی نبی اور رسول کے آنے کا امکان ختم کردیا گیا، اس لیے تجدید واِحیاء اور ابلاغِ دین کی ذمے داری کو آپؐ کی امت کی طرف منتقل فرمادیا۔
آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام حاضرین سے اس بات کا اقرارلیا کہ آپؐ نے دین کو بکمال وتمام امت تک پہنچادیا ہے۔پھر یہ فریضہ امت کو منتقل کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: (۱)’’جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ دین کے اس پیغام کو اُن تک پہنچادیں جو یہاں پر موجود نہیں ہیں، (بخاری:۱۰۴)‘‘، (۲)’’مجھ سے تم نے جو امانتِ دین حاصل کی ہے، اُسے دوسروں تک پہنچادو ،خواہ ایک آیت ہی ہو، (صحیح البخاری:۳۴۶۱)‘‘۔
اسلام نے دعوتِ حق کا فریضہ بحیثیتِ مجموعی امتِ مسلمہ کو فرضِ کفایہ کے طور پر تفویض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے، جوبھلائی کی طرف بلائے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ کامیاب ہیں، (اٰل عمران۳:۱۰۴)‘‘۔ فرضِ کفایہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر ایک جماعت دعوتِ حق کے اس فریضے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو تو باقی لوگ بری الذمہ ہیں ، ایساہرگز نہیں ہے۔ ہر ایک اپنے دائرۂ کار واختیار کی حد تک جواب دہ رہے گا۔حدیث پاک میں ہے:
اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام نے کہاہے:’’ برائی کو طاقت سے روکناہر عہد کے حکمرانوں کی (درجہ بدرجہ )ذمے داری ہے۔ برائی کے خلاف زبان وقلم سے صدائے احتجاج بلند کرنا اہلِ علم کی ذمے داری ہے اور اگر کوئی اس کی بھی استطاعت نہ رکھے تو برائی کو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔ حدیث پاک میں اسے ’اَضْعَفُ الْاِیْمَان‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس پر بعض حضرات سوال اٹھاتے ہیں: ’’جب کوئی شخص نہ طاقت سے برائی کو روکنے کی قدرت رکھتا ہے،نہ زبان سے صدائے احتجاج بلند کرسکتا ہے، تو اس میں اس کا کیا قصور ہے کہ اُس کے ایمان کادرجہ کمزور ترین بتایا گیا ہے،جب کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی بات کے لیے جواب دہ نہیں بناتا، (البقرہ۲:۲۸۶)‘‘۔
اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے :’’اس میں مختلف حالات کی طرف اشارہ ہے : کبھی حالات دعوتِ حق کے لیے سازگار ہوتے ہیں اور برائی کو ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے۔کبھی ایسے ہوتے ہیں کہ برائی کوہاتھ سے تونہیں روکا جاسکتا، لیکن زبان وقلم سے صدائے احتجاج بلند کی جاسکتی ہے، اورکبھی دین کے لیے حالات اتنے مشکل ہوجاتے ہیں کہ برائی کو نہ ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے اور نہ زبان سے صدائے احتجاج بلند کی جاسکتی ہے،توایسے حالات میں لوگ اس بات کے مکلّف ہوں گے کہ دل سے برائی سے نفرت کریں اور اپنا دامن برائی سے بچائے رکھیں۔ایسے حالات کو اَضْعَفُ الْاِیْمَان سے تعبیر کیا گیا ہے،الغرض یہ تین درجے (اقویٰ، اوسط اوراضعف)تین قسم کے حالات سے متعلق ہیں اور انسان اپنے حسبِ حال ہی دین کے لیے کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ حالات کسی کو اَضْعَفُ الْاِیْمَان کے درجے کو پہنچادیں تواس میں اس کا ذاتی قصور کوئی نہیں ہے‘‘۔
کلمۂ حق بلند کرنے کی قدرت کے باوجود لاتعلق رہنے والوں کے لیے ،خواہ وہ اپنی ذات میں پارسا ہی کیوں نہ ہوں، حدیث پاک میں وعید آئی ہے:
’’حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ حضرت جبریلؑ کو حکم فرماتا ہے : ’’فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو ‘‘۔ جبریل امینؑ عرض کرتے ہیں :’’ پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی ) بندہ ہے ، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی(اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟)‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:’’ اُس سمیت اِس بستی کو الٹ دو ، کیونکہ میری ذات کی خاطر اس کا چہرہ کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوا(شعب الایمان:۷۱۸۹)‘‘۔
حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں ، مُنکَرات کا چلن عام رہا، لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی تدبیر تو دور کی بات ہے ، حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پرکبھی اس کی جبین پر شکن بھی نہیں آئی۔وہ صرف اپنی عبادت اور ذکرواذکار میں مشغول رہا ، اپنے حال میں مست رہا، برائیوں کو مٹانے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔
الغرض ’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘کے فلسفے کی شریعت میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ہرایک حسبِ استطاعت اور حسبِ حال امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا پابند ہے، حدیث پاک میں ہے:
ابواُمیّہ شعبانی بیان کرتے ہیں، میں ابوثعلبہ خُشَنی کے پاس آیا اور میں نے اُن سے کہا: ’’اس آیت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’کون سی آیت؟‘‘، میں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے مومنو! اپنی فکر کرو ،اگر تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمھیں نقصان نہیں پہنچائے گی(المائدہ۵:۱۰۵)‘‘، [دراصل، سائل کو شبہہ تھا کہ امت کی ذمہ داری تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے، ہمیں توپوری انسانیت کو بچانے کی تدبیر کرنا ہے اورآیت کا ظاہری مفہوم یہ پیغام دے رہا ہے: ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘]۔ انھوں نے جواب دیا:’’ میں نے اس کی بابت سب سے زیادہ باخبر شخصیت، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاتھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلکہ تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے رہو،حتیٰ کہ ایسا وقت آجائے کہ تم دیکھوکہ بخیل کا حکم مانا جارہا ہے ، خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جارہی ہے، دنیا کو دین پرترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے۔ (تو یہ مشکل وقت ہے ، پس ایسے وقت میں) اپنے دین کو بچانے کی فکر کرو اور عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ اب تمھارے پیچھے اتنے مشکل دن ہیں کہ گویا آگ کی چنگاری کو مٹھی میں لینا۔ ایسے ایام میں جو خیر پر قائم رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر اجر ملے گاجو تم جیسا کام کریں۔ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں، ایک روایت میں ہے: عرض کیا گیا: یارسول اللہ!ہمارے پچاس افراد کے برابر یا اُس دور کے پچاس افراد کے برابر(اجر ملے گا)، آپؐ نے فرمایا: تمھارے پچاس افراد کے برابر، (سنن ترمذی:۳۰۵۸)‘‘۔
اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ممکن ہو، دعوتِ حق کے فریضے کو ادا کرتے رہنا چاہیے، سوائے اس کے کہ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ دعوتِ حق کا فریضہ ادا کرنا عملاً ناممکن یا مشکل ترین ہوجائے۔پس، ایسے حالات میں اپنے دین کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے ،کیونکہ جب حالات بندے کے بس سے باہر ہوجائیں تو اُس سے اُن کے بارے میں جواب طلبی نہیں ہوگی۔
دعوتِ حق کی تاثیر میں داعی کی اپنی بے عملی اور دوغلا پن، یعنی قول وفعل کا تضاد بھی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلادیتے ہو، حالانکہ تم کتابِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہو، تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو، (البقرہ۲:۴۴)‘‘۔
نیز فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو خود نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے، (الصف۶۱:۲-۳)‘‘۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے:
اہلِ کتاب کے علماء میں قول وفعل کے تضاد کی خرابی رچ بس گئی تھی ،جسے قرآنِ کریم نے مندرجہ بالا آیات میں بیان فرمایا ہے، بلکہ اُن کی خرابی اس سے بھی کئی درجے بڑھ کر تھی۔ حدیث پاک میں ہے:
سورۃ المائدہ کی مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ یہ ہے:’’بنی اسرائیل میں سے جنھوں نے کفر کیا، اُن پر دائودؑ اور عیسیٰؑ ابنِ مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیونکہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔ وہ جو بُرا کام کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے، یقینا وہ بہت بُر ے کام کرتے تھے، (المائدہ۵:۷۸-۷۹)‘‘۔
قرآنِ کریم میں مسلمانوں کا شعار یہ بیان کیا گیا ہے: ’’مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائی سے منع کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب اور عظیم حکمت والا ہے، (التوبہ۹:۷۱)‘‘۔ جہاں دعوتِ حق میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے والے اہلِ ایمان کی تعریف کی گئی ہے، وہاں حدیث پاک میں اس فریضے سے لا تعلق رہنے والوں کے بارے میں شدید وعید بھی آئی ہے:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے لا تعلق رہنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر دعوتِ حق کے فریضے سے وہ اسی طرح غافل رہے اور قوم کی بداعمالیوں کا نتیجہ کسی وبال کی صورت میں نازل ہوا ، تو وہ بھی اس سے بچ نہیں سکیں گے، حدیث پاک میںہے:
ہمارے ہاں تقسیمِ کار کردی گئی ہے۔حق کی دعوت دینے والوں کا ایک طبقہ وہ ہے، جنھوں نے اپنے لیے آسان راستہ چنا ہے کہ عبادات کی ترغیب دے کر انفرادی اصلاح کا فریضہ انجام دیا جائے اورخلافِ شرع نظام کو چیلنج نہ کیا جائے۔یہ نظام چلانے والوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہے ۔ یہ کام غیر مسلم ممالک میں بھی ہورہا ہے اور معاشرے کے با اثر طبقات ایسے لوگوں کی تحسین کرتے ہیں کہ یہ کسی سے اُلجھتے نہیں ہیں، نظام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ، بس بے ضرر انداز میں دعوتِ حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، لہٰذا حسّاس اداروں میں بھی ان کے لیے گنجایش رکھی جاتی ہے۔
دراصل مشکل کام ’نہی عن المنَکر‘یعنی برائی سے روکنے کا ہے۔قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’بے شک اللہ عدل واحسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور تمھیں بے حیائی ، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو، (النحل۱۶:۹۰)‘‘۔
برائی سے روکنا حکمران ،بالادست ،مرفّہ الحال اور عیش پرست طبقات کو براہِ راست چیلنج کرنا ہے ، جو انھیں ہرگز پسند نہیں ہے اور اسی لیے اس کی مزاحمت کی جاتی ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام بھی جب اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے تو اُن کی دعوتِ حق میں بھی سدِّراہ یہی طبقات بنے، جو حالات کو جوں کے توں رکھنے کے علَم بردار تھے۔ قرآن کریم نے انھیں ’مُتْرَفِیْن‘ سے بھی تعبیر کیا ہے ۔اس سے مراد وہ آسودہ حال طبقات ہیںجو اپنی راحتوں اور عشرتوں سے دست بردار ہونے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے اور آخری حد تک مزاحمت کرتے ہیں۔ ہردور میں ان کی روش یہی رہی ہے۔اس لیے دعوتِ حق کا یہ شعبہ نہایت مشکل ہے ۔ یہ عزیمت کا تقاضا کرتا ہے اور اہلِ عزیمت ہر دور میں کم رہے ہیں۔ مگررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے روشنی لینے اور آپؐ سے وابستگی کا دعویٰ کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ دعوتِ حق پر عمل کیا جائے، دعوتِ حق کو پھیلایا جائے، اور منکرات کو روکنے کے لیے اپنی صلاحیت، قوت اور مواقع کے مطابق ذمہ داری ادا کی جائے۔