تحریک ِ اسلامی کے سرگرم کارکن نثار احمد عابد کے ۳۲ مختصر مضامین میں خاصا تنوع ہے۔ دس عنوانات (ایمانیات، کتاب و سنت کی پیروی، اسوئہ رسولؐ، عبادات، قرآنیات، اقامت ِ دین، حقوق العباد وغیرہ) کے تحت مختلف موضوعات پر دو دو، چار چار صفحے کی یہ تحریریں کویت کے اخبار عرب ٹائمز کے اُردو حصے میں شائع ہوتی رہیں۔ مستند اور ٹھوس معلومات پر مبنی مؤثر مضامین ہیں۔ بقول حافظ محمد ادریس: ’’کتاب کا ہرمضمون ایمان افروز اور سبق آموز ہے‘‘۔
دیباچے میں مصنّف کہتے ہیں: ’’اگر کسی ایک مضمون سے بھی کسی ایک فرد کا قبلہ درست ہوگیا اور وہ اسلام کی طرف مائل ہوا تو میں اسے اپنے لیے ایک بہت بڑی سعادت اور توشۂ آخرت سمجھوں گا‘‘۔ طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے (رفیع الدین ہاشمی)۔
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آبادکی شریعہ فیکلٹی میں فقہ اور بین الاقوامی قانون پر گہری نظر رکھنے والے محنتی استاد اور محقق ہیں۔ ان میں قابلِ قدر صلاحیت یہ ہے کہ تحقیق اور اظہارِ بیان میں وہ کسی مصلحت کے اسیر نہیں۔ دینی مآخذ اور فہم کے تحت جو درست سمجھتے ہیں، حاضرو موجود کی پروا کیے بغیر لکھتے اور نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
زیرنظر بظاہر ایک مختصر کتاب ہے ، لیکن امرواقعہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے جملہ پہلوئوں پر بہت پھیلی، گہری اور گھمبیر صورتِ حال کو حددرجہ جامعیت اور اختصار سے مسئلے کی اہمیت کو پیش کیا ہے اور انسانیت کی ذمہ داری کو واشگاف لفظوں میں بیان کیا ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں مسئلہ فلسطین سے متعلق مغالطوں کا مؤثر تجزیہ کیا ہے۔ دینی حوالے سے بڑی خوبی سے استدلال کیا ہے۔ خاص طور پر پرانے منکرینِ حدیث اور نئے منکرینِ حدیث کی جانب سے صہیونیت نوازی اور فلسطین پر اسرائیل کے نوآبادیاتی قبضے کی تائید میں لکھی گئی داستان سرائی کا مدلل محاکمہ کیا ہے۔ دوسرے حصے میں مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی قانون اور عالمی رائے عام کی روشنی میں پرکھا ہے، اور تیسرے حصے میں فلسطینی جدوجہد آزادی کی تمام سطحوں کا نہایت اعلیٰ درجے پر تجزیہ کرکے حقیقت بیانی سے کام لیا ہے۔
کتاب کے ناشر اور نوجوان محقق مراد علی علوی نے خوش ذوقی سے اسے شائع کیا ہے، جب کہ ممتاز قانون دان اور دانش وَر جناب آصف محمود نے کتاب کا مؤثر تعارف لکھا ہے۔ یہ کتاب حق رکھتی ہے کہ اسے توجہ سے پڑھا جائے۔(س م خ)
جناب خورشیدرضوی اِس وقت اُردو دُنیا کے تین چار چوٹی کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک بلندپایہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے نثرنگار بھی ہیں۔ وہ عربی فارسی، انگریزی اُردو اور پنجابی زبانوں پر اچھی دسترس رکھتے ہیں۔
زیرنظر کتاب ان کے طویل اور مختصر شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ بقول مصنف: ’’یہ تحریریں چالیس سال کی قلم فرسائی پر مشتمل ہیں‘‘۔جن میں اُردو اور عربی زبان و ادب کے نام وَر ادیب، شاعر اور محقق شامل ہیں جیسے مولانا روحی، اختر شیرانی، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، علّامہ عبدالعزیز میمن، پیرمحمد حسن، انتظار حسین، ناصر کاظمی، مشفق خواجہ، منیرنیازی، محمدکاظم اور انور مسعود ، نیرواسطی___ ان کے ساتھ کچھ نسبتاً غیرمعروف اصحاب کو بھی یاد کیا ہے۔
بعض خاکوں میں دل چسپ باتیں اور واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ معروف مستشرق مارگولیتھ لاہور آیا اور اسلامیہ کالج بھی گیا۔ مولانا روحی کی کلاس میں اس وقت آیا جب مولانا لیکچر دے رہے تھے۔ انھوں نے ڈائس کے اُوپر ہی سے کھڑے کھڑے مارگولیتھ سے ہاتھ ملا لیا۔ بعد میں مولانا نے بتایا: ’’جو ہاتھ میں نے مارگولیتھ سے ملایا تھا، اُسی وقت جا کر دھو لیا تھا‘‘ (ص۲)۔
ایک دلچسپ واقعہ یہ درج ہے کہ مولانا روحی کے فرزند صوفی ضیاء الحق کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا ممتحن کوئی انگریز مستشرق تھا، جس نے زبانی امتحان کے لیے انھیں لندن طلب کیا تھا۔ مولانا روحی نے بیٹے کو لندن جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا اور صوفی صاحب نے والدصاحب کی اجازت کے بغیر سفر کا ارادہ ترک کردیا۔ پھر کچھ خیرخواہوں کی کوششوں سے مولانا روحی نے دوشرائط کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی:
اوّل، ضیاء الحق ہوائی جہاز سے جائے اور انٹرویو کے بعد فی الفور اوّلین ممکنہ پرواز سے واپس آجائے۔ دوم: اپنا کھانا یہیں سے باندھ کر لے جائے اور دیارِ فرنگ سے نہ کچھ کھائے، نہ پیے۔
صوفی صاحب نے کراچی سے کچھ ٹوسٹ وغیرہ لے کر ٹفن میں بند کرلیے اور والد صاحب کی ہدایت کے مطابق ہوائی جہاز سے لندن پہنچتے ہی ہوائی اڈے سے سیدھے ممتحن کے ہاں چلے گئے۔ ممتحن انٹرویو سے بہت مطمئن تھا۔اس نے پوچھا: لندن میں کب تک قیام ہے؟ بتایا کہ آیندہ پرواز سے واپسی ہے تو اُسے سخت حیرت ہوئی۔ ابھی ایک گھنٹے کے لگ بھگ وقت کی گنجایش تھی۔ ممتحن نے پوچھا: یہ وقت کہاں گزاریں گے؟ صوفی صاحب نے کہا: برٹش میوزیم لائبریری میں۔ چنانچہ وہاں گئے اور تھوڑا سا وقت وہاں گزار کرہوائی اڈّے چلے گئے۔ (ص۴۳)
خورشیدرضوی صاحب کا حافظہ بہت اچھا اور یادداشت مضبوط ہے۔ اس لیے انھوں نے دوستوں کے اُردو،انگریزی جملے تک خاکوں میں لکھ دیے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے اسلوب میں تازگی اور شگفتگی نے خاکوں کو دلچسپ بنا دیا ہے۔
ناشر نے کتاب خوب صورت انداز میں چھاپی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ڈاکٹر غلام جیلانی برق [۲۶؍اکتوبر ۱۹۰۱ء- ۱۲مارچ ۱۹۸۵ء] پنجاب کے دُور افتادہ ضلع اٹک کے نواح میں واقع ایک پس ماندہ گائوں کے رہنے والے تھے۔ غریب گھرانا تھا، مگر والدین نے اپنا اثاثہ (زمین، مویشی اور کچھ سامان) بیچ کر بیٹے کو تعلیم دلوائی۔ وہ ایک سکول میں مدرس ہوگئے۔ اسی دوران وہ اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرلی۔ محکمہ تعلیم کی سرکاری نوکری مل گئی۔ کئی برس ہوشیار پور کے کالج میں پڑھاتے رہے۔ پھر کیمبل پور کالج میں آگئے۔ امام ابن تیمیہ ؒ پر کام کرتے ہوئے انھوں نے مولانا غلام رسول مہر [۱۳؍اپریل ۱۸۹۵ء- ۱۶نومبر ۱۹۷۱ء]سے بذریعہ خط کتابت رابطہ کیا۔ پھر وہ اپنی رہنمائی کے لیے مہرصاحب کو برابر خط لکھتے رہے۔ خطوں کا زمانۂ تحریر ۱۹۳۸ء تا ۱۹۶۸ء ہے۔ مہرصاحب حتی المقدور، برق صاحب کی راہ نمائی اور مدد کرتے رہے۔
برق صاحب کے بیش تر تفصیلی خطوط ان دنوں کے ہیں، جب وہ سرکاری ملازمت میں ترقی کے جائز حق میں مشکلات اور رکاوٹیں پیش آنے پر شدید کرب کا شکار تھے۔وہ بار بار مہرصاحب کو بتاتے ہیں کہ ایک ہی کالج میں یکساں ڈگری رکھنے والے ہندو اساتذہ کو، بہ نسبت مسلمان اساتذہ کے، زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کے گریڈ بھی بہتر ہیں۔ بااثر ہندو اور سکھ ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر میں ہندو یا سکھ ہوتا تو سندرسنگھ، منوہر لال، چھوٹورام اور مکند لال پوری میرے پشت پناہ ہوتے‘‘ (ص ۹۶)۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’میں ایک غریب و بے نوا والد کے گھر پیدا ہوا کہ جو اَن پڑھ بھی تھا اور ہمارے علم نوازاور قدر شناس وزرا کے ہاں استحقاق کا معیار صرف نسلی تفوّق ہے۔ ٹوانہ خاندان کا میٹرک پاس کم از کم تحصیل دار بھرتی ہوگا۔ سر سکندر خان کے چند لڑکے جو چار چار بار بی اے میں فیل ہوئے تھے، بلامقابلہ EAC (ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر) و تحصیل داری میں لیے گئے۔ میرا سوٹ کیس علمی ڈگریوں سے بھر گیا ہے ‘‘ (ص ۹۵)۔
خطوں کا یہ مجموعہ اُردو خط نگاری کے ذخیرے میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ اُمید ہے علوی صاحب، مہر صاحب کے نام دیگر شخصیات کے مکاتیب بھی اسی انداز میں منظرعام پر لائیں گے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مصنف میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔حالیہ دنوں میں منصورہ ٹیچنگ ہسپتال کے منتظم اعلیٰ (C.E) کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی دلچسپی سیروسیاحت اور وابستگی قلم و قرطاس سے رہی ہے۔ دس بارہ تحقیقی و تجزیاتی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر کتاب موصوف کی ایسی متفرق مطبوعہ و غیرمطبوعہ تحریروں کا منتخب مجموعہ ہے۔
موضوعات متنوع ہیں ، سیاسی (الیکشن کمیشن کا فیصلہ، ۱۹۶۲ءکے انتخابات، ہمارا بلدیاتی نظام وغیرہ)، مذہبیات (کوچۂ سیاست اور مذہبی جماعتیں، دورِحاضر میں علماء کا وقار وغیرہ)، تہذیب و معاشرت (طلبہ و اخلاقی انحطاط کے عوامل اور ان کا علاج، صفائی اور پاکیزگی وغیرہ)، دین و دانش (تصوف اور تاریخ کی حقیقت، اُردو اور ہم، تعلیم کی اہمیت وغیرہ)۔ کتابیں میری نظر میں (اشاریہ تدبرقرآن، سوانح حیات مولانا حسین علی، حیاتِ سیّدنا معاویہؓ کے ناقدین وغیرہ)، پہاڑی کے چراغ (بعض شخصیات، مولانا امین احسن اصلاحی، محبوب سبحانی، محمدعالم مختارحق وغیرہ)۔ متفرقات میں سفرنامے، مکاتیب، صحت ِ عامہ وغیرہ شامل ہیں۔ حصہ انگریزی، چند مضامین اور مراسلوں پر مشتمل ہے۔
ان کی تحریر کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے مسائل کی نشان دہی اور ان پر تنقید ہی نہیں کی بلکہ تجزیہ بھی کیا اور امکانی حل پیش کیا، یوں ان تحریروں سے قارئین کو راہ نمائی بھی ملتی ہے۔
ڈاکٹر بگوی صاحب سادہ اور رواں دواں نثر لکھتے ہیں۔ علمی و مذہبی موضوعات پر بھی ان کا قلم کہیں اٹکتا نہیں۔ حسب ِ ضرورت انگریزی مترادفات کا استعمال ملتا ہے۔ طبّی اور انتظامی مصروفیات کے باوجود نوشت و خواند اور قلم و قرطاس سے رشتہ قائم رکھنا، ایک قابلِ قدر خوبی ہے۔
قارئین قلم قتلے کو ایک دلچسپ اورمعلومات افزا کتاب پائیںگے۔(رفیع الدین ہاشمی)
کتاب کے مرتب ایک ہائی اسکول میںاستاد رہے ہیں۔ انھوں نے دینی، اخلاقی، سماجی اور تاریخی حوالوں سے تربیت دینے کے لیے، بیسیوں کتب سے جو واقعات اخذ کرکے اپنے طالب علموں کو سنائے اور انھیں مؤثر پایا، یہ کتاب اُنھی اقتباسات پر مشتمل ہے۔ جو ایک قیمتی کتاب کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ (س م خ)