شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْـرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۰ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ۱۳ (الشوریٰ ۴۲:۱۳) اُس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰی ؑ کو دے چکےہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمدؐ) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔
یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کرکے اسے سمجھا جائے۔
فرمایا کہ شَرَعَ لَكُمْ ’’مقررکیا تمھارے لیے‘‘۔شرع کے لغوی معنی ’راستہ بنانے‘ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد ’طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا‘ ہے۔ عربی زبان میں اسی اصطلاحی معنی کے لحاظ سے ’تشریع‘ کا لفظ قانون سازی (Legislation) کا، شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا اور ’شارع‘ کا لفظ واضع قانون (Law-Giver )کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریعِ خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ہے، اُن اصولی حقائق کا، جو اُوپر آیت نمبر ۱، ۹ اور ۱۰ میں بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہرچیز کا مالک ہے، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو، اُس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے، اس لیے لامحالہ وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون وضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کردیا ہے۔
پھر فرمایا: مِّنَ الدِّيْنِ ،’’ازقسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے اس کا ترجمہ ’’از آئین‘‘ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے۔ لفظ ’’دین‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پہلے سورئہ زمر، حاشیہ نمبر۳ میں کرچکے ہیں، وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی اُلجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کرکے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مُطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ و نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا، وہ دراصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔
اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح ، ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اُسی کی ہدایت اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہِ راست ہرانسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کرکے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اُس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ اُن لوگوں کی رسالت کو ماننا جن کے ذریعے یہ تشریع بھیجی گئی ہے اور اُس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے، اِس دین کا لازمی جز ہے، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جُز ہونا چاہیے، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند (Authentic ) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاءؑ کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے ’’قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے ’’قائم رکھو دین کو‘‘۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہوجائے یا پہلے سے قائم ہو، وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اُس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہوچکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنا پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔
اب ہمارے سامنے دو سوالات آئے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اُٹھانا ہوتا ہے، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اُٹھانا یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کرکے اسے بلند کرنا ہوتا ہے، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا۔ لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں اُن کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد اُس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کماحقہٗ عمل درآمد کرنا، اسے رواج دینا اور اُسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کرلیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کردی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جارہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآنِ مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت وتبلیغ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود اداکرو، بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہلِ ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہوجائے۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑجائے۔
اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں، بلکہ یہ بھی تھی کہ جب لوگ اسے تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورے کا پورا دین اُن میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل درآمد ہونے لگے اور ہوتا رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آسکتا۔ لیکن ہر صاحب ِ عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت وتبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے۔کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاءؑ کے مشن کا مقصد وحید قرار دے بیٹھے۔
اب دوسرے سوال کو لیجیے۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا۔ اس لیے انھوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ لامحالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے، اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہوکر سینٹ پال نے دین بلاشریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی اُمت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو ، تو لامحالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیراہم اور اس کی اقامت کو غیرمقصود بالذات سمجھ کر نظرانداز کردیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کو لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے، آیا اس سے مرا د صرف ایمانیات اور چند بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں یا شرعی احکام بھی۔
دین کیا ہـے؟
قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں:
۱- وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۵(البینہ ۹۸:۵) اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہوکر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی راست رو ملّت کا دین ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہیئت، یہی اس کے اجزا ، یہی اس کی رکعتیں، یہی اس کا قبلہ، یہی اُس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔
۲- حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ …اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ …(المائدہ ۵:۳)’’تمھارے لیے حرام کیا گیا مُردار، خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلاگھٹ کر، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے ، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا…‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکامِ شریعت بھی دین ہی ہیں۔
۳- قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ (التوبہ ۹:۲۹)’’جنگ کرو اُن لوگوں سے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے‘‘۔
معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور اُن کی پابندی کرنا بھی دین ہے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیئے ہیں۔
۴- اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ۰۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِيْ دِيْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۚ (النور ۲۴:۲) ’’زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاہُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ (یوسف۱۲:۷۶) ’’یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔
یہ چارتو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظِ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنّم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خوری، قتلِ مومن، یتیم کا مال کھانا، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا، وغیرہ) اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عملِ قومِ لوط اور لین دین میں قومِ شعیبؑ کا رویّہ) اُ ن کا سدِّباب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے، اس لیے کہ دین اگر جہنّم اور عذابِ الٰہی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکامِ شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خُلود فی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے، مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۰۠ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۱۴ۧ (النساء۴: ۱۴) ’’جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اُس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رُسوا کن عذاب ہے‘‘۔ اسی طرح جن چیزوں کی حُرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حُرمت، شراب کی حُرمت، چوری کی حُرمت، جوئے کی حرمت، جھوٹی شہادت کی حُرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت ِ دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیرضروری احکام بھی دے دیئے ہیں جن کا اِجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے، مثلاً روزہ اور حج، اُن کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامتِ دین سے خارج نہیں کیا جاسکتا کہ رمضان کے ۳۰ روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے، اور کعبے کا حج تو صرف اُس شریعت میں تھا جو اولادِ ابراہیم ؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔
دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے ہوئی ہے کہ آیت لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا (ہم نے تم میں سے ہراُمت کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کردی) کا اُلٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیئے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہراُمت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاءؑ کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت ِ دین کے حکم میں اقامت ِ شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ درحقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل برعکس ہے۔
سورئہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت ۴۱ سے آیت ۵۰ تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبیؐ کی اُمت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی، وہ اُس اُمت کے لیے دین تھی اور اُس کے دورِ نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی اور اب چونکہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دورِ نبوت ہے اس لیے اُمت محمدیہؐ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اِس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوںمیں فرض رہی ہے، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہرشریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے ۳۰ روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت ِ دین میں شامل ہے، مگر ایک خاص طریقے سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہرنبی کی اُمت کے لیے اُس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے، انھی کے مطابق اُس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت ِ دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہؐ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انھیں ادا کیا جائے۔ انھی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکامِ شریعت کو بھی قیاس کرلیجیے۔
قرآنِ مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفراور کفّار کی رعیت فرض کرکے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اپنے پیروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دینِ حق کو فکری ، اخلاقی، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جاسکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔
یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّـآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۰ۭ(النساء۴: ۱۰۵) ’’اے نبیؐ ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اُس روشنی میں جو اللہ نے تمھیں دکھائی ہے‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیئے گئے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کرکے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ ۹: ۶۰،۱۰۳)۔اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سودخواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلانِ جنگ کیا گیا ہے (البقرہ ۲:۲۷۵- ۲۷۹)، وہ اسی صورت میں رُوبہ عمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہلِ ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ ۲:۱۷۸)، چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ ۵:۳۸) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور ۲۴: ۲-۴)، اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفّار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ اس کتاب میں کفّار سے قتال کا حکم (البقرہ ۲: ۱۹۰-۲۱۶)یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا ہے کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوجی بھرتی کرکے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا حکم (التوبہ ۹:۲۹)اس مفروصے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے اُن سے جزیہ وصول کریں گے اور اُن کی حفاظت کا ذمّہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکّی سورتوں میں بھی دیدئہ بینا کو علانیہ یہ نظر آسکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہلِ دین کے ذمّی بن کر رہنے کا....
سب سے بڑھ کر جس چیزسے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان کام ہے، جو حضوؐر نے ۲۳برس کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپؐ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اُس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق ، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔
اگر حضوؐر کے اس پورے کام کو ’اقامت دین‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپؐ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہوسکتے ہیں۔
یا تو معاذ اللہ، حضوؐر پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپؐ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے، مگر آپؐ نے اس سے تجاوزکرکے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بناڈالا جو شرائع انبیاءؑ کی قدرِ مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔
یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورئہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کرچکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہوگیا اور اس نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’اقامت دین‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کیا)، اعاذنا اللہ من ذٰلک۔ان دوصورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’اقامت ِ دین‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسولؐ پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔(تفہیم القرآن، چہارم، ص۴۸۶- ۴۹۲)