ہمارا گائوں مٹی اور پتھر کے استعمال سے بنے چند مکانات پر مشتمل، سڑک سے ڈیڑھ میل دُور تحصیل کرک (کوہاٹ) میں واقع ہے۔ اس کوہستانی اور ٹھنڈے علاقے کے گائوں سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مَیں یوپی کے مشہور شہر مراد آباد گیا۔ جہاں مدرسہ قاسم العلوم میں اچھے اچھے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ۔ وہاں پر مفتی محمود صاحب میرے ہم جماعت تھے۔
مولانا مودودی صاحب کا نام میں نے سب سے پہلے مراد آباد ہی میں اپنے ایک استاد محترم سے سنا تھا۔ یہ ہمارے ترمذی شریف کے استاد تھے مولانا حامد میاں صاحب !ذہنی طور پر جمعیتہ العلماء سے وابستہ تھے جو انڈین نیشنل کانگرس کی ہم نوا تھی۔ ایک دن پڑھاتے پڑھاتے انھوں نے کہا: ’’حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں ہی خلافت کو قائم نہ رکھ سکے، لیکن پنجاب میں ایک مولوی ابوالاعلیٰ مودودی ہے، جو کہتا ہے کہ پھر سے خلافتِ راشدہ کا نظام قائم کیا جائے حالانکہ وہ نظام قائم کرنا ناممکن ہے۔‘‘
یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے مولانا مودودی کا نام سنا، اور یہ تاثر لیا کہ یہ آدمی ضرور مخلص ہوگا، لیکن بے چارہ زمانے کو نہیں جانتا۔ کچھ عرصے بعد مجھے مولانا مودودی کا ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا، جس میں انھوں نے دستوری اور قانونی مسائل پر اظہار رائے کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ شخص نہ صرف زمانے سے واقف دکھائی دیتا ہے، بلکہ احساس ہوا کہ بہت زیادہ علم بھی رکھتا ہے۔ دل نے کہا کہ اگر ایسے شخص نے اسلامی نظام کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یقینا اس نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے ۔
پھر ایک روز مجھے مولانا عمل الدین کے بیٹے عبدالسلام کے ذریعے مولانا مودودی کی لکھی ہوئی کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش ،حصہ دوم مل گئی۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو اس کے مضامین کے مفہوم و معانی میں ڈوب گیا۔ یوں محسوس ہوا گویا صدیوں کے پیاسے کو سمندر کا کنارہ مل گیا ہے۔ مولانا مودودی کی ایک ایک بات دل میں اترتی چلی جاتی تھی۔ دل نے اقبال کی زبان میں بے اختیار کہا کہ:
یہ کون غزل خواں ہے پُر سوز و نشاط انگیز
اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز
اُن دنوں میں اپنے گائوں عیسک چونترہ کی مقامی مسجد میں ۲۵، ۲۵ طالب علموں کو درسِ نظامی کے سلسلے میں اسباق پڑھایا کرتا تھا۔ مولانا مودودی کی کتاب پڑھنے کے دوران میرے شاگردوں نے کہا ’’کھانا کھالیجیے‘‘۔ میں نے کہا ’’اب مجھے کچھ نہ کہو‘‘۔ انھوں نے کہا ’’چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے‘‘۔ میں نے کتاب پر سے نگاہیں ہٹائے بغیر کہا ’’ہونے دو‘‘۔ مجھے شروع سے ہی ٹھوس موضوعات سے دلچسپی تھی۔ کلاسیکی مرتبے کے مصنفوں کو پڑھا کرتا تھا اور گہرے سنجیدہ مطالعے کا ذوق تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مولانا مودودی کی باتیں دل میں ترازو ہو کر رہ گئیں۔ ان کے مضامین کا تحقیقی مواد، طرزِ استدلال کی دل نشینی ، انداز بیان کی سادگی وپرکاری اور معلومات کا سمندر مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ میں نے کتاب کو اوّل سے آخر تک پڑھا۔ یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنی زندگی کا سب سے اہم اور خوش گوار فکری سفر طے کر کے واپس اس دنیا میں لوٹا ہوں ۔
اخباربینی کا شوق دوسری جنگ عظیم کے باعث پروان چڑھا۔ میرے ایک شاگرد صالح جان نے بتایا کہ یہاں ایک ڈاکٹر صاحب کے ہاں اخبار کوثر آتا ہے۔ میں نے وہ اخبار پڑھنا شروع کیا، تو اُس میں مولانا مودودی کا تذکرہ ملا۔ اس پر میں نے اخبار کوثر کے ایڈیٹر نصراللہ خاں عزیز صاحب کو خط لکھا کہ ’’ہم تین چار آدمی سیّدمودودی کی اس کتاب سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ضلع کوہاٹ کے ان لوگوں کے نام بھیجیں ،جو آپ سے کوثر منگواتے ہیں، تاکہ ہم مل کر کام کر سکیں‘‘۔ انھوں نے اس خط کی نقل جماعت اسلامی کے مرکز،دارالاسلام، پٹھان کوٹ بھیج دی اور پشاور میں سردار علی خاں صاحب کو بھی لکھا کہ ’’کوہاٹ میں مولانا معین الدین صاحب ہمارے ہم خیال ہیں‘‘۔ ہمیں بھی لکھا کہ ’’آپ پشاور میں سردار علی خان صاحب سے تعلق پیدا کریں‘‘۔ چنا نچہ ہم نے ان سے رابطہ قائم کیا۔
یہ ۲مارچ ۱۹۴۷ء کی بات ہے کہ پبی تحصیل نوشہرہ میں صوبہ سرحد کی جماعت اسلامی کا اجتماع ہوا۔ سردا ر علی خان صاحب نے مجھے اس اجتماع کی اطلاع بھجوائی۔ ہم نے سوچا، چل کر ان لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ عملی لحاظ سے یہ لوگ کیسے ہیں؟ میرے ہمراہ تین اور اصحاب تھے، جو اس دعوت سے متاثر تھے۔ ان میں مولانا منہاج الدین، اور مولوی صالح جان شامل تھے۔ ہم پیدل اٹھارہ بیس میل چل کر تو سڑک پر پہنچے۔ یہا ں سے بس کے ذریعے پشاور آئے اور پھر وہاں سے پبی پہنچے۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی کا تعارف کچھ زیادہ نہیں تھا، اس لیے اجتماع گاہ ڈھونڈھنے میں مشکل پیش آئی۔ بہرحال، اجتماع میں جماعت اسلامی کے لوگوں سے ملاقات ہوئی تو پہلا تاثر ان کی محبت ، خلوص اور دین داری کا ملا۔
وہاں سے واپس لوٹ کر ہم نے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی کتابیں رسالے پھیلانے شروع کیے اور ہم خیال لوگوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ میں باقاعدگی سے کارکردگی رپورٹ بھیجنے لگا۔ یہ جولائی ۱۹۴۷ء کی بات ہے ۔ پاکستان بننے کی تیاریاں عروج پر تھیں اور صوبہ سرحد میں ریفرنڈم ہونے والا تھا۔ میں ایک ساتھی کے ہمراہ چار سدہ ،میں خان سردار علی خان صاحب سے ملنے گیا۔ انھیں کارکردگی کی رپورٹ پیش کی تو تمام حالات سن کر وہ بہت خوش ہوئے ۔ انھوں نے کہا ’’آپ دونوں رکن بننے کی درخواست دیں‘‘۔ چارسدہ سے رکن جماعت عبدالقادر خان صاحب نے مجھ سے رکنیت کی درخواست لکھوائی۔ فساد اور بدامنی کے دن تھے۔ اس لیے میری درخواست تو کہیں راستے میں کھو گئی ۔ البتہ دوسرے ساتھی مولوی صالح جان صاحب کی درخواست پہنچ گئی اور وہ رکن بنا لیے گئے ۔ ہم اسی طرح کام کرتے رہے۔ حتیٰ کہ پاکستان بن گیا ۔ ازاں بعد جنوری ۱۹۴۸ء میں مجھے رکن بنا لیا گیا اور ضلع کوہاٹ کے امیر جماعت کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں ’مطالبہ نظامِ اسلامی‘ کے لیے جماعت اسلامی کا مطالبہ ایک دھماکے کی طرح بلند ہوا اور پھر جیسے اس کا ارتعاش ملک کی ایک ایک بستی اور ایک ایک فرد تک پہنچنے لگا۔ میں اب انھی مودودی صاحب کے ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، جن کی اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کو میں نے ایک ناقابلِ عمل بات سمجھا تھا۔ تحریک اسلامی کے کار کن اپنا سب کچھ اپنے اس عظیم مقصدِ حیات کو سونپ کر میدانِ کار زار میں اُتر آئے تھے۔ عام لوگ تو راتوں کو محوخواب ہوتے اور یہ دیواروں پر ’’ہمارا مطالبہ اسلامی دستور‘‘ کے پوسٹر لگا رہے ہوتے ۔ دوسرے لوگ دن کے وقت کاروبار میں مصروف ہوتے اور یہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ’’ اسلامی نظام کیوں؟‘‘ کے ہینڈبل تقسیم کر رہے ہوتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان میں ایک ہی آواز پھیلتی چلی گئی ’’ہمارا مطالبہ اسلامی نظام‘‘۔ کچھ مدت پہلے جو مطالبہ ایک شخص کر رہا تھا، وہ مطالبہ اب کئی کروڑ انسانوں کی آواز بن گیا تھا۔
ہم ضلع کوہاٹ کی مختلف جگہوں پر جا کر عوام سے خطاب کرتے اور انھیں بتاتے کہ ’’پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اور صوبہ سرحد نے ریفرنڈم کے ذریعے جس نصب العین کی خاطر پاکستان سے الحاق کیا ہے، وہ اسلام ہے اور اب موقع ہے کہ جب ملک کے لیے دستور بنایا جائے تو اس میں واضح طور پر اس بات کا اقرار کیا جائے کہ یہاں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنے گا۔ تمام قوانین اسلامی شریعت کے مطابق بنیں گے‘‘۔
ان دنوں صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کے ایک رہنما، خان عبدالقیوم خان صاحب بطور وزیراعظم صوبہ سرحد [خیبرپختونخوا] اپنے مخالفوں کو آہنی زنجیریں پہنا پہنا کر مرد آہن بن چکے تھے۔
ضلع کوہاٹ کے قریے قریے میں ’مطالبہ نظامِ اسلامی‘ کی وضاحت میں تقریر یں کرتے ہوئے میں ٹل کے مقام پر پہنچا ۔وہاں ۱۰؍ اگست ۱۹۴۸ء کو اس مطالبے کی یہ وضاحت کی کہ ’’پاکستان کی باد شاہت اور حاکمیت اللہ کے لیے ہے ۔ اس ملک میں حکومت کی کوئی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے احکامات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرے‘‘۔ تقریر ختم ہونے کے بعد میں ٹل سے ہنگو جا رہا تھا کہ بس کے اڈے پر پولیس کے ایک تھانیدار صاحب آئے۔ انھوں نے مجھے کہا ’’آئیے، ہمارے ساتھ چلیے‘‘۔میں اور میرا شاگرد میرسرور ان کے ساتھ چلتے ہوئے تھانے پہنچ گئے۔ (یاد رہے بعد میں میرے شاگرد نے بھی میرے ساتھ جیل میں دن گزارے)۔ تھانیدار صاحب نے دفعہ ۱۰۹ کے تحت ہمارا چالان کاٹا۔ گویا کہ ہم اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے لوگ عبدالقیوم خان کی حکومت میں ’’آوارہ گرد ‘‘تھے ۔
ہمیں حوالات کی ایک چھوٹی سی تنگ کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا، جس کے ایک کونے میں گندگی پڑی ہوئی تھی، اور بدبو اور تعفن سے دماغ پھٹ رہا تھا ۔ بیٹھنے، سونے اور نماز پڑھنے کے لیے یہی زمین تھی۔ یہ رات سخت اذیت میں گزری۔ دعوتِ اسلامی کی راہ میں یہ پہلی آزمایش تھی اور دوسرے مراحل آگے آ رہے تھے۔
دوسرے روز ہمیں ضلع کوہاٹ کی تحصیل ہنگو لے جایا گیا، تو وہاں خان بہادر محمد اسلم خان اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں ہمیں پیش کیا گیا، تو ان صاحب نے بغیر کسی بات یا تمہید یا اشتعال کے، مجھے دیکھتے ہی غلیظ، ننگی اور ناقابلِ ذکر گالیاں دینا شروع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے حوصلہ دیا اور میں صبر وتحمل سے اس سب کچھ کو سنتا رہا۔ اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے خوب بولنے کے بعد مجھے دفعہ ۱۰۹ کے تحت آوارہ گردی کے جرم میں پندرہ روز تک حوالات کی ایک اور تنگ و تاریک کوٹھڑی میں قید رکھا۔
یاد رہے، جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میری جیب میں جماعت اسلام ضلع کوہاٹ کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ تھی۔ جماعت اسلامی اور مطالبہ اسلامی نظام کے خلاف بیوروکریسی کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ اس رپورٹ کی بنا پر اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے بعدازاں مجھے پشاور بھجوا دیا کہ ’’اس شخص کی جامہ تلاشی سے کچھ کاغذات برآمد ہوئے ہیں، جن میں ضلع کوہاٹ کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ یہ شخص بھارت کا جاسوس معلوم ہوتا ہے ، اور اس کے پاس بڑی معلومات ہیں۔ اسے صوبہ سرحد کی سی آئی ڈی کے صدر دفتر کے حوالے کرنا چاہیے تا کہ وہ اس سے مزید راز اُگلوا سکے‘‘۔
پشاور کی سی آئی ڈی نے حکم دیا کہ’’ اس شخص کو واپس کوہاٹ بھیج دیا جائے اور تحقیقات کی جائیں کہ کیا یہ شخص فی الواقع آوارہ گرد ہے اور دفعہ ۱۰۹ کا اس پر اطلاق ہوتا ہے ؟‘‘ سی آئی ڈی انسپکٹر کوہاٹ نے لکھا کہ ’’یہ شخص تو اسی ضلعے کا باشندہ ہے اور فلاں مقام سے تعلق رکھتا ہے، اور یہ آوارہ گرد نہیں ہے‘‘۔ اس نوٹ کو پڑھنے کے بعد ڈپٹی کمشنر صاحب نے حکم دیا کہ ’’دوبارہ تحقیقات کی جائے‘‘۔
سی آئی ڈی انسپکٹر نے سرحد کی حکومت کو فون کیا کہ ’’اب میں کیا کروں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ ’’اگر آپ کی نظر میں اس پر دفعہ ۱۰۹ کا اطلاق نہیں ہوتا تو آپ اسے رہا کر سکتے ہیں‘‘۔ لیکن اسی دوران دوبارہ فون آیا کہ ’’رہا مت کرو۔ ہم اپنا انسپکٹر بھیج رہے ہیں‘‘۔
پشاور کے انسپکٹر نے آتے ہی میری پولیس رپورٹ پر ۱۰۹ کا ہندسہ کاٹ کر ۱۱۰ کر دیا۔ گویا کہ اب میں ’آوارہ گرد‘ نہیں تھا بلکہ’بدمعاش‘ اور ’چوراُچکا‘ ہوگیا تھا ۔ یعنی جیل میں رہتے ہوئے ہی میرے جرم کی شکل بدل گئی تھی۔
ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری پیشی ہوتی رہی ۔ آخر کار پچاس روزہ حوالاتی زندگی گزارنے کے بعد ۲۹ ستمبر ۱۹۴۸ء کو ضمانت پر رہائی کا پروانہ پہنچا تو کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے کون سے رشتہ دار مجھے رہائی دلانا چاہتے ہیں۔
بہرحال، جب جج صاحب نے کہا کہ ’’دو سال نیک چلنی کے لیے بیس ہزار روپے کی ضمانت دے دو تا کہ تمھیں رہا کر دوں‘‘۔ اس طرح فیصلہ کرنے کا اختیار میرے ہاتھ میں آ گیا۔ مجھے جس جرم کے لیے سزا دی جا رہی تھی، اس کے لیے ضمانت دینے کا مطلب گویا یہ تھا کہ میں جماعت اسلامی کی دعوت سے دست بردار ہو جائوں، جب کہ ابھی پچھلے دنوں ہی مولانا مودودی نے لکھا تھا کہ ’’اب دوسرا مرحلہ شروع ہوا ہے۔ اس میں تحریک کو جبر سے اور زور سے مٹانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس مرحلے میں ہم کو صبروثبات اور تحمل واستقلال اور اپنے اصولوں کے سچے عشق کا ثبوت دینا ہے ۔ گرفتاری سے بچنے کی ہرگز کوشش نہ کریں ، نہ رہا ہونے کے لیے ضمانت دیں، نہ کوئی جرمانہ ادا کریں، نہ اپنی مدافعت خود کریں اور نہ کوئی وکیل کریں۔ گرفتاری کے بعد کسی رعایت کے نہ ملنے پر شکوہ بھی نہ کریں۔ صبرو سکون سے ہر زیادتی برداشت کریں اور اپنی ہر تکلیف اور التجا صرف خدا کے سامنے پیش کریں ‘‘۔
میں نے عدالت سے کہا: ’’آپ تو بیس ہزار روپے کی ضمانت کہتے ہیں، میں ایک آنے کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں ۔‘‘
تھانیدار صاحب نے مجھے بہت کہا: ’’اس کیس میں جان نہیں ہے۔ اگر آپ وکیل کرلیں تو مقدمہ بڑی آسانی سے خارج ہو جائے گا اور آپ رہا ہو جائیں گے‘‘۔ میں نے کہا: ’’معاملہ اصولوں کا ہے۔ ہمارے ملک پر ابھی تک انگریز کا ۱۹۳۵ء کا ایکٹ مسلط ہے۔ ہم اسے طاغوت کا دستور سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم اس دستور کے تحت عدالتوں میں کبھی مدعی کی حیثیت سے نہیں جائیں گے، نہ ہم وکیل کریں گے اور نہ کوئی رعایت مانگیں گے‘‘۔
عدالت نے اس مکالمے کو سننے کے بعد مجھے ایک سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ مجھے قیدیوں کا لباس پہنادیا گیا۔ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں ۔ اس حالت میں وہ مجھے کوہاٹ اسٹیشن لے گئے۔ دو نگران سپاہی تیزی سے چلانے کے لیے اس طرح کھینچتے رہے کہ بیڑیوں سے میرے دونوں پائوں زخمی ہو گئے۔ اسٹیشن تک پہنچتے پہنچتے ان زخموں سے خون رسنے لگا۔ اسی حالت میں مجھے ڈیرہ اسماعیل خان سنٹرل جیل پہنچا دیا گیا۔ زخم ایک ماہ تک مندمل نہ ہوسکے۔ میں اٹھارہ روز تک ہسپتال میں رہا اور شدید تکلیف میں اشاروں سے نماز پڑھتا رہا۔
اس قیدبامشقت کے دوران پندرہ سیر گندم دی گئی کہ اسے چکی سے پیسو۔ صبح سے کام شروع کیا تو دوپہر کے تین بج گئے اور میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔ بارہ روز تک چودہ سیر روزانہ آٹا پیسنے کی مشقت ملی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمت تو دے دی مگر مقدمہ اور قید کے دوران ہی مجھ پر غم کا یہ پہاڑ ٹوٹا کہ میری والدہ محترمہ اور نہایت پیارا عزیز بھائی اعصام الدین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے: انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ‘‘۔ یہ قید ۲۹؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو ختم ہوئی۔
_______________
مولانا معین الدین خٹک صاحب کی جیل کی زندگی کا ایک حصہ عبدالرزاق صاحب سناتے ہیں، وہ تقسیم ہند سے پہلے سجاد ظہیر کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن چلے آ رہے تھے ، اس لیے وہ انتہا پسند ہی نہیں بلکہ تشددپسند بھی تھے۔ چنانچہ اسی ضمن میں کئی دفعہ جیل یاترا کر چکے تھے۔ جب مولانا معین الدین صاحب سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان میں آئے تو یہ بھی مارچ ۱۹۴۹ء میں وہاں آگئے ۔ جیل میں لوگوں کے سامنے اشتراکیت کا پرچار کیا کرتے تھے کہ ’’ہمیں روٹی کپڑا چاہیے۔ یہ نماز روزہ مذہب وغیرہ سب سرمایہ داری کی خرافات ہیں‘‘۔ اسی دوران میں وہاں ایک قیدی کی حیثیت سے مولانا معین الدین صاحب نے درسِ قرآن وحدیث کا آغاز کردیا۔ اب اگلی تفصیل خود عبدالرزاق صاحب ہی کی زبانی سنتے ہیں:
’’یہ مارچ ۱۹۴۹ء کے دن تھے ۔ میں نے بھی مولانا معین الدین صاحب کے درس میں شرکت شروع کی۔ میرا مقصد انھیں سننا نہیں تھا بلکہ مخالفت کرنا تھا۔ میں اسلام کو پرانے زمانے کی چیز سمجھتا تھا اور اشتراکیت کو تمام مسائل کا حل کہتا تھا۔ درس کے بعد میں جب بحث میں آگے بڑھتا تو ایسی ایسی باتیں بھی کہہ جاتا جو نہیں کہنی چاہیے تھیں۔ مولانا معین الدین صاحب ان باتوں کے جواب میں چپ ہوجاتے اور مجھے بولنے دیتے۔ میں دل میں سوچتا کہ میں نے مولوی کو زیر کرلیا ہے، اس کے دلائل پرانے ہیں، ویسے یہ آدمی اچھا ہے لیکن کیا کریں کہ بات سمجھتا ہی نہیں۔
پھر ایک روز مولانا معین الدین صاحب نے درس کے دوران ایسی بات کہہ دی، جس نے میرے طرز فکر اور زندگی کی نہج کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ کہنے لگے: ’’دنیا کی تمام تحریکیں باہر سے شروع ہوتی ہیں ، لیکن اسلامی تحریک کا آغاز دعوت دینے والے کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے ‘‘۔
میں نے غور کیا تو یہ بات سو فی صد صحیح تھی، حتیٰ کہ اشتراکیت کی تحریک، جس کا میں علَم بردار تھا، اس کا بھی یہی حال ہے کہ اسے زبردستی لوگوں پر قانون اور ڈنڈے کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے۔ لیکن نافذ کرنے والے لوگوں اور لیڈروں نے کبھی اپنی زندگی اور دولت سے ایثار کر کے دوسروں کو کچھ نہیں دیا۔ میں نے خود اپنی زندگی پر غور کیا۔ اپنے خصوصی روابط کی بنا پر مجھے جیل میں بھی اچھے کھانے اور سہولتیں میسر تھیں۔ لیکن جن لوگوں کو میں صبح وشام ’’سب کو برابر کی روٹی‘‘ وغیرہ کے لیکچر دیتا تھا، کیا انھیں بھی میرے جیسی روٹی میسر ہے ؟ میں نے سوچا جو کچھ میں کھاتا ہوں، کیا دوسروں کو کھلاتا ہوں ؟ تو پھر میں جھوٹ بول کر کس کو دھوکا دے رہا ہوں ؟
مولانا معین الدین صاحب کا فقرہ میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ۔ میں جتنا اس فقرے کو ذہن سے جھٹکتا، اتنا ہی یہ مجھے جھنجھوڑتا چلا جاتا ۔ اُدھر مولانا صاحب کا درس قرآن و حدیث بھی جاری تھا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرامؓ ، اولیائے عظامؒ کی زندگیوں پر غور کیا۔ واقعی اسلامی تحریک کا آغاز تو داعی کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔
میں عقلیت پسند کمیونسٹ تھا، لیکن میرے پائوں اُکھڑ گئے۔ اس کے بعد میں مولانا معین الدین صاحب کے پاس بحث برائے بحث کے لیے نہیں ، اسلام اور اس کے معاشی نظام کو سمجھنے کے لیے بیٹھنے لگا۔ جس پر میرے ساتھی مجھ سے ناراض ہو گئے ۔ لیکن میں نے ان کی ناراضی کی پروا نہیں کی۔ مولانا معین الدین صاحب ۲۹؍اکتوبر ۱۹۴۹ء کو رہا ہو گئے ۔ لیکن ہم کمیونسٹوں کی دنیا بدل گئے ۔ چونکہ میں اشتراکیت کے پیغام اور اس کی تحریک کے لیے مخلص تھا، اس لیے جب ایک ٹھیک بات میری سمجھ میںآگئی تو میرے دل و دماغ میں اسلام کے لیے بھی اخلاص اُمڈ آیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جیل سے رہائی کے کچھ عرصے ہی بعد مجھے جماعت اسلامی کا رکن بننے اور پاک باز دوستوں کی رفاقت اور جدوجہد میں شرکت نصیب ہوئی۔