اگست ۲۰۲۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اگست ۲۰۲۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

کیا ذبیحہ کے لیے تسمیہ شرط نہیں؟

سوال : یہاں کینیڈا میں شرقِ اوسط سے آئے ہوئے عرب بھائیوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’’اہلِ کتاب کا ذبیحہ جسے قرآن میں حلال قرار دیا گیا ہے ، اُس کے تحت وہ تمام گوشت آجاتا ہے جو یہاں کی دکانوں میں فروخت ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ اکبر یا بسم اللہ کہنا ضروری نہیں ہے، یعنی تسمیہ ذبح کے لیے شرط نہیں۔ جو گوشت بھی مشینوں سے کٹ کر بازاروں میں آتا ہے اُسے کھاتے وقت بسم اللہ کہہ دینا کافی ہے؟‘‘

جواب :یہ بات عجیب و غریب ہے کہ ذبح کے لیے تسمیہ شرط نہیں ہے۔ قرآن میں اللہ کا نام لے کر ہی جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ’’جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اُسے مت کھائو‘‘ (انعام۶:۱۲۱)۔ اہلِ کتاب کا ذبیحہ اور طعام اُنھی شرائط کے تحت حلال ہے، جو قرآن میں دوسرے مقامات پر مذکور ہیں۔ ورنہ اہلِ کتاب کے کھانے میں تو خنزیر بھی ہوتا ہے۔ اگر اہلِ کتاب کا کھانا (طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ) مطلقاً حلال ہوتا تو خنزیر کو بھی حلال ہونا چاہیے تھا۔ ان کے طعام کی حلِّت کے متعلق حکم ایسا مطلق نہیں ہے، جسے دوسرے قرآنی احکام مقیّد نہ کرتے ہوں۔ ہمارے ائمہ میں صرف امام شافعیؒ کا ایک قول مروی ہے کہ ’’مسلمان اگر اللہ کا نام نہ لے تب بھی اُس کا ذبیحہ حلال ہے‘‘، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمسلمان کا عقیدہ اور نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کر رہا ہے، اس لیے اُس کا زبان سے ذکر نہ کرنا حلِّت پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ امام شافعیؒ سے اس کے بالمقابل دوسرا قول بھی مروی ہے جس میں تسمیہ کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ میرے علم میں کوئی دوسرا امام یا فقیہہ نہیں، جو بغیر تسمیہ کے ذبیحۂ اہلِ کتاب کو حلال سمجھتا ہو۔ (جسٹس ملک غلام علیؒ، ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۷۷ء)


زکوٰۃ و عُشرکا مختلف سرکاری ٹیکسوں سے فرق

سوال :  ایک نشست میں زکوٰۃ و عُشر کا مسئلہ زیربحث آگیا۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ عُشر دسویں حصہ پیداوارِ ارضی پر عائد ہوتا ہے ، اور زکوٰۃ جمع شدہ دولت کا صرف چالیسواں حصہ ہے، لیکن مالیہ اور آبیانہ اراضی کی پیداوار کے نصف پر تشخیص ہوتا ہے اور جمع شدہ دولت پر انکم ٹیکس ایک بھاری شرح سے لگایا جاتا ہے۔ یہ تمام ٹیکس وصول ہوکر حکومت کے بیت المال میں داخل ہوتے، رفاہِ عامہ، یعنی مدرسے، ہسپتال اور دیگر قسم کی ضروریاتِ عالم پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس لیے عُشر اور زکوٰۃ کا دینا اب لازم نہیں آتا۔ مجھے اس رائےسے اتفاق نہیں تھا اور اپنی یہ رائے پیش کی کہ اوّل تو تحصیل اور انکم ٹیکس کے دفاتر بیت المال کی تعریف ہی میں نہیں آتے۔ دوسرے، ان رقوماتِ وصول شدہ کا مصرف حکمِ قرآنی کے مطابق نہیں ہوتا۔ آپ بتائیں کہ میری رائے صحیح ہے یا جج صاحب کی؟

جواب :زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکنِ اسلام ہے، جس طرح نماز، روزہ اور حج ارکانِ اسلام ہیں۔ جس شخص نے کبھی قرآنِ مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے، وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اسے اُس دین کا ایک رکن قرار دیتا ہے، جو ہر زمانے میں انبیائے کرامؑ کا دین رہا ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے۔ اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کو اپنے نظام الاوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوں گے کہ اُس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کرسکیں۔ اسی طرح اُس کو اپنے ٹیکسوں کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوں گی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں میں کوئی ٹیکس اُن مقاصد کے لیے اُس طرح استعمال نہیں ہوتا، جن کے لیے قرآن میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم ہے۔(جسٹس ملک غلام علیؒ،ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۷۷ء)