اگست ۱۹۴۷ء اور اس کے بعد مشرقی پنجاب اور ہندستان کے علاقوں سے لٹے پٹے مسلمان مہاجرین کی آمد اور کھلے آسمان تلے والٹن کیمپ لاہور میں قیام کا دور دراصل ایک ٹیسٹ کیس تھا اس با ت کا، کہ کیا دینی اور اخلاقی تربیت کی کوئی اہمیت بھی ہے یا ہماری زندگی کا سارا کاروبارِ حیات دین واخلاق کی تعمیر کے بغیر ہی چلنا چاہیے؟
والٹن کیمپ میں ہم نے دیکھا کہ ہمارے جو پاکستانی سرکاری وغیر سرکاری کارندے اور رضا کار اخلاقی پابندیوں سے آزاد تھے ، وہ لالچ، حرص ، ہوس اور دوسری آلائشوں میں لتھڑے ہوئے تھے۔ خوفِ خدا کا کوئی تعلق ان کی زندگیوں سے نہ تھا۔ انھوں نے باہر سے لٹ پٹ کر آنے والوں کے ساتھ کم وبیش وہی سلوک کیا، جس کا سامنا وہ ہندواورسکھ قاتلوں، لٹیروں اور بلوائیوں کے ہاتھوں سہتے اور دیکھتے ہوئے آ رہے تھے۔ ان کے لیے ایسے ’رضاکار‘ اور ’سرکاری کارندے‘ ہندوئوں اور سکھوں سے کچھ زیادہ مختلف ثابت نہ ہوئے۔ یہ وہ ماحول تھا کہ جب ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھنے کی تربیت پانے والے ان کی طرف بھائیوں اور غمگساروں کی حیثیت سے بڑھے۔
جو مہاجرین، والٹن کیمپ اور دوسرے کیمپوں میں آئے اور جماعت اسلامی کے لوگوں کو ان کی خدمت کا موقع ملا، وہ بعد میں پورے ملک میں بکھر گئے ۔ میں یہ بات بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ ان کی یادوں میں وہ لمحات ضرور شامل ہوں گے، جب انھوں نے اپنے بھائیوں کو شفقت، محبت، خدمت اور اپنائیت کا عملی مظاہرہ کرتے دیکھا ۔ جن پر وہ اعتماد کر سکتے تھے، اور جن سے انھوں نے ہمیشہ بھلائی ہی پائی۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم ان یادوں پر فخر نہیں کرتے، بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں اس کے حضور میں اپنا جواب دہ ہونا یاد رہا اور اسی لیے ہم ہر حال میں نہ اپنے انسان ہونے کو بھولے اور نہ اپنے مسلمان ہونے کو فراموش کیا۔
جس وقت امیر جماعت اسلامی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی طرف سے کارکنانِ جماعت کو والٹن کیمپ میں پہنچنے کی ہدایت ملی تو ایک دن کی تاخیر کیے بغیر فوراً حاضر ہو گیا۔ والٹن کیمپ کیا تھا؟___ یہ لاشوں ،زخمی اور تھکے ماندے انسانوں ، ایک دوسرے سے بچھڑ جانے والوں، اور مائوں، باپوں، بھائیوں ، بیٹیوں ، بہنوں اور بچوں کو ایک دوسرے کی تلاش میں دیوانہ وار پھرنے والوں کی دنیا تھی ۔ وہ کئی کئی میل کی مسافت طے کر کے آ رہے تھے۔ اس خونیں سفرکے دوران میں ان پر باربار حملے ہوتے رہے تھے۔ کہیں ماں باپ نے اپنے سامنے بچوں کو قتل ہوتے دیکھا اور کہیں اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ اس موقع پر بچھڑ جانے والے زندہ بھی بچ سکے یا نہیں اورجب تلاش کرتے کرتے بے حال ہو گئے تو تھک کر بیٹھ گئے ۔ لیکن ان میں سے ہر وجود میں ایک کسک زندگی بھر کا روگ بن گئی۔
جماعت اسلامی کو والٹن کیمپ میں کام شروع کیے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ جب ماحول میں اس نوع کا موازنہ ہونے لگا کہ ’’خدمت کا صحیح حق تو یہ لوگ ادا کر رہے ہیں ، ورنہ جہاں تک سرکاری انتظام کا تعلق ہے وہاں لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ سب اچھی اچھی چیزیں ، کپڑے، کمبل، بستر اٹھا کر گھروں کو لے جا رہے ہیں اور جن کے لیے یہ سب کچھ اکٹھا ہوتا ہے، انھیں ناکارہ اور بے کار چیزیں مل رہی ہیں‘‘۔ ان موازنوں اور گفتگوئوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صر ف ضرورت مند مہاجرین جماعت اسلامی کے کیمپ کی طرف لپکنے لگے بلکہ شہر سے اور دُور دراز سے جماعت کے ان کیمپوں میں سامان پہنچانے والے بھی صرف ہمارے کارکنوں کو اپنے اعتماد کا مستحق سمجھنے لگے۔ پھر بہت جلد یہ بات سرکاری کیمپ کے لیے ناقابلِ برداشت ہونے لگی تھی۔
ان دنوں ہمارے کیمپ کے سربراہ ملتان سے باقر خاں صاحب تھے ۔ کام کا یہ حال تھا کہ دن چڑھتے ہی کارکن ہاتھوں میں بیلچے لے کر کیمپ میں پھیل جاتے۔ ایک جگہ گڑھا کھود کر، جگہ جگہ پھیلی ہوئی غلاظت بیلچوں میں اٹھا اٹھا کر لاتے اور اس گڑھے میں ڈال کر اوپر مٹی ڈال دیتے۔ اور اس طرح دن کا آغاز سارے کیمپ کو صاف ستھرا بنا کر کیا جاتا ۔ اس میں حددرجہ قابلِ قدر مشاہدے کی بات یہ تھی کہ یہ کام کرنے میں نازو نعم سے پلے ہوئے لکھ پتی تاجر، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور دوسرے صاحبِ حیثیت بھی ہوتے تھے، جو اپنی آسایش اور سکون بھری زندگی چھوڑ کر، مولانا مودودی کی دعوت پر ان کیمپوں میں آکر ڈیوٹی دے رہے تھے۔
زندہ انسانوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کی تمام دینی آداب کے ساتھ تدفین کا کام بھی ہو رہا تھا ۔ جن دنوں والٹن کیمپ میں ہیضے کی وبا پھیلی، ان دنوں اس کام کا دائرہ اور پھیلائو بہت بڑھ گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ساتھی پہنچتے رہے اور تمام معاملات نبٹائے جاتے رہے۔
اپنے آپ کو شدید تنقید کی زدمیں دیکھ کر آخرکار سرکاری کیمپ نے ہمیں اپنا کام بند کرنے کا حکم دیا ۔ یہ حکم حکام بالا سے آیا تھا۔ امیر جماعت اسلامی کی ہدایت پر ہم نے اس الجھائو میں اپنا وقت اور صلاحیت ضائع کرنے کے بجائے اپنا کام شاہدرہ موڑ کیمپ منتقل کر دیا۔ مولانا نے ہمیں ایک ہدایت یہ بھی دی کہ’’ والٹن میں لاوارث بچوں اور عورتوں کو وہیں رہنے دیا جائے، انھیں ساتھ نہ لے جایا جائے ، تا کہ اگر ان کے سرپرست آ جائیں تو وہاں انھیں نہ پا کر پریشان نہ ہوں‘‘۔ ہم نے اس ہدایت پر عمل کیا لیکن دو بچیوں کا معاملہ ایسا تھا کہ میں رات بھر پریشان رہا ، اور صبح ہوتے ہی ان کی تلاش میں شاہدرہ سے والٹن کیمپ پہنچ گیا۔
ایک بچی کی عمر نو دس برس تھی۔ اس کے والد امراضِ ذہنی کے ہسپتال میں داخل کرا دیے گئے تھے۔ والٹن کیمپ میں پہلے اس کی ماں اور پھر شیر خوار بھائی چل بسا تھا، اور یہ بچی بالکل تنہا رہ گئی۔ باپ زندہ تھا لیکن دماغی توازن کھو چکا تھا۔ اس کی ماں کے مرنے پر ان کے سامان میں سونے کے زیورات ہم نے قریبی تھانے میں جمع کرا کے رسید حاصل کرلی تھی۔
دوسری بچی دس گیارہ سال کی تھی ۔ وہ اپنا اور اپنے والدین کا نام اور پتہ بتاتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اوکاڑہ کے رہنے والے ہیں۔ تقسیم کے موقعے پر یہ اپنے ننھیال جالندھر میں گئی ہوئی تھی کہ یہ قتل و غارت کی صورت پیش آئی۔ اب بچھڑنے والے مل نہیں رہے تھے۔ اوکاڑہ میں اس کے ماں باپ موجود تھے اور ان تک پہنچنے کا مسئلہ تھا۔
میں ان بچیوں کے لیے صبح والٹن کیمپ پہنچا۔ دونوں مل گئیں ، لیکن روتی اور چیختی ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ رات بھر کیمپ کے دفتر کے نوجوان انھیں ساتھ لے جانے کے لیے آتے رہے، ان کے فحش فقرے اور بے حیائی کی باتیں برداشت نہیں ہوتی تھیں۔ یہ بچیاں صرف اس لیے بچ گئیں کہ کم عمر تھیں۔
میںنے بچیوں کو ساتھ لیا۔ اپنے ساتھی ظفر احمد صاحب کو اوکاڑہ والی لڑکی کا پتہ لکھ کر دیا۔ ایک تحریر اس کے والدین کے نام لکھی اور ظفر احمد صاحب سے کہا کہ اگر اس کے والدین یا ورثا نہ ملیں تو بچی کو واپس لے آئیں ۔ چھوٹی بچی کو لوہاری میں اپنے چچا زاد بھائی کے گھر چھوڑا کہ جب کیمپ سے فارغ ہو جائوں تو ان شا اللہ آ کر لے جائوں گا۔
دوسرے دن ظفر احمد صاحب اوکاڑہ سے بچی کے والدین کی سند اور تحریری ثبوت لے کر آگئے۔ ان کی بچی ان کے پاس پہنچ گئی تھی اور ان کی دعائیں ہمارے لیے تھیں۔
شاہدرہ میں جماعت اسلامی کے مہاجرین بحالی کیمپ میں مجھے سٹور کیپر بنا دیا گیا ۔ اپنے کام کی اس مدت میں ہم نے لٹ پٹ کر آنے والوں کے کردار کے مختلف پہلو بھی دیکھے ۔ ان کے ایک جانب خوددار اور عالی ظرف انسان بھی دیکھے اور دوسری جانب دھوکے بازی اور جھوٹ سے کام لے کر دوسروں کے حصے کا سامان خود اینٹھ لینے کے خواہش مند بھی دیکھے۔ ایک نوجوان اپنی درد ناک داستان سنا کر سامان لے گیا ۔ دوسرے دن ایک عورت کو لایا کہ ’’ہماری ہمسائی ہے، اس کے خاوند کو سکھوں نے قتل کر دیا ہے‘‘۔ اسے سامان دے کر رخصت کیا۔ پھر کچھ دیر بعد ایک بوڑھے کو لے کر آیا کہ ’’اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو مارا جا چکا ہے، بے چارا بالکل بے آسرا ہے‘‘۔ اب مجھے شک گزرا تو میں نے کہا ’’ان کی قیام گاہ کہاں ہے، وہاں جا کر حالات معلوم کر کے مدد کر سکوں گا‘‘۔ یہ سن کر وہ دونوں کھسک گئے۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ مجھے کیمپ میں ایک دوسری جگہ نظر آئے تو پتہ چلا کہ بوڑھا اس نوجوان کا باپ تھا ور ہمسائی اس کی بیوی تھی۔ اور یہ خاندان ان خاندانوں میں سے ایک ہے، جو اپنا پورا سامان حتیٰ کہ مویشی بھی بچا کر لانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ہمیں بھلے بُرے تمام کردار دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمیں ان سب کو سنبھالنا تھا۔ ان کی خدمت کرنی تھی اور جہاں ضرورت محسوس کرتے، حق نصیحت بھی ادا کرتے تھے۔
مجھے جب کیمپ سے جانے کی اجازت ملی تو میں نے اپنے چچا زاد بھائی کے گھر سے مہاجر بچی کو لیا اور اسے ڈسکہ لے آیا۔ یہاں میری ایک بھتیجی اس بچی کی ہم عمر اور ہم نام تھی، اور پھر دونوں ہم مکتب اور ہم جماعت بھی بن گئیں۔
حُسنِ اتفاق یہ ہوا کہ ہمارے ہاں زیادہ تر مہاجر بھائی جالندھر سے آ کر آباد ہوئے۔ میں وقتاً فوقتاً ان سے ملتا اور انھیں اس مہاجر دوست کی داستان سناتا جو والٹن کیمپ میں جالندھر والے قافلے کے ساتھ آیا تھا، لیکن صدمات کے نتیجے میں اس کی حالت ایسی ہوگئی تھی کہ اسے امراضِ ذہنی کے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ بعد میں اس کی بیوی اور شیر خوار بچہ مر گیا۔ ایک بچی ہے جو ہمارے ہاں تعلیم پارہی ہے ۔ اگر کبھی وہ صاحب ذہنی صحت کی بحالی کے بعد کسی کو مل جائیں تو انھیں ضرور بتائیے گا کہ ان کی ایک بچی زندہ سلامت موجود ہے۔
وقت گزرتا گیا، وہ بچی ہمارے ہاں بالکل ہماری اپنی اولاد کی طرح رہ رہی تھی، اور وہ ہمارے خاندان کا ایک حصہ دکھائی دیتی تھی ۔ اس کیفیت اور انتظار میں دو سال گزر گئے اور پھر ایک دن اچانک ایک جالندھری ساتھی ایک صاحب کو لے کر میرے پاس آگئے کہ ’’دیکھیں کیا یہی آپ کے مطلوبہ بھائی ہیں؟‘‘۔ ہم انھیں ساتھ لے کر گھر پہنچے ۔ باپ بیٹی آمنے سامنے ہوئے اور بحمد اللہ دونوں نے ایک دوسرے کو پہنچانے میں کوئی لمحہ بھر بھی نہ لیا۔ ایک ٹوٹے پھوٹے خاندان کی کڑیاں پھر سے جڑ گئیں ۔ سب کے لیے یہ مقام شکر بھی تھا اور بڑی مسرت کا لمحہ بھی۔
دو دن بعد میں انھیں ساتھ لے کر لاہور آیا۔ ہم مرکزی دفتر جماعت اسلامی ۵- اے ذیلدار پارک پہنچے۔ ناظم دفتر کو ساری داستان سنائی۔ انھوں نے فوراً فائل نکالی۔ اور ان کے زیورات کی رسید ہمارے حوالے کی ۔ ہم تھانے پہنچے۔ ان لوگوں نے رسید دیکھ کر اپنی تسلّی کرکے زیورات مالک کے حوالے کیے۔ ایک چیز زیورات کے مطابق نہیں مل سکی۔ اس کی قیمت ادا کر دی گئی۔
میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ والٹن کیمپ کے دو سال بعد میری ڈیوٹی مکمل ہو گئی تھی۔