دوسری صدی ہجری میں جب یونانی فلسفہ مسلمانوں کے درمیان بحث کا عنوان بنا تو ان علوم وافکار کے زیراثر، اُس زمانے کے ’دانش وروں‘ نے اسلامی عقائد کے بارے میں بے شمار اشکالات اور فکری مغالطوں کی تردید کے لیے فلسفیانہ سوالات کی عقلی بنیادوں پر تردید کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ مسلمانوں میں ایک نیاعلم، علم کلام وجود میں آیا، جس میں فلسفے کی طرح کسی بات کے اثبات وتردید کے لیے دلیل دینے کے طریقے رائج ہوئے۔ بلاشبہہ اس ذریعے سے اس دور کے اہلِ علم نے یونانی فلسفے کی زہر ناکی کا مؤثر علاج کیا۔ اس طرح نہ صرف عقلِ سلیم کو متاثر کیا بلکہ تہذیب نفس کا کام بھی کیا۔
امام غزالی [م:۵۰۵ھ/۱۱۱۱ء] نے اپنے زورِ استدلال سے یونانی فلسفہ سے مرعوب ذہنوں کے سامنے یونانی فلسفے کی کمزوری کو عیاں کیا۔ وہ قرآنی دلائل اور فلسفیانہ طرزِفکر رکھنے والے متکلمین کے دلائل کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’قرآنی دلائل غذا کی مانند ہیں، جس سے ہرانسان استفادہ کرتا ہے، جب کہ متکلمین کے دلائل دوا کی طرح ہیں جس سے کچھ لوگوں کو تو فائدہ ہوتا ہے لیکن ایک بڑی تعداد کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ قرآنی دلائل پانی کی مثل ہیں، جس سے دودھ پیتا بچہ اور تنو مند شخص، دونوں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، جب کہ دوسرے دلائل [مرغن]کھانوں کی طرح ہیں، جن سے صحت مند اور طاقت ور لوگوں کو تو کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نقصان، لیکن دودھ پیتے بچے اس سے بالکل فائدہ نہیں اٹھا سکتے ‘‘ (علم الکلام ،ص۲۰)۔
مراد یہ کہ جن ذہنوں کو یونانی فلسفے نے پریشاں فکری میں مبتلا کر دیا ہو، ممکن ہے کہ منطقی دلائل سے ان کی تشفی ہو جائے، لیکن اس چیز کا امکان موجود ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ اسلوب الٹا شکوک وشبہات میں مبتلا کردے ، جب کہ قرآنی دلائل اپنی سادگی کے باعث غذا اور پانی کی طرح ہر ذہنی سطح کے فرد کی پیاس اور بھوک مٹا سکتے ہیں۔
امام فخرالدین رازی [م:۶۰۶ھ/۱۲۱۰ء] متکلمین وفلاسفہ کے امام ہیں اور مفسر قرآن بھی۔ وہ تـفسیرکبیر میں قرآنی طرزِ استدلال کی افادیت یوں بیان کرتے ہیں :’’قرآن کا دلیل دینے کا انداز عوام الناس کے ذہنوں کے زیادہ قریب ہے اور ان کی عقلوں میں بات بٹھانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ قرآنی دلائل کو انسانی ذہنوں کے قریب تر ہی ہونا چاہیے تا کہ خواص وعوام اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ پھر یہ ہے کہ قرآنی دلائل کا مقصد بحث ومناظرہ نہیں بلکہ صحیح عقائد کو دل نشین کرانا ہے اور اس مقصد کے لیے اس قسم کے دلائل دوسری قسم کے دلائل سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہوتے ہیں ‘‘ (تـفسیر کبیر،ج۲،ص ۹۸)۔
زندگی کے آخری دنوں میں امام رازی نے جو وصیت اپنے شاگرد ابراہیم اصبہانی کو تحریر کرائی ، اس میں بھی کلام وفلسفہ اور قرآن کے بارے میں انھوں نے کہا: ’’میں نے فلسفہ وکلام کے طریقوں کو آزمالیا، لیکن مجھے ان میں کوئی ایسا فائدہ نظر نہ آیا جو اُس فائدے کے برابر ہو، جو میں نے قرآن میں پایا ہے۔ اس لیے کہ قرآن، اللہ کی عظمت کو منواتاہے اور خواہ مخواہ کی باریک بینی اور موشگافی سے بچاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے، انسانی عقلیں ان طویل اور تنگ گھاٹیوں اور خفیہ راستوں میں بھٹک کر رہ جاتی ہیں ‘‘(طبقات الشافعیہ، ج۸،ص۹۱)۔
ابن کثیر [م: ۷۷۴ھ/۱۳۷۳ء]کے مطابق امام رازی نے لکھا ہے: ’’میں کلام اور فلسفے کے طریقوں کو آزما چکا ہوں۔یہ نہ تو کسی پیاسے کی پیاس بجھاسکتے ہیں اور نہ کسی بیمار کو شفا دے سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے تمام راستوں کے مقابلے میں قریب ترین راستہ قرآن کا راستہ ہے ‘‘ (البدایہ والنھایہ ، ج۱۳، ص۵۶)۔
امام ابن تیمیہ (م:۷۲۸ھ/۱۳۲۸ء )کے مطابق متکلمین وفلاسفہ کے طرزِ استدلال میں غیر ضروری طوالت اور تکلفات سے کام لیا گیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :’’اہل کلام وفلسفہ نے مطالب الٰہیہ پر جو عقلی دلائل قائم کیے ہیں ، ان کے مقابلے میں قرآن مجید کے دلائل کہیں زیادہ مکمل، بلیغ اور مؤثر ہیں۔ پھر اس کے ساتھ وہ ان بڑے مغالطوں سے بھی پاک وصاف ہیں، جو فلسفیوں اورمتکلمین کے دلائل میں پائے جاتے ہیں ‘‘ (الرّد علی المنطقیین ،ص ۳۲۱،۲۵۵)۔
قرآنی استدلال کا آغاز خشک اور پیچیدہ متکلمانہ مقدمات سے نہیں ہوتا بلکہ ہر مخاطب کی ذہنی سطح کے اعتبار سے قرآن حجت پیش کرتا ہے ۔ حضرت یوسف ؑ کے پاس جب ان کے ہم نشین دوقیدی اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے، تو انھوں نے تعبیر بتانے کے وعدے کے ساتھ ان کے سامنے ایک سوال رکھا:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲:۳۹) کیا بہت سے متفرق ربّ بہترہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟
آقا وغلام کی معاشرتی حیثیت سے واقف ہر شخص کے لیے سوال کا یہ انداز جتنا عام فہم ہے، لامحالہ اس کا جواب ایک ہی ہے، خواہ اس سوال کا مخاطب اَن پڑھ ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔ یہ تو ممکن ہے کہ اس سوال کے جواب میں اَن پڑھ اتنا ذہنی وروحانی لطف نہ اٹھا ئے جتنا کہ ایک تعلیم یافتہ اس سے لذت پائے گا لیکن کوئی تعلیم یافتہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سوال عامیانہ ہے، میرے علمی مرتبے کے مطابق نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن جب یہ کہتا ہے کہ :
لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا ۰ۚ (انبیاء ۲۱:۲۲) اگر آسمان اور زمین میں ایک اللہ کے علاوہ دوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین وآسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔
لہٰذا، اس آیت میں بتائی گئی حقیقت سے کسی سطح کا آدمی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کوئی خاندان ہو یا ملک، اگر اس کے سربراہ ایک سے زائد ہوں گے تو نتیجہ کیا ہو گا۔
قرآن محسوس واقعات کے ذریعے غیرمحسوس حقائق پر استدلال کرتا ہے۔
اَبرہہ کے ہاتھیوں کے ساتھ آنے والے ۶۰ ہزار کے لشکر کے مقابلے کا تصور عرب کے منتشر قبائلی معاشرے میں ممکن ہی نہ تھا۔ اس موقعے پر خود مجاورینِ کعبہ (قریش) نے ۳۶۰بتوں کی موجودگی کے باوجود صرف ایک ربّ سے اپنے گھر کی حفاظت کی فریاد کی تھی، کسی دیوتا کو نہیں پکارا تھا۔ تمام جاہلی شاعری بھی اس واقعے پر گواہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس محسوس واقعہ کو یاد دلاتے ہوئے کس طرح غیر محسوس حقیقت کی طرف متوجہ کیا:
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ۱ۭ (الفیل۱۰۵:۱) تم نے دیکھا نہیں کہ تیرے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
اصحاب الفیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ’تیرے ربّ ‘ یعنی محمد ؐ کے ربّ نے کیا۔ اس لیے کہ اس اکیلے ربّ کی طر ف تو محمد ؐ ہی دعوت دے رہے تھے، جب کہ مشرکین قریش کو تو ایک ربّ کی بات سننا بھی گوارا نہ تھی۔ حالانکہ اس حقیقت کا مشاہدہ ہی نہیں بلکہ اپنی زبانوں سے اس کا اقرار خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر تمام سرداران قریش چالیس پینتالیس سال پہلے کر چکے تھے ۔
اسی طرح سورۂ قریش جو درحقیقت سورۂ فیل ہی کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے، محسوس واقعے کو غیر محسوس حقیقت کے ماننے پر متوجہ کرتی ہے ۔ دورجاہلیت میں عرب میں ہر طرف قافلے لٹتے تھے، لیکن مجاورینِ کعبہ ہونے کے باعث قریش کے تجارتی قافلوں کو عقیدت واحترام سے گزرنے دیا جاتا تھا۔ امن وامان کی اس گارنٹی کے باعث قریش کو عرب میں تجارتی اجارہ داری حاصل تھی اور حرم کے نذرانوں کی آمدن الگ تھی۔ عرب کی معاشی بد حالی اور بھوک کے زمانے میں قریش کو وافر سامانِ طعام ملا اور بدامنی کے خوف کے دنوں میں امن وامان ملا۔ اس کا وہ کیسے انکار کر سکتے تھے کہ یہ سب کچھ انھیں خانہ کعبہ کے متولی ہونے کی حیثیت سے ملا ہے ۔قرآن نے بھوک اور خوف کی جگہ کھانے اور امن کے محسوس واقعے کا حوالہ دے کر ربّ کی عبادت کی طرف متوجہ کیا:
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَيْتِ۳ۙ الَّذِيْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ۰ۥۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ۴ۧ (القریش ۱۰۶:۳-۴) پس انھیں چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا ۔
قرآنی دلائل مخاطب کے اقرار پر مبنی ہوتے ہیں یا ایسے قوانین فطر ت کے بیان پر مبنی ہوتے ہیں، جو کائنات میں اٹل اور مستقل اصول کی حیثیت سے جاری ہیں ۔چونکہ قرآن کے مخاطب وجود باری کے منکر نہ تھے، اس لیے وجود باری پر براہ راست دلائل دینے کے بجائے بالواسطہ طور پر صفات باری کے بیان کے ذریعے ایسے خالق کا وجود منوایا گیا، جو قادر مطلق اور خلّاق عظیم ہے، جو قہّار وجبّار ہونے کے ساتھ ستّاروغفّار ہے، جو بصیر وعلیم ہونے کے ساتھ رحیم وکریم ہے۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے شرک کے بودے پن کو نمایاں کیا گیا:
ان سے پوچھو، کون تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جان دار کو اور جان دار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ اور کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو پھر اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں ہو ؟ (یونس ۱۰:۳۱)
مخاطب عوام ہوں یا ان کے اہل فکر، خدا کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے تھے، البتہ شرک کرتے تھے۔ وجود باری پر دلیل اس لیے نہیں دی گئی کہ دلائل کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں دلیل دعوے سے زیادہ واضح ہو۔ یہاں تو دعویٰ بذات خود واضح تھا۔
علوم قرآن کے ماہرین نے قرآنی دلائل کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہے :
(۱) دلائل عقلی (۲) دلائل نقلی ۔
دلائل عقلی کی بنیاد یہ آیت ہے :سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ ط (حم السجدہ ۴۱:۵۳) ’’عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی ، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘۔
امام قرطبیؒ نے آفاق وانفس کا یہ مفہوم نقل کیا ہے:’’آفاق سے مراد ہیں آسمانوں اور زمین کے اطراف میں موجود قدرت کی نشانیاں، مثلاً سورج، چاند، ستارے، رات اور دن ، ہوائیں اور بارشیں ، گرج چمک، کڑک، سبزہ ،درخت، پہاڑاور دریا وغیرہ،اور انفس میں انسانوں کے نفسوں میں لطیف صنعت اور عجیب وغریب حکمت کی جانب اشارہ ہے ‘‘ (تفسیر قرطبی،ج۱۵، ص۲۴۴)۔
مولانا مودودیؒ [م:۱۹۷۹ء] آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ آفاق ارض وسماء میں بھی اور انسانوں کے اپنے وجود میں بھی لوگوں کو وہ نشانیاں دکھائے گا، جن سے ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن جو تعلیم دے رہا ہے، وہی برحق ہے ‘‘ (تفہیم القرآن ،ج۴،ص ۴۷۰)۔
مولانا امین احسن اصلاحی ؒ[م: ۱۹۹۷ء]کے مطابق :’’آفاقی دلائل سے مراد کائنات میں موجود شواہد ہیں۔ مثلاً رات دن کا تسلسل ، سورج اور چاند کی گردش ،ہوائوں کے تصرفات ،پہاڑوں اور سمندروں کے عجائبات، وسائل رزق کا انتظام وغیرہ۔ دلائل انفس سے مراد انسانی نفسیات اور اس کے اندر ودیعت کردہ حقائق ومسلمات ہیں ‘‘۔ (اصول فہم قرآن ،ص۹)
اسی بات کو ایک جگہ یوں فرمایا: وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ۲۰ۙ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۲۱ (الذاریات ۵۱:۲۰-۲۱) ’’زمین میںبہت سی نشانیاں ہیں یقین والوں کے لیے اور خود تمھارے اپنے وجود میں ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟‘‘۔
’نفس لوّامہ‘ کیا ہے؟ سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق یہ وہ نفس ہے، جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پرنادم ہوتا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ’ضمیر‘ [Conscience] کہتے ہیں: اس ضمیر میں لازماً برائی اور اچھائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے۔ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے۔ اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور بُرائی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور بُرے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور جس برائی کا ارتکاب اس نے دوسروں کے ساتھ کیا ہو، اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہو لے ، تو اس کے برعکس صورت میں، جب کہ اُسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اس کے ساتھ کیا ہو،اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔ اب اگر انسان کے وجود میں اس طرح کے ایک نفس لوامہ کی موجودگی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ یہی نفس لوّامہ زندگی بعد ِموت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے ،کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور بُرے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے، ان کی جزا یا سزا اس کو ضرور ملنی چاہیے، زندگی بعد موت کے سوا کسی صورت میں پورا نہیں ہو سکتا ‘‘ (تفہیم القرآن ج۶،ص۱۶۳)۔
اسی سورت میں آگے یہ فرمایا:
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِہٖ بَصِيْرَۃٌ۱۴ۙ وَّلَوْ اَلْقٰى مَعَاذِيْرَہٗ۱۵ (القیامۃ ۷۵:۱۴-۱۵) بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے ۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:’’ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے؟ اپنے آ پ کو جاننے کے لیے وہ اس کا محتاج نہیں ہوتا کہ کوئی دوسرا اسے بتائے کہ وہ کیا ہے؟ ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکا دے سکتا ہے، لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں پیش کرکے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ وہ جس کفر یا دہریت یا شرک کا قائل ہے ، وہ درحقیقت اس کی ایمان دارانہ رائے ہے، لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں جما ہوا ہے؟ ‘‘ (تفہیم القرآن ،ج۶،ص۱۶۷)۔
کہیں انسان کے غرور نفس اور اللہ کے سامنے اس کی بے بسی کو یوں بیان کیا :
يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْمِ۶ۙ الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۷ۙ فِيْٓ اَيِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۸ۭ (الانفطار۸۲:۶-۸) اے انسان!کس چیز نے تجھے اپنے اُس ربِّ کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نِک سُک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا، اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا؟
بے شک آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے اختلاف میں، اُن کشتیوں میں جو لوگوں کی نفع رسانی کی چیزیں اٹھائے دریائوں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اُوپر سے برساتا ہے، پھر اس کے ذریعے مُردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں ہرقسم کے چوپائے پھیلائے ، ہوائوں کی گردش میں اور بادلوں میں جو زمین وآسمان کے درمیان پابند ہیں ، عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں (البقرہ ۲:۱۶۷)۔
اس آیت میں گیارہ چیزوں کو توحید کے حق میں دلائل کے طورپر پیش کیا گیا۔ سورئہ انعام کی آیات ۹۰ تا ۹۹ میں اللہ نے سترہ چیزوں کو اپنی توحید کے اثبات میں دلائل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ سورۂ نحل کی آیات ۳ تا ۱۳ میں زمین وآسمان ، جانوروں اور پرندوں کی تیرہ نشانیوں کو علم وحکمت رکھنے والی ذات واحد کے وجود کی کھلی دلیل قرار دیا۔ اس موضوع پر سیکڑوں آیات ہیں جو انتہائی عام فہم اور دل نشین انداز میں اللہ کی یکتائی کے اوپر قطعی دلیل ہیں اور ان سے جہاں ایک تعلیم یافتہ آدمی اپنی ذہنی وفکری رہنمائی کا سامان پاتا ہے وہاں ایک اَن پڑھ دیہاتی بھی ان پر جھوم اٹھتا ہے ۔
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج (النحل ۱۶:۳۶) اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیااور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ‘‘۔
سورۂ اعراف میں حضرت نوحؑ ،حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ، اور حضرت شعیب ؑ اپنی اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے ایک ہی جملے کا بار بار تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں :
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط (اعراف ۷:۵۹،۶۵،۷۳،۸۵) اے میری قوم !اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے ۔
مختلف مقامات پر قرآن نے حضرت ابراہیم ؑ ،حضرت موسٰی، حضرت عیسیٰ ؑ کی دعوت بھی یہی بیان کی ہے :
وَ اِبْرٰھِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوْہُ ط (عنکبوت ۲۹:۱۶) اور ابراہیم ؑنے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اسی سے ڈرو ۔
اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو پہلی وحی میں یہ تاکید کی :
اِنَّنِیْٓ اَنَـا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَافَاعْبُدْنِیْ لا (طہٰ ۲۰:۱۴)بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، پس تو میری بندگی کر۔
وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ ط (المائدہ ۵:۷۲) مسیحؑ نے کہا: اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی ۔
ہم ان (اصحاب کہف) کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیئے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ’’ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔ (پھر انھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا )’’یہ ہماری قوم تو رب کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟‘‘ (الکہف ۱۸:۱۳-۱۴)
تفہیم القرآن کے مطابق یہ نوجوان ۲۵۰ء سے ۴۴۶ء تک ،یعنی تقریباً دو سو سال تک سوئے رہے ۔ ترکی کے شہراز میر (سمرنا) کے قریب شہر افسس کے کھنڈرات موجود ہیں، جہاں مشرک باد شاہ دقیانوس یا دَقیُوس کے ظلم کے باعث وہ غار میں پناہ گزیں ہوئے اور عیسائی باد شاہ تھیوڈوسیس ثانی کے دور میں بیدار ہوئے (تفہیم القرآن، ج ۳،ص ۱۳)۔
قرآن میں ایک واقعہ ’اصحاب الاخدود‘ کے مقابل ان اولیاء اللہ کا بیان ہوا ہے، جنھوں نے ’اصحاب الاخدود‘ کے وحشیانہ مظالم کے مقابلے میں صبرواستقامت کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر عقیدۂ توحید کے برحق ہونے کی شہادت دی تھی :
مارے گئے گڑھے والے۔ (اس گڑھے والے ) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جب کہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے ، اسے دیکھ رہے تھے۔ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خد ا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے، جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔ (البروج ۸۵:۴-۹)
ابن ہشام، طبرانی اورابن خلدون کے مطابق نجران (یمن ) کے یہودی باد شاہ ذونواس نے دین مسیح کے بیس ہزار پیروکار وں کو اپنا دین ترک نہ کرنے کی پاداش میں آگ میں بھرے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا۔ (تفہیم القرآن ،جلد ۶ ،ص ۲۹۷-۲۹۸)
یہ واقعہ اکتوبر ۵۲۳ء میں پیش آیا تھا ۔ نزول قرآن سے تقریباً نوے سال قبل کے اس واقعہ کو قرآن نے ایک تاریخی دلیل کے طور پر نقل کیا ہے کہ اولیاء اللہ صرف اللہ کی عبادت کرتے اور غیبی امداد کے لیے اسی کو پکارتے تھے ۔
اوّلین سیرت نگارابن اسحاق [م:۱۵۰ھ/۷۶۸ء]کے مطابق یثرب کے خاندان عمروبن عوف (بنو اوس ) کا ایک شخص سوید بن صامت حج کے لیے مکہ آیا۔ وہ اپنی قوم میں ’’الکامل ‘‘ کے لقب سے مشہور تھا۔ حضورؐ سے ملاقات میں اس نے بتایا کہ اس کے پاس لقمان کی حکیمانہ باتوں کا مجلّہ ہے ۔ اس نے اس میں سے جب کچھ سنایا تو آپؐ نے ان باتوں کو سراہا اور فرمایا: میرے پاس اس سے بھی بہتر کلام ہے ۔ پھر قرآن پڑھ کر سنایا تو سوید نے قرآن کی تعریف کی۔ یثرب پہنچنے کے بعد اسے بنوخزرج نے قتل کر دیا۔ ان کے خاندان کے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ مسلمان ہو چکا تھا۔ (سیرت ابن ہشام ،ص۳۷۳-۳۷۴)
قرآن نے حکیم لقمان کی باتیں نقل کی ہیں:
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا: ’’بیٹا، خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘ ۔ (لقمان ۳۱:۱۳)
مولانا مودودی آیت کے سیاق وسباق میں لکھتے ہیں :’’شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمھارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل ودانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمھارا اپنا مشہور حکیم، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے ‘‘۔(تفہیم القرآن ،ج ۴ ،ص ۱۳)
( لقمان نے کہا تھا) کہ ’’بیٹا کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کر، نیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر ، نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر، اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۶-۱۹)
’’اے نبیؐ !کہو ، ’’اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طر ف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے ‘‘۔ (اٰل عمٰرن ۳:۶۴)
نبی آخر الزماںؐ پر ایمان کے لیے سابقہ کتب میں ان کے ذکر کو بنیاد بنا یا گیا : (رحمت کے حق دار تو وہ ہیں) جو اس پیغمبر، نبی اُمّی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تو رات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے ‘‘۔ (اعراف ۷:۱۵۷)
’’اور جب عیسیٰ ؑابن مریم نے کہا تھا کہ ’’اے بنی اسرائیل ،میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں،تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا ‘‘۔(الصف ۶۱:۶)
مولانا رحمت اللہ کیرانوی [م:۱۸۹۱ء] نے اپنی کتاب اظہار الحق میں تورات وانجیل کی بے شمار عبارات اور کتب حدیث وسیرت سے علمائے اہل کتاب کے مستندوواقعات جمع کردئیے ہیں جن سے رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوتی ہے ۔ مثلاً نجاشی [م:۶۳۲ء] حبشہ نے حضرت جعفر طیارؓ [شہادت: ۶۲۹ء]کی تقریر پر کہا: اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللہِ صَادِقًا مُصَدِّقًا ، وَقَدْ بَایَعْتُکَ وَبَایَعْتُ ابْنَ عَمِّکَ اَیْ جَعْفَرَ بْنَ اَبِی طَالِبٍ، وَاَسْلَمْتُ عَلٰی یَدَیْہِ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ ،’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے سچے اور تصدیق کرنے والے رسولؐ ہیں۔ میں آپؐ کی اور آپؐ کے چچازاد بھائی یعنی جعفربن ابی طالب کے ہاتھوں بیعت کرتا ہوں اور اُن کے ہاتھوں اپنے آپ کو اللہ ربّ العالمین کے سپرد کرتا ہوں‘‘ (اظہار الحق ، ج ۲، ص۴۲۲)۔
کیا ان (اہل مکہ ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں کہ اسے علمائے بنی اسرائیل جانتے ہیں؟ (الشعراء ۲۶: ۱۹۷) ۔
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس (قرآن) پر سچّے دل سے ایمان لے آتے ہیں (البقرہ ۲:۱۲۱) ۔
جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہو جاتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ’’اے پرور دگار، ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے‘‘ (المائدہ ۵:۸۳)۔
ابن اسحاق کے مطابق جب محمدؐ کی نبوت کی خبر حبشہ پہنچی تو وہاں کے بیس عیسائیوں کا وفد مسجد حرام میں آپؐ سے آ کر ملا۔ ان کے سوالات کا جواب دینے کے بعد آپؐ نے انھیں قرآن سنایا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ آپ پر ایمان لے آئے ۔ (ابن ہشام ،ص۳۳۸)
دل ودماغ میں بات اُتارنے کا وہی طرزِ استدلال سب سے زیادہ مؤثر اور فطری ہے، جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ قدیم علم کلام اور جدید سائنسی طرزِ استدلال کی جزوی افادیت کو تسلیم کرنے کےباوجود علما اور داعیانِ دین کے لیےلازم ہے کہ وہ اپنی تحریر و تقریر اور بحث و گفتگو میں قرآن کے اسلوبِ استدلال کو اپنائیں، جس میں عقلی و نقلی دلائل کا توازن ہو۔ کائنات کے ساتھ ساتھ خود نفس انسانی پر غوروفکر کی دعوت ہو۔ انبیاء اور ا ولیاء کے ساتھ ساتھ قدیم وجدید خداپرست اہلِ دانش کے فکرو عمل کا حوالہ ہو اور خدا بیزار قدیم وجدید تہذیب و اقوام کی تباہی کے بیان میں عبرت و موعظت کا سامان ہو۔