’’عرب مُردہ باد‘‘، ’’عربوں کے گائوں جلتے رہیں، جلتے رہیں‘‘۔ یہ وہ نعرے ہیں، جو اسرائیلی آبادکاروں کا ’پرچم مارچ‘ قدیم مقبوضہ بیت المقدس کی گلیوں میں لگاتاہوا ۱۵ جون ۲۰۲۱ءکو گزر رہا تھا۔ ان میں زیادہ تعداد انتہا پسندوں کی تھی۔ یہ انتہاپسند ،نسل پرست صہیونیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہ ’گوری بالادستی‘ پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ سیکنڈے نیویا کے ممالک، امریکا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں ان کی قابلِ لحاظ تعداد موجود ہے۔
اسرائیلی آبادکاروں کی اکثریت دراصل انھی انتہاپسند صہیونیت سے تعلق رکھنے والے صہیونی آبادکاروں پر مشتمل ہے، جنھیں دوسرے ممالک سے لاکر یہاں آباد کیا گیا ہے اور ان کی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کے علاقوں میں جا بجا یہ بستیاں اپنے طرزِ تعمیر سے الگ تھلگ مقامات پر موجود ہیں۔
صہیونی، عرب مقبوضات پر اسرائیلی قبضے کی سالگرہ ہر بار ’پرچم مارچ‘ کے ذریعے مناتے ہیں۔ جون ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ان علاقوں پر قبضہ کیا گیا تھا۔ یاد رہے مشرقی بیت المقدس بھی مقبوضہ علاقہ ہے۔ اس سال جب یہ مارچ نکالا گیا تو جلوس وہاں کے فلسطینی علاقوں سے گزرا اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال بھرے نعرے لگاتا رہا۔
اس مارچ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک صدی پہلے کے اس ’نازی مارچ‘ سے گہری مماثلت رکھتا ہے، جو پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد یورپ میں نکالا جاتا تھا۔ اس کی حالیہ مماثلت امریکا میں نکالے جانے والے مارچ سے بھی ہے، جو نسلی منافرت اور گوری بالادستی کے پیروکار نکالتے رہتے ہیں کہ ’’امریکا سے کالوں اور رنگ دارنسل والوں کو نکالو‘‘۔
مقبوضہ بیت المقدس میں نکالا گیا یہ مارچ، سفیدفام امریکی قوم پرستوں کے ۲۰۱۷ء کے مارچ سے بھی ملتا جلتا ہے۔ یہ مارچ شارلو ٹزویل (ورجینیا) میں نکلا تھا، جو ’گوری بالادستی‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ ان کے نعروں میں صدیوں سے آباد امریکیوں ہی سے کہا گیا تھا کہ ’تم ہماری جگہ نہیں لے سکتے‘۔ شارلو ٹزویل اور مقبوضہ بیت المقدس میں نکالے جانے والے مارچوں میں صرف ایک فرق یہ تھا کہ اسرائیل میں مارچ کو کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ مگر اس کے برعکس فلسطینیوں کو اس مارچ کے راستے میں آنے سے زبردستی روک دیا گیا۔ امریکی اور صہیونی مارچوں میں مماثلت یہ تھی کہ یہ مخالفین کے قتل عام اور شدید نسلی منافرت کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
مقبوضہ بیت المقدس کی سڑکوںاور گلیوں میں ہرطرف فلسطینیوں سے نفرت اور ان کو بے دریغ قتل کرنے کے عزائم ظاہر کیے جارہے تھے۔
امریکی ’گوری بالادستی‘ اور ’صہیونی منافرت‘ کے ان مارچوں میں یہ مماثلت کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہے۔ ان میں مخالف کے لیے شدید نفرت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ بیت المقدس کے مارچ سے امریکی استعماریت سے گہری وابستگی کا بھی اظہار کیا گیا۔ یہ امریکی استعماریت، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب مسلمانوں کے خلاف مسلسل روا رکھی جانے والی پالیسی ہے۔
اس واقعے کی وڈیو بنی اور دُنیا بھر نے صہیونی نسل پرستوں پر لعن طعن کی۔ بعد میں یہ بات کھلی کہ وہ نیویارک سے یہاں آیا تھا اور پچھلے امریکی صدر ٹرمپ کا پُرجوش حامی و مددگار رہا تھا۔ اس کا تعلق امریکا میں آبادکار تنظیم ’نہالات شمعون‘ سے تھا۔ کسی کو بھی اس انکشاف پر حیرت نہ تھی کہ وہ امریکا سے آیا آبادکار تھا اور اس نے یہ حرکت کی تھی۔ یاد رہے تنظیم نہالات بھی ’گوری بالادستی‘ کے لیے کام کرتی ہے۔
امریکا سے آئے ایسے ہی آبادکار برسوں سے ایسی اشتعال انگیز اور انسانیت کُش کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ وہ فلسطینیوں کو ان کی جائیداد اور گھر یا کاروبار سے بے دخل کرکے ان پر قابض ہوجاتے ہیں۔ انھیں اسرائیلی حکومت اور سپریم کورٹ کی پوری پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
یہ نئے اسرائیلی آبادکار اپنے جرائم کی وجہ یا جواز یوں بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ہم اس سرزمین کے اصل وارث ہیں۔ ہم یہاں کے مقامی لوگوں سے تہذیبی اعتبار سے بہتر ہیں۔ ہم صرف اور صرف خود اپنا دفاع کر رہے ہیں‘‘۔
اس سیاست اور جرم کو سمجھنے کے لیے اسرائیل کے نئے وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کی اب تک کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو آسانی سے معلوم ہوجائے گا کہ اسرائیل اور امریکا کے ’گوری بالادستی‘ کے مقاصد اور طریقہ ہائے کار میں کس قدر مماثلت پائی جاتی ہے۔
موجودہ وزیراعظم کے والدین بھی سان فرانسسکو سے نقل مکانی کرکے ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطین آئے تھے۔ وہ آبادکاروں کی تنظیم ’یشا کونسل‘ (Yesha Council) کے سربراہ بھی رہے۔ یہ تنظیم امریکا میں اسرائیل کے تزویراتی مفادات کا دفاع اور تحفظ کرتی ہے۔ یہ تنظیم دریائے اُردن اور بحیرئہ روم کے درمیان آبادکاروں کے معاشی مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز بنجمن نیتن یاہو کے کٹھ پتلی کے طور پر کیا۔ وہ اس بات پر برملا فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ یاہو سے بڑے نسل پرست سیاست کے علَم بردار ہیں۔
نیفتالی، مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی تیاریاں کرچکے ہیں۔ موصوف کا برملا یہ دعویٰ ہے کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں بے شمار عرب قتل کیے ہیں‘‘۔ ان کے خیال میں فلسطینی کم تر درجے کے انسان ہیں۔ وہ انھیں Sub-Human قرار دیتے ہیں، اور یہ عزم ظاہر کرچکے ہیں کہ جب بھی موقع ملا، وہ انھیں قیدکرنے، ان کی توہین کرنے، حتیٰ کہ قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ نئے اسرائیلی وزیراعظم کی پوری زندگی ایک ایسے نسلی قوم پرست کی رہی ہے، جو فلسطینی خون بہانے اور ان کی زمین ہتھیانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔
اس اتفاق میں ذرہ برابر مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ صہیونیت کے ستائے فلسطینیوں اور امریکا کے کالے، پیلے اور برائون لوگوں کے تجربات میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان سب انسانوں کو کم تر انسانوں سے بھی کم تر قرار دیا جاتا ہے۔ ان کو انیسویں صدی کے استعماریوں کے ہاتھوں ایک جیسے حالات کا سامنا رہا ہے۔
ایڈورڈ سعید نے ۱۹۷۹ء میںایک مضمون لکھا تھا کہ ’’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مغربی ہوس ناکی نے سمندرپار علاقوں پر قبضہ جمانے کی راہ اختیار کیے رکھی اور صہیونیت بھی کسی طرح سے پیچھے نہ رہی۔ صہیونیت نے خود تو کبھی اعتراف نہیں کیا کہ وہ یہودیوں کی تحریک ِ آزادی کا ہی تسلسل ہے بلکہ اس نے اپنا عملی تعارف یہود کی آبادکاری کی تنظیم کے طور پر کرایا ہے‘‘۔
سعید کا مزید کہنا ہے کہ ’’مقامی آبادیوں اور ثقافتوں کے خلاف کارروائیوں سے یہودی بستیاں بسانے کی ایسی ہی پالیسیاں اور پروگرام جاری رکھے گئے ہیں۔ انھی تصورات پر مبنی امریکی قوم پرستی اور استعماریت کو کھڑا کیا گیا تھا۔ یہی سب کچھ صہیونیت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس کے ذریعے ہی اب فلسطینیوں کو ان کی املاک سے محروم کیا اور خود ان کی زندگی کو ختم کیا جارہا ہے‘‘۔
آج بظاہر دُنیا پر امریکی بالادستی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صہیونیت، اسرائیل میں امریکی استعماریت کا ہی تسلسل ہے اور فلسطینی ان کا ہدف ہیں۔
روزن بلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ حکمران طبقات نے صدیوں سے یہودیوں کو مڈل مین کے کردار میں پیش اور استعمال کیا۔ یہودی کسان بھی حکمرانوں کی غیرمنصفانہ پالیسیوں کا براہِ راست نشانہ بنتے رہے ہیں اور آج بھی امریکی استعماریوں اور صہیونیوں نے اپنے ہم مذہب یہودیوں کو بفر کے طور پر ہی استعمال کیا ہے۔
درحقیقت، یورپ اور اس کے علاوہ صدیوں سے حکمران طبقات نے یہود سے نفرت کا بیج بویا ہے۔ یہودیوں کو اپنی ظالمانہ پالیسیوں اور اقدامات کے نتائج کا سامنا کرنے والا قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اب وہ وہی کچھ کر رہے ہیں اور سیاسی و تہذیبی طور پر اسے آگے بڑھا رہے ہیں، جو ان کی مطلوب پالیسیوں کے عین مطابق ہے۔
امریکا نے مقبوضہ فلسطین میں ان آباد کاریوں کے خلاف مصنوعات کے بائیکاٹ کی فلسطینی مہم کو کئی ریاستوں میں خلافِ قانون قرار دیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن حکومت میں بھی ایسے قوانین نافذ ہیں، جو اس مہم کو روکنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔مغرب کا میڈیا ایک معمول کے طور پر اسرائیل کے حق میں دلائل کے انبار لگائے جارہا ہے۔ وہ اسرئیلی ریاست اور یہودیوں کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے۔
امریکا بظاہر یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اسرائیل میں یہودیوں کا دفاع کررہا ہے۔ مگر دراصل وہ اسرائیل میں اپنے مفادات کو فروغ دے رہا ہے، جس سے اس کی اپنی سامراجیت قائم رہے۔ یہ امریکا میں سرگرم ’گوری بالادستی‘ کی تحریک ہی کا ایک بدنُما اور خونیں عکس ہے۔
آج یہودی آبادکاروں کی نسلی تشدد کی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کے خلاف غم و غصے کی لہریں توانا ہورہی ہیں۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکی استعماریوں اور صہیونیوں کو اسرائیل میں بے اثر کیا جائے تاکہ وہ قتل عام کی کارروائیوں کے ذریعے فلسطینیوں کے خلاف جاری مہمات روکیں۔ (الجزیرہ، انگریزی، ۸جولائی ۲۰۲۱ء)