مفتی منیب الرحمٰن


مسلم دنیا پر ایک اُفتاد تو عالمی سامراجی قوتوں کی جانب سے مسلط ہے اور دوسرا عذاب دین اسلام، شعائر اسلام اور متفق علیہ معاملاتِ اسلام میں رخنہ اندازی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ گذشتہ دنوں جناب جاوید احمد غامدی کی زیرِ سرپرستی شائع ہونے والے ماہنامہ اشراق (جون ۲۰۱۹ء) میں موصوف کے قابلِ اعتماد رفیق عرفان شہزاد صاحب کا ایک مضمون بعنوان:’’قرآن کے حفظ کی رسم پر نظر ثانی کی ضرورت‘‘ پڑھنے اور ’متبادل بیانیہ‘ جاننے کا موقع ملا۔

مضمون نگار نے حفظِ قرآنِ کریم کی سعادت وفضیلت کو، جس پر اُمت کا اجماع رہا ہے ، اس سعادت کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے لکھا:’’مسلم سماج میں… عام تاثر یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذریعہ اور باعثِ اجر وسعادت ہے۔ یہ تصور چند در چند غلط فہمیوں کا مرکب ہے‘‘، مزید لکھا: ’’حفظ قرآن کی موجودہ رسم اور اس سے جُڑے اجر وثواب اور گناہ کے دینی تصورات اسے ایک بدعت بناتے ہیں‘‘، پھر لکھا: ’’[حتیٰ کہ] یہ خیال ایجاد کیا گیا کہ قرآن مجید کا حفظ کرنا معجزہ ہے، یہ حقیقتاً درست نہیں‘‘۔ آگے چل کر لکھا:’’اتنا وقت، اتنی ضخامت کی کسی بھی کتاب کو زبانی یاد رکھنے کے لیے کافی ہے، خصوصاً جب الفاظ میں ایک خاص قسم کی موسیقیت اور موزونیت بھی پائی جاتی ہو تو یہ اور بھی سہل ہوجاتا ہے‘‘۔ گویا موصوف کے نزدیک قرآن کریم کے یاد ہونے کا سبب عِیاذاً باللہ !اس کی ’موزونیت اور موسیقیت‘ ہے۔

موصوف سے سوال ہے: دنیا میں دیگر مذاہب اور ان کی مذہبی کتب بھی ہیں یا علوم وفنون کی بے شمار کتابیں ہیں، کیا اتنی ضخامت کی کوئی ایک کتاب بھی ایسی ہے ،جس کو دنیا میں موجود قرآن  کے حفاظِ کرام کی کُل تعداد کے ایک فی صد یا ایک فی ہزارنے بھی ازاول تا آخر لفظ بلفظ یاد کررکھا ہو؟
یہی مضمون نگار مزید یلغار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حفظ کے دوران رہایشی مدارس میں بچوں کا اپنے گھر سے دُوری کا دُکھ، جنسی ہراسانی کا مسئلہ، یہ سب بچے کی نفسیات میں غیر صحت مند رویے تشکیل دیتے ہیں‘‘۔ بلاشبہہ خود ہماری آرزو ہے کہ کہیں بھی ایسا واقعہ رُونمانہ ہو، لیکن خال خال، یعنی لاکھوں میں اگر کوئی ایک واقعہ بدقسمتی سے رُونما ہوجائے تو اس کا جواز پیش اور اس کا دفاع کوئی سلیم الفطرت انسان نہیں کرسکتا، مگر صرف اسی پر بس کیوں؟ اس طرح کے شاذ ونادر مگر افسوس ناک واقعات اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی رُونما ہوتے ہیں۔ کیا کبھی ان گھنائونے واقعات کے سبب ان کی بندش کی،ہمارے دانش وروں اور بیانیہ سازوں نے کبھی کوئی زبانی یا قلمی تحریک بپاکی ہے یا ان کا ہدف صرف حفظِ قرآنِ کریم ہے؟

جدید تعلیمی اداروں میں موسیقی ،ڈراموں جیسی خرافات کے مقابلے ہوتے ہیں۔ مضمون نگار شاید انھیں بچوں میں جوہر قابل کو نکھارنے کا نفسیاتی عمل قرار دیتے ہوں گے۔اس لیے موصوف نے ان سلسلوں کو ہدفِ ملامت نہیں بنایا، لیکن حفظِ قرآنِ کریم کے مقابلوں کو ’شعبدہ بازی‘ سے تعبیر فرتے ہوئے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قرآنِ مجید کے حفظ سے شعبدہ بازی کا کام بھی بعض حلقوں میں لیا جاتا ہے۔ طلبہ سے متنِ قرآن کے ساتھ صفحہ نمبر بلکہ آیت نمبر تک یاد کروائے جاتے ہیں۔ پھربین الاقوامی مقابلوں میں یادداشت کے لیے کارنامے پیش کر کے دادِ تحسین وصول کی جاتی ہے‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کل خطابت یا تحریر میں حوالہ دینے کے لیے سورت کا نام، آیت نمبر ،حدیث کی کتاب اوررقم الحدیث کا جو رواج ہے، یہ اُن کے نزدیک شعبدہ بازی ہے۔

مضمون نگار آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’ماہِ رمضان میں تراویح کی نماز ،جو درحقیقت نمازِ تہجد ہی ہے ، میں پورے قرآن کی تلاوت اور اس کے سَماع کا اہتمام مسلمانوں کا اپنا انتخاب ہے ، اس کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جبریلؑ کے ساتھ ماہِ رمضان میں قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے ، نہ کہ نمازِ تہجد میں ‘‘۔ 
اس بیان سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ صحابۂ کرامؓ کا اجماعِ عملی اور امت کا عملی تواتر ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور مہاجرین وانصار، جو آپؐ کے براہِ راست تربیت یافتہ تھے ،ان کے نزدیک ساقط الاعتبار ہیں۔ اُن کا کوئی متواتر عمل بھی کسی درجے کی حجت نہیں ہے ،بلکہ ’بدعت‘ ہے۔
یہی صاحب لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ سے منقول قرآنِ مجید کے حفظ کرنے کی ترغیب دلانے والی روایات میں سے جو معیارِ صحت پر پورا اترتی ہیں، اُن میں بھی اس تصور کا پایا جانا ممکن نہیں کہ آپ نے لوگوں کو بلاسمجھے قرآنِ مجید کو زبانی یاد کرنے کی تلقین فرمائی ہو۔ آپ کے مخاطَبین قرآنِ مجید کی زبان سے واقف تھے۔اُن کے لیے اسے سمجھے بغیر یاد کرلینا متصور ہی نہیں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیاآج بھی عالَمِ عرب کے عام اہلِ زبان باقاعدہ تعلیم کے بغیر قرآن کے معانی و مطالب کو کماحقہٗ سمجھ سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو عالَمِ عرب میں علومِ عربیہ واسلامیہ کی درس گاہوں کی کوئی ضرورت نہ رہتی ۔ پھر دیکھیے: کیا اُن تمام ممالک کے لوگ ،جن کی مادری زبان انگریزی ہے،وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کیے بغیر جدیدسائنسی ، فنی،ادبی اورسماجی علوم کو جان سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو مغرب میں ہر سطح کے تعلیمی اداروں کا وجود بے معنی ہوکر رہ جاتا۔ بلاشبہہ صحابہ کرامؓ اہلِ زبان تھے، لیکن اس کے باوجود اُن میں ماہرینِ تفسیر ، ماہرینِ حدیث اور ماہرینِ فقہ محدود تعداد میں تھے کہ جنھوں نے باقاعدہ مکتبِ نبوت سے علم حاصل کیا تھا۔ صُفّہ کی درس گاہ آخر کس لیے تھی؟ انھی ماہرین کو قرآنِ کریم نے التوبہ۹:۱۲۲ میں  تَفَقُّہْ فِی الدِّیْن سے تعبیر فرمایاہے۔  
اب آتے ہیں نفسِ مسئلہ کی طرف، سب سے پہلے ہم اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآنِ کریم کے معانی ومطالب اور احکامِ الٰہی کوبصورتِ اوامر ونواہی جاننا ،ان کی تفہیم وتفہُّم اور تعلیم وتعلُّم مقصودِ اصلی ہے اور اس سے امت میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ معانی اور مطالبِ قرآن کا فہم حاصل ہوگا، تو اسی صورت میں اس پر عمل کی سعادت حاصل کر کے فلاحِ دارین کی منزل کو پایا جاسکتا ہے ۔ لیکن فہمِ قرآن اور تلاوت وحفظِ قرآن کو ایک دوسرے کی ضد قرار دے کر حفظِ قرآن کی اہمیت کم کرنا یا اسے بدعت قرار دینا یا اسے شعبدہ بازی قرار دینا، ہمارے نزدیک یہ بے دردی پر مبنی مہم کا اذیت ناک حصہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے تعلیمِ قرآن اور تعلیمِ بیان (یعنی اس کے معانی ومطالب کی تفہیم )کو باہم مربوط کر کے بیان کیا ہے۔اسی طرح یہ بھی بتایا کہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا ،اسے نبی کریم ﷺ کے دل ودماغ میں محفوظ کرنا اورآپؐ کی زبان پرجاری کرنااللہ نے اپنے ذمے لیا ہے اور پھر یہ بیان بھی اُسی خالق ارض و سما کی طرف سے آیا ہے ،ملاحظہ ہو: الرحمٰن:۱تا۴، القیامہ:۱۶ تا۱۹۔ نیز قرآن کا بیان، یعنی معانی ومطالب اُسی ہستی پر نازل ہوئے جس پر قرآن نازل ہوا ، پس قرآن کو صاحبِ قرآن سے جدا کر کے سمجھا نہیں جاسکتا۔
عہدِ نبوت اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں حافظِ قرآن کو قاریِ قرآن کہاجاتا تھا، لیکن اصطلاح کے فرق سے معنویت نہیں بدلتی۔ جھوٹے مدعیِ نبوت مسیلمہ کے ساتھ جنگِ یمامہ میں ۷۰ قراء کرام شہید ہوگئے تو حضرتِ عمر فاروقؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو تحریری شکل میں جمعِ قرآن کی ضرورت کی جانب متوجہ کیا اور اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’اللہ نے اس حکمت کو سمجھنے کے لیے میرے سینے کو کھول دیا، جس کے لیے عمر کے سینے کو کھول دیا تھا‘‘،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفاے راشدینؓ کے نزدیک حفظِ قرآن حفاظتِ قرآن کا ایک معتمد ومستند ذریعہ تھا۔
حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قوم کی امامت وہ شخص کرے، جو سب سے عمدہ قراء ت کرنے والا ہواور اگرحُسنِ قراء ت میں سب برابر درجے کے ہوں تو اُسے ترجیح دی جائے، جو سنت کا زیادہ علم رکھنے والا ہو،اور اگر اس میں بھی سب مساوی درجے کے ہوں تو اُسے ترجیح دی جائے، جو ہجرت میں مقدم ہو، اور اگر اس میں بھی سب مساوی درجے کے ہوں تو اُسے مقدم کیا جائے جوبڑی عمر والاہو، (سنن ترمذی:۲۳۵)‘‘۔ اگر قاری اور عالم کا ذکر الگ الگ آئے تو ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ دونوں ہم معنیٰ ہیں ،لیکن جب ایک ہی عبارت یا مسئلے میں بالمقابل آئیں تو پھر دونوں کے معنی میں تفاوت ہوگا، جیساکہ سورئہ حجرات :۱۱ میں ایمان اور اسلام کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، تو ان میں معنوی فرق ہوگا، ورنہ عام طور پر یہ ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کاانتظام اپنے ذمے لیا ہے،فرمایا: ’’بے شک ہم نے ذکر( قرآن )اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (الحجر۱۵:۹)‘‘۔ عالَمِ اسباب میں حفاظتِ قرآنِ کریم کے دو ذرائع ہیں :تحریری صورت میں محفوظ کرنا یا ذہن میں محفوظ کرنا۔ آج کل آڈیو وڈیو ریکارڈنگ بھی اس کا ایک ذریعہ ہے ،لیکن یہ ظاہری چیزیں کسی حادثے یا آفت کے نتیجے میں امکانی طور پر تلف ہوسکتی ہیں ،لیکن ذہنوں میں جو امانت محفوظ ہے، وہ تلف نہیں ہوتی۔
حفاظت کا یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے دیگر الہامی کتابوں اور صُحُفِ انبیاے کرامؑ کے بارے میں نہیں فرمایا۔ شاید اس کی حکمت یہ ہو کہ اُن کتابوں کی شریعت ایک محدود زمانے کے لیے تھی اور قرآنِ کریم کی شریعت تاقیامت جاری وساری رہے گی ۔اللہ تعالیٰ نے اسے تحریف سے محفوظ رکھا، فرمایا: ’’اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہوسکتی نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے ،یہ اُس حکمت والے کی نازل کی ہوئی کتاب ہے جو ہرتعریف کے لائق ہے،(حم السجدہ۴۱:۴۲)‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حفظ ہوجانے کی آسانی کو سورئہ قمر:۱۷ میں وصف ِ کمال کے طور پر بیان فرمایا ہے، اور سورئہ اعلیٰ:۶ میں فرمایا: ’’ہم عنقریب آپ کو پڑھائیں گے تو آپ نہیں بھولیں گے‘‘۔

اسی طرح فرمایا:l ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اگر یہ (قرآن) اللہ کے سواکسی اور کے پاس سے آیا ہوتا تو یہ اس میں بہت اختلاف پاتے (النساء۴:۸۲)‘‘۔l’’کیا یہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں (محمد۴۷:۲۴)‘‘۔ l’’ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غوروفکر کریں (الحشر۵۹:۲۱)‘‘۔ l’’ اور ہم لوگوں کے لیے ان مثالوں کو بیان فرماتے ہیں اور ان مثالوں کو صرف علما سمجھتے ہیں (العنکبوت۲۹:۴۳)‘‘۔ قرآن نےواضح طور پربتایا۔ l’’ بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدایش اور گردشِ لیل ونہار میں عقل مندوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں ، جو کھڑے ہوئے ، بیٹھے ہوئے اور کروٹوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یادکرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدایش میں (مستور حکمتوں پر)غوروفکر کرتے رہتے ہیں  (اورکہتے ہیں:)اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ ( کارخانۂ قدرت)بے مقصد پیدا نہیں کیا ، تو (ہرعیب سے)پاک ہے، سو ہمیں عذابِ جہنم سے بچا، (اٰل عمرٰن۳:۱۹۱)‘‘۔ پس، قرآن کے معانی ومطالب کو سمجھنے میں اپنی عقلی اور فکری صلاحیتوں کو استعمال کرنا مقصدِ نزولِ قرآن کا منشا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ 
رہا یہ سوال کہ ’’آیا معنی سے ناواقفیت کے باوجود تلاوتِ قرآنِ کریم دین کو مطلوب ہے اور یہ سعادت ہے‘‘، تو خود قرآن نے تلاوت کا ذکر بھی بطورِ مدح فرمایا: ’’اے چادر اوڑھنے والے! رات کو قیام کیا کیجیے مگر تھوڑا،آدھی رات تک یا اُس سے کچھ کم یا (اگر اس سے آپ کی طبیعت سیر نہ ہوتو) اس سے کچھ زیادہ کیجیے اور قرآن کو ٹھیرٹھیر کر پڑھیے،(المزمل۷۳:۱-۴)‘‘۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ترتیل، یعنی ٹھیر ٹھیر کر پڑھنے کا تعلق تلاوت سے ہے ،نیز فرمایا: ’’(کامل) مومن وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل دہل جاتے ہیں اور جب اُن پر اُس کی آیات پڑھی جائیں تو اُن کے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور وہ اپنے ربّ پر بھروسا کرتے ہیں‘‘۔ (الانفال۸:۲)

مضمون نگار عرفان شہزاد صاحب کی فکر کا مطلب یہ ہے کہ: ’’اگر کسی کو قرآن کے معانی اور مطالب نہیں آتے تومحض تلاوت بے سود ہے‘ ‘،حالانکہ کروڑوں کی تعداد میں مسلمان معانی کو نہیں جانتے لیکن نماز میں تلاوت کرنے کے وہ بھی یکساں طور پر پابندہیں۔ شاید اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان کے دورِ حکومت (۶۹-۱۹۵۸ء) میں ایک دانش وَر ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا تھا: ’’نماز میں معنی جانے بغیر قرآنی آیات کی تلاوت بے سود ہے ،اردو میں ترجمہ پڑھا جائے‘‘۔ 
اللہ تعالیٰ نے البقرہ۲:۱۲۹ میں دعاے ابراہیمی کی صورت میں ، آلِ عمران :۱۶۴ میں بطورِ احسان، اور الجُمُعہ:۲میں حقیقتِ واقعی یا مظہرِ شانِ باری تعالیٰ کی صورت میں فرائض نبوت کو بیان فرمایا اور اس میں تعلیمِ کتاب وحکمت کو الگ فریضۂ نبوت بتایا اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کو مستقل بالذات فریضۂ نبوت بتایا ۔

احادیثِ مبارکہ میں تلاوت کامقصود بالذات اور باعثِ اجرِ عظیم ہونا بہت واضح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(قیامت کے دن) قاریِ قرآن سے کہا جائے گا:جس طرح تم دنیا میں ٹھیر ٹھیر کر قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے ،اب بھی اُسی ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھو اور جنت کے درجات کو طے کرتے جائو،کیونکہ تمھارے درجات کی ترقی کا سلسلہ وہاں جاکر ختم ہوگا،جہاں (دنیا میں کی گئی مقدارِ )تلاوت کا سلسلہ ختم ہوگا‘‘(سنن ترمذی:۲۹۱۴)۔ حدیثِ قدسی میں فرمایا: ’’جسے قرآن میرے ذکر اور مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھے (یعنی کثرتِ تلاوت کی وجہ سے ذکر ودعا کا موقع بھی نہ ملے)تو میں اُسے (بن مانگے)سوال کرنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا‘‘ (سنن ترمذی:۲۹۲۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی سے فرمایش کرکے تلاوت سنی بھی ہے اور صحابی کو سنائی بھی ہے تاکہ تلاوت کرنا اور سننا دونوں سنتِ رسول قرار پائیں۔ حدیث میں ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سنائو (وہ بیان کرتے ہیں): میں نے عرض کیا: میں پڑھوں اور آپ سنیں،حالانکہ قرآن آپ پر نازل ہوا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ میں دوسرے سے تلاوتِ قرآن کو سنوں،پس میں نے آپ کے سامنے سورۃ النساء کو پڑھنا شروع کیا ،حتیٰ کہ میں اس آیت[۴۱] پر پہنچا،[ترجمہ:’’اے حبیبِ مکرّم! وہ کیسا منظر ہوگا جب ہم ہر اُمت پر (تبلیغِ حق) کے لیے (اُس عہد کے نبیؑ کو)گواہ کے طور پر لائیں گے اور پھر آپ کو اُن سب کی گواہیوں کی(توثیق کے لیے)لائیں گے‘‘] تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رک جائو۔ میں نے اچانک( نظریں اٹھاکردیکھا تو)آپ کی آنکھوں سے[بطورِ تشکّر] آنسو بہہ رہے تھے[کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان کو بیان فرمایا]، (بخاری: ۴۵۸۳)‘‘۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبی بن کعبؓ سے فرمایا:اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں قرآن پڑھ کر سنائوں‘‘۔ اُبی بن کعبؓ نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرا نام لے کر فرمایا ہے؟، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہاں !اللہ تعالیٰ نے تمھارا نام لیا ہے‘‘۔ اُبی بن کعبؓ (فرطِ مسرّت سے) رونے لگے۔ قتادہ کہتے ہیں: مجھے بتایا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سورۃ البینہ پڑھ کر سنائی، (بخاری:۴۹۶۰)‘‘۔

احادیثِ مبارکہ میں ہے: ’’(۱)حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کو اپنی (شیریں) آوازوں سے مزین کرو،( ابوداؤد:۱۴۶۸)‘‘۔ اسی طرح بیان کرتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اپنی آوازوں سے قرآن میں حُسن پیدا کرو،کیونکہ اچھی آواز سے قرآن کی خوب صورتی میں اضافہ ہوتا ہے، (سنن دارمی:۳۵۴۴)‘‘۔ ظاہر ہے کہ آواز کی خوب صورتی کا تعلق تلاوت سے ہے، قرآن کریم کے معانی ومطالب کو سمجھنے کا مدار علم ، فہم اور عقل پر ہے ،اس کا آواز کی خوب صورتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حضرت حذیفہ بن یمانؓ بیان کرتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قرآن کو اہلِ عرب کے لہجے اور آوازوں میں پڑھو اور یہود ونصاریٰ اور فاسقوںکے لہجے میں نہ پڑھو، کیونکہ میرے بعد عنقریب ایسی قوم آئے گی، جو گویّوں ،راہبوں اورنوحہ خوانوں کے طرز پر کلماتِ قرآن کو باربار لوٹا کرپڑھیں گے،قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، اُن کے دلوں کو آزمایش میں ڈال دیا گیا ہے اور جو لوگ انھیں سُن کر اُن کی تحسین کرتے ہیں ،اُن کے دلوں کو بھی آزمایش میں ڈال دیا گیا ہے،(المعجم الاوسط:۷۲۲۳)‘‘۔ یعنی قرآنِ کریم کی تلاوت خشوع وخضوع سے کرنی چاہیے، اس سے روح کو قرار وسکون ملنا چاہیے ، اسے محض لذتِ سماع کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ 

الغرض، شیریں کلامی ہی قرآن کا مقصود ومُدعا نہیں ہے ،حدیث میں فرمایا: ’’حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قراء ت وحفظِ قرآن میں ماہر ہے، اُس کا انجام معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن پڑھتا ہے اور (زبان میں لکنت کے باعث) اٹک اٹک کر دشواری سے پڑھتا ہے ،تو اس کے لیے دہرااجر ہے‘‘ (مسند احمد: ۲۶۲۹۶)۔ یعنی تلاوتِ قرآنِ کریم بالذات مقصود بھی ہے اور اللہ کے ہاں اجر کا باعث ہے ۔ 

اگر  قرآن کوصرف مطالب اور احکام کے جاننے تک محدود رکھا جائے، تو یہ قانون کی ایک کتاب بن کر رہ جائے گی ،حالانکہ کوئی شخص معانی نہ سمجھنے کے باوجود اسے اللہ کا کلام سمجھ کر پڑھتا یا سنتا ہے تو اس کا دل بھی روحانی کیف وسرور سے معمور ہوجاتا ہے اوراس کے دل پر اللہ کی جلالت طاری ہوتی ہے، خود قرآن کے کلمات اس پر شاہد ہیں کہ دل پر اللہ کی ہیبت طاری ہوتی ہے۔ لہٰذا، تلاوت کی اہمیت کو کم کرنا، یا کم تر سمجھنا تعظیم وحرمتِ قرآن کے کم کرنے کا سبب بنے گی اور سعادتِ تلاوت کے اجرسے محرومی کا باعث بنے گی۔ پھر تو لوگ قرآنِ کریم کے کلماتِ مبارکہ کو چھوڑ کر اردو تراجم میں محو ہوجائیں گے ،جب کہ اس پر امت کا اتفاق ہے کہ اردو ترجمہ قرآن کا معنی ضرور ہے ،لیکن یہ اللہ کا کلام نہیں ہے اور نہ اُن برکات کا حامل ہے جو کلامِ الٰہی کے لیے قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی ہیں ۔
 جو حضرات قرآن کا مقصود صرف اس کے معنی یا ترجمہ جاننے تک محدود رکھتے ہیں ، اُن کے نزدیک قرآن کو چھونے کے لیے باوضو اور پاک ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور وہ سورۃ الواقعہ کی ان آیات کا وہ معنی مراد نہیں لیتے، جو جمہورِ علماے امت نے مراد لیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک یہ بہت عزت والا قرآن ہے ،محفوظ کتاب میں ،اسے نہ چھوئیں مگر باوضو (الواقعہ: ۷۷-۷۹) ‘‘، یعنی قرآنِ مجید کو چھونے کے لیے حَدَثِ اصغر(بے وضوہونے) اور حدَثِ اکبر (جنابت)دونوں سے پاک ہونا چاہیے۔ حدیثِ پاک میں اس کے معنی یہی بیان کیے گئے ہیں : ’’قرآن کو نہ چھوئیں مگر باطہارت لوگ،(موطا امام مالک:۲۳۴)‘‘۔ 

گذشتہ  جون میں امریکا کے سفر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی پروفیشنلز سے طویل نشست ہوئی۔ اس دورا ن بہت سے مسائل پر تفصیلی گفتگو اور تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ ان احباب میں  عالمی شہرت یافتہ آئی سرجن ڈاکٹر خالد اعوان صاحب بھی شامل تھے۔ وہ الحمدللہ، تفسیر وحدیث اور اسلام کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، نیز عہدحاضر میں قرآن وحدیث کی تطبیق (application)کا عمدہ ذوق بھی رکھتے ہیں۔ ان مجلسوں میں زیرِ بحث امور کے دوران میں پاکستانی پارلیمنٹ سے منظور کردہ بعنوان Transgender Persons (Protection of Rights) Act 2018 [ماوراے صنف (تحفظ حقوق) قانون ۲۰۱۸ء] بھی زیرِ بحث آیا۔

پہلے یہ قانون ایک بل کی شکل میں ۷مارچ ۲۰۱۸ءکو سینیٹ آف پاکستان نے منظور کیا تھا، جسے چار سینیٹروں: روبینہ خالد (پیپلزپارٹی، خیبرپختونخوا)، روبینہ عرفان (مسلم لیگ، ق، بلوچستان)، کلثوم پروین (مسلم لیگ، ن، بلوچستان) اور سینیٹر مسٹر کریم احمد خواجہ (پیپلزپارٹی، سندھ) نے پیش کیا تھا۔ہرقانون کی طرح بظاہر یہ بل بھی ’تحفظِ حقوق‘ کے نام پر پیش کیا گیا، لیکن اس کے پیچھے (Lesbians, Gays, Bisexual and Transgender) LGBT نامی عالمی تنظیم کا ایجنڈا ہے۔

یاد رہے کہ فضا بنانے کے لیے ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کے زیراثر این جی اوز نے چند سال پہلے ’تنظیم اتحادِ امت‘ کے زیر انتظام بعض علما سے یہ فتویٰ حاصل کیا تھا: ’’ایسے خواجہ سراؤں کے ساتھ کہ جن میں مردانہ علامات پائی جاتی ہیں، عام عورتیں اور ایسے خواجہ سرائوں کے ساتھ جن میں نسوانی علامات پائی جاتی ہیں ، عام مرد نکاح کرسکتے ہیں۔ اور ایسے خواجہ سرا کہ جن میں مردوزن دونوں علامتیں پائی جاتی ہیں، انھیں شریعت میں خُنثیٰ مشکل کہاجاتا ہے، ان کے ساتھ کسی مرد وزن کا نکاح جائز نہیں ہے۔[پھر یہ کہ] خواجہ سرائوں کا جایداد میں حصہ مقرر ہے‘‘۔{ FR 644 } ہمیں حُسنِ ظن ہے کہ ان مفتیانِ کرام نے مذکورہ اُمور کو نہ تو پوری معنویت کے ساتھ پڑھا اور سمجھا ہوگا، اور نہ انھیں اس کے محرکات اور مابعد اثرات کا اندازہ ہوگا۔ ایک بڑی واضح سی بات ہے کہ جس شخص میں مردانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں، وہ مرد ہے اور جس میں زنانہ خصوصیات وعلامات پائی جاتی ہیں، وہ عورت ہے، اس پر خواجہ سرا کا اطلاق بے معنی ہے۔تاہم مرد خصوصیات اور عورت خصوصیات والے ماوراے صنف الگ الگ لوگ بھی ہوتے ہیں۔

امریکا میں مذکورہ بالا اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کے بقول: ’’ہم جنس پسندوں کے ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ نے بعض عالمی ذرائع ابلاغ پر مذکورہ بالا فتوے کو اپنی ’فتح‘ سے تعبیر کیا اور کہا: ’’مسلم علما نے ’ماوراے صنف افراد‘ (Transgenders) کے حقوق تسلیم کرلیے ہیں ‘‘۔ لندن کے معروف اخبار دی ٹیلی گراف نے لکھا:’’پاکستان میں ’ماوراے صنف افراد‘ کا اب تک آپس میں شادی کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ وہاں عملِ قومِ لوط کے مرتکب افراد کو باہم شادی پر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ‘‘ ۔{ FR 648 } یعنی ٹیلی گراف نے ’ہیجڑہ ‘کا ترجمہ ’Transgender‘کر کے فتویٰ کو عملِ قومِ لوط کے ہر قسم کے عمل کے جواز اور اجازت پر محمول کردیا۔ یاد رہے LGBT  آرگنائزیشن کے نام میں  Lesbian=Lسے مراد ہم جنس زدہ مَساحقہ عورتیں ہیں اور Gays=Gسے مراد ہم جنس زدہ مرد ہیں، Bisexual=Bسے مراد جو مرد اور عورت دونوں سے جنسی تعلق رکھیں، اور Transgender=T سے  مراد خواجہ سرا ہیں۔ عام طور پر LGBT سے ’ہم جنس پسند‘ مراد لیے جاتے ہیں۔ پھر ان کے لیے دواور اصطلاحیں بھی استعمال ہوتی ہیں:

ایک’ زنخا‘ یا ’اُختہ‘ کو انگریزی میں Eunuchکہتے ہیں۔ یہ لوگ مردانہ جنسی اعضا کے ساتھ پیدا ہوئے ،مگر بلوغت سے پہلے جنسی اعضا کو خصی کردیا، یا کٹوا ڈالتے ہیں۔

اور Hermaphroditeپیدایشی طور پر جدا صفات کا حامل ہوتا ہے، جس میں دونوں اصناف کی مرکب علامات پائی جاتی ہیں، اور یہ بہت نایاب قسم ہے۔

جب کہ ’ماوراے صنف‘ (Transgender)کا مطلب ہے: ’’وہ افراد جو پیدایشی طور پر جنسی اعضایا علامات کے اعتبار سے مرد یا عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں، مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش میں ،ان جیسی عادات واطوار اور لباس اختیارکرلیتے ہیں اور پھر تبدیلی کے لیے ڈاکٹروں کی مدد بھی حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں تو ڈاکٹر، مرد کو عورت کے اور عورت کو مرد کے ہارمونز بھی کچھ عرصے کے لیے استعمال کراتے ہیں۔  کچھ مزید آگے بڑھ کر پلاسٹک سرجری سے نسوانی ساخت تک بناتے ہیں۔ اسی طرح مردانہ ہارمونز کے ذریعے عورت کی جسمانی ساخت وخصوصیات میں تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں۔ اس سے نہ تومرد میں عورت کی پوری استعداد پیدا ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بچّے پیداہونے لگیںاورنہ عورت میں مرد کی سی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مگر آج مغرب میں حیرت انگیز طور پر یہ شغل رواج پارہا ہے۔

اسی فعل کو قرآن کریم نے ’تغییرِ خَلق‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جب ازراہِ تکبر وحسد ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، اللہ تعالیٰ نے اسے راندۂ درگاہ کرتے ہوئے فرمایا:

  • تو جنت سے نکل جا، بے شک تو راندۂ درگاہ ہے اور بے شک تجھ پر قیامت تک لعنت ہے۔ (الحجر۱۵: ۳۴-۳۵) l شیطان نے قسم کھاتے ہوئے کہا: میں تیرے بندوں میں سے ایک معیّن حصہ ضرور لوں گا، ان کولازماً گمراہ کروں گا، ان کو ضرور (جھوٹی) آرزوئوں کے جال میں پھنسائوں گا، انھیں ضرورحکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان کاٹیں گے اور انھیں لازماًحکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بگاڑ دیں گے۔ (النساء۴:۱۱۸-۱۱۹) lاللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے لوگو!) اپنے آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی اس خلقت پر قائم رکھو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، (الروم ۳۰:۳۰)___ پھر اسی بات کو حدیث پاک میں بیان کیا گیا ہے: ’’ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘‘۔(بخاری:۱۳۵۸ )

قدرتی طور پر کسی کا مُخَنَّث یا ہیجڑا پیدا ہونا اُس فرد کا ذاتی عیب نہیں ہے۔اس بنا پر نہ اُسے حقیر سمجھنا چاہیے اور نہ اُسے ملامت کرنا چاہیے ،کیونکہ ملامت کا جوازاس ناروا فعل پر ہوتا ہے کہ  جس کا ارتکاب کوئی اپنے اختیار سے کرے اور جسے ترک کرنے پر اُسے پوری قدرت حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کسی متنفّس کو اُس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا ،اُس کے لیے  اپنے کیے ہوئے ہر(نیک)عمل کی جزا ہے اورہر (بُرے) عمل کی سزا ہے ،(البقرہ۲:۲۹۶)‘‘۔ لیکن جیساکہ سطورِ بالا میں بیان کیا گیا ہے، آج مغرب میں ’ماوراے صنف‘ (Transgender) اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرتے ہیں۔ جس جنس پر اُن کی تخلیق ہوئی ہے ،مصنوعی طریقوں سے اُسے بدل دیتے ہیں۔

قومِ لوط کے بارے میں فرمایا: ’’اورلوط کویاد کروجب انھوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کرتے ہوجو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کی تھی، بے شک تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس نفسانی خواہش کے لیے آتے ہو ،بلکہ تم (حیوانوں) کی حد سے (بھی)تجاوز کرنے والے ہو‘‘(الاعراف ۷:۸۰-۸۱)۔پھر فرمایا:(۱) ’’اور ہم نے  اُن پر پتھر برسائے ،سو دیکھو مجرموں کا کیسا انجام ہوا‘‘ (الاعراف ۷:۸۴)‘‘۔ (۲)’’پس جب ہماراعذاب آپہنچا تو ہم نے اس بستی کا اوپر والا حصہ نیچے والا بنادیا اور ہم نے ان کے اوپر لگاتار پتھر کے کنکر برسائے جوآپ کے ربّ کی طرف سے (اپنے ہدف کے لیے) نشان زَد ہ تھے اور یہ سزا ظالموں سے کچھ دور نہ تھی‘‘ (ہود۱۱:۸۲-۸۳)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’مجھے اپنی امت کی بربادی کا جس چیز سے زیادہ خوف ہے ،وہ قومِ لوط کا عمل ہے‘‘۔ (سنن ترمذی:۱۴۵۷)

اس لیے پُرجوش مفتیانِ کرام کو چاہیے کہ کسی جدید مسئلے پر فتویٰ جاری کرنے سے پہلے اس کے نتائج، اثرات اور بنیادوں پر ضرور غور فرمائیں یا اپنے اکابر سے مشاورت کرلیا کریں۔ جن باتوں کے فروغ کے پسِ پردہ این جی اوز کارفرما ہوں اور وہ اتنی مؤثر ہوں کہ ارکانِ پارلیمنٹ کے تساہُل اور شہرت پسندی کے سبب پارلیمنٹ کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتی ہوں ،تو یقینا اُن کے پیچھے عالمی ایجنڈا اور دُور رس ودیرپا مقاصد ہوتے ہیں۔پھر وہ معاملات کی تشریح اپنے مقاصد کے تحت کرتے ہیں اور ایسا کرتے وقت کسی قسم کی لفظی ہیرپھیر سے گریز نہیں کرتے۔ اسی لیے جب ایک لفظ یا اصطلاح، متعدد یا متضاد معانی کی حامل ہو تو اس کے بارے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ 
سینیٹ نے ’ماوراے صنف‘ (ٹرانس جینڈر)کے حقوق کے بارے میں بل پاس کیا۔  پھر مئی ۲۰۱۸ء میں اسے قومی اسمبلی نے منظور کرکے صدرِ پاکستان ممنون حسین صاحب کو بھیج دیا، جنھوں نے ۱۸مئی ۲۰۱۸ء کو دستخط کر کے ایکٹ (قانون) بنا دیا۔ مغرب میں ایل جی بی ٹی گروپ اس قانون کو اپنے من پسند موقف کی تائید میں استعمال کررہا ہے۔

’تحفظِ حقوقِ ماوراے صنف قانون‘ میں شرارت موجود ہے۔ دفعہ ۳میں کہا گیا ہے: ’’(۱)ایک’ماوراے صنف ہستی‘کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اُسے اس کے اپنے خیال یا گمان یا زعم (Self Perceived) کے مطابق خواجہ سرا تسلیم کیا جائے ‘‘۔ یعنی اس سے قطع نظر کہ وہ پیدایشی طور پر مردانہ خصوصیات کاحامل تھا یا زنانہ علامات کا؟ وہ اپنے بارے میں جیساگمان کرے یا وہ جیسا  بننا چاہے ، اس کے اس دعوے کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھرذیلی سیکشن ۲میں کہا گیا ہے کہ ’نادرا‘ [قومی رجسٹریشن اتھارٹی] سمیت تمام سرکاری محکموں کو ’’اس کے اپنے دعوے کے مطابق اُسے مرد یا عورت تسلیم کرنا ہو گا،اور اپنی طے کردہ جنس کے مطابق اُسے ’نادرا‘ سے قومی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، چلڈرن رجسٹریشن سرٹیفکیٹ وغیرہ کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی‘‘۔ اس دفعہ کے سقم کو دُور کرنے کے لیے کسی کی غیر واضح صنف کے تعین کو باقاعدہ طبی معائنے سے مشروط کر کے ہی شناختی کارڈ کا اجرا ہونا چاہیے۔

اس قانون کی یہ شق مغرب میں ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کے مقاصد کی تکمیل کا سبب بنتی ہے۔ ’تحفظِ حقوقِ ماورا صنف قانون‘ کے نام پر یہی وہ کھڑکی ہے ،جہاں سے نقب لگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں غالب یقین ہے کہ جن سینیٹروں نے یہ بل سینیٹ میں پیش کیا تھا، انھیں بھی اس کے نتائج   اور بنیادوں میں نصب بارود (Dynamite)کا علم نہیں ہوگا۔ ’عالَم غیب‘ سے ان کے ہاتھ میں ایک چیز تھمادی گئی اور انھوں نے سینیٹ میں قانون سازی کے لیے تحریک پیش کردی۔

اصولی طور پر تو کسی شخص کی پیدایش کے وقت جنسی اعتبار سے جو علامات ظاہر ہوں ،انھی کے مطابق ان کا جنسی تشخّص مقرر کیا جانا چاہیے ،لیکن اگر کسی کا دعویٰ ہو کہ بعد میں فطری ارتقاکے  طور پر کسی کی جنس میں تغیر آگیا ہے ،تو اس کا فیصلہ طبی معائنے سے ہونا چاہیے ،نہ کہ اسے کسی شخص کے ذاتی خیال یا گمان یا خواہش پر چھوڑ دیا جائے۔ جیساکہ اس قانون میں کہا گیا ہے اور یہی عالمی سطح پر ’ایل جی بی ٹی گروپ‘ کا ایجنڈا ہے اور اسے مغرب میں پذیرائی مل رہی ہے۔

اسلامی تعلیمات، ہماری تہذیبی روایات اور معاشرتی اقدار میں بھی اس کی گنجایش نہیں ہے۔ اس لیے پُرامن طریقے سے ان چیزوں کے بارے میں معاشرے کو بیدار کرنا اور انھیں روکنا ہرمسلمان اور پاکستانی کی ذمے داری ہے، خاص طور پر ارکانِ پارلیمنٹ پر اس کی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بیش تر ارکانِ پارلیمنٹ اپنی پارٹی کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں اور یا پھر وہ قانونی مسوّدوں کے اسرار ورُموز کو جاننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اسی لیے پارلیمانی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ،تاکہ ہرمسوّدۂ قانون کا گہرا جائزہ لیا جائے۔ماضی ،حال اور مستقبل کے حوالے سے زیربحث قانون کے اثرات کے بارے میں تحقیق کی جائے اور اگر کوئی مسودۂ قانون فنی امور سے متعلق ہے ،تو اس شعبے میں خصوصی مہارت رکھنے والوں کو بلاکر پارلیمنٹ کی کمیٹی رہنمائی حاصل کرے۔

اس قانون میں ایک اور تضاد یہ بھی ہے کہ دفعہ ۴ذیلی دفعہ ’ہ‘ میں کہا گیا ہے: ’’ہرطرح کے سامان ،رہایش گاہ ، خدمات ، سہولتوں، فوائد ،استحقاق یا مواقع جو عام پبلک کے لیے وقف ہوتے ہیں یا رواجی طور پر عوام کو دستیاب ہوتے ہیں ، ’ماوراے صنف‘ کے لیے اُن سے استفادے یا راحت حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ‘‘، جب کہ دفعہ ۶کی ذیلی دفعہ  ’ہ‘ میں کہا گیا ہے: ’’ماوراے صنف‘ کے لیے خصوصی جیل خانے ، حفاظتی تحویل میں لیے جانے کے مقامات وغیرہ الگ بنائے جائیں ‘‘۔ آپ نے غور فرمایا: جیل خانے یا Confinement Cells (حفاظتی حراستی مراکز) تو خواجہ سرائوں کے لیے الگ ہونے چاہییں، لیکن عام پبلک مقامات تک اُن کی رسائی کسی رکاوٹ کے بغیر ہونی چاہیے ، مثلاً: کوئی مردانہ خصوصیات کا حامل خواجہ سرا ہے تو وہ بلاتردد زنانہ بیت الخلا اور غسل خانے میں بھی جاسکتا ہے، وغیرہ۔ الغرض، ایک طرف مردوزن کی تمیز کے بغیر عوامی مقامات پر کسی رکاوٹ کے بغیر رسائی کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف خصوصی جیل اور حفاظت خانوں کا مطالبہ ہے۔

یہ ایسا ہی ہے کہ پاکستان میں اگر کوئی مسلمان لڑکی اپنے آشنا کے ساتھ چلی جاتی ہے اور اس کے سرپرست رسائی اورتحویل میں لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرتے ہیں، تو عدالت اُسے ’دارالامان ‘بھیج دیتی ہے۔لیکن اس کے برعکس اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو نومسلم ہندو لڑکیوں کو اُن کے ہندو ماں باپ کی تحویل میں دیا ، ایسے اذیت ناک ریاستی تضادات ناقابلِ فہم ہیں۔

’ماوراے صنف‘ کے لیے وراثت میں حصے کی مناسبت سے قانون کی دفعہ ۷کی ذیلی دفعہ ۳ میں کہا گیا ہے (الف): ’’۱۸ سال کی عمر کو پہنچنے پروراثت میں مرد خواجہ سرا کے لیے مرد کے برابر حصہ ہوگا ‘‘، (ب)میں کہا گیا ہے: ’’زنانہ خواجہ سرا کے لیے عورت کے برابر حصہ ہوگا ‘‘، (ج)میں کہا گیا ہے: ’’وہ خواجہ سرا جو مذکر اور مونث دونوں خصوصیات کا حامل ہو یا اس کی جنس واضح نہ ہو، تواُسے مرد اور عورت دونوں کی اوسط کے برابر حصہ ملے گا، (د)میں کہا گیا ہے : ۱۸سال سے  کم عمر ہونے کی صورت میں اس کی جنس کا تعیُّن میڈیکل افسر طے کرے گا۔

اسلام میں ۱۸ سال یا اس سے زیادہ عمر یا کم از کم عمر کے وارث کا وراثت میں حصہ ایک ہی ہے۔اس میں عمر کے لحاظ سے کوئی تفاوت نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر مُورِث کی وفات کے وقت کسی وارث کی عمر ایک دن یا چند دن تھی ،تو وہ بھی اپنی صِنف کے اعتبار سے برابر کا حصے دار ہوگا۔ نیز صنف کا تعیُّن پیدایش کے وقت سے ہی ہوجاتا ہے ،اس کا تعلق کسی کے ’’اپنے گمان وخیال یا خواہش‘‘ سے نہیں ہے اور اگر اس بارے میں کوئی ابہام ہے اور طبی معائنے سے طے کرنا ہے ،توبھی اس میں اٹھارہ سال یا اس سے کم عمر میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاسکتی۔یعنی کسی فرد کی اپنی خواہش  اور تصور (Self Perception) پر جنس کے تعیُّن کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت ہوتے ہوئے اپنے آپ کو مرد قرار دے ڈالے ،تو اس کا حصہ عورت کے مقابلے میں دگنا ہوجائے گا ،شریعت میں اس کی گنجایش نہیں ہے ۔ اس لیے شریعت کی رُو سے اس قانون میں یہ بہت بڑا تضاد اور بنیادی ابہام ہے۔

یونی ورسٹی آف کیلے فورنیا،لاس اینجلس کے ولیمز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ ہے: ’’۷لاکھ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جنس وہ نہیں ہے، جو ان کی پیدایش کے وقت تھی ،سو وہ اسے تبدیل کرانا چاہتے ہیں‘‘۔ مگر۲۰۱۵ء کی رپورٹ کے مطابق شاید سمجھنے والے لوگوں کی تعدادکافی زیادہ ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو ’ٹرانس جینڈر‘ یا ’ماوراے صنف‘ کہا جاتا ہے۔ اس نفسیاتی مسئلے کو آج کل کے ماہرینِ نفسیات Gender Dysphoria(جنسی احساسِ ملامت) کہتے ہیں۔ 
’جنسی احساسِ ملامت‘ کا مطلب یہ ہے :’’ایک شخص پیدایشی طور پر جس جنسی ساخت پر پیدا ہوا ہے ،وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے جنسی تشخّص سے مطابقت نہیں رکھتی ۔جو لوگ اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں ،وہ ایک خاص قسم کے ’ٹرانس جینڈر‘ ہیں۔ ’جنسی احساسِ ملامت‘ کے نہ صرف نفسیاتی اسباب ہوتے ہیں، بلکہ حیاتیاتی (بیالوجیکل) اسباب بھی ہوتے ہیں۔ جنس تبدیل کروانے کا عمل ایک پیچیدہ مشق ہے، مگر ایک دعوے کے مطابق اس احساس کے متاثرین میں سے تقریباً ۵۰فی صد لوگ جنس تبدیل کروانے کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔اس عمل کو تغییرِ خَلقُ اللّٰہ یعنی   اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جوقرآنِ کریم کی رُو سے شیطانی عمل ہے۔

ہم ایک بار پھر یاددہانی کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ احادیثِ مبارکہ میں نسوانی وضع اختیارکرنے والے مردوں اور مردانہ وضع اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی گئی ہے:

  • ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور اُن عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور فرمایا: انھیں اپنے گھروں سے نکال دو۔انھوں نے کہا: حضرت عمر نے بھی ایسے ایک شخص کو گھر سے نکال دیا‘‘(بخاری:۵۸۸۶)۔l’’اللہ تعالیٰ نے زنانہ صورت اختیار کرنے والے مردوں اور مردانہ صورت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (مسند احمد:۳۱۵۱)۔
  • ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مُخَنَّث لایا گیا جس کے ہاتھ اور پائوں پر مہندی لگی ہوئی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘عرض کیا گیا: ’’یہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے‘‘۔ آپ نے اُسے مدینہ منورہ سے نکالنے کا حکم دیا۔صحابہؓ نے عرض کیا: ’’یارسولؐ اللہ! ہم اسے قتل نہ کردیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا: مجھے مسلمانوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے‘‘ (سنن ابوداؤد:۴۹۲۸)۔lحضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’ایک خواجہ سرا  حضور کے گھر آیا کرتا تھا۔ ایک بار آپؐ نے اُسے ایک عورت کی جسمانی ساخت پر  گفتگو کرتے ہوئے سناتو فرمایا:اسے گھروں سے نکال دو‘‘ (ابوداؤد: ۴۹۲۹)۔ l’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنانہ لباس پہننے والے مردوں پر اور مردانہ لباس پہننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ (سنن ابوداؤد: ۴۰۹۸)

قیامِ پاکستان کے وقت دونوں حصوں، مغربی پاکستان (اب پاکستان) اور مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کی مجموعی طور پر آبادی ۶کروڑ تھی۔ اب پاکستان کی آبادی ۲۱کروڑ سے زیادہ اور بنگلہ دیش کی ساڑھے ۱۶ کروڑ ہے۔ یہاں ۷۰برسوں میں کم و بیش نصف مدت فوجی اور نصف مدت جمہوریت کی حکمرانی رہی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں برابری (Parity) کا اصول   طے کرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا دستور ۱۹۵۶ءمیں بنا اور ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا لگا کر اس دستور کومنسوخ کر دیا۔ پھر ۲۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو سپہ سالار جنرل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو معزول کر کے اسی مارشل لا کے تحت عنانِ حکومت سنبھال لی۔ پھر اپنی مرضی سے دوسرا دستور ۱۹۶۲ء میں نافذ کیا۔ انھی کے جانشین جنرل یحییٰ خاں نے ۱۹۶۹ء میں اس دستور کو بھی منسوخ کر دیا۔ ۷دسمبر کو متحدہ پاکستان میں ’ون مین ون ووٹ‘ کے اصول پر پہلے قومی انتخابات ہوئے۔

مشرقی اور مغربی پاکستان میں الگ الگ پارٹیاں منتخب ہوئیں۔ یہ دونوں کسی متفقہ آئینی فارمولے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ مشرقی پاکستان سے کامیاب عوامی لیگ نے کھلم کھلا بغاوت اور بھارت سے فوجی و سیاسی امداد کا راستہ اختیار کیا۔ انجامِ کار ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھارت کی عریاں فوجی جارحیت کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ مغربی پاکستان، جو ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد پاکستان کہلایا، اس میں ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا متفقہ دستور پاس ہوا اور ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء کو نافذ ہوا۔ آج تک پاکستان کے چاروں صوبوں، قبائلی علاقہ جات ، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کی اساس یہی دستور ہے۔ اس دستور میں اب تک ۲۲ترامیم ہوچکی ہیں۔

الغرض پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل جاری نہ رہ سکا، نہ سیاسی جماعتیں مضبوط ہوئیں اور نہ دستوری حدود کے اندر رہتے ہوئے ادارے ہی مضبوط ہوسکے۔ اس لیے ہمارے ہاں مقتدرہ کبھی علانیہ اور کبھی پس پردہ کرامات دکھاتی رہی۔اب درست یا غلط، بدقسمتی سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ آزاد عدلیہ کا مقتدرہ کے ساتھ ایک غیرمرئی تعلق قائم ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ ہمارے ہاں پارلیمنٹ، جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں کے مستحکم نہ ہونے کی ذمہ داری خود سیاست دانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ۱۹۸۵ء میں غیر جماعتی بنیاد پرقومی انتخابات ہوئے۔ ان کا مقصد بھی سیاسی جماعتوں کو کمزور اور منقسم کرنا تھا اور فی الواقع ایسا ہی ہوا۔ لسانی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور مذہبی گروہوں کے مسلح جتھے اور ان کی باہم آویزش کا آغاز بھی فوجی حکمرانی کے دور میں ہوا۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اور صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کی عسکری حکمرانی کے نتائج پاکستان اب تک بھگت رہا ہے۔

پس، ہمارے سیاست دانوں کو اپنی ناکامیوں، نادانیوں اور عاقبت نااندیشیوں کا بھی اعتراف کرنا چاہیے اور سارا بوجھ دوسری جانب ڈال کر اپنی معصومیت و بے گناہی کا واویلا نہیں کرنا چاہیے۔ وطن عزیز کو ایسے قائد (Statesman) اور مُدبّر کی ضرورت ہے، جو لمحۂ موجود کا اسیر بن کر   نہ رہے، بلکہ دُوراندیش اور صاحب ِ بصیرت ہونا چاہیے۔کوتاہ بینی کا انجام تو آج سب کے سامنے ہے۔ ہمارا شعار یہ ہے کہ : ’’اولاد، ماں باپ کے تجربے سے اور شاگرد، استاد کے تجربے سے سبق حاصل نہیں کرتا، تاوقتیکہ اسے خود ٹھوکر نہ لگے‘‘۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاست دان اور حکمران تاریخ یا دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرنا تو درکنار، خود ٹھوکر کھا کر بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ ان کا شعار اپنی غلطیوں کو بار بار دُہرانا اور ہربار ایک ہی انجام سے دوچار ہوناہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ’’تم ضرور ہو بہو پچھلی اُمتوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی ان کی پیروی کرو گے۔ ہم نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! آپؐ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اور کون؟ ‘‘ (بخاری: ۷۳۲۰)

سو، ہمارے سیاست دانوں کی کمزوریاں، اُن کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہیں، جیسے اب جناب نوازشریف کو عوام کا مینڈیٹ اور پارلیمنٹ کی بالادستی سب کچھ یاد آرہا ہے، لیکن کیا انھوں نے چار سال تک پارلیمنٹ، کابینہ اور خود اپنی سیاسی جماعت کو وہ وقعت دی، جو ان کا استحقاق تھا؟

۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۹ء تک کے جمہوری اَدوار میں سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں مصنوعی سیاسی جماعت تشکیل دینے کے لیے اداروں کے ہاتھوں استعمال ہوئے۔ ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں سمیت اقتدار میں آئی لیکن آزاد عدلیہ کے دبائو میں رہی کہ اس حکومت پر کرپشن اور نااہلی کی چھاپ کا شہرہ تھا۔ ۲۰۱۳ء کے انتخاب کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، لیکن تحریک ِ انصاف کی جانب سے اس کے خلاف مسلسل محاذ آرائی جاری رہی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے جس آئینی و قانونی بنیاد پر جناب نواز شریف کو نااہل قرار دیاہے، اس کے بارے میں آئینی و قانونی ماہرین کی آرا منقسم ہیں۔ہمیں محدود عصبیتوں سے نکل کر بحیثیت مجموعی ملکی اور قومی وقار کو بھی دیکھنا چاہیے اور اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کون چلا گیا اور اس کی جگہ کون لے گا؟

ان ۷۰برسوں میں پاکستان نے دفاعی حوالے سے جو غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا، وہ ایٹم بم بنانا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک طرح کا تحفظ مل گیا ہے اور ایٹم بم کو سدِّجارحیت کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بات پوری قوم کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایٹم بم آج تک صرف امریکا استعمال کرسکا ہے۔ مسلم ممالک پر تو چڑھائی کرنے میں امریکا ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتا اور ’تمام بموں کی ماں‘ گرا دیتاہے، لیکن شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی پابندیوں اور طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں کرسکا۔ اشتراکی روس، افغانستان میں اپنی ہزیمت، پسپائی اور تحلیل برداشت کرگیا، لیکن ایٹم بم چلانے کی ہمت نہیں کرسکا۔ دفاع اور عالمی وقار کے لیے ملک و قوم کا سیاسی و معاشی استحکام، قومی اتفاق راے اور ملّی اتحاد بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل پاکستان کی تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہے اور دوسرا یہ کہ تاریخ پڑھائی بھی نہیں جاتی۔ میڈیا جو تاریخ بیان کرتا ہے، وہ متنازعہ، مسخ شدہ اور بیان کرنے والوں کی اغراض کی آلۂ کار ہوتی ہے، مگر تاریخ ہرگز نہیں کہلاسکتی۔ تاریخ کے حوالے سے ہرایک کی تعبیر اپنی اپنی عصبیتوں کے تابع ہے۔ ایک کے نزدیک کوئی ابلیس ہے، تو دوسرے کے نزدیک فرشتہ، ایک کے نزدیک کوئی شہید ہے، تو دوسرے کے نزدیک قاتل۔ پاکستان میں کرپشن کی ابتدا    جعلی کلیموں سے شروع ہوئی، لوگوں کے نسب بدل گئے، کئی نامی بے نام ہوگئے اور کئی بے نام   نام وَر بن گئے۔ نذیردہقانی نے خوب کہا ہے  ؎

کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے      ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے

پھر کرپشن، لُوٹ مار اور بددیانتی ہمارے جسد ِ ملّی کے رگ و پے میں سرایت کرتی چلی گئی۔ پہلے راشی اور مرتشی ہونا عیب تھا، مگر ازاں بعد اعزاز بن گیا۔ علم اور کردار بے توقیر ہوگئے اور دولت ذریعۂ وقار و افتخار بن گئی۔ یہ اَخلاقی امراض وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرضِ مُزمن (chronic) کی شکل اختیار کرگئے۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو صدر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے اَدوار غنیمت نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر صدر ایوب خان کے دور تک اعلیٰ بیوروکریسی کے انتخاب میں اقرباپروری نہیں تھی، مگر ۱۹۷۱ء کے بعد تنزل، اقرباپروری اور ذاتی پسند و ناپسند کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ اسی طرح جن اکابر علما ے دین نے تحریکِ پاکستان میں جان دار کردارادا کیا تھا، آج ان کے اسماے گرامی آپ کو نصابی کتابوں اور قومی تاریخ میں نہیں ملیں گے۔ دین اور اہلِ دین کے حوالے سے ہر آن زہر اُگلا جاتا ہے اور تحریکِ پاکستان کے سب سے بنیادی اور جوہری محرک، دین اسلام کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس ظلم کا مداوا سیکولر قوتوں نے نہیں، بلکہ دینی حمیت اور ملّی وابستگی رکھنے والے محب ِ وطن اہلِ دانش نے کرنا ہے۔ لیکن افسوس کہ ایسی جنس گراں مایہ ذرا کم ہی دکھائی دیتی ہے۔

l ہم جو آزاد قوم ہیں: الحمدللہ علٰی احسانہ، ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد اور خودمختار وطن کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہمارا اپنا ایک دستور اور ایک نظامِ ریاست و حکومت ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے وطنِ عزیز کو ایک غیرمعمولی محلِ وقوع سے نوازا ہے، اس لیے دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو یکسر نظرانداز نہیں کرسکتیں۔ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہیں۔ ہمارا ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹکنالوجی ہمارے حریف ملک بھارت سے بہتر اور برتر ہے۔ ہم کافی حد تک اپنے لیے دفاعی سامانِ حرب تیار کر رہے ہیں اور برآمد بھی کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت، عزم و حوصلے، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کے اعتبار سے ہم اپنے حریف ملک کے مقابلے میں بہت آگے ہیں۔ ہماری قوم ذہانت کے اعتبار سے بھی مسلّم ہے، امریکی اور مغربی ممالک میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ باعزت شعبوںسے وابستہ ہیں۔ ہمارے نوجوان عزم، ولولہ اور ذہانت سے معمور ہیں۔

ہمارے حریف ملک بھارت نے کمپیوٹر کی سافٹ ویئر انڈسٹری کو کافی ترقی دی ہے، بالخصوص جنوبی ہند اس کا بہت بڑا مرکز ہے۔ اگر ہمارے نوجوانوں کو جدید کمپیوٹر، سافٹ ویئر کی تربیت دی جائے، سہولتیں فراہم کی جائیں تو ان شعبوں میں بھی ہم کافی ترقی کرسکتے ہیں۔ نادراسافٹ ویئر اسی شعبے میں ہماری مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ الغرض پاکستان میں امکانی استعداد اور مواقع بہت ہیں۔ کاش! ہم ان سے پوری استعداد کے مطابق فائدہ اُٹھا سکیں۔

اسی طرح ہمارے منفی پہلو بھی بہت ہیں۔ ہم اگرچہ جسمانی اور جغرافیائی طور پر آزاد ہیں، لیکن ذہنی و فکری آزادی اور معاشی خودکفالت کی آزادی تاحال حاصل نہیں کرپائے۔ ہمارے ہاں دستوری و جمہوری نظام کا تسلسل نہیں رہا۔ ہم ہمیشہ شکست و ریخت سے دوچار رہتے ہیں۔ ہم وقفے وقفے سے فوجی حکمرانی اور جمہوریت کے تجربات کرتے رہتے ہیں، لیکن بحیثیت قوم ہمارے مزاج میں قرار و سکون اور استقلال نہیں ہے۔ ہم چند ہی برسوں میں ایک طرح کے نظام سے بیزار ہوجاتے ہیں، تبدیلی کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور پھر اس تبدیل شدہ ڈھانچے سے بھی جلد اُکتا جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے لیے ہم پر اعتماد کرنا دشوار ہے، دنیا کو پتا نہیں کہ ہمارا آنے والا کل کیسا ہوگا؟ لہٰذا، ہم سے دیرپا معاملات کرنے میں انھیں دشواری ہے۔ ہم نے امریکا اور یورپ کو شروع ہی سے دوست بنایا۔ سیٹو اور سینٹو ایسے معاہدات میں امریکا کے طفیلی بن گئے، مگر اس کے نتیجے میں مادی دنیا میں ممکنہ امکانات سے پورے فوائد نہ اُٹھا سکے اور دوسری جانب امریکا اور مغرب پر انحصار نے ہمیں مکمل خودکفالت سے محروم رکھا۔

بھارت تو ہمارا روزِ اوّل سے دشمن ہے۔ کشمیر کا تنازع دونوں کے درمیان دائمی وجہِ نزاع ہے اور اُس کے پُرامن حل کے لیے بھارت تیار نہیں ہے۔ ماضی میں بھارت امریکا سے دُور اور اشتراکی روس کے نہایت قریب تھا۔ لیکن اب چین کا حریف، بڑی معیشت اور بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے وہ امریکا اور مغرب کا منظورِ نظر ہے۔ امریکا ہمارا حلیف ہونے کے باوجود ہمیں F-16 ، جیٹ فائٹر اور دیگر جدید اسلحہ دینے پر تیار نہیں ہے، جب کہ بھارت کو وہ یہی اور اس سے بھی جدید اسلحہ ٹکنالوجی سمیت فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔ طالبان کے دور کے علاوہ افغانستان سے ہمارے تعلقات کبھی خوش گوار نہیں رہے، اس کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی طرف رہا ہے۔ ایران سے بھی ہمارے اقتصادی تعلقات کبھی اعلیٰ سطح کے نہیں رہے اور نہ دوطرفہ تجارت کا حجم معتدبہ سطح تک پہنچ پایا، لیکن اب ہم ایران کے ساتھ تنائو اور بے اعتمادی کے دور سے گزر رہے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کا ایران و شام اور اب قطر کے ساتھ تنائو انتہائی حدوں کو چھورہا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری پوزیشن ڈانواں ڈول ہے، جب کہ بھارت بیک وقت باہم متصادم اور محاذ آرا ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو اعلیٰ سطح پر قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کا ہم سے علانیہ یا غیرعلانیہ مطالبہ ہے کہ ایران کو چھوڑ کر ہمارے کیمپ میں آجائو، جب کہ ہم اس مطالبے پر پورا اُترنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیوں کہ ایران ہمارا قریب ترین ہمسایہ ہے اور اُسے ہم پر اعتماد بھی نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات سے بھی پہلے جیسے تعلقات نہیں ہیں۔ علامہ اقبال نے نظم ’فریادِ اُمت‘ میں جو کچھ لکھا ہے ، آج ہم اس کا مصداق ہیں:

رند کہتا ہے ولی مجھ کو، ولی رند مجھے

سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں مَیں

زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں

کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب

کوئی سمجھا ہے کہ شیدائے حسیناں ہوں میں

ظاہری ٹھیرائو کے باوجود داخلی طور پر ہم معاشی عدمِ استحکام، سیاسی افراتفری اور اضطراب کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے جمہوری نظام میں شامل سیاسی رہنمائوں کے درمیان نفرتیں انتہا پر ہیں۔ ایک دوسرے کی بے توقیری اور تحقیر و تضحیک اُن کا من پسند مشغلہ ہے۔ ہر ایک جزوی طور پر اقتدار میں حصہ دار بھی ہے اور اختلاف کے دبدبے سے بھی لطف اندوز ہورہا ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے اور ہم یہ سوچ کر حیران ہیں کہ انھیں حالات کی نزاکت اور گردوپیش کی حساسیت کا اِدراک کیوں نہیں ہے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

  • اور ظلم کرنے والے بہت جلد جان لیں گے کہ اُن کا (آخری) ٹھکانا کیا ہے؟ (الشعراء: ۲۲۷)
  •       جس دن اُن کے چہرے آگ میں پلٹ دیے جائیں گے، وہ کہیں گے: کاش، ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی اور وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا، تو انھوں نے ہمیں گمراہ کر دیا، اے ہمارے پروردگار، انھیں (ہم سے) دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما۔ (الاحزاب ۳۳:۶۶-۶۸)
  • اور متکبرین نے (اپنے عہد کے) بے بس لوگوں سے کہا: تمھارے پاس ہدایت آنے کے بعد کیا ہم نے تمھیں ہدایت سے روکا تھا، بلکہ تم (خود ہی) مجرم تھے۔ (السبا:۳۲)
  • اور جب اہلِ جہنم آپس میں جھگڑا کریں گے تو کمزور لوگ (اپنے عہد کے) متکبرین سے کہیں گے، ہم تو تمھارے پیچھے چلنے والے تھے، کیا (آج) تم جہنم کے عذاب سے نجات کے لیے ہمارے کسی کام آئوگے؟ (المومن :۴۷)

حدیث ِ پاک میں ہے، سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (میدانِ جنگ میں) ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مشرکوں سے قتال کر رہا ہے اور وہ (بظاہر) مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑا دفاع کرنے والا تھا۔

آپؐ نے فرمایا: ’’جو کسی جہنّمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھے‘‘۔ پھر ایک شخص (اس کی حقیقت جاننے کے لیے) مسلسل اُس شخص کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا،     سو اُس نے (تکلیف سے بے قرار ہوکر) جلد موت سے ہمکنار ہونے کی کوشش کی، وہ اپنی تلوار کی دھار کی طرف جھکا اور اُسے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اپنے پورے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا، یہاں تک کہ تلوار (اُس کے سینے کو چیر کر) دو شانوں کے درمیان سے نکل گئی۔

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ لوگوں کے سامنے اہلِ جنّت کے سے عمل کرتا چلا جاتا ہے، حالاں کہ درحقیقت وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ لوگوں کے سامنے بظاہر اہلِ جہنم کے سے کام کرتا چلا جاتا ہے، حالاں کہ درحقیقت وہ اہلِ جنّت میں سے ہوتا ہے اور اعمال کے نتائج کا مدار اُن کے انجام پر ہوگا‘‘۔ (بخاری: ۶۴۹۳)

اس کی شرح میں علامہ بدرالدین عینیl لکھتے ہیں: اس سے پہلی حدیث میں مذکور ہے: اُس شخص نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر اُس سے اپنا گلا کاٹ ڈالا اور اس حدیث میں مذکور ہے: اُس نے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اُس پر گرا دیا، حتیٰ کہ وہ اُس کے بدن کے آرپار ہوگئی۔ سو ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض ہے۔ دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت  یہ ہے: ہوسکتا ہے کہ اُس نے پہلے تیر سے اپنا گلا کاٹنے کی کوشش کی ہو اور پھر تکلیف سے جلد نجات پانے کے لیے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اس پر گرا دیا ہو ۔ یہ تاویل اُس صورت میں ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعے سے متعلق ہوں اور اگر یہ دو الگ الگ واقعات ہیں تو پھر کوئی تعارض نہیں ہے۔ (عمدۃ القاری،ج۲۳، ص ۲۳۶)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اور اُس وقت کو یاد کرو جب آپ کے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُن کو خود اپنے آپ پر گواہ بناتے ہوئے فرمایا:کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں؟ اُن سب نے (یک زبان ہوکر کہا): کیوں نہیں! (یقینا تو ہمارا ربّ ہے)۔ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں، مبادا تم (کل) قیامت کے دن یہ (نہ) کہہ دو کہ ہم اس سے بے خبر تھے۔ (اعراف ۷:۱۷۲)

ایک حدیث نبویؐ میں ہے: حضرت عمرؓ بن خطاب سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی بابت فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: ان کو مَیں نے جنّت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہلِ جنّت کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: میں نے ان کو جہنّم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جہنمیوں کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے‘‘۔

اس پر ایک شخص نے عرض کیا: (اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے) تو عمل کی کیا حیثیت ہے؟

(حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں:) رسول ؐ اللہ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ جب بندے کو جنّت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اُس سے اہلِ جنّت کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جنّت ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے اور اُس کے سبب اُسے جنّت میں داخل فرما دیتا ہے اور جب اللہ بندے کو جہنّم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اُس سے جہنمیوں کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جہنّم ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے، سو اُسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے‘‘۔ (موطا امام مالک، ۳۳۳۷)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور تقویٰ پر کاربند رہا اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا رہا، تو بہت جلد ہم اُسے آسانی مہیا کردیں گے (اللیل ۹۰:۵-۷)‘‘، یعنی بندے کی مخلصانہ مساعی بارآور ہوں گی۔

اسی مفہوم کو ایک اور حدیث پاکؐ میں ان کلمات میں بیان فرمایا: ’’ہر ایک کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! تو کیا ہم صحیفۂ تقدیر پر توکّل کرتے ہوئے عمل سے دست بردار نہ ہوجائیں؟

آپؐ نے فرمایا: تم (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے) نیک کام کیے چلے جائو،  جسے جس جبلّت پر پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ اُس منزل کے حصول کی خاطر اُس کے لیے آسانیاں مقدر فرما دیتا ہے۔ (بخاری: ۴۹۴۹)

امیرالمومنین حضرت علیؓ سے تقدیر کی بابت سوال ہوا تو آپؓ نے فرمایا: ’’یہ تاریک راستہ ہے اس پر نہ چلو (کہ بھٹک جائو گے)، یہ گہرا سمندر ہے اس میں غوطہ نہ لگائو (کہ غرق ہوجائو گے)، یہ اللہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز ہے، اپنے آپ کو اس کے جاننے کا پابند نہ بنائو   (کہ گمراہ ہوجائو گے)‘‘۔ یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت ِ مطہرہ کے احکام پر کاربند رہنا چاہیے، کیوں کہ اُنھیں اسی کا مکلف ٹھیرایا گیا ہے۔ تقدیر ایسا امر ہے جس کی حقیقت جاننے کا مسلمانوں کو پابند نہیں بنایا گیا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا معمول تھا کہ اسلامی ریاست میں اَسفار کے دوران راستے میں آنے والی بستیوں کا مشاہدہ کرتے، لوگوں کے احوال معلوم کرتے اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے۔ وہ فتح بیت المقدس کے لیے شام کے سفر پر تھے کہ سَرغ کے مقام پر پہنچے۔ وہاں انھیں معلوم ہوا کہ اس بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ آپ نے اکابر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد اس بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: اِس موقعے پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓنے کہا: ’’(عمر!) اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟ ‘‘

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’اے ابوعبیدہ، کاش کہ یہ بات تمھارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی‘‘ (یعنی یہ بات آپ کے شایانِ شان نہیں ہے) کیونکہ حضرت عمرؓ اُن سے اختلاف کو پسند نہیں فرماتے تھے، پس اُنھوں نے جواب دیا: ’’ہاں، اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اُسی کی تقدیر کی پناہ میں جا رہاہوں‘‘۔

اس بحث کے دوران حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ وہاں تشریف لائے اور کہا: ’’ایسی صورتِ حال کے بارے میں میرے پاس رسولؐ اللہ کی ہدایت موجود ہے‘‘۔

آپؐ نے فرمایا: ’’جب تم سنو کہ کسی بستی میں طاعون ہے، تو وہاں نہ جائو اور جس بستی میں  یہ وباآجائے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جائو‘‘۔

 حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: ’’یہ حدیث سن کرحضرت عمرؓ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور چلے گئے‘‘۔ (نوٹ: یہ صحیح مسلم کی حدیث۲۲۱۹ میں بیان کردہ طویل روایت کا خلاصہ ہے۔)

واضح رہے کہ طاعون (Plague) ایک متعدی (Infectious) بیماری ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ یہاں یہ تعلیم فرمایا گیا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ تقدیر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ کا فرمان لَا عَدُویٰ (کوئی بیماری متعدی نہیں ہے) اس پر محمول ہے کہ بیماری کا متعدی ہونا اسباب میں سے ہے، مگر اسباب کی تاثیر مسبب الاسباب، یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اگر بیماری کی تاثیر ذاتی ہو تو جس جگہ وبا پھیل جائے، کوئی انسان نہ بچ پائے، اور اگر دوا میں ذاتی شفا ہو تو اُس دوا کے استعمال سے ہربیمار شفایاب ہوجائے، حالاں کہ ہمارا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔

پس، ہر چیز کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت پر موقوف ہے۔ صحابی نے رسول ؐاللہ سے دریافت کیا: ’’یارسولؐ اللہ! ہمارے اُونٹ ریگستان میں ہرنیوں کی طرح اُچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زدہ اُونٹ اُن میں اچانک داخل ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے سب کو خارش کی بیماری لگ جاتی ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’پہلے اُونٹ کو بیماری کہاں سے لگی؟‘‘ (بخاری: ۵۷۷۰)۔ یعنی اسباب کی تاثیر اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔

رہا یہ سوال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ طاعون زدہ بستی سے کوئی باہر نہ جائے؟ اگر سبھی صحت مند لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بستی سے نکل کر باہر چلے جائیں تو وبا میں مبتلا لوگوں کا علاج کون کرے گا اور قضاے الٰہی سے جن کی موت واقع ہوجائے، اُن کی نمازِجنازہ ، تکفین اور تدفین کا انتظام کون کرے گا؟ کیوںکہ یہ اُمور بھی شریعت کی رُو سے لازم ہیں اور اسلامی معاشرے پر بحیثیت مجموعی فرضِ کفایہ ہیں۔