۲۰۱۷ فروری

فہرست مضامین

اعمال کا مدار انجام پر ہے

مفتی منیب الرحمٰن | ۲۰۱۷ فروری | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے:

  • اور ظلم کرنے والے بہت جلد جان لیں گے کہ اُن کا (آخری) ٹھکانا کیا ہے؟ (الشعراء: ۲۲۷)
  •       جس دن اُن کے چہرے آگ میں پلٹ دیے جائیں گے، وہ کہیں گے: کاش، ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی اور وہ کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا، تو انھوں نے ہمیں گمراہ کر دیا، اے ہمارے پروردگار، انھیں (ہم سے) دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما۔ (الاحزاب ۳۳:۶۶-۶۸)
  • اور متکبرین نے (اپنے عہد کے) بے بس لوگوں سے کہا: تمھارے پاس ہدایت آنے کے بعد کیا ہم نے تمھیں ہدایت سے روکا تھا، بلکہ تم (خود ہی) مجرم تھے۔ (السبا:۳۲)
  • اور جب اہلِ جہنم آپس میں جھگڑا کریں گے تو کمزور لوگ (اپنے عہد کے) متکبرین سے کہیں گے، ہم تو تمھارے پیچھے چلنے والے تھے، کیا (آج) تم جہنم کے عذاب سے نجات کے لیے ہمارے کسی کام آئوگے؟ (المومن :۴۷)

حدیث ِ پاک میں ہے، سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (میدانِ جنگ میں) ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مشرکوں سے قتال کر رہا ہے اور وہ (بظاہر) مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑا دفاع کرنے والا تھا۔

آپؐ نے فرمایا: ’’جو کسی جہنّمی شخص کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص کو دیکھے‘‘۔ پھر ایک شخص (اس کی حقیقت جاننے کے لیے) مسلسل اُس شخص کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا،     سو اُس نے (تکلیف سے بے قرار ہوکر) جلد موت سے ہمکنار ہونے کی کوشش کی، وہ اپنی تلوار کی دھار کی طرف جھکا اور اُسے اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اپنے پورے بدن کا بوجھ اس پر ڈال دیا، یہاں تک کہ تلوار (اُس کے سینے کو چیر کر) دو شانوں کے درمیان سے نکل گئی۔

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ لوگوں کے سامنے اہلِ جنّت کے سے عمل کرتا چلا جاتا ہے، حالاں کہ درحقیقت وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے، اسی طرح ایک بندہ لوگوں کے سامنے بظاہر اہلِ جہنم کے سے کام کرتا چلا جاتا ہے، حالاں کہ درحقیقت وہ اہلِ جنّت میں سے ہوتا ہے اور اعمال کے نتائج کا مدار اُن کے انجام پر ہوگا‘‘۔ (بخاری: ۶۴۹۳)

اس کی شرح میں علامہ بدرالدین عینیl لکھتے ہیں: اس سے پہلی حدیث میں مذکور ہے: اُس شخص نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر اُس سے اپنا گلا کاٹ ڈالا اور اس حدیث میں مذکور ہے: اُس نے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اُس پر گرا دیا، حتیٰ کہ وہ اُس کے بدن کے آرپار ہوگئی۔ سو ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض ہے۔ دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت  یہ ہے: ہوسکتا ہے کہ اُس نے پہلے تیر سے اپنا گلا کاٹنے کی کوشش کی ہو اور پھر تکلیف سے جلد نجات پانے کے لیے تلوار کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے آپ کو اس پر گرا دیا ہو ۔ یہ تاویل اُس صورت میں ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی واقعے سے متعلق ہوں اور اگر یہ دو الگ الگ واقعات ہیں تو پھر کوئی تعارض نہیں ہے۔ (عمدۃ القاری،ج۲۳، ص ۲۳۶)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اور اُس وقت کو یاد کرو جب آپ کے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُن کو خود اپنے آپ پر گواہ بناتے ہوئے فرمایا:کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں؟ اُن سب نے (یک زبان ہوکر کہا): کیوں نہیں! (یقینا تو ہمارا ربّ ہے)۔ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں، مبادا تم (کل) قیامت کے دن یہ (نہ) کہہ دو کہ ہم اس سے بے خبر تھے۔ (اعراف ۷:۱۷۲)

ایک حدیث نبویؐ میں ہے: حضرت عمرؓ بن خطاب سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی بابت فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر اپنے دائیں ہاتھ سے اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: ان کو مَیں نے جنّت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہلِ جنّت کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اُن کی پشت کو چھوا، اُس سے اُن کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: میں نے ان کو جہنّم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جہنمیوں کے سے عمل ہی کرتے چلے جائیں گے‘‘۔

اس پر ایک شخص نے عرض کیا: (اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے) تو عمل کی کیا حیثیت ہے؟

(حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں:) رسول ؐ اللہ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ جب بندے کو جنّت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اُس سے اہلِ جنّت کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جنّت ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے اور اُس کے سبب اُسے جنّت میں داخل فرما دیتا ہے اور جب اللہ بندے کو جہنّم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اُس سے جہنمیوں کے سے کام کراتا ہے یہاں تک کہ اُس کی موت اہلِ جہنّم ہی کے کسی عمل پر ہوتی ہے، سو اُسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے‘‘۔ (موطا امام مالک، ۳۳۳۷)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور تقویٰ پر کاربند رہا اور نیک باتوں کی تصدیق کرتا رہا، تو بہت جلد ہم اُسے آسانی مہیا کردیں گے (اللیل ۹۰:۵-۷)‘‘، یعنی بندے کی مخلصانہ مساعی بارآور ہوں گی۔

اسی مفہوم کو ایک اور حدیث پاکؐ میں ان کلمات میں بیان فرمایا: ’’ہر ایک کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! تو کیا ہم صحیفۂ تقدیر پر توکّل کرتے ہوئے عمل سے دست بردار نہ ہوجائیں؟

آپؐ نے فرمایا: تم (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے) نیک کام کیے چلے جائو،  جسے جس جبلّت پر پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ اُس منزل کے حصول کی خاطر اُس کے لیے آسانیاں مقدر فرما دیتا ہے۔ (بخاری: ۴۹۴۹)

امیرالمومنین حضرت علیؓ سے تقدیر کی بابت سوال ہوا تو آپؓ نے فرمایا: ’’یہ تاریک راستہ ہے اس پر نہ چلو (کہ بھٹک جائو گے)، یہ گہرا سمندر ہے اس میں غوطہ نہ لگائو (کہ غرق ہوجائو گے)، یہ اللہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز ہے، اپنے آپ کو اس کے جاننے کا پابند نہ بنائو   (کہ گمراہ ہوجائو گے)‘‘۔ یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت ِ مطہرہ کے احکام پر کاربند رہنا چاہیے، کیوں کہ اُنھیں اسی کا مکلف ٹھیرایا گیا ہے۔ تقدیر ایسا امر ہے جس کی حقیقت جاننے کا مسلمانوں کو پابند نہیں بنایا گیا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا معمول تھا کہ اسلامی ریاست میں اَسفار کے دوران راستے میں آنے والی بستیوں کا مشاہدہ کرتے، لوگوں کے احوال معلوم کرتے اور اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے۔ وہ فتح بیت المقدس کے لیے شام کے سفر پر تھے کہ سَرغ کے مقام پر پہنچے۔ وہاں انھیں معلوم ہوا کہ اس بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ آپ نے اکابر صحابہ کرامؓ سے مشورے کے بعد اس بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: اِس موقعے پر حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓنے کہا: ’’(عمر!) اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟ ‘‘

حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’اے ابوعبیدہ، کاش کہ یہ بات تمھارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی‘‘ (یعنی یہ بات آپ کے شایانِ شان نہیں ہے) کیونکہ حضرت عمرؓ اُن سے اختلاف کو پسند نہیں فرماتے تھے، پس اُنھوں نے جواب دیا: ’’ہاں، اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اُسی کی تقدیر کی پناہ میں جا رہاہوں‘‘۔

اس بحث کے دوران حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ وہاں تشریف لائے اور کہا: ’’ایسی صورتِ حال کے بارے میں میرے پاس رسولؐ اللہ کی ہدایت موجود ہے‘‘۔

آپؐ نے فرمایا: ’’جب تم سنو کہ کسی بستی میں طاعون ہے، تو وہاں نہ جائو اور جس بستی میں  یہ وباآجائے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جائو‘‘۔

 حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: ’’یہ حدیث سن کرحضرت عمرؓ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور چلے گئے‘‘۔ (نوٹ: یہ صحیح مسلم کی حدیث۲۲۱۹ میں بیان کردہ طویل روایت کا خلاصہ ہے۔)

واضح رہے کہ طاعون (Plague) ایک متعدی (Infectious) بیماری ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ یہاں یہ تعلیم فرمایا گیا کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا تقدیر کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ تقدیر کا حصہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ کا فرمان لَا عَدُویٰ (کوئی بیماری متعدی نہیں ہے) اس پر محمول ہے کہ بیماری کا متعدی ہونا اسباب میں سے ہے، مگر اسباب کی تاثیر مسبب الاسباب، یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اگر بیماری کی تاثیر ذاتی ہو تو جس جگہ وبا پھیل جائے، کوئی انسان نہ بچ پائے، اور اگر دوا میں ذاتی شفا ہو تو اُس دوا کے استعمال سے ہربیمار شفایاب ہوجائے، حالاں کہ ہمارا مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔

پس، ہر چیز کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے حکم اور مشیت پر موقوف ہے۔ صحابی نے رسول ؐاللہ سے دریافت کیا: ’’یارسولؐ اللہ! ہمارے اُونٹ ریگستان میں ہرنیوں کی طرح اُچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زدہ اُونٹ اُن میں اچانک داخل ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے سب کو خارش کی بیماری لگ جاتی ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’پہلے اُونٹ کو بیماری کہاں سے لگی؟‘‘ (بخاری: ۵۷۷۰)۔ یعنی اسباب کی تاثیر اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔

رہا یہ سوال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ طاعون زدہ بستی سے کوئی باہر نہ جائے؟ اگر سبھی صحت مند لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بستی سے نکل کر باہر چلے جائیں تو وبا میں مبتلا لوگوں کا علاج کون کرے گا اور قضاے الٰہی سے جن کی موت واقع ہوجائے، اُن کی نمازِجنازہ ، تکفین اور تدفین کا انتظام کون کرے گا؟ کیوںکہ یہ اُمور بھی شریعت کی رُو سے لازم ہیں اور اسلامی معاشرے پر بحیثیت مجموعی فرضِ کفایہ ہیں۔