محترم وزیر اعظم صاحب، میں ابھی چار دن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹا ہوں اور چاروںدن میں کشمیر کی وادی میں رہا اور مجھے یہ ضروری لگا کہ آپ کو وہاں کے حالات سے واقف کراؤں۔ حالانکہ آپ کے یہاںسے خط کا جواب آنے کا رواج ختم ہوگیا ہے،ایسا آپ کے ساتھیوںکا کہنا ہے، لیکن پھر بھی اس امیدپر یہ خط بھیج رہا ہوں کہ آپ مجھے جواب دیںیا نہ دیں، لیکن خط کو پڑھیںگے ضرور اور پڑھنے کے بعد آپ کو اس میںذرا بھی حقیقت نظر آئے، تو آپ اس میں اٹھائے ہوئے نکات پر دھیان دیں گے۔ مجھے یہ پورا یقین ہے کہ آپ کے پاس جموںو کشمیر لے کر خاص طور سے وادیِ کشمیر کو لے کر جو خبریںپہنچتی ہیں، وہ سرکاری افسروں کے ذریعے ارسال کردہ خبریںہوتی ہیں اور ان خبروں میںسچائی کم ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسا نظامِ کار (میکانزم) ہو، جو وادی کے لوگوں سے بات چیت کرکے آپ کو سچائی سے آگاہ کرائے تو مجھے یقین ہے کہ آپ ان حقائق کو نظر انداز نہیںکر پائیں گے۔
ہماری سیکورٹی فورسز اور ہماری فوج میںیہ خطرناک جذبہ پنپ رہا ہے کہ: ’’کشمیر میں جو بھی بھارتی نظام کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اگر اسے ختم کردیا جائے ، اس کی جان لے لی جائے ، اسے دنیا سے وداع کردیا جائے، تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہوسکتی ہے‘‘۔ ہمارا نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے، دراصل وہ علیحدگی پسندتحریک نہیںہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر ۸۰سال کے ضعیف سے لے کر چھے سال کے بچے تک آزادی، آزادی ، آزادی کہے، تو ماننا چاہیے کہ گذشتہ ۷۰برسوںمیںہم سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ غلطیاں انجانے میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر ہوئی ہیں۔ آج تاریخ اور وقت نے ان غلطیوں کو سدھارنے کا کام آپ کو سونپا ہے۔ امید ہے کہ آپ کشمیر کے حالات کو فوری طور پر اور نئے سرے سے سمجھ کر اپنی حکومت کے اقدامات کا تعین کریںگے۔
وزیر اعظم صاحب، کشمیر میں پولیس والوں سے لے کر ، وہاں کے تاجر، وہاں کے طلبہ، وہاں کی سول سوسائٹی کے لوگ، ہاں کے قلم کار، وہاں کے صحافی، وہاںکی سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور وہاں کے سرکاری افسر، وہ چاہے کشمیر کے رہنے والے ہوں یا کشمیر کے باہر کے لوگ، جو بھی کشمیر میںکام کررہے ہیں، وہ سب کہتے ہیں کہ: ’’بھارتی نظام سے بہت بڑی بھول ہوئی ہے اور اسی لیے کشمیر کا ہر آدمی ہندستانی نظام کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ ان میں سے اگرچہ ہرفرد کے ہاتھ میںپتھر نہیںہے، مگر اس کے دل میں پتھر ضرور ہے‘‘۔ آج یہ تحریک ایک عوامی تحریک بن گئی ہے، ٹھیک ویسی ہی جیسی ہندستان کی ۱۹۴۲ء میں تحریک [آزادی] تھی، یا پھر ’جے پی‘ تحریک تھی کہ جس میں لیڈر کا کردار کم تھا اور لوگوں کا کردار زیادہ تھا۔
اس بات کو بھی ذہن میں رکھیے کہ > کشمیر میں اس بار قربانی والی عید نہیں منائی گئی، کسی نے نئے کپڑے نہیں پہنے، کسی نے قربانی نہیں کی اور کسی کے گھر میں خوشیاں نہیںمنائی گئیں۔ کیا یہ ہندستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ نہیں ہے، جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں؟ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ کشمیر کے لوگوںنے تہوار تک منانا بند کر دیے، عیدالفطر اور بقرعید منانی بند کردیں۔ عملاً یہ ساری تحریک وہاں کی سیاسی قیادت کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جس کشمیر میں ۲۰۱۴ء میں انتخابات ہوئے، لوگوں نے ووٹ ڈالے، آج اسی کشمیر میںکوئی بھی شخص ہندستانی نظام کے لیے ہمدردی کا ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ میںآپ کو حالات اس لیے بتارہا ہوں کہ آپ پورے ہندستان کے وزیر اعظم ہیں اور آپ اس کا کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔
کشمیر کے گھروں میں شام کے وقت لوگ ایک بلب روشن کرکے گزربسر کرتے ہیں۔ زیادہ تر گھروں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، اتنے قتل ہورہے ہیں، ۱۰ہزار سے زیادہ پیلیٹ گن سے زخمی لوگ ہیں، ۵۰۰ سے زیادہ لوگوں کی آنکھیں بے نور ہوگئی ہیں۔ ایسے سوگوار ماحول میں ہم گھر میں چار بلب روشن کرکے خوشی کا کیسے اظہار کرسکتے ہیں، اس لیے ہم ایک بلب جلاکر رہیںگے۔ وزیر اعظم صاحب، میںنے دیکھا ہے کہ لوگ گھروں میںایک بلب جلا کر رہ رہے ہیں۔ میںنے یہ بھی کشمیر میںدیکھا ہے کہ کس طرح صبح آٹھ بجے سڑکوں پر پتھر لگادیے جاتے ہیں او ر وہی لڑکے جنھوں نے صبح کے وقت پتھر لگائے ہیںشام کو چھے بجے اپنے آپ سڑکوں سے پتھر ہٹادیتے ہیں۔ دن میں وہ پتھر چلاتے ہیں،شام کو وہ اپنے گھروں میں اس خدشے اور احساس سے مغلوب ہوکر سوتے ہیں کہ معلوم نہیں سیکورٹی فورسز کے کارندے کب انھیں اٹھاکر لے جائیں، پھر وہ کبھی اپنے گھر کو واپس لوٹیں یا نہ لوٹیں؟ ایسی حالت تو انگریزوں کے دورِحکومت میں بھی نہیں ہوئی تھی ۔ تب بھی یہ ذہنیت نہیں تھی اور عام لوگوں میںاتناڈر نہیںتھا۔ لیکن آج کشمیر کا رہنے والا ہر آدمی، وہ ہندو ہو، مسلمان ہو، سرکاری ملازم ہو یا نہ ہو، بیکار ہو، تاجر ہو، سبزی والا ہو، ٹھیلے والا ہو، ٹیکسی والا ہو، غرض یہ کہ ہر آدمی ڈرا ہوا ہے۔ کیا ہم انھیں اور ڈرانے کی یاانھیںاور زیادہ پریشان کرنے کی حکمت عملی پر تو نہیںچل رہے ہیں؟
۱۹۸۲ء میں پہلی بار شیخ عبداللہ کے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کانگریس کے خلاف انتخاب لڑے اور وہاں انھیں [۸ستمبر ۱۹۸۲ء] اکثریت حاصل ہوئی۔ شاید دہلی میں بیٹھی کانگریس پارٹی، کشمیر کو اپنی کالونی سمجھ بیٹھی تھی اور اس نے [۲جولائی ۱۹۸۴ء] ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت گرادی۔ اس طرح فاروق عبداللہ کی جیت ہار میں بدل گئی اور یہاںسے کشمیریوں کے دل میں ہندستانی نظام کے لیے نفرت کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ کے وزیر اعظم بننے سے پہلے تک دہلی میں بیٹھی تمام حکومتوں نے کشمیر میں لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں دلایا کہ وہ بھی ہندستانی نظام کے ویسے ہی عضو ہیں جیسے ہمارے ملک کی دوسری ریاستیں۔
کشمیر میں ایک پوری نسل جو ۱۹۵۲ء کے بعد پیدا ہوئی، اس نے آج تک جمہوریت کا نام ہی نہیں سنا ،اس نے آج تک جمہوریت کا ذائقہ نہیںچکھا۔ اس نے اپنے ہاں فوج دیکھی، پیراملٹری فورسز دیکھیں، گولیاں دیکھیں، بارود کی بُو سونگھی اور لاشیں دیکھیں۔ اس نسل کو یہ نہیں اندازہ ہے کہ ہم دہلی میں، اترپردیش میں، بنگال میں، مہاراشٹر میں، گجرات میں کس طرح جیتے ہیں اور کس طرح ہم جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے جمہوریت کے نام پر نظام کا ذائقہ چکھتے ہیں۔ کیا کشمیر کے لوگوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ بھی جمہوریت کا ذائقہ چکھیں، جمہوریت کی اچھائیوں کے سمندر میں تیریں یا ان کے حصے میں بندوقیں، ٹینک، پیلیٹ گنس اور پھر ممکنہ قتل عام ہی آئے گا۔
کشمیر کے لوگ، ہندستان کے نظام اور اقتدار کو چڑانے کے لیے جب ہندستان کی کرکٹ میںہار ہوتی ہے، تو جشن مناتے ہیں۔ وہ صرف پاکستان کی ٹیم کی جیت پر جشن نہیں مناتے اور خوش نہیں ہوتے بلکہ اگر ہم نیوزی لینڈ سے ہار جائیں، بلکہ اگر ہم بنگلہ دیش سے ہار جائیں، اگر ہم سری لنکا سے ہار جائیں، تب بھی وہ یہی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ انھیں یہ لگتا ہے کہ ہم ہندستانی نظام کی کسی بھی خوشی کو مسترد کرکے اپنی مخالفت کا اظہار کررہے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب، کیا یہ نفسیات ہندستان کی حکومت کو سمجھنے کی ضرورت نہیںہے۔ کشمیرکے لوگ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، تو کشمیر کی زمین لے کر کے ہم کیا کریں گے۔ کشمیر کی زمین میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر وہاں پر نہ ٹورزم ہوگا، نہ وہاں محبت ہوگی، صرف ایک سرکار ہوگی اور ہماری فوج ہوگی۔ وزیراعظم صاحب کشمیر کے لوگ خود فیصلہ کرنے کا حق چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار آپ ہم سے یہ ضرور پوچھیے کہ ہم ہندستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیںیا ہم پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں یا ہم ایک آزاد ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس میںصرف ہندستان کے ساتھ والا کشمیر شامل نہیںہے۔ اس میں وہ پاکستان کے کنٹرول میں رہنے والے کشمیر ، گلگت، بلتستان کے لیے بھی ریفرنڈم چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہندستان پاکستان کے ساتھ بات چیت کرے کہ اگر ہندستان یہاں یہ حق دینے کو تیار ہے، تو وہ بھی یہ اختیار دیں۔
جموںو کشمیر کی اسمبلی نے اتفاق راے سے ایک قر ارداد منظور کی کہ انھیںکیا حق چاہیے، مگر اس قرارداد کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ کشمیر کے لوگوںکو یہ احساس ہے کہ: ’’ہماری حکومت ہم نہیںچلاتے بلکہ دہلی میں بیٹھے کچھ افسر چلاتے ہیں، انٹیلی جنس بیورو چلاتی ہے، فوج کے لوگ چلاتے ہیں، ہم نہیں چلاتے۔ ہم تو یہاں پر غلاموں کی طرح سے جی رہے ہیں، جنھیں روٹی دینے کی کوشش تو ہوتی ہے، لیکن جن کے لیے جینے کا کوئی راستہ کھلا نہیںہے‘‘۔
وزیر اعظم صاحب، کشمیر کے لیے جو پیسہ الاٹ ہوتا ہے وہ وہاں نہیں پہنچتا ، پنچایتوں کے پاس پیسہ نہیں پہنچتا، کشمیر کے لیے جتنے پیکیج اعلان کیے گئے، وہ ان کو نہیںملے اور شاید آپ نے ۲۰۱۴ءکی دیوالی کشمیر کے لوگوں کے بیچ گزاری تھی، آ پ نے کہا تھا کہ وہاں اتنا سیلاب آیا ہے، اتنا نقصان ہوا ہے، اتنے ہزار کروڑ روپے کا پیکیج کشمیر کو دیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب، وہ پیکیج نہیںملا ہے، اس کا کچھ حصہ مرحوم مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد جب محبوبہ مفتی نے تھوڑا سا دباؤ ڈالا، تو کچھ پیسہ ریلیز ہوا۔ کشمیر کے لوگوں کو یہ سب مذاق لگتا ہے، انھیں اپنی توہین لگتی ہے۔
> وزیر ا عظم صاحب !کیا یہ ممکن نہیں کہ جتنے بھی اب تک پارلیمانی وفود کشمیر میں گئے، ’ہم سخن رپورٹ‘ ، کے سی پنت اور رام جیٹھ ملانی کی تجویز اور ابھی جن لوگوں نے کشمیر کے بارے میں آپ کو راے دی ہے، آپ سے مطلب آپ کے دفتر کو اب تک رائے دی ہو۔ کیا ان آرا کو لے کر ہمارے سابق آٹھ یا دس چیف جسٹسوں کا ایک گروپ بناکر ان کے سامنے وہ رپورٹ نہیں سونپی جاسکتی کہ اس میں فوری طور پر کیا کیا نافذ کرنا ہے۔
چوںکہ یہ ساری چیزیں نہیںہوئیں، اس لیے کشمیر کے لوگ اب آزادی چاہتے ہیں اور آزادی کا یہ جذبہ اتنا بڑھ گیا ہے وزیر اعظم صاحب، میں پھر دہراتا ہوں، مجھے پولیس سے لے کر، ۸۰سال کے ضعیف تک، پھر قلم کار، صحافی، تاجر، ٹیکسی چلانے والے، ہاؤس بوٹ کے لوگ اور چھے سال کا بچہ، یہ سب آزادی کی بات کرتے دکھائی دیے۔ ایک بھی شخص، پھرسے دہراتا ہوں، مجھے نہیں ملا کہ جس نے یہ کہا ہو کہ میں نے پاکستان جانا ہے۔ اس لیے غور کرنا چاہیے کہ جن ہاتھوں میںپتھر ہیں، ان ہاتھوںکو یہ پتھر پکڑنے کی طاقت اگر کسی نے دی ہے، تو یہ ہمارے نظام نے دی ہے۔
وزیر اعظم صاحب ان لوگوں کو کب سمجھ میں آئے گا، یا نہیں سمجھ میں آئے گا، مجھے اس پر تشویش نہیںہے۔ میری تشویش ہندستان کے وزیر اعظم نریندرا مودی کو لے کر ہے۔ نریندرا مودی کو تاریخ اگر اس شکل میںدیکھے کہ انھوںنے کشمیر میں ایک بڑا قتل عام کرواکر کشمیر کو ہندستان کے ساتھ جوڑے رکھا، تو وہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت افسوس ناک تاریخ ہوگی۔ تاریخ نریندرا مودی کو اس شکل میں پہچانے کہ نریندرا مودی نے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتا۔ انھیں ان سارے وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی، جنھیں ۶۰سال سے کشمیریوں کے ساتھ دہرایا جاتا رہا ہے۔ کشمیر کے لوگ سونا نہیںمانگتے ، چاندی نہیںمانگتے، ہیرے نہیںمانگتے، کشمیر کے لوگ عزت مانگتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب، میں نے جتنے طبقوںکی بات کی یہ سب متعلقین (اسٹیک ہولڈر) ہیں۔
فوج کے اس جذبے کو تو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف نظم و نسق بنائے رکھنے کی چیز نہیں ہے۔ سیکورٹی فورسز پیلیٹ گن چلاتے ہیں، لیکن ان کا نشانہ کمر سے نیچے نہیں ہوتا ہے، کمر سے اوپر ہوتا ہے، اس لیے دس ہزار لوگ زخمی پڑے ہیں۔ وزیراعظم صاحب، میں کشمیر کے دورے میں ہسپتالوں میں گیا ہوں۔ مجھ سے کہا گیا کہ پانچ ہزار سے زیادہ فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ مجھے وہ لوگ پتھروں سے زخمی تو دکھائی دیے،مگر ان کی تعداد کافی کم تھی۔ مگر یہ ’ہزاروں کی تعداد میں زخمی‘ ہونے کے پرچار پرکوئی یقین نہیں کرتا، اور اگر ایسا ہے تو ہم صحافیوں کو ان فوجی جوانوں سے ملوائیے جو ہزاروں کی تعداد میں کہیں زیر علاج ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے اپنی آنکھوں سے زمین پر ایک دوسرے سے بستر شیئر کرتے لوگ دیکھے جو زخمی تھے۔ ہم نے وہاں ان معصوم بچوں کو دیکھا ہے، جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں، جو اَب کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ لہٰذا، میں یہ خط اس یقین اور جذبے کے ساتھ لکھ رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ آپ کے پاس اگر یہ خط پہنچے گا تو آپ اسے ضرور پڑھیں گے اور ہو سکتا ہے کچھ اچھا بھی کریں۔ لیکن مجھے اس میں شک ہے کہ یہ خط آپ کے پاس پہنچے گا،اس لیے میں اسے اپنے اخبار چھوٹی دنیا اخبار میں چھاپ رہا ہوں، تاکہ کوئی تو آپ کو بتائے کہ سچائی یہ ہے۔
وزیراعظم صاحب، کیا کشمیر کے لوگوں کو ممبئی، پٹنہ، احمدآباد اور دہلی کے لوگوں کی طرح جینے یا رہنے کا حق نہیں مل سکتا۔ ’’ہم آرٹیکل ۳۷۰ختم کریں گے‘‘۔ اس کا پرچار پورے ملک میں کر رہے ہیں۔ ہم کشمیریوںکو غیر انسانی رُوپ میں یعنی ظالم اور دہشت گرد کی صورت میں پیش کرنے کا پرچار کررہے ہیں۔ لیکن ہم ملک کے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ یہ حکومت ہند ہی کا ایک فیصلہ تھا کشمیر ہمارا کبھی حصہ نہیں رہا اور کشمیر کو جب ہم نے ۱۹۴۷ء میں اپنے ساتھ ملایا ، توہم نے دوفریقوں کے درمیان معاہدہ کیا تھا۔ کشمیر ہمارا آئینی حصہ نہیں ہے، لیکن ہمارے آئینی نظام میں، یہ حق خودارادی (Plebiscite) سے پہلے تک کے لیے آرٹیکل ۳۷۰دیا گیا ہے ۔ وزیراعظم صاحب، کیا یہ نہیں کہا جا سکتا ہم کبھی آرٹیکل ۳۷۰کے ساتھ چھیڑ چھاڑنہیں کریں گے اور ۳۷۰کیا ہے؟ ۳۷۰ یہ ہے کہ کشمیر پر امورخارجہ، فوج اور کرنسی کے علاوہ ہم کشمیر کی حکومت میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کریں گے۔
لیکن گذشتہ۶۵برس اس کی مثال ہیں کہ ہم، یعنی دہلی حکومت نے وہاں مسلسل ناجائز مداخلت کی۔ فوج سے کہیے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے۔ جو سرحد پار کرنے کی کوشش کرے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا ایک دہشت گرد یا دشمن کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو دشمن مت خیال کیجیے۔ کشمیر کے لوگو ں کو اس بات کا رنج اور دُکھ ہے کہ ہندستان میں اتنا بڑا جاٹ احتجاج ہوا، گولی نہیں چلی، کوئی نہیں مرا۔ گوجر احتجاج ہوا، کوئی آدمی نہیں مرا، کہیں پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ ابھی کرناٹک میں کاویری اور بنگلور میں اتنا بڑا احتجاج ہوا ، لیکن ایک گولی نہیں چلی۔مگر ایسا کیوں ہے کہ کشمیر میں گولیاں چلتی ہیںاور وہ کیوں کمر سے اوپر چلتی ہیں؟اور کیوں چھے سال کے بچوں کے اُوپر گولی چلتی ہیں؟ وزیراعظم صاحب، چھے سال کا بچہ کیوں ہمارے خلاف ہوگیا؟ وہاں کی پولیس ہمارے خلاف ہے؟
مجھے پوری امید ہے کہ آپ بغیر وقت ضائع کیے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتنے کے لیے فوراً اقدام کریں گے اور بغیر وقت ضائع کیے اپنی پارٹی کے لوگوں کو، اپنی حکومت کے لوگوں کو سمجھائیں گے کہ کشمیر کے بارے میں کیسا برتائو کرنا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ ہمیں جواب دیں یا نہ دیں، لیکن کشمیر کے لوگوں کے دُکھ درد اور آنسو کیسے پونچھ سکتے ہیں، اس کے لیے قدم ضرور اٹھائیے۔