یہ ایک طویل اور مفید مقالہ ہے، جسے اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے اپنے کارکنوں کی رہنمائی اور تربیت کی غرض سے مرتب کیا ہے۔ اس میں بہت محنت کے ساتھ مواد متعلقہ کو کتاب و سنت سے جمع کرکے سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ دین حق کے پیروکاروں اور تحریک ِ اسلامی کے خدمت گزاروں کو ان شاء اللہ اس سے بہت مدد اور روشنی حاصل ہوگی۔ [نعیم صدیقی]
اسلامی تحریک ایک اجتماعی انقلاب کی داعی ہے، اس لیے اس کا یہ فریضہ بالکل اوّلین اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو عام طور پر تمام انسانوں سے، اور خاص طور پر باہم ایک دوسرے کے ساتھ صحیح صحیح بنیادوں پر مربوط کردے۔ اسلامی تحریک کے کارکنوں کے باہمی تعلقات کو قرآن اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ ۔ اگرچہ بظاہر یہ صرف تین الفاظ کا ایک مختصر سا فقرہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ باہمی تعلقات کی بنیاد اصولی حیثیت ، اہمیت اور گہرائی ظاہر کرنے کے لیے یہ بالکل کافی ہے اور اس معاملے میں اسے ایک اسلامی تحریک کے چارٹر کی حیثیت دی جاسکتی ہے۔
اس سے ایک طرف تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی تحریک میں افراد کا باہم دگر رشتہ ایک اصولی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ اور فکر کی یگانگت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، اور نصب العین کی یکسانیت اس کی بنیاد بنتی ہے۔ یعنی یہ ایمان کا اشتراک ہے جو اس میں رنگ بھرتا ہے۔ دوسری طرف یہ کہ اصولی رشتہ ہونے کی بنا پر یہ کوئی روکھا سوکھا رشتہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں جو استحکام، گہرائی اور شدید محبت سموئی ہوتی ہے، اس کو صرف دوبھائیوں کا باہمی تعلق ہی ظاہر کرسکتا ہے اور یہی تعلق ہے جو ’اخوت‘ کہلاتا ہے۔ ایک اصولی رشتے کو اسلام جو وسعت و استحکام اور جذبات بخشتا ہے، اس کی ترجمانی کے لیے ’اخوۃ‘ سے بہتر اور کیا لفظ ہوسکتا تھا۔
… جو لوگ ہر رنگ اُتار کر صرف اللہ کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں، تمام اطاعتیں ترک کر کے صرف اللہ کی اطاعت کرتے ہیں، ہر باطل سے کٹ کر صرف حق سے جڑ جاتے ہیں اور صرف اللہ کے لیے یکسو ہوجاتے ہیں، وہ بھی اگر ایک دوسرے سے مربوط اور متعلق نہ ہوں گے اور محبت کے تعلقات قائم نہ کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ نصب العین کے لیے یکسوئی سے زیادہ بڑی کون سی قوت ہے جو انسان کو انسان سے جوڑ سکتی ہے۔(’اسلامی تحریک میں کارکنوں کے باہمی تعلقات، [خرم مراد]، ترجمان القرآن، جلد۴۷، عدد۵، جمادی الاولیٰ ۱۳۷۶ھ/ جنوری ،فروری ۱۹۵۷ء، ص۲۳-۲۴)