امریکی صدارتی نظام میں، روایتی طور پر نئے صدر کے پہلے سو دن بڑے فیصلہ کن سمجھے جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں اپنے بارے میں خاص و عام کے بہت سے اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے اور قدم قدم پر حیرت میں مبتلا کیا ہے، وہیں اپنی صدارت کے پہلے دس دن میں وہ کچھ کرڈالا جو دوسرے سو دن میں نہیں کرپاتے۔ یہ اور بات ہے ان ’حیرتوں‘ کے نتیجے میں خوشی کے نغمے کم ہی بلند ہوئے ہیں اور خوف و ہراس اور اضطرابی احتجاج کی لہروں نے امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ سی این این پر ایک امریکی تجزیہ نگار نے خوب کہا ہے کہ: Trump's ten days as President have created a Tsunami of humam misery (ٹرمپ کے بطور صدر، دس دنوں نے انسانی بدبختی کا سونامی دکھا دیا ہے۔)
معروف سیاسی تجزیہ کار خیال کرتے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، ری پبلکن پارٹی کی اُمیدواری کی منزل سر نہیں کرسکیں گے لیکن موصوف نے بڑی چابک دستی سے اپنے تمام گھاگ اور تجربہ کار حریفوں کو مات کر دیا۔ اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی اُمیدوار امریکا اور امریکا کے باہرعالمی سیاست پر نظر رکھنے والے بیش تر دانش وروں، صحافیوں، سفارت کاروں اور سیاسی مبصرین کا خیال تھا اور راے عامہ کے تمام ہی سروے یہ خبر دے رہے تھے کہ ہیلری کلنٹن انتخاب جیت جائیں گی، لیکن ۹نومبر۲۰۱۶ء کو سب ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے کہ ہیلری سے ۲۹لاکھ کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صدارتی بازی ٹرمپ نے جیت لی۔
اسی طرح سبھی سمجھ رہے تھے کہ انتخابی مہم کے دوران بلند بانگ دعوے، دل خوش کُن وعدے، ہوش ربا اعلانات، حتیٰ کہ جو متضاد پالیسی اہداف پوری تحدی اور خطابت کی گرم گفتاری کے ساتھ اس صدارتی امیدوار نے بیان کیے تھے، وہ محض سب انتخابی مہم کا حصہ تھے۔ صدارت کی ذمہ داری پڑنے کے بعد یہ صاحب ہوش کے ناخن لیں گے اور منقسم قوم کو جوڑنے اور حقیقت پسندی کی دنیا میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبے سے ملکی اور عالمی سیاست کو ایک مثبت جہت دینے کے لیے اُمید اور روشنی کے پیامی بن کر اپنے صدارتی دور کا آغاز کریںگے لیکن ٹرمپ صاحب نے نہ صرف اپنی صدارتی تقریر میں ان سب توقعات کو پاش پاش کر دیا، بلکہ اپنی ٹیم کے انتخاب اور صدارت کے پہلے دس دنوں ہی کے اقدامات میں وہ تشویش ناک صورتِ حال پیدا کردی، جس میں حالات کی سنگینی پر نظر رکھنے والے ’تباہی اور بربادی کے سونامی‘ کے خطرات دیکھ رہے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ آنے والے چار سال امریکا ہی نہیں پوری دنیا کے لیے بڑے طوفانی سال ہوں گے اور امریکی عوام اور دنیا کی تمام ہی اقوام کو سیاسی زلزلوں کے جھٹکوں اور ان کے جلو میں پیدا ہونے والے بعد از تلاطم صدمات ( after-shocks)سے سابقہ رہے گا۔
۲۱ویں صدی کا آغاز ’نائن الیون‘ (۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء) کے نیویارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگون پر ہوائی حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں مسئلے سے نبٹنے کے لیے کوئی مثبت اور سوچی سمجھی حکیمانہ پالیسی بنانے کے بجاے، نشۂ قوت کی بدمستی میں پوری دنیا کو دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ جدید تاریخ کی یہ عجیب و غریب جنگ ۱۵سال سے جاری ہے۔ جس میں افغانستان، عراق، شام اور لیبیا تباہ کر دیےگئے ہیں۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا میں ۴۰ممالک کے تقریباً ۳ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے امریکا نے اپنی سربراہی میں جو جنگ شروع کی تھی، اس میں ۶لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا اور ناٹو کے ہلاک ہونے والے فوجی افسروں اور جوانوں کی تعداد ۳ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔اس سے چارگنا زیادہ زخمی اور اپاہج ہوچکے ہیں۔ ۸۰لاکھ سےزائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد اپنے اپنے تباہ کردہ ممالک میں یا پھر دیگر ممالک میں مہاجرت پر مجبور ہوئی ہے۔ مالی اعتبار سے دنیا اس جنگ کی جو قیمت اب تک ادا کرچکی ہے اس کا اندازہ ۶ سے ۸ ٹریلین ڈالر ہے، جس کا اگر نصف بھی دنیا کے انسانوں کو غربت، بھوک اور بیماری سے نجات دلانے کے لیے استعمال ہوتا تو دنیا کی آبادی کا ۵۰ فی صد (۳ء۶ ملین افراد) جو اس وقت غربت ، جہالت اور فاقہ کشی کا شکار ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی اوسط آمدنی کی آبادی کے معیار کے برابر آسکتا تھا۔
ٹرمپ کی سربراہی میں امریکا کی نئی قیادت جو زبان استعمال کر رہی ہے اور جن عزائم کا اظہار کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں ذہن یہ بات سوچ کر مائوف ہو جاتا ہے کہ ’الیون نائن‘ (۹نومبر) کے صدارتی انتخابی نتائج دنیا کو ’نائن الیون‘ کے زلزلے سے بھی بڑے زلزلے کی طرف لے جارہے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ’الیون نائن‘ کے نتیجے میں ۲۰جنوری ۲۰۱۷ء کو جس قیادت نے امریکا کی زمامِ کار سنبھالی ہے، اس کے ذہن، تصورِ جہاں، سیاسی شاطرانہ چالوں، معاشی حکمت عملی اور اندازِ کار کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سمجھا جائے۔ پھر دنیا کو اس تباہی سے بچانے کے لیے سوچ بچار سے کام لیا جائے اور عملی اقدام کیے جائیں، تاکہ ۲۱ویں صدی کو جنگ و جدال اور تباہی و بربادی سے محفوظ کیا جاسکے اور انسانیت کو امن و سلامتی اور ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کی خدمت انجام دی جاسکے۔ واضح رہے کہ دنیا کو تباہی سے بچانے کی اس کوشش کے ذریعے ہی ہم جہاں خود اپنے گھر کو بچانے کی جدوجہد کریں گے، وہیں ہم اُمت مسلمہ کو محفوظ و مستحکم بنانے اور پوری انسانیت کو خیروفلاح کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بھی ایک کردار ادا کرسکیں گے۔
یاد رکھیے، جو پالیسیاں بھی خوف، نفرت، غصے اور انتقام کے جذبے کے تحت بنتی ہیں، وہ ہمیشہ تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ حالات کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ حقائق کے بارے اغماض، جانب داری اور پسند کے انتخاب (selectivity) کے تباہ کن راستے سے بچیں، نیز مسائل اور زمینی رجحانات کو نظرانداز کر کے محض اپنی خواہشات کی بنیاد پر پالیسی بنانے سے مکمل احتراز کریں کہ یہ بڑے ہی خسارے کا سودا ہے۔
امریکا بلاشبہہ آج بھی دنیا کی درجہ اوّ ل کی طاقت ہے۔ ۳۳کروڑ کی آبادی کا یہ ملک جس کی آبادی دنیا کا صرف ۵ فی صد ہے، اس وقت دنیا کی دولت کے ۲۲ فی صد پر قابض ہے۔ اس ملک کی مادی ترقی اور خوش حالی کا آغاز انیسویں صدی کے شروع میں ہوا۔ اس وقت امریکا کے پاس دنیا کی دولت کا صرف ۱ء۴ فی صد تھا، جو دوسری جنگ عظیم(۴۵-۱۹۳۹ء) کے اختتام تک دنیا کی دولت کے ۴۵فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ گذشتہ ۷۰برسوں کے دوران میں اگرچہ امریکا دنیا کا امیرترین اور طاقت ور ترین ملک رہا لیکن اس کی تقابلی پوزیشن میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔
فوجی اعتبار سے امریکا آج بھی دوسرے تمام ممالک پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کی فوج کا بجٹ آج بھی روس، چین، جرمنی، جاپان، فرانس اور برطانیہ کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ دنیا کے ۸۹ممالک میں اس کے فوجی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور ۴۰ ممالک میں اس کے فوجی اڈے قائم ہیں۔ لیکن دوسری جانب معیشت کے میدان میں اسے ماضی جیسی برتری حاصل نہیں رہی۔ چین، روس، جرمنی، جاپان، برازیل اور چند دوسرے ممالک اس دوڑ میں برابر آگے بڑھ رہے ہیں اور چین اس وقت اس معاشی دوڑ میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے اور اگلے ۱۵، ۲۰ سال میں پہلی پوزیشن میں آنے کا اُمیدوار ہے۔
ٹکنالوجی کے میدان میں جو تبدیلی گذشتہ ۵۰برسوں میں آئی ہے اور عالم گیریت (Globalization)کے نتیجے میں امریکا کی صنعتی پیداواری صلاحیت میں جو کمی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں علاقوں کے علاقے ’غیرصنعتی بحران‘ (de-industrialization ) کا شکار ہوئے ہیں، جس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ درمیانی آمدنی والا طبقہ شدید معاشی دبائو کا شکار ہے۔ اس پس منظر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مالی بوجھ اور پھر ۲۰۰۸ء سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران نے آبادی کے ایک بڑے طبقے کو بُری طرح کچل کر رکھ دیا ہے۔ افریقی امریکیوں میں تو غربت اور بے روزگاری پہلے ہی بہت زیادہ تھی، لیکن گذشتہ ۲۰، ۲۵ برسوں میں سفیدفام آبادی میں بھی غربت اور بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پھر تقسیمِ دولت کے سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں ملک میں شدید عدم مساوات کا دور دورہ اور معاشی ترقی کے اصل فوائد سے صرف مال دار طبقہ فیض یاب ہوا ہے، جب کہ آبادی کا بڑا حصہ محرومیوں کا شکار ہے۔
امریکا میں آبادی کے ۵۰ فی صدی کا حال یہ ہے کہ اس کی حقیقی اُجرت (real wages) تقریباً ۳۵، ۴۰ سال سے ایک ہی سطح پرہے یا اس میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ لیکن آبادی کا ایک فی صد جو امیرترین ہے، اس کی دولت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ عالم گیریت، مارکیٹ اکانومی، آزاد تجارت اور آبادی کی منتقلی کی سہولت نے امیروں کو امیرتر اور غریبوں کو غریب تر کردیا ہے۔ جنوری ۲۰۱۶ء اور جنوری ۲۰۱۷ء میں Oxfam کی جو دوسالانہ رپورٹیں شائع ہوئی ہیں، وہ معاشی ناانصافی، دولت کی عدم مساوات اور اکثریت کی زبوں حالی کا بڑا دردناک نقشہ پیش کرتی ہیں:
۲۰۱۶ء کی رپورٹ کا نام ہے: An Economy for the 1%: How Privilage and Power in the Economy Drive Extreme Inequality and how this can be stopped.
اور ۲۰۱۷ء کی رپورٹ کا عنوان ہے: An Economy for the 99%. Its time to build a Human Economy that benefits everyone, not just the Privileged Few.
۲۰۱۷ء کی رپورٹ سے ہم صرف چند حقائق پیش کرتے ہیں، تاکہ زمینی صورتِ حال کو سمجھنے، عوامی سطح پر اصل اضطراب کی نوعیت کا فہم حاصل کرنے کے ساتھ تبدیلی کی خواہش کا صحیح اِدراک کیا جاسکے اور اس کی وجوہ کا اندازہ کیا جاسکے جو اضطراب اور بے چینی کے سیلاب کا ذریعہ ہیں:
l FTSE-100 کا چیف آفیسر تنہا ایک سال میں اتنا کما لیتا ہے، جتنا کہ بنگلہ دیش کے ملبوسات کے کارخانوں میں کام کرنے والے ۱۰ہزار کارکن مل کر کماتے ہیں۔
اس صورتِ حال کے لیے حکومتوں اور کمپنیوں کے پالیسی سازوں کو کم از کم جزوی طور پر تو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ کرئہ ارض پر ہونے والے حالیہ سیاسی واقعات نے ایک اور بڑی تقسیم؍تفریق کاری کو جنم دیا ہے اگر ہم عدم مساوات سے نبٹنا چاہتے ہیں تو اس کی طرف فوری طور پر توجہ منعطف کرنا بہت ضروری ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق بریگزٹ (Brexit) { FR 891 } سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کی کامیابی تک، نسل پرستی میں پریشان کُن اضافہ اور مین سٹریم سیاست سے وسیع پیمانے پر مایوسی اور بددلی تک، اس بات کے روزافزوں اشارے مل رہے ہیں کہ مال دار ملکوں میں زیادہ لوگ اب اسٹیٹس کو برداشت کرنے کے لیےمزید آمادہ نہیں ہیں۔ یہ آخر اسے برداشت کریں بھی تو کیوں، جب کہ تجربے سے یہ اشارے ملے ہیں اس کی وجہ سے جو کچھ حاصل ہو رہا ہے، وہ جامد معاوضے، غیرمحفوظ ملازمتیں اور صاحب ِ ثروت اور نادار لوگوں میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے ۔ چیلنج جس کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مثبت متبادل (Alternative)تعمیر کیا جائے، ایسا نہیں جو تقسیم در تقسیم کو ہوا دے۔
واضح رہے کہ آج دنیا بھر میں صرف آٹھ افراد اتنی دولت کے مالک ہیں جتنی دنیا کے ۳؍ارب ۳۰کروڑ کا مقدر ہے اور ان میں آٹھ میں سے چھے افراد امریکی ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ۲۰۱۰ء میں دنیا کی ۵۰ فی صد آبادی کی دولت کے برابر دولت کے مالک افراد کی تعداد ۳۸۸ تھی، جو ۲۰۱۵ء میں ۶۲ رہ گئی تھی اور ۲۰۱۶ء کے آخر میں اب دولت کا یہ ارتکاز اورسمٹائو صرف آٹھ افراد تک ہوگیا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کا تصور کر کے اللہ تعالیٰ سے گریہ کیا تھا کہ ؎
کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دُنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات!
ڈونلڈ ٹرمپ نے ’تبدیلی‘ کے نعرے کو بڑی ہوشیاری اور چابک دستی سے اپنے حق میں استعمال کیا ہے، حالاں کہ اس کا تعلق اسی سفاک سرمایہ دار طبقے سے ہے، جو اس ہوش ربا استحصال کا ذمہ دار ہے۔ اس نے امریکا میں باہر سے آکر آباد ہونے والے پردیسیوں اور عالم گیریت کو، سفیدفام آبادی کی غربت اور معاشی ابتری کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔ پھر اس نظام کو بدلنے اور امریکا کے معاشی اور سیاسی حکمران طبقے کو چیلنج کرکے اپنے کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی قوت کو استعمال کر کے اقتدار کے محافظوں اور طاقت کے روایتی کارگزاروں اور دلالوں (brokers) کو ایک طرف دھکیل کر عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
یہ امریکی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسے نہ اعلیٰ تعلیم کا اعزاز حاصل ہے، نہ کوئی سیاسی یا انتظامی تجربہ اس کے دامن میں ہے، جس کا پورا کردار یا پراپرٹی ڈیلر یا ڈویلپرکا سا ہے، یا ٹی وی کے ہنرمند بازی گر (entertainer ) کا سا۔ جس کی اپنی امریکیت کی عمر بھی کچھ زیادہ طویل نہیں ہے۔ جس کا دادا جرمنی سے امریکا مہاجرت کرکے آیا تھا۔ جس کی تیسری بیوی کی پیدایش سلاوینیطا (Salavinita) کی ہے اور جسے امریکی شہریت ۲۰۰۵ء میں حاصل ہوئی ہے۔ اس نے متوسط طبقے کی معاشی بدحالی اور مہاجرت کرنے والے (immigrants) لوگوں کو جن میں: میکسی کن ، لاطینی امریکی، چینی، برعظیم پاک و ہند، افریقہ اور عرب دنیا سے آنے والے نوامریکی لوگوں کو جن کی تعداد اس وقت آبادی کا ۱۴ فی صد سے زیادہ نہیں ہے، انھی کو نشانہ بناکر اور زیرزمین نفرت اور خوف کے لاوے کو پکاکر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ووٹ کی طاقت کے ذریعے امریکا کے مقتدر طبقات کو چیلنج کیا ہے۔ خود اپنی پارٹی کے روایتی قائدین کے چھکے چھڑا دیے اور بالآخر صدارت پر براجمان ہوگیا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ اس کی سیاست قوم کو تقسیم کرنے سے چمکی ہے اور اس نے تمام اقلیتوں اور خصوصیت سے مسلمانوں کو ہدف بناکر قربانی کا بکرا ( scapegoat) بنا کر اپنا مقصد حاصل کیا ہے۔ امریکا کے انتخابات میں سیاسی گرماگرمی تو ہمیشہ ہی ہوتی تھی، لیکن ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں جس طرح نفرت، غصے، خوف اور انتقام کا دور دورہ رہا، وہ غیرمعمولی واقعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات اور انتقالِ اقتدار کے بعد بھی تنائو اور تصادم کی فضا موجود ہے۔
امریکا کی سوسالہ تاریخ میں انتخابات کے بعد اور صدارتی حلف برداری کی تقریب اور اس کے بعد مظاہروں کی وہ کیفیت کبھی رُونما نہیں ہوئی جو اس بار ہوئی ہے اور اس کے تھمنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس لیے کہ صدرٹرمپ نے لوگوں کو جوڑنے اور انتخابی معرکے کے ٹکرائو کو پیچھے چھوڑ کر نئے اتحاد اور قومی یک جہتی اور مشترکات پر قوم کو جمع کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے۔ اس کے برعکس رنگ و نسل کی بنیاد پر اس تقسیم کو ملک ہی نہیں عالمی سطح تک پھیلا کر اپنے ایجنڈے پر عمل، اس کا ہدف نظر آرہا ہے جو دنیا کو اور زیادہ غیرمحفوظ بنائے گا اور تصادم اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث ہوگا۔
اس انتخاب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جمہوریت میں قیادت کے لیے ازبس ضروری ہے کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہو اور ان کے مسائل، ان کے متعلقات (concerns)، ان کی مشکلات، ان کے عزائم اور تمنائوں کا صحیح ادراک ہو۔ پھر وہ زبان استعمال کی جائے جسے عوام سمجھتے ہوں اور جو ان کے دل کی گہرائیوں میں اُتر سکے اور ان کو سیاسی تائید، تحرک اور ووٹ کی قوت سے تبدیلی کے لیے اُٹھا سکے۔
صدر ٹرمپ نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ عوام خصوصیت سے محروم طبقات کے جذبات کوسمجھا اور ان کو اپنے سیاسی عزائم کے لیے متحرک اور استعمال کیا۔ اسے اندازہ تھا کہ زمینی معاشی حقائق کیا ہیں؟آبادی کے تناسب میں جو تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور ان کو سفیدفام آبادی کس طرح محسوس کر رہی ہے۔ ان پر اس کی نگاہ تھی۔ پھر اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ کوئی کھل کر اسے ایشو بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ایک طاقت کے روایتی مراکز کی مخالفت مول لے کر، اس طبقے کی تائید حاصل کی جو اس کی کامیابی کے لیے ذریعہ بن سکتا تھا، کہ جن سے خود اس کو اپنی سوچ بھی جِلدکی رنگت اور مذہب سے نسبت سے ہم آہنگ تھی۔
گلوبلائزیشن جسے امریکی انتظامیہ نے اپنے مفاد کی خاطر ’تقدیس‘ کے درجے پر پہنچادیا تھا اور اس کے خلاف بات کرنا گویا کفر کے مترادف ہوگیا تھا، ٹرمپ نے اسے کھل کر چیلنج کیا اور اس کے نتیجے میں جو مسائل مقامی یا قومی سطح پر پیدا ہوئے تھے، ان کو مبالغہ آمیز حد تک نمایاں کیا۔ مسائل کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرنا، تبدیلی کے نعرے کو صحیح انداز میں اپنانا اور اس کی علامت بن جانا، مقتدر قوتوں کو چیلنج کرنا اور عوام کو یہ اعتماد دینا کہ ان قوتوں سے ٹکر لینے کی ہمت اور صلاحیت چیلنج کرنے والے میں موجود ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ پھر یہ سارا کام روایتی ذرائع ابلاغ کے ساتھ غیرروایتی ابلاغ کے ان تمام ذرائع کو استعمال کر کے انجام دیا، جن سے بلاواسطہ عوام تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کا استعمال بڑی مہارت سے کیا۔ ۳۰لاکھ سے زائد افراد اس کے twitter کے ساجھی تھے۔
ٹرمپ کی مہم کے سلسلے میں تحقیق کرنے والوں نے چند بڑی اہم چیزوں پر روشنی ڈالی ہے جو قابلِ غور ہیں:
ان کا کہنا ہے کہ راے عامہ کے تمام ہی جائزے اس بنا پر صحیح تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے کہ ٹرمپ کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی تائید کو صرف ووٹ کی شکل میں ظاہر کیا اور انتخاب سے پہلے یا انتخاب کے روز راے عامہ کے سروے (exit poll) تک میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔ چونکہ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کا تھا، اس لیے یہ راستہ تک اختیار کیا گیا۔
خواتین کے ووٹ نے بھی ایک غیرمتوقع کردار ادا کیا۔ سب کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے خواتین کے بارے میں جو نازیبا باتیں کہی ہیں، ان کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد اس سے متنفر ہوگئی ہوگی۔ حالاںکہ ایسا نہیں ہوا اور خواتین ووٹروں کی ۵۳ فی صد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ ہیلری کلنٹن کا خاتون ہونا بھی اس کے کام نہیں آسکا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے وابستگی یا قربت کا تاثر اس کے لیے ووٹ کی راہ میں حائل ہوگیا اور خواتین ووٹروں نے محض خاتون ہونے کے ناتے نسوانی خوداختیاریت (Feminism)کے نعروں کے زیراثر ووٹ کو استعمال نہیں کیا۔
یہ انتخابات امریکی معاشرے کی اخلاقی حالت اور سماجی اقدار کو سمجھنے کا بھی ایک آئینہ ہیں۔ ذاتی زندگی اور پبلک لائف کو الگ الگ دائروں میں محصور کرنا سیکولر معاشرے کی ریت ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب سیاسی قیادت کے لیے کچھ خاص اخلاقی اقدار کا حامل ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مذہب اور ریاست کی تقسیم کو تسلیم کرنے کے باوجود کچھ اخلاقی صفات اور کردار کی کچھ خاص خوبیوں کو سیاسی قیادت کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ فرد کی جنسی زندگی کے بارے میں عام معاشرے میں خواہ کتنی بھی رواروی اور آزاد خیالی ہو، مگر سیاسی قیادت سے ایک خاص کردار کی توقع ہوتی تھی۔
یہ ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں تک امریکی صدارتی اُمیدوار کی اگر کسی بداخلاقی اور مالی معاملات میں بے قاعدگی کی بات منظرعام پر آتی تھی، تو کم از کم صدارتی اُمیدوار کے لیے راہ کھوٹی ہوجاتی تھی۔ لیکن اب نوبت بہ اینجا رسید کہ ایک درجن سے زائد خواتین برملا دست درازی کی شکایت کرتی ہیں، مگر نہ صدارتی اُمیدوار میدان چھوڑتا ہے اور نہ ووٹروں پر اس کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ حالاں کہ ۳۰، ۴۰ سال پہلے تک یہ روایت تھی کہ ایسے حالات میں صدارتی اُمیدوار خود بخود دست کش ہو جاتا تھا۔
امریکا ہی نہیں، مغربی دنیا کے تمام ہی جمہوری ممالک میں سیاسی قیادت کے لیےاخلاقی مضبوطی (integrity) ایک لازمی صفت تھی۔ سر آئی ورجے نگز (Jennings) اپنی کتاب Cabinet Goverment میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سیاسی قیادت اور پارلیمان کے ارکان کے لیے یہ صفت ہر دوسری صفت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ امریکا کا ایک مشہور پارلیمانی مشیر اسٹیو سمڈٹ (Steve Schmidt) جس نے بہت اہم انتخابی مہموں کی نگرانی کی ہے صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ قیادت میں صداقت او ر حق پرستی جمہوریت کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ (ملاحظہ ہو نیویارک ٹائمز، ۳۱جنوری ۲۰۱۷ء میں ڈیوڈہارسٹر کا صفحہ اوّل کا مضمون: Trump and his long history of untruths)
آج بھی دنیا کی بیش تر پارلیمنٹوں میں ’اخلاقی اُمور کمیٹی‘ ایک اہم کمیٹی ہوتی ہے، جو پارٹی کی وفاداری اور گروہی عصبیت سے بالا ہوکر آزادانہ کام کرتی ہے۔ امریکی کانگرس میں بھی ’اخلاقی اُمورکمیٹی‘ آج بھی موجود ہے ۔ گو یہ اور بات ہے کہ اب اس میں بھی تبدیلی لانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ واضح رہے ایک وقت وہ بھی تھا جب امریکا کے قانون میں ملک کی شہریت کے لیے بھی اچھا کردار ایک لازمی شرط تھی۔ ۱۷۹۰ء کے شہریت کے قانون میں جہاں ہرشہری کے لیے آزاد ’سفیدفام مرد و عورت‘ہونا ضروری تھا (کہ غلام اورسیاہ فام اس زمانے میں شہری نہیں بن سکتے تھے) وہاں دو مزید شرائط یہ بھی تھیں، یعنی: ’اچھا اخلاقی کردار اور کم از کم دوسال سے امریکا میں قیام‘۔
لیکن اب اخلاقی اقدار اور کردار قصۂ پارینہ بن چکے ہیں اور اس صدارتی انتخاب میں یہ بات بہت ہی کھل کر سامنے آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی دولت کس طرح کمائی، ٹیکس ادا کیے یا نہیں؟ بار بار دیوالیہ ہوکر قرض داروں سے کیسے نجات پائی؟ ٹرمپ یونی ورسٹی میں طلبہ سے لاکھوں ڈالر غلط بیانی سے کس طرح حاصل کیے؟{ FR 893 } ___ یہ سب کھلے حقائق ہوتے ہوئے بھی انتخاب میں غیرمتعلق ہی رہے۔ حتیٰ کہ صدارت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد بھی مطالبے کے باوجود ٹیکس کا ریکارڈ پیش کرنے سے انکار اور اپنے یہودی داماد کو وائٹ ہائوس کی انتظامیہ میں اہم کردار دینے اور بین الاقوامی سیاست، خصوصیت سے اسرائیل سے امریکا کے تعلقات کی نگہداشت کے لیے ذمہ داریاں سونپنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ اہم سیاسی دانش ور اس پر چیخ پکار کر رہے ہیں اور مفادات کے ٹکرائو کی دہائی دے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی شخصیت، ان کا اندازِ گفتگو، ذاتی اخلاق، معاشرتی معاملات، طریق تجارت، کاروباری دیانت اور معاملات میں عدم شفافیت کے بارے میں جو شہرت ہے، اسے امریکی جمہوریت کا غارت گرِ حُسن ہی کہا جاسکتا ہے۔
نومبر کے صدارتی انتخابات کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ اس انتخاب میں مقابلہ ’کون بہتر ہوگا؟‘ کی بنیاد پر نہیں بلکہ کون کم خراب ہوگا کی میزان پر ہوئے۔ گویا ٹرمپ کی کامیابی کا اصل سبب ہیلری کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ناکامی ہے۔ پھر ایک اور بڑا اہم سبب خود طریق انتخاب ہے جس پر انگلی اُٹھائی جارہی ہے۔ ہیلری کو ڈیموکریٹک پارٹی کی ساری غلطیوں کے باوجود ۳۸ لاکھ ووٹ زیادہ ملے مگر ریاستی بنیاد پر ہونے والے الیکٹورل کالج اور اس کے متعین ووٹ کے نظام کی وجہ سے صدارتی انتخابی ادارے میں ٹرمپ صاحب کو اکثریت حاصل ہوگئی۔ الیکشن میں بدعنوانی ہونے کی بات پہلے خود ٹرمپ صاحب نے انتخابی مہم کے دوران کہی تھی اور پھر سی آئی اے اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر روس کی hacking کا دعویٰ کیا۔ اس سب کے باوجود یہ امریکی جمہوریت ہی کا حصہ کہ ووٹ کے ذریعے اور دستور اور قانون کے دائرے کے اندر اقتدار کی منتقلی واقع ہوئی۔ گو عوامی سطح پر صدر ٹرمپ کو وہ مقبولیت حاصل نہیں، جو ان سے پہلے کے صدور کو حاصل رہی ہے۔ وہ تاریخ کے سب سے کم مقبول منتخب صدر کی حیثیت سے وائٹ ہائوس میں تشریف لائے ہیں۔
جارج بش کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کو پہلی صدارت کی تقریب حلف برداری کے وقت ۴۵ فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اور اس طرح وہ گویا ۵۰ فی صد کی سطح سے نیچے تھے ،لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو مختلف جائزوں کی روشنی میں ۳۲ سے ۳۷ فی صد امریکی عوام کی تائید حاصل تھی۔ واضح رہے کہ صدر اوباما کو جب انھوں نے جنوری ۲۰۰۹ء میں حلف اُٹھایا، تو مختلف راے عامہ کے جائزوں کے مطابق۵۳ فی صد سے ۶۰فی صد عوام کی تائید حاصل تھی اور جب صدر اوباما صدارت سے فارغ ہوئے اس وقت بھی عوامی جائزوں میں ان کی مقبولیت ۵۲ فی صد سے زیادہ تھی۔
صدر ٹرمپ کی نہ صرف یہ کہ مقبولیت کا گراف کم تھا بلکہ وہ جدید تاریخ کے پہلے صدر ہیں جن کے خلاف ملک بھر میں ان کے انتخاب کے اعلان کے بعد سے لے کر ان کی تقریب حلف برداری اور اس کے بعد بھی امریکا ہی نہیں دنیا کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ہیں اور ایک بڑی تعداد نے ان کو ایک ’جائز صدر‘ (Legimate president ) تسلیم نہیں کیا۔
بدقسمتی سے صدارت کے پہلے دس دنوں ہی میں انھوں نے جو احکامات جاری کیے ہیں، ان میں سے چند نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ خصوصاً ۲۷جنوری کو مسلمان ممالک سے آنے والے افراد کے بارے میں بالعموم اور مسلمانوں کے بارے میں بالخصوص ان کے احکامات نے جو افراتفری برپا کی ہے، اس نے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کو جنم دیا ہے جس سے بین النسلی اور سیاسی فضا بُری طرح مکدر ہوگئی ہے۔ آبادی میں تلخی اور بے اعتمادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس نے امریکا کے شہریوں کے درمیان باہمی اخوت، بھائی چارے اور امریکا اور دنیا کے دوسرے ملکوں اور اقوام کے مابین، خصوصیت سے مسلمانوں سے تعلق کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ کچھ حلقے تو اس خطرے تک کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ ان حالات کے دبائو میں صدرٹرمپ کوئی ایسی حرکت نہ کر گزریں کہ جو دنیا کو خدانخواستہ جنگ کی طرف لے جانے کا باعث بن جائے۔
انسان کو امریکا سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ یہ اس کا نقصان ہے۔ اس سے امریکا کا عالمی اثر اور قیادت اس سے چھن جائیں گے اور یہ وہ قیمت ہوگی جو اسے ان پالیسیوں؍ حکمت عملیوں کے عوض دینا ہوگی جن کا وہ مثلاً چین کے حوالے سے منصوبہ بنائے ہوئے ہے اور اس کی بیش تر معاشی قیمت امریکا ہی کو ادا کرنا ہوگی۔ امریکا کا دوسرے ملکوں سے الگ تھلگ رکھنے کا رویّہ ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا کیوں کہ دنیا اس کے ساتھ نبٹ سکتی ہے، مگر یہ بنیادی طور پر امریکا کو نقصان پہنچائے گا، جسے اس معرکے میں فتح کے بجاے شکست کا سامنا ہوگا۔ ایشیائی قوم کے سفیر نے، جس پر چینی پالیسیوں کا گہرا اثر ہے، دلیل دی کہ امریکا کی پسپائی چین کے عروج کو تیز تر کردے گی، کیوں کہ چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ’’تاہم ہمارا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں کے نتیجے میں امریکا کے معاشی مصائب بدتر ہوجائیں گے اور اس چیز سے تحریک پاکر اس کا یہ عقیدہ ہوجائے گا کہ اب اسے اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کہیں جنگ کی ضرورت ہے۔
ایک اور پہلو جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا انتخاب کسی خلا میں منعقد نہیں ہوا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے انتخابی نتائج کو اس پس منظر سے کاٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا کہ ان سے پہلے باراک اوباما آٹھ سال امریکا کے صدر رہے۔ وہ بھی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ہی صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان سے قبل جارج بش کے آٹھ سال امریکا اور دنیا کے لیے ترقی معکوس کے سال تھے۔ صدر اوباما، کانگرس کے ان چند نمایاں ارکان میں سے تھے، جنھوں نے ۲۰۰۳ء سے عراق کی جنگ کی کھل کر مخالفت کی تھی اور اسے تباہی کا راستہ قرار دیا تھا۔ صدراوباما امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر تھے اور جن لوگوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ وہ دوسری باری نہیں لے سکیں گے، ان ’مستقبل بینوں‘ نے منہ کی کھائی۔ اس طرح ۲۰۱۲ء میں بھی اوباما بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے لیکن چند محاذوں پر انھیں بُری طرح ناکامی ہوئی۔
امریکا کے قومی ایجنڈے کے مطابق ان کے سامنے سب سے اہم محاذ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ تھا۔ اوباما جنگ ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ صدر بنے تھے، لیکن: نہ صرف یہ کہ وہ عراق میں جنگ ختم نہ کرا سکے بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ کی آگ انھی کے دور میں پھیلی۔ لیبیا اور شام جنگ کی لپیٹ میں آگئے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کارستانیوں کی وجہ سے تباہی کا یہ بازار گرم ہوا۔ یمن بھی اپنے انداز میں آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ یوکرائن میں بھی جنگ کے شعلے بلند ہوئے، خواہ اس کی بڑی ذمہ داری روس کی سیاسی انگڑائیوں پر تھی۔ افغانستان، امریکی کامیابیوں کے سارے دعوئوں کے باوجود، برابر جنگ کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اور صدراوباما کو افواج کم کرنے کے بعد دوبارہ ان کی تعداد کو بڑھانا پڑا، اور اس کے باوجود افغانستان کے ایک چوتھائی حصے پر طالبان کی حکمرانی ہے اور عملاً ان کے اثرات مزید ۳۰ فی صد علاقے پر ہیں، حتیٰ کہ کابل بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ صدراوباما کے زمانے میں ڈرون حملے امریکی صدربش کے دور سے ۱۰گنا زیادہ ہوئے۔ صدراوباما کے اقتدار کے آخری سال (۲۰۱۶ء) میں امریکا نے دنیا کے سات ممالک میں ۲۶ہزار ۱۷۱ بم گرائے، اور یہ تعداد صدر بش کے دور سے کہیں زیادہ تھے۔
یہی معاملہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کا ہے۔ صدراوباما اسے ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ آئے تھے۔ وہ اپنی صدارت کے پہلے سال ہی میں یہ کارنامہ انجام دینا چاہتے تھے۔ لیکن آخری وقت تک ان کا کوئی بس نہ چلا اور آج بھی گوانتاناموبے کا تعذیب گھر امریکا کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ بنا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی پاس داری کے باب میں بھی صدر اوباما کا ریکارڈ مایوس کن رہا۔ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاں بدترین تعذیب اور مبغوض ترین حربوں کا استعمال جاری رہا۔ عام انسانوں کی نجی زندگی کی نگرانی بلکہ ایک طرح کی غلامی کا ملک گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر نظام قائم کیا گیا۔ صدراوباما کو دنیا میں امن کے قیام کی خدمت کے سلسلے میں پیشگی نوبل انعام سے نوازا گیا، لیکن ان کے آٹھ سالہ دور میں نہ جنگ ختم ہوسکی اور نہ دہشت گردی، بلکہ اس کی تباہ کاریوں اور وسعتوں میں اضافہ ہی ہوا۔
دوسرا محاذ جس پر صدراوباما کو شدید ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، وہ نسل و رنگ کی بنیاد پر امریکا میں قتل و غارت اور ظلم و استحصال پر مکمل قابو پانے کا دعویٰ تھا۔ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ خود ان کے دورِ اقتدار میں صرف پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام نوجوانوں کے ظالمانہ قتل کے واقعات میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا اور ہرواقعے پر وہ آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔
صدراوباما کو بہت مشکل معاشی حالات کا مقابلہ کرناپڑا اور پوری کوشش کے باوجود، کچھ میدانوں میں جزوی کامیابی کے باوصف، وہ امریکا کے معاشی بحران پر قابو نہ پاسکے۔ مسلم دنیا سے بھی امریکا کے تعلقات کو بہتر بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ۲۰۰۹ء میں قاہرہ کی تقریر اس ضمن میں ایک اہم آغاز تھا، مگر یہ آرزو بھی پوری نہ ہوسکی۔ بالآخر امریکا اور اسلامی دنیا میں بے اعتمادی اور بے زاری میں اضافہ ہی ہوا۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ اور کیوبا سے تعلقات کی بحالی اہم مثبت کامیابیاں ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ذاتی شرافت اور باوقار اسلوب کے باوجود، امریکا اور عالمی سطح پر ان آٹھ برسوں کو ترقی اور کشادگی کے سال نہیں کہا جاسکتا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاہ فام صدراوباما کی یہ ناکامیاں ایک سفیدفام، دائیں بازو کے انتہاپسند صدر کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں اہم محرک ثابت ہوئیں۔ صدر ٹرمپ اور صدراوباما رنگ و نسل کے اعتبار سے ہی نہیں، نظریات، سیاسی ترجیحات، اخلاق و کردار، غرض ہراعتبار سے دوبالکل مختلف ماڈل پیش کرتے ہیں۔ ایسے نمونے جن میں بعدالمشرقین کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات میں سیاست کی اس جست (swing) کا منظر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۸ء میں صدراوباما کو منتخب کرکے امریکی جمہوریت نے اپنے جس جوہر کا مظاہرہ کیا تھا، وہ اپنی جڑیں اس زمین میں پیوست نہ کرسکا، بلکہ ایک واضح ردعمل رُونما ہوا، جسے سیاست کا انتقام بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ قوتیں جنھوں نے ۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۳ء کے انتخابی رجحان کو مجبوراً قبول کرلیا تھا، انھوں نے ایک نئے اور زیادہ جارحانہ انداز میں اپنی بالادستی کو قائم کیا اور جو کچھ برتن کے اندر تھا وہ کھل کر باہر آگیا۔ اس سے یہ پہلو بھی سب کے سامنے آگیا کہ ہرمعاشرے کی طرح امریکی معاشرے میں بھی خیر اور شر دونوں کے عناصر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور عمل اور ردعمل کا سلسلہ ہرجگہ دوسرے ملک اور معاشرے کی طرح وہاں بھی جاری وساری ہے۔
جہاں صدرٹرمپ اور اس کی پوری ٹیم کے چند واضح اہداف ہیں اور وہ ہے: ’سب سے پہلے امریکا‘ (America First ) اور ’امریکا کو عظیم بنانا‘ (Making America Great) ۔ ان نعروں کو اپنی اوّلین ترجیح بناکر سیاسی، معاشی، عسکری، ثقافتی ہر میدان میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لانا صدر ٹرمپ کا ہدف ہے۔ یوں جارحانہ قوم پرستانہ دور کا آغاز ٹرمپ کی خواہش ہے جس میں امریکا کی سفیدفام آبادی کا کردار مرکزی ہوگا اور قومی اور عالمی دونوں سطح پر پالیسی سازی اور پالیسی کے نفاذ دونوں پہلوئوں سے نسبتاً سخت گیر اور صرف صدر کی شخصیت کے گرد (president centered) اسلوبِ کار اختیار کیا جائے گا۔ نظریاتی اور اخلاقی پہلوئوں کو غلبہ اور فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں ہوگی اور پوری پالیسی محدود اہداف کے حصول پر مرکوز ہوگی۔ مشاورت اور فیصلہ سازی کے معروف طریقوں سے بھی انحراف کیا جائے گا اور امریکا کے سیاسی نظام میں جو توازن اور تحدید کی روایت ہے، اس پر بھی بُرے اثرات پڑیں گے، جو اداروں کے درمیان تنائو اور تصادم کی حدوں کو بھی چھوسکتے ہیں۔ اسی طرح خارجہ تعلقات میں جو مقام اسٹرے ٹیجک غوروفکر اور حکمت کار کو حاصل رہا ہے اس میں تبدیلیاں آئیں گی اور زیادہ اہمیت نعروں پر مبنی، فوری نتائج کے حصول کو حاصل ہوجائے گی۔ عالم گیریت اور دوسری جنگ کے بعد قائم ہونے والے عالمی نظام اور اس کی صورت گری کرنے والے اداروں پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔امریکا کی اپنی فوجی اور معاشی قوت کی ترقی کو زیادہ اہمیت دی جائے گی اور امریکا کی عالمی کردار کی ازسرِنو صورت گری ہوگی۔
۲۰۱۷ء اس پہلو سے بڑا اہم سال ہوگا جس میں جنم لینے والی تبدیلی کے بڑے دُور رس اثرات امریکا میں جمہوریت کے مستقبل پر بھی پڑیں گے۔ یہ دور تخریب اور تعمیر دونوں پہلوئوں سے عبارت ہوگا۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ امریکا کے عوام اور تمام ہی سوچنے سمجھنے والے افراد، ادارے اور گروہ محض ’دیکھو اور مست رہو‘ ( wait & see) کا راستہ اختیار نہ کریں اور نہ اندھی تائید اورخون آشام مخالفت کا راستہ اختیار کریں۔ ہماری نگاہ میں کھلے ذہن کے ساتھ اس منظرنامے کا ادراک کرنا اور اس میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے مکالمے (ڈائیلاگ) کا راستہ اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس غلط فہمی سے نکلنا ضروری ہے کہ اب امریکا سے معاملات اس طرح ہوسکیں گے جس طرح ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ ’جس طرح ہوتا آیا ہے‘ والا دور بظاہر رخصت ہوگیا ہے۔ اب وقت نئی سوچ اور نئی راہیں تجویز کرنے کا ہے___ اور یہ چیلنج جس طرح امریکا میں آباد افراد اور تنظیموں کے سامنے ہے، اسی طرح عالمی سطح پر تمام ممالک اور اقوام کو بھی درپیش ہے۔ خصوصیت سے پاکستان اور مسلم دنیا کے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ و تجزیہ کرکے نئے خطوط کار کی ترتیب کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہم اللہ کی توفیق کے طالب ہیں کہ اللہ ہمیں اس بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کی توفیق سے نوازے۔ ہم سب اہلِ فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ وقت کے اس چیلنج کے مقابلے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مستعد ہوجائیں، اس لیے کہ:
یہ بزمِ مے ہے ، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے