۲۰۱۷ فروری

فہرست مضامین

لَا تَحْزَنْ : غم نہ کر

عبد الغفار عزیز | ۲۰۱۷ فروری | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

یہ سطور ۲۵ جنوری کو سپرد قلم کی جارہی ہیں۔ آج سے ٹھیک چھے سال قبل مصری دارالحکومت قاہرہ کے میدان التحریر میں لاکھوں عوام نے ۳۰ سال سے جبر کی علامت بنے بیٹھے حسنی مبارک سے نجات کا سفر شروع کیا تھا۔ ۳۰ سال تک مصر اور مصری عوام کی قسمت کا تنہا مالک بنا بیٹھا ڈکٹیٹر ۱۸دن کے ملک گیر دھرنوں کے بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ اس نے اس دوران میں ۸۴۰بے گناہ شہری شہید کردیے،۶ہزار شہری زخمی ہوئے، لیکن عوام کے صبر و ثبات نے بالآخر   اس کے تکبر کابت پاش پاش کردیا۔ وہی مصری ٹی وی جو دن رات ڈکٹیٹر کی عظمت کے گن گا رہے تھے، اسے ’مصر کا آخری فرعون‘قرار دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’اب یہاں کسی کو بے گناہ انسانوں کی کھوپڑیوں پر تخت اقتدار سجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ اس سے تین ہفتے پہلے تیونس کا اکلوتا حکمران زین العابدین بن علی بھی اسی انجام کو پہنچ چکا تھا۔ آٹھ ماہ بعد لیبیا کا کرنل معمر القذافی اور ایک سال بعد یمن کا کیپٹن علی صالح بھی عوامی طوفان کے سامنے نہ ٹھیر سکا۔ قریب تھا کہ۱۹۶۴ء سے شام میں برسرِاقتدار اسد خاندان کی آخری بدترین نشانی بشار الاسد بھی انھی کی طرح عبرت کی مثال اور کوڑے کے اسی ڈھیر کا حصہ بن جاتا، لیکن اسی دوران میں ’بہار‘ کا خواب دیکھنے والے مصری عوام کو ان کے اس جرم کا مزا چکھاتے ہوئے ان پر ایک اور ننگ انسانیت جنرل سیسی مسلط کردیا گیا۔

خونی حکمرانوں سے نجات کے بعد اورخزاں کے اس مسموم طوفان سے پہلے تیونس، مصر، لیبیا اور یمن کے عوام نے ایک نیا اور پُرامن نظام تشکیل دینے کا آغاز کردیا تھا۔ پہلی بار آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے، انتخابات کے ذریعے اپنے حکمرانوں اور اپنے مستقبل کا تعین کرنا شروع کردیا تھا۔ ان چاروں ممالک کی تاریخ میں پہلی بار حقیقی انتخابات منعقد ہوئے۔ تیونس اور لیبیا میں دو (دستور ساز اور پھر مستقل اسمبلی) الیکشن ہوئے، جب کہ مصر میں پانچ بار عام چنائو ہوا۔ چشم عالم نے دیکھا کہ ان تمام انتخابات میں اسلامی تحریک ’الاخوان المسلمون‘ پورے عالمِ عرب کی سب سے بڑی قوت قرار پائی۔

اخوان کی یہ حیرت انگیز کامیابی ہی خطرے کی وہ گھنٹی تھی کہ جس کے بعد ساری عالمی قوتیں اور کئی نادان دوست اس نوخیز بہار کو خوفناک خزاں میں بدلنے پر تل گئے۔ مصری پارلیمنٹ، منتخب صدر، قومی اتفاق راے اور ریفرنڈم کے ذریعے منظور دستور سب کچھ، ہزاروں بے گناہ انسانوں کے خونِ ناحق کے دریا میں غرق کردیا گیا۔ امریکا میں مقیم لیبیا کے ایک سابق فوجی جنرل خلیفہ حفتر کو واپس بلاکر، منتخب حکومت پر فوج کشی کروادی گئی۔ تیونس میں ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کرتے ہوئے اور کئی سیاسی رہنماؤں کا قتل کرکے نومنتخب حکومت کو مفلوج کردیا گیا۔ یمن میں سابق ڈکٹیٹر اور باغی حوثی قبائل کو ڈھیروں اسلحہ اور دولت دے کر دارالحکومت پر چڑھائی کروادی گئی۔ اسلامی تحریک کی کامیابی بظاہر ناکامی میں بدل گئی۔ صرف ان چار ممالک میں۶ ہزار سے زائد فرشتہ صفت کارکنان اور قائدین شہید کردیے گئے۔۵۰ ہزار سے زائد بے گناہ اس وقت بھی جیلوں میں بدترین تشدد کا شکار کیے جارہے ہیں۔ انصاف، حقیقت پسندی اور غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے تو صرف اخوان یا عالم اسلام ہی نہیں، پوری دنیا کو اس مکروہ پالیسی کی قیمت مسلسل چکانا پڑرہی ہے۔

  •  شام اور عراق سمیت ان تمام ممالک میں خوں ریزی کے وہ دریا بہائے جارہے ہیں کہ جن کے سامنے تاریخ کے بدترین قتل عام بھی ہیچ دکھائی دیتے ہیں۔ صرف شام ہی میں اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ شہید اور سواکروڑ انسان بے گھر ہوگئے ہیں۔ پورا ملک کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بشار الاسد کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو اس کی فوج کا تقریباً نصف حصہ کابینہ کے کئی اہم افراد سمیت اس سے الگ ہوگیا۔ شامی عوام کی قیادت مجتمع ہونے لگی۔ لیکن جب اپوزیشن کی مشترک قیادت تشکیل دینے کی کوششوں کا آغاز ہوا، تو بعض ممالک کی اوّل و آخر ترجیح  یہ قرار پائی کہ کہیں الاخوان المسلمون شام کو قائدانہ کردار نہ مل جائے۔ ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد کے ہاتھوں ہزاروں اخوانی خاندان شہید کردیے جانے کے بعد سے اگر شامی عوام کے دل میں کوئی حقیقی متبادل تھا، تو وہ صرف الاخوان المسلمون ہی تھے۔ انھیں کسی طور مضبوط و مؤثر نہ بننے دینے کی پالیسی نے بالآخر بشار مخالف تمام عناصر کو منتشر کردیا۔ اب چھے سال ہونے کو آئے ہیں، وہاں درجنوں گروہ باہم برسرِ پیکار ہیں۔ پورا ملک ٹکڑیوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے اپنے اسلحے، نفوذ اور سازشوں کے ذریعے اس کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں۔ کوئی طاقت بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ صرف و ہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے گی۔
  •  یمن ایک خوفناک خانہ جنگی کی نذر ہو چکا ہے۔ دارالحکومت صنعا ء پر باغی حوثی قبائل اور سابق صدر علی صالح کی فوجوں کا قبضہ ہے انھیں ایران کی مکمل اور مسلسل حمایت حاصل ہے۔ عدن اور دیگر اکثر اہم شہروں میں قومی حکومت کا اقتدار ہے۔ اسے سعودی عرب کی مکمل سرپرستی اور مدد حاصل ہے۔ دومختصر علاقوں پر داعش کا جھنڈا لہرا  دیا گیا ہے۔ ــــ’ عاصفۃ الحزم ‘ فیصلہ کن آندھی کے نام سے شروع کی جانے والی جنگ کئی محاذوں پر لڑی جارہی ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ مزید کتنے عرصے میں واقعی فیصلہ کن ہو سکے گی۔ جب تک یہ جنگ جاری رہی، نہ صرف یمنی عوام کا خون بہتا رہے گا بلکہ تین مسلمان ممالک کے وسائل اور ان کا امن وسکون تباہ ہوتا رہے گا۔ اقوامِ متحدہ میں انسانی اُمور کے ذمہ دار اسٹیفن اوپرائن کی تازہ رپورٹ کے مطابق یمن میں ۱۴ملین افراد کو   فاقہ کشی کا سامنا ہے۔ ۲۰لاکھ لوگ اپنے ہی ملک کے مہاجر کیمپوں میں قید ہیں۔ یمن میں بھی ہرفیصلہ کن موڑ پر دنیا کو یہ خطرہ لا حق رہا کہ کہیں الاخوان المسلون اقتدار میں نہ آ جائے ۔ حوثی باغی قبائل نے بھی صنعاء پر قبضہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اخوان کو کچلنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے    تمام مراکز پر قبضہ کرلیا۔
  •  تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا اس وقت عملاً پانچ ٹکڑیوں میں منقسم ہے۔ تین مختلف حکومتیں ایک قبائلی مسلح دھڑا اور داعش مختلف علاقوں کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوشش میں آئے روز ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ یہاں بھی کرنل قذافی کے ۴۲ سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک قومی حکومت وجود میں آ گئی تھی، جو’ اسلام پسندوں ‘ کے غلبے کی وجہ سے ناکام بنادی گئی۔
  •  پُرامن اور حقیقی انتخابات کے ذریعے تبدیلی کے راستے مسدود کردینے سے پوری مسلم دنیا میں ان عناصر کو آگے بڑھنے کا موقع ملا جن کے نزدیک تبدیلی کا راستہ اپنے ہر مخالف کے ساتھ بندوق و بارود کی زبان میں بات کرنا ہے۔ عالم اسلام میں بے سمت اور سفاک خونی گروہ پیدا کرنا عالمی استعمار کی عالمی پالیسی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس سے نہ صرف عالم اسلام مزید انتشار کا شکار ہورہا ہے، بلکہ خود اسلام اور جہاد ہی کو باعث نفرت بنادینے کے ایجنڈے کو تقویت دی جارہی ہے۔
  •  باہم نفرت اور قتل و غارت کا یہ مکروہ کھیل آگے بڑھاتے ہوئے اب اس میں مذہب، مسلک اور رنگ و نسل پر مبنی تعصب کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ شام، عراق اور یمن ہی نہیں پورے عالم اسلام کو اس دلدل میں دھکیلا جاچکا ہے۔ اتحاد و یک جہتی کے نعرے اب صرف ایک دکھاوا بلکہ عملاً ایک دھوکا بن چکے ہیں۔ طرفین کی اول و آخر ترجیح فریق ثانی کو نیچا دکھانا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹادینا قرار پایا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ صدیوں پرانے ان اختلافات کا اکلوتا اور حقیقی حل اختلاف راے کا حق دینا اور دلوں میں وسعت پیدا کرنا ہے، دونوں فریق تعصبات کی آگ پر دن رات تیل چھڑک رہے ہیں۔ صحابہ کرام اور اُمہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی قابلِ احترام ہستیاں کوچہء و بازار میں نشانۂ ستم بنائی جارہی ہیں۔ احادیث رسولؐ میں مذکور مختلف نشانیوں کواپنی اپنی مرضی کی تاویل کا لبادہ اوڑھاتے ہوئے، بنیادی عقائد کو شکوک و شبہات بلکہ استہزا کی نذر کیا جارہا ہے۔
  •  ریاستی ، علاقائی اور عالمی تعلقات کو بھی انھی نفرت آمیز تعصبات کی میزان پر تولا جارہا ہے۔ مصری انتخابات میں اخوان کی کامیابی کے بعد ایران میں بڑے بڑے بورڈ لگائے گئے   جن پر اپنے زعما کے ساتھ امام حسن البنا کی قد آدم تصاویر آویزاں کی گئیں۔ اخوان کی حکومت کو امام خمینی کے تصورات ونظریات کا تسلسل قرار دیا گیا۔ اس وقت عرب ممالک میں اخوان اور   صدر محمد مرسی پر ایران نوازی کا الزام لگایا گیا۔ صدر مرسی نے غلط فہمیاں دُور کرنے اور باہمی تعلقات مضبوط ومستحکم کرنے کی مسلسل کوششیں کیں، لیکن انھیں کوئی مثبت جواب نہ دیا گیا۔ جنرل سیسی کا خونی انقلاب برپا ہوا تو اسے ۴۰ ؍ارب ڈالر کی امداد دے کر مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پھر تیل کی قیمتوں میں کمی، عالمی اقتصادی بحران ، یمنی جنگ کی دلدل ، شامی مہاجرین کی آمد اور دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کے تناظر میں جب جنرل سیسی کے کرپٹ نظام کا پیٹ بھرنا مزید ممکن نہ رہا، تو اس نے ایک دن کی تاخیر کے بغیر ایران کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا لیں۔ اس کے ذرائع ابلاغ پر اب اپنے محسن سعودی عرب اور اس کی قیادت کے لیے وہ بد زبانی کی جاتی ہے کہ کوئی بھلا انسان جس کا تصور بھی نہ کرسکے ۔ مارچ میں اُردن میں ہونے والی عرب سربراہی کانفرنس سے پہلے اس تنائو میں کمی لانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

آئے روز عوام کو صبر کی تلقین اور اقتصادی خوشحالی کے سبز باغ دکھانے والے جنرل سیسی کے دور میں مصری عوام کو بد ترین معاشی بدحالی کا سامنا ہے ۔ اربوں ڈالر کی امداد چند مخصوص تجوریوں کی نذر ہو گئی۔ صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کی گئی تو اس وقت ملکی خزانے میں ۳۳ ؍ارب ڈالر تھے۔ جنرل سیسی کو ۴۰ ؍ارب ڈالر کی مزید امداد دی گئی۔ اس وقت خزانے میں ۱۳؍ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اب آئی ایم ایف سے ۱۲ ؍ارب ڈالر کا قرض لینے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہوئے عوام پر مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ ۲ کروڑ ۱۰ لاکھ میں سے ایک کروڑ ۲۰لاکھ راشن کارڈ ختم کیے جارہے ہیں۔ ادویات کو حاصل سب سڈی ختم کی جارہی ہے۔ صدر مرسی کے دورِ اقتدار میں ایک ڈالر ساڑھے آٹھ مصری پائونڈ کا تھا اب ۱۹ پائونڈ سے زیادہ کا ہو چکا ہے۔ معروف مصری ماہر اقتصاد وائل النحاس نے خبر دار کیا ہے کہ ۲۰۱۷ء میں امریکی ڈالر ۲۴ اور ۲۰۱۸ء میں ۴۱ پائونڈ تک گر سکتا ہے۔ کرنسی کی اس بے وقعتی کے باعث ہر چیز کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ روز مرہ کی ضروریات بالخصوص ادویات اور چینی ناپید ہو گئی ہے۔

اخوان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ایک سالہ دور حکومت میں ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کر دیں اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔ جنرل سیسی کے ’عہد آزادی‘ میں مخالف ذرائع ابلاغ تو کجا وہ نمایاں ترین صحافی بھی قتل ، قید یا فارغ کر دیے گئے جنھوں نے اخوان پر الزامات کے طومار باندھتے ہوئے جنرل سیسی کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے تھے۔ باسم یوسف ،  ریم ماجد ، جابرالقرموطی، محمود سعد اور توفیق عکاشہ وہ چند نام ہیں، جن کی شکل ہی سے اخوان دشمنی ٹپکتی ہے۔ آج ان سب پر پابندیاں عائد ہیں۔ توفیق عکاشہ کو تو جنرل سیسی نے اپنی نام نہاد اسمبلی کا رکن بھی منتخب کروایا تھا، گذشتہ مارچ میں اس کی رکنیت بھی ارکان پارلیمنٹ کی قرار داد کے ذریعے ختم کروا دی گئی ۔ ایک اور نمایاں خاتون اینکر لمیس الحدیدی کے بیانات آنا شروع ہوگئے ہیں کہ’’ اتنے دبائو کا سامناہے کہ صحافت چھوڑ کر سلائی شروع کرنے کا سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں‘‘۔    ان حضرات وخواتین کو ملنے والی اب تک کی سزا تو پھر عارضی و معمولی ہے۔ اپنے ملک وقوم اور خود اپنی ذات پر انھوں نے جو ظلم ڈھائے، اللہ کرے کہ انھیں آخرت میں اس کی سزا نہ بھگتنی پڑے ۔

ظلم وجبر ، معاشی بدحالی اور عمداً پھیلائی جانے والی اخلاقی تباہی کے جو گہرے اثرات معاشرتی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اس کا اندازہ ۲۴ جنوری ۲۰۱۷ء کو خود جنرل سیسی کے اس خطاب سے لگا لیجیے کہ: ’’مصر میں ہر سال تقریباً ۹لاکھ افراد شادی کرتے ہیں۔ پانچ سال کے بعد   ان میں سے ۴۰ فی صد جوڑوں میں طلاق ہو جاتی ہے ‘‘۔ پھر خرابی کی اصل جڑ اور اسباب دُور کرنے کے بجاے عبقری علاج تجویز کرتے ہوئے اور سامنے بیٹھے شیخ الازھر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ہم قانون بنا رہے ہیں کہ عقد نکاح کی طرح طلاق دینے کے لیے بھی نکاح خواں کی موجودگی لازمی قرار دے دی جائے‘‘۔ سبحان اللہ ... وہ بات جس کے بار ے میں صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تو وقوع پذیر ہو جائے گی۔ اسے بھی بے لگام کیا اور مذاق بنا یا جا رہا ہے۔ ہزاروں بے گناہوں کے قاتل جنرل کو جواز بغاوت فراہم کرنے والے شیخ الازہر نے اس توہین شریعت پر بھی حسب توقع چپ سادھے رکھی۔

جنرل سیسی ، بشارالاسد ، باغی حوثی قبائل، فرقہ واریت یا دین کی قاتلانہ تعبیر کی بنیاد پر تشکیل دینے والے مسلح گروہوں کی سرپرست قوتیں خدارا اب تو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرلیں۔  کیا صرف اخوان دشمنی اور تعصبات و مفادات کے نتیجے میں تشکیل پانے والا آج کا یہ منظرنامہ بہتر ہے یا ایک ایسی دنیا کہ جس میں تمام انسان حریتِ فکر، برابری اور انصاف کے سائے میں مل کر زندگی بسر کرسکتے ہوں؟ کیا بشار اور اس کا خاندان ہمیشہ حکمران اورباقی پوری قوم ان کی غلام رہنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے ؟ کیا جنرل سیسی مصری فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع کی حیثیت سے عوام کے منتخب نظام کے تحت عزت وکامیابی کی منزلیں طے کرتا، تو صرف مصر ہی نہیں پورے خطے کا مستقبل روشن نہ ہو جاتا؟ کیا ۳۳سالہ مکمل اقتدار کے بعد علی صالح اپنے ہی نائب صدر عبد ربہ منصور کی سربراہی میں بننے والی قومی حکومت کو اقتدار سونپ کر ، حوثیوں سمیت پوری قوم کے ساتھ    امن وخوش حالی کی زندگی بسر کرتا، تو خود ان سب کی الگ الگ سرپرستی کرنے والے تمام ممالک کے لیے بھی خیر وبرکت کا سبب نہ بنتا؟

 کہا جاتا ہے کہ اس ساری تباہی کے پیچھے اغیار کا ہاتھ ہے۔ یقینا اغیار کا ہاتھ تو ہے، لیکن ان سے اس کے علاوہ اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ وہ توپوری دنیا پر اپنے غلام مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ صرف اخوان یا امت مسلمہ ہی نہیں، خود اسلام کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ سیسی ، بشاراور حوثی کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیسی کی سرپرستی کرنے کے بارے میں امریکی کانگریس میں بحث ہوئی تو مصر میں امریکی سفیر این پیٹرسن (پاکستان میں بھی سفیر رہ چکی ) نے ۱۹ستمبر ۲۰۱۳ء کو کانگریس میں بیان دیا کہ ’’جنرل سیسی پوری طرح امریکی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتا ہے ۔ پروٹسٹنٹ مسیحی مشنریزکے سربراہ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ’’جنرل سیسی گذشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ان کے لیے سب سے بہتر حکمران ثابت ہوا ہے۔ مصری تجزیہ نگار محمدالہامی کے مطابق ڈیڑھ سو سال قبل مصر میں سعید پاشا نامی وہ حکمران آیا تھا کہ جسے انگریز نے براہ راست اپنی تربیت میں لے کر مصر کے حکمران کے  طور پر تیار کیا تھا۔ اس نے وزارت تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام نمایاں پیشہ وارانہ تعلیمی ادارے بند کردیے۔ تمام تر وسائل پرائیویٹ مغربی تعلیمی اداروں کے لیے وقف کر دیے ۔ اس کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ ’’عوام پر حکمرانی کا آسان نسخہ یہ ہے کہ اسے جاہل رکھا جائے ‘‘۔ اسی نے نہرسویز پر مغربی اجارہ داری کی راہ کھولی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ آج ۲۱ویں صدی میں جنرل سیسی کا ارشاد بھی یہی ہے کہ ینفع بایہ التعلیم فی وطن ضائع ، ’’اس تباہ حال ملک میں حصول تعلیم بھلا کیا فائدہ دے گا‘‘ ۔ ۱۶-۲۰۱۵ء کی عالمی رپورٹ براے معیار تعلیم میں شامل ۱۴۰ ممالک کی فہرست میں جنرل سیسی کا مصر ۱۳۹ ویں نمبر پر آیا ہے۔ سیکورٹی کونسل میں  نئی یہودی بستیوں کی مذمت کے لیے لائی گئی قرار داد کو مصر کی جانب سے واپس لے لیے جانے کے بعد ہی نہیں ، اس سے پہلے بھی صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو، تمام اپوزیشن رہنما اور عسکری وفکری قیادت، جنرل سیسی کی تعریف میں درجنوں بیانات دے چکی ہے۔ ان کے بقول اس سورما نے اسرائیل کو درپیش حقیقی خطرے کا ازالہ کرتے ہوئے اخوان حکومت کا خاتمہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی حلف اُٹھاتے ہی  جن پانچ عالمی سربراہان کو فون کیا ان میں جنرل سیسی اور بھارتی وزیراعظم مودی بھی شامل ہیں۔ اس پر مصری سرکاری ٹی وی پر تبصرے میں کہا گیا کہ’’جنرل سیسی نے دنیا کو اخوان کے خطرے سے بچانے کے لیے جو کام شروع کیا تھا، اللہ نے اب اس کی تکمیل کے لیے ٹرمپ کو بھیجا ہے‘‘۔    ایک طرف اغیار کی طرف سے تعریف و ستایش کے ڈونگرے اور دوسری جانب اربوں ڈالر کے ڈھیر کیا اب بھی کسی کے لیے اصل حقائق جاننا مشکل ہے ؟۔

چھے طویل برس قربانیوں اور اذیت وابتلا میں گزر گئے ، لیکن کیا اسلامی تحریک اور   اُمت مسلمہ کی منزل اس سے ہمیشہ کے لیے چھینی جا سکی؟ کیا ۲۰۰۷ء میں معروف امریکی فکری مرکز (RAND)کی یہ سفارشات کہ ’ سیاسی اسلام ‘ کا خاتمہ دنیا کی ترجیح اوّل ہونا چاہیے، خود ان پالیسی سازوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو راہِ نجات فراہم کر سکیں ؟ اور کیا اب صدر ٹرمپ کی طرف سے ’انتہاپسند اسلام‘ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ’بڑ ‘ دنیا کو امن وترقی سے ہم کنار کر سکے گی ؟  ان اور ان جیسے تمام سوالات کا جواب دو ٹوک نفی میں ہے۔ اکانومسٹ کا یہی اعتراف دیکھ لیجیے کہ’’ ان چھے سال میں عالمِ عرب مزید بدتر ہو گیا لیکن وہاں کے عوام اپنی تباہی کے اصل اسباب سے زیادہ بہتر طور پر باخبر ہو گئے ہیں‘‘۔ ۲۵ جنوری کو شروع ہونے والی تحریک کے چھے برس پورے ہونے پر بلجیم کا ’پولیٹیکو ‘ اعتراف کرتا ہے کہ عوامی انقلاب کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ مصری عوام کی جدوجہد بھی منزل تک پہنچ کررہے گی۔ پھر وہ فرانسیسی انقلاب کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ۱۷۸۹ء میں شروع ہونے والا یہ انقلاب ۱۷۹۹ء میں نپولین کے ہاتھوں سے گزرتا ہوا ۸۰ سال بعد ۱۸۷۰ ء میں ایک مستحکم جمہوری فرانس تشکیل دینے میں کامیاب ہوا۔

ذرا قرآن کریم کے ارشادات پر غور فرمائیے تمام ظالموں اور مظلوموں کا مستقبل واضح ہوجائے گا:

وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمًّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ (ابراہیم ۱۴:۴۲) اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں ، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔

وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ(القصص ۲۸:۵) اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ جو لوگ زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے ان پر مہربانی کریں اور اُنھیں پیشوا بنا دیں اور اُنھی کو وارث بنائیں۔

وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا(الاحزاب ۳۳:۶۲) اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔