اسلام کے مدِ مقابل وہ تمام قوتیں ، چاہے مذہبی ہوں یا فکری وسیاسی ، نئے نئے عنوانوں سے اسلام کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان کے سو فہم کا چاہے کتنے ہی مدلل اور مسکت اسلوب میں جواب دیا گیا ہو، وہ اپنے کینہ پرور مزاج کے بل پر ان دلائل کو اس طرح نظر انداز کر کے ، الزامی حملے کرتی ہیں گویا کوئی جواب دیا ہی نہیں دیا گیا۔ایسی الزام تراشی کے ترکش کا ایک تیر ’ اسلام میں غلامی‘ ہے۔
اسلامی تاریخ کی ممتاز استاد ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے زیر نظر کتاب میں مغرب اور اس کے زیر اثر ’دانش‘ کی اسی الزامی مہم کا تجزیہ کیاہے۔ عصرِ حاضر کی مغربی دانش قدیم یونانی تہذیب کو اپنا سرچشمۂ ہدایت سمجھتی ہے، اور ’’یونانی دانش ور غلامی کو انسانی المیہ سمجھنے کے بجاے قانون فطرت سمجھتے تھے ‘‘ (ص۲۹) ۔مصنفہ نے قدیم (یونانی ، رومی، برہمنی ،عربی ) معاشروں میں غلامی کی روایت اور اس کے انسانیت سوز چہرے کا جائزہ (ص۱۳۔ ۷۸) لیتے ہوئے بتایا ہے کہ اسلام نے کس طرح انسانوں کی غلامی کے اس باب کو بند کرنے کی حکمتِ عملی متعارف اور نافذ کرائی۔
انھوں نے نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی معذرت خواہانہ کتب کے استدلال کو دہرانے کے بجاے، حملہ آور بیانیے کا ٹھوس حقائق کی روشنی میں تجزیہ کیا ہے اور اسلام کا موقف دلائل ونظائر کے ساتھ بخوبی بیان کیا ہے۔ اگرچہ عمومی سطح پر یہ موضوع زیر بحث نہیں لایا جاتا، مگر جدید تعلیمی اداروں میں اسلام اور غلامی کو ایک من پسند ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کرنے کاطرزِ عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ کتاب ایسی فریب خوردگی اور فریب دہی کا ایک مؤثر جواب ہے۔ (سلیم منصور خالد )
اسلام کے لفظ ہی میں سلامتی، امن ،اور عدل کا پیغام موجود ہے۔ لیکن مغرب، اس کی حلیف قوتوں اور مسلم اقوام میں غلامانہ ذہنیت کے حامل نام نہاد دانش وروں نے بے وجہ، اسلام پر یلغار کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔
’مجلس تحقیقات اسلامی‘ نے رضا کارانہ طور پر علمِ حدیث ،فقہ ،تاریخ، اسلام و مغرب کی کش مکش اور استشراق کے موضوعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ حکمت عملی طے کی ہے کہ مناظرانہ یا مبارزت پر مبنی اسلوب میں اُلجھنے کے بجاے ، مثبت طور پر دین اسلام کی منشاء ومرضی کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس مجلس میں تمام مکاتب ِفکر کے جید علما اور جدید علوم کا فہم رکھنے والے سماجی علوم کے ماہرین شامل ہیں جو مولانا سمیع الحق ،مفتی منیب الرحمن ،مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا عبدالمالک ،مولانا راغب حسین نعیمی، مجتہد سید نیاز حسین نقوی، ڈاکٹر سفیر اختروغیرہ پر مشتمل ۲۶ رکنی ٹیم ہے۔
مذکورہ مجلس نے اعلیٰ ثانوی(انٹر میڈیٹ ) درجے کے طالب علموں کے لیے یہ مجموعہ بطور درسی کتاب مرتب کیا ہے۔ جو پیش کش میں دیدہ زیب ، اور موضوعات ومباحث میں مؤثر ابلاغی لوازمے پر مشتمل ہے۔ اس کے ۱۴؍ ابواب میں: اختلاف راے، تنازع، تشدد ،حقوق العباد، آئینِ پاکستان، فرقہ واریت کا سدباب وغیرہ موضوعات شامل ہیں۔ ہر باب میں معلومات کی فراہمی کے بعد نئے الفاظ کے ذخیرے، مشق اور سوالات کو شامل کیا گیا ہے، تا کہ طالب علم پڑھے جانے والے سبق کو نہ صرف سمجھ سکے، بلکہ خود اختیاری جانچ سے اپنی معلومات کو پرکھ بھی سکے۔ درسی سطح پر یہ ایک کامیاب کوشش ہے، جس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ (س م خ)
ہر دور کے فتنے اپنی حشر سامانیاں لیے ،چراغِ مصطفویؐ سے اُلجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخر فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ عصر حاضر کے ایسے ہی ایک فتنے کا نام سیکولرزم ہے۔ اس فتنے کو نظریہ کہنا ، خود لفظ نظریہ کی توہین ہے۔ وجہ یہ کہ سیکولرزم کا عملی زندگی میں مطلب یہ ہے کہ : ’’تم آزاد ہو، جو چاہو سو کرو۔ ان مادی وسائل اختیارات کو جس طرح چاہوسو برتو، کوئی روک رکاوٹ نہیں‘‘۔
ڈاکٹر شاہد فرہاد نے اس کتاب میں ،دین اور اخلاق ،انسانی تہذیب اور تمدن کو چیلنج کرنے والے اس وحشی نظریے کو سمجھنے ،پرکھنے اور عام فہم زبان میں پیش کرنے کی مؤثر اور کامیاب کوشش کی ہے۔
موضوعات کے پھیلائو اور نظائر کے انبار سے اَٹے اس موضوع کو اختصار اور صحت کے ساتھ پیش کرنا ایک مشکل کام تھا جسے بڑی خوبی سے انجام دیا گیا ہے، اور سیکولرزم کا حقیقی چہرہ اور اس کے طریقِ واردات کو وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ (س م خ )
o شہید پاکستان ، تذکرہ مطیع الرحمٰن نظامی ، مرتبہ : عباس اختر اعوان، ناشر :اذان سحر پبلی کیشنز، منصورہ ملتان روڈ لاہور۔ فون: ۴۷۰۸۰۲۴-۰۳۲۱۔صفحات: ۴۱۶۔قیمت: ۴۵۰روپے۔بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر جناب مطیع الرحمٰن نظامی کو جھوٹے مقدمے ،جعلی عدالت اور انصاف کے قتل کے ذریعے پھانسی دی گئی۔ جناب نظامی کی شہادت کے بعد پاکستان کے مختلف اخبارات میں جو کالم شائع ہوئے ،انھیں اس مجموعے میں شامل کیاگیا ہے۔ ان کالموں میں دردِ دل کی کسک اور قومی بے حسی کا ماتم ہے۔
o کیا موت اصل زندگی کا آغاز ہے،ڈاکٹر امیر فیاض پیر خیل ، ناشر:گائوں قمبر ،تحصیل سیدوشریف، ضلع سوات۔ فون:۹۲۷۹۲۳۹-۰۳۴۶۔صفحات: ۳۲۲۔قیمت درج نہیں۔ مصنف کا تعلق سوات کے ایک علمی اور تصوف سے وابستہ خاندان سے ہے۔ جنھوں نے اقامت ِ دین کے قافلے سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے اپنے علم وفکر اور تعلقات کی پوری دنیا کو خدمت ِ دین سے منسوب کر دیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے کتاب کے موضوع سے متعلق اپنے حامل مطالعہ کو واقعات اور مباحث کی شکل میں پیش کیا ہے۔
oمجلہ الصراط،سوات: مدیراعلیٰ:مولانا صاحب احمد میدانی ،مدیر: محمد صدیق سواتی، ناشر: جامعہ صراط الجنتہ بلوگرام، سوات ۔فون : ۸۳۰۴۵۰۰۔۰۳۰۶ ۔[خیبر پختونخوا اور متصل علاقوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے کہ یہاں دینی تعلیم کی طلب اور دینی تعلیم کے مواقع پاکستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ درس وتربیت سے ایک قدم آگے بڑھ کر دینی صحافت اور تحریر وتحقیق کا ذوق بھی پایا جاتا ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال مجلہ الصراط کا یہ پہلا شمارہ ہے ، جو حُسنِ ترتیب کے ساتھ شُستہ اُردو میں شائع ہوا۔ اللہ کرے یہ باقاعدگی سے شائع ہو اور نوجوان اہلِ قلم کی تربیت کا گہوارہ ثابت ہو۔]