۲۰۱۷ فروری

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| ۲۰۱۷ فروری | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

غازی امان اللہ خان ، گوجرانوالہ

مولانا مودودی ؒ کا درسِ قرآن ’جنات کی حقیقت‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) شائع ہوا۔ اس کی تیسری سطر میں درس کے مرتب کی غلطی سے پروف میں غلطی در آئی ہے: ’سورئہ قٓ میں آتا ہے‘ حالاں کہ مولانا نے ’سورئہ احقاف میں آتا ہے‘ بولا ہے، جس کا پارہ ۲۶ کی آیات ۲۹ تا ۳۱ میں ذکر ہے۔ گویا کہ ریکارڈنگ میں سورئہ احقاف ہی ہے۔میں ذاتی طور پر جامع مسجد قلعہ گوجرسنگھ میں ریکارڈنگ کے لیے جاتا رہا ہوں، بلکہ ایک بار تاخیر ہوگئی۔  حفیظ الرحمٰن احسن صاحب کے ٹیپ ریکارڈر سے ایک درس ریکارڈ کرکے لایا تھا۔ ’مذہب کی تبدیلی کیوں؟‘ ڈاکٹر بی آر امبیدکر کا مضمون وقت کی ضرورت ہے۔ جناب عبدالغفار عزیز کا ’شام لہو رنگ سرزمین‘ بہت دردناک ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اہلِ اسلام کے مصائب و مشکلات کو آسانی میں تبدیل کردے۔


راجا محمد عاصم ، موہری شریف، کھاریاں

اشارات: ’تعلیم اور معاشرتی انقلاب کی راہ‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) میں ڈاکٹر انیس احمد نے تعلیم کی اہمیت کو نہایت خوب صورت طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔ تعلیمی شعور اور آگہی کے ذریعے نہ صرف ہمارے اندر معاشرتی انقلاب برپا ہوسکتا ہے بلکہ ہماری آخرت بھی سنور سکتی ہے۔

ڈاکٹر جہاں زیب ، لاڑکانہ ۔ پروفیسر احمد کمال،بہاول پور۔  طاہرہ عظیم ،سیالکوٹ

ترجمان القرآن (دسمبر ۲۰۱۶ء) میں ڈاکٹر صفدر محمود کا مضمون’سقوطِ ڈھاکہ: چند حقائق اور دوقومی نظریہ‘تاریخ اور معلومات کا خزانہ ہے۔ ہماری نئی نسل تو ایک طرف اچھے خاصے استاد، پروفیسر اور صحافی بھی ان معلومات سے بے خبر ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی تحریریں قارئینِ ترجمان  کو تحریکِ پاکستان اور تاریخِ پاکستان سے آگاہ کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔


وحید الدین سلیم ، حیدرآباد دکن

عزیز دوست اور بھائی مسلم سجاد کے انتقال کی خبر ہمارے لیے شدید دُکھ اور محرومی کا باعث بنی۔  محترم خرم مراد اور پروفیسر مسلم سجاد دونوں بھائیوں نے ترجمان القرآن  کی ترقی اور اشاعت کے لیے بے پناہ محنت سے کام کیا، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین!


اعجاز جعفر ،سری نگر (مقبوضہ کشمیر)

’سیرتِ رسولؐ اور حُسنِ اعتدال‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) بہت ہی دل چسپ مضمون تھا۔ قرآنِ مجید نے اعتدال کو نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ کافروں کے باطل خدائوں، یعنی بتوں کو گالیاں دینے سے بھی منع کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راہِ اعتدال سے ہٹ کر اور ضد میں آکر مسلمانوں کے سچے واحد خدا کو ہی بُرا بھلا نہ کہنا شروع کردیں۔ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًما بِغَیْرِ عِلْمٍط(الانعام ۶:۱۰۸)  ’’اور(اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سواجس کو پکارتے ہیں انھیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم و عمل اور عبادت و ریاضت کے ہرشعبے میں ہمیشہ اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال اور اقوال و گفتار کی اِتباع کر کے اعتدال کو اپنی زندگی کا عملی سرمایہ بناکر دائمی سرخروئی حاصل کی ہے۔ فقہاے کرام نے دلیل کی بنیاد پر باہم اختلاف کے باوجود اعتدال کی اخلاقی صفت کو کبھی نظرانداز نہیں کیا، بلکہ ہرممکن حدتک اس پر عمل کیا ہے۔ صالحین و عابدین نے بھی علمی و عملی اور معاشی و معاشرتی زندگی میں میانہ روی، اخلاقی اقدار، رواداری، برداشت اور اعتدال کے راستے پر عمل کیا ہے، جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جملہ شعبہ ہاے زندگی میں ہرشخص کے لیے اس پر عمل کرنے میں ہی عافیت اور سلامتی ہے۔