اللہ رب العالمین نے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے جو اسباب و وسائل عطا کیے ہیں، ان کے تعلق سے اسی نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ ان کے استعمال میں افراط و تفریط سے پرہیز کیا جائے۔ اسی افراط کو فضول خرچی یا اسراف و تبذیر کہا جاتا ہے اور تفریط کو بخل یا تقتیر کا نام دیا جاتا ہے۔ اسراف و تقتیر یہ دونوں مذموم حدیں ہیں، انھیں چھوڑ کر انسان کو میانہ روی، اعتدال اور توازن کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (الفرقان ۲۵:۶۷) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔
درحقیقت فضول خرچی، اللہ کی ناشکری اور نعمت کی ناقدری ہے، کیوں کہ اپنے مال و اسباب کو اِدھر اُدھر بے دردی کے ساتھ اُڑانے والا انسان، اللہ کی مرضی کو فراموش کرکے اپنے نفس امارہ کا غلام بنا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا o اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ط وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۶-۲۷) فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان جس طرح رب کا ناشکرا ہے، اسی طرح فضو ل خرچ انسان اپنے عمل سے کفرانِ نعمت کا ارتکاب کرتا ہے اور رب کے غیظ و غضب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔
فضول خرچی کی مختلف شکلیں اور مظاہر ہیں۔ ایک غیرمحتاط انسان مختلف طریقوں اور مختلف موقعوں پر اس بُری عادت اور مذموم عمل کو دُہراتا رہتا ہے، جن میں خاص طور سے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، خوشی منانے اور مختلف مذہبی و سماجی تقریبات شامل ہیں۔ اکل و شرب کے تعلق سے قرآنی آیت بڑے واضح اور صریح الفاظ میں اہلِ ایمان کو مخاطب کرتی ہے:
وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo(اعراف ۷:۳۱) اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
دیکھیے کس قدر مختصر اور دوٹوک انداز میں اسراف کی ممانعت کو اکل و شرب سے جوڑا گیا ہے۔
حضرت مقدام بن معدی کربؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’آدمی پیٹ سے زیادہ بُرے کسی برتن کو نہیں بھرتا۔ انسان کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں۔ البتہ آدمی اگر بضد ہے تو ایک تہائی حصے میں کھانا کھائے، ایک تہائی حصے میں پانی پیے، اور ایک تہائی حصہ سانس لینے کے لیے باقی رکھے‘‘۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ )
کھانے پینے میں اسراف اور بے احتیاطی کے جو دینی اور روحانی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ پر ، ساتھ ہی اس کے متعدد جسمانی اور طبی نقصانات بھی ہیں۔ پھر جو سماجی بُرائیاں اس سے جنم لیتی ہیں وہ الگ ہیں۔ آج اکل و شرب میں اسراف ایک سماجی فیشن بن چکا ہے، جو گھن کی طرح معاشرے کو چاٹ رہا ہے۔ پانچ آدمی کو کھانے یا کھلانے کے لیے ۲۵ آدمیوں کا کھانا بنایا یا خریدا جاتا ہے اور انواع و اقسام اتنے کہ سب میں سے اگر صرف ایک ایک لقمہ بھی لیا جائے تو معدہ اس کی تاب نہ لاسکے۔ اس کے بعد بچا ہوا اکثر کھانا تتربتر ہوجاتا ہے اور کوڑے دان کی نذر ہوتا ہے۔
فضول خرچی کا ایک مظہر منگنی کی تقریبات بھی ہیں، جن کا زور روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے حتیٰ کہ بعض لوگ اس کا اس اسراف کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں کہ اس میں خرچ ہونے والے سرمایے سے ایک درمیانہ نوعیت کی شادی کا انتظام ہوسکتا ہے۔
لباس و پوشاک میں بھی بسااوقات انسان افراط و اسراف سے کام لیتا ہے۔ لباس کا اصل مقصد سترپوشی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سے زینت بھی حاصل ہوتی ہے، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَ رِیْشًا ط(اعراف ۷:۲۶) اے اولادِ آدم ؑ! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو۔
کُلُوْا وَتَصَدَّقُوْا وَالْبَسُوْا فِیْ غَیْرِ اِسْرَافٍ وَلَا مَخِیْلَۃٍ(نسائی و ابن ماجہ) کھائو، صدقہ کرو اور لباس استعمال کرو، لیکن اسراف اور غرور و گھمنڈ نہیں ہونا چاہیے۔
لباس ہی تک معاملہ محدود نہیں ہے۔ انسان کو اپنی پوری زندگی میں تفاخر اور عیش پرستی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو انھیں نصیحت فرمائی:
اِیَّاکَ وَالتَّنَعُّمَ ، فَاِنَّ عِبَادَ اللہِ لَیْسُوْا بِالْمُتَنَعِّمِیْنَ(احمد) عیش و عشرت سے بچو، اللہ کے بندے عیش و عشرت والے نہیں ہوا کرتے۔
اب ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم لباس و پوشاک کے معاملے میں مسرفانہ جاہ و جلال کے طلب گار تو نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ دو تین واجبی جوڑوں کے بجاے درجن بھر یا اس سے بھی زائد کپڑوں سے ہماری الماریاں تنگ پڑتی ہیں اور ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کی صورتِ حال سے بھی دوچار ہوتے ہیں، اتنے گراں اور بیش قیمت کپڑوں کے اَن گنت جوڑے کہ جن میں سے ایک کی قیمت سے کئی کئی انسانوں کی سترپوشی کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے کپڑوں اور جوڑوں کی لائن تو نہیں لگی ہے۔
وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْ ئٍ حَیٍّ ط(الانبیاء ۲۱:۳۰) اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔
لیکن ہم نے اتنا پانی برباد کیا اور کر رہے ہیں کہ آج جگہ جگہ پانی کے مسائل کھڑے ہورہے ہیں، ہینڈپمپ، کنویں، تالاب اور ندیاں سُوکھ رہی ہیں۔ زیرزمین پانی کی سطح روز بہ روز نیچی ہوتی جارہی ہے، زمین سے پانی نکالنے والی مشینیں اور موٹریں فیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، لیکن پھر بھی ہم محتاط ہوتے نہیں نظر آتے۔
موبائل کا بے جا استعمال بھی اسراف و تبذیر کی حدیں پار کر رہا ہے۔ مہنگے سے مہنگا موبائل خریدنا، ہر کچھ دن کے بعد نئے ماڈل کی تلاش میں اسے بدلتے رہنا ، کئی کئی موبائل بیک وقت رکھنا، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں سب کے ہاتھوں میں ایک سے اعلیٰ ایک موبائل اور اس کے بجا اور بے جا استعمال سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ پھر اپنے وقت کا قیمتی حصہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ضائع کرنا، اس پر اپنی کمائی کا اچھا خاصا پیسہ صرف کرنا اور اپنے مال کے ساتھ اپناوقت اور صحت سب برباد کرنا کیا اسراف میں داخل نہیں ہوگا۔
دولت کی یہ غیرمنصفانہ تقسیم معاشرے پر کیا بُرا اثر چھوڑتی ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں میں کھیلنے والوں کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور اسراف و تبذیر والی زندگی ہے تو دوسری طرف پائی پائی کو ترسنے والے نان شبینہ کے محتاج عوام ہیں۔
ہمارے دین نے ہمیشہ مال داروں اور آسودہ حال لوگوں کو کمزوروں اور غریبوںپر خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اس سے آگے بڑھ کر ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دیا ہے۔ مال و دولت کی کمائی اور خرچ دونوں کے تعلق سے اس کی ذمہ داری طے کی ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن جن چار یا پانچ سوالوں کا جواب دیے بغیر کوئی بندہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے گا۔ ان میں ایک سوال مال کے تعلق سے ہوگا کہ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَ اَنْفَقَہٗ (ترمذی) ’’یعنی مال کمایا کہاں سے اور خرچ کہاں کیا؟ آمدوخرچ دونوں کا حساب دینا ضروری ہوگا‘‘۔
ایک حدیث میں مال کو ضائع کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا گیا: وَیَکْرَہُ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ، وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ، وَ اِضَاعَۃَ الْمَالِ (مسلم)یعنی ’’اللہ تعالیٰ یاوہ گوئی، زیادہ سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو ناپسند فرماتا ہے‘‘۔
ایک سلیم الفطرت مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے عطاکردہ مال و دولت کو احتیاط اور کفایت شعاری سے خرچ کرے، کھانے پینے، اوڑھنے، رہنے سہنے اور دیگر تمام شعبہ ہاے زندگی میں اعتدال و میانہ روی کا مظاہرہ کرے، بے جا رسومات اور غیرضروری تکلفات میں پڑ کر خود کو اور اپنے سماج کو تباہی کے راستے پر نہ لے جائے۔ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس میں غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کا حق تسلیم کرے اور ان تک برضا و رغبت اسے پہنچائے۔ یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے اور انسانی و اخلاقی ذمہ داری بھی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو پاکر فسق و فجور اور اسراف و تبذیر کے راستے پر چلنے لگے، تو سابقہ قوموں اور سرمایہ داروں کا انجام سامنے رکھنا ہوگا۔
وَ اِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۱۶) جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں کھلی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اُس بستی پر چسپاں ہوجاتا ہے اور اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔
اللہ رب العالمین ہمیں ہر طرح کے بُرے انجام سے بچائے، اپنی نعمتوں کی حفاظت کرنے اور ان کی قدر کرنے کی توفیق بخشے، اسراف و تبذیر جیسے شیطانی عمل سے بچاکر انفاق و ایثار کے راستے پر چلادے، آمین!