۲۰۱۷ فروری

فہرست مضامین

اُمت کے فیصلے ،اُمت کے مشورے سے

ڈاکٹر محین الدین غازی | ۲۰۱۷ فروری | اسلامی معاشرت و ریاست

Responsive image Responsive image

 پس جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے، وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سروسامان ہے، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پاے دار بھی۔وہ ان لوگوں کے لیے ہے، جو ایمان لائے ہیں اور اپنے ربّ پر بھروسا کرتے ہیں، جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کر جاتے ہیں، جو اپنے ربّ کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اُس میں سے    خرچ کرتے ہیں، اور جب اُن پر زیادتی کی جاتی ہے تو اُس کا مقابلہ کرتے ہیں۔(الشورٰی ۴۲: ۳۶ -۳۹)

قرآن مجید میں اہل ایمان کی پہچان بتاکر جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، ان میں اہل ایمان، یعنی امت مسلمہ کے افراد کو تمام قوموں سے زیادہ ممتاز اور نمایاں ہونا چاہیے۔ ان اوصاف میں پیچھے رہ جانے کا مطلب اپنی پہچان کھودینا ہے۔

اگر مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (البقرہ ۲:۳)کا تقاضا یہ ہے کہ اس قرآن کو ماننے والی امت کے افراد انفاق (جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں)کے میدان میں تمام قوموں میں ممتاز حیثیت کے حامل ہوں، اور اگر اس صفت میں یہ امتیاز اس امت کو حاصل نہ رہا تو یہ بہت بڑی خرابی اور قرآن سے دوری کی دلیل ہے۔ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ  (الشورٰی ۴۲: ۳۸۔ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں) کا تقاضا یہ ہے کہ شورائی نظام ، شورائی مزاج اور شورائی کلچر میں اس امت کو دنیا کی تمام اقوام میں امتیازی حیثیت حاصل رہے۔ خود سری ، سرکشی اور استبداد اُمت مسلمہ میںمستحسن یا قابل قبول قرار نہ پائے۔ مطلق العنان جابر حاکموں کو اگر دنیا دیس نکالا دے چکی ہو تو ان کو سواری کے لیے امت مسلمہ کے افراد اپنی   پیٹھ پیش نہ کریں۔جبر وتشدد اور تلوار کی نوک پر بیعت لے کر حکومت قائم کرنے کی تائید اور ہمت افزائی امت مسلمہ میں ہرگز نہ ہو، خواہ اس کا نام خلافت ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے، اور جبر وتشدد کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والا شخص خود کو خلیفہ اور امام منتظر کیوں نہ قرار دے۔

اس مقالے میں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ  کا وصف اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے، اور سیاسی نظام کی تشکیل اور صورت گری میں اسے اساسی حیثیت حاصل ہے۔

شورائیت ایک فریضہ ہـے

عام طور سے راے دہی کو حق قرار دیا جاتا ہے، اور اس سے بخوشی دست بردار ہوجانے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے، لیکن قرآن مجید اسے ایک حق سے زیادہ ایک فرض قرار دیتا ہے۔ حق سے دست بردار ہونا غلط ہو یا نہ ہو، فرض سے فرار بہرحال درست نہیں ہے۔

ڈاکٹر علی صلابی نے شوریٰ کے موضوع پر اعلیٰ درجے کی کتاب الشُّوْرٰی فَرِیضْۃٌ اِسْلَامِیَۃٌ  (شورائیت ایک اسلامی فریضہ) تحریر کی ہے۔ یہ عنوان اسی طرح معنی خیز ہے، جس طرح مولانا صدرالدین اصلاحی نے اپنی کتاب کو فریضہ اقامت دین کا عنوان دیا۔ اس سے قبل عباس محمود عقاد نے غوروفکر کو ایک اسلامی فریضہ بتانے کے لیے التفکیر  فریضۃ اسلامیہ  (غوروفکر، ایک اسلامی فریضہ) کے زیر عنوان معرکہ آرا کتاب لکھی تھی۔

غوروفکر اور شورائیت دونوں کا منبع ایک ہی ہے۔ غوروفکر میں انسان اپنے آپ سے مشورہ کرتا ہے، اور شورائیت میں دوسروں سے مشورہ کرتا ہے۔ غوروفکر میں انسان خود سوچتا ہے، اور شورائیت میں سب لوگ سر جوڑ کر سوچتے ہیں۔ قرآن مجید میں غوروفکر پر بھی زور دیا گیا ہے اور شورائیت کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ نہ غوروفکر کے کسی پہلو کی کسی طور سے مذمت کی گئی ہے اور نہ شورائیت کے کسی پہلو کی کہیں نفی کی گئی ہے۔ جس امت کے افراد کا شعار غوروفکر ہو اور جس کے اجتماعی فیصلوں اور قراردادوں کی اساس شوریٰ ہو، اس امت کو ہر آن سانس لینے کے لیے تازہ ہوا ملتی ہے، اور اس کی رگوں میں ہمیشہ تازہ خون دوڑتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ امت میں ’تقلید‘ اور ’اجماع‘ کا ایسا چرچا ہوا کہ غوروفکر کے دروازے بندہوگئے۔ دوسری جانب حاکم وقت کو ظلِ الٰہی اور ہر حال میں واجب الاطاعت قرار دے کر شورائیت کے تمام تر سوتے خشک کردیے گئے،بلکہ بسا اوقات خود ساختہ اہل حل وعقد اور نمایشی مجالس شوریٰ کو آیت شوریٰ کا مصداق قرار دے دیا گیا۔

شورائیت سیاسی نظام کی اساس ہـے

سورۂ شوریٰ کی آیت شوریٰ کا صریح تقاضا ہے کہ سیاسی نظام کی صورت گری ،حکومتی اداروں کا قیام اور حاکم کا انتخاب بذریعہ شوریٰ ہو، اور مملکت کے تمام فیصلے شورائیت کے ذریعے ہوں۔

حضرت عمر فاروقؓ پر جب جان لیوا حملہ ہوا تو انھوں نے اس وقت موجود لوگوںکو جو بہت خاص ہدایتیں دیں، ان میں پہلی بات یہ تھی کہ امارت شورائیت سے ہے، اَلْاِمَارَۃُ  شُوْرٰی ۔ ۱ 

حضرت علیؓ کے سامنے جب خلافت کی پیش کش رکھی گئی تو انھوں نے آیت شوریٰ کی بات دُہرائی: اے لوگو ، یہ معاملہ تمھارا ہے، اس پرکسی کا اجارہ نہیں ہے، یہ حق اسی کو پہنچتا ہے جس کا انتخاب تم کرو،  یَااَیُّھَا النَّاسُ، اِنَّ ھَذَا اَمْرُکُمْ لَیْسَ لِاَحَدٍ فِیْہِ حَقٌّ اِلَّا مَنْ اَمَرْتُمْ ۔۲

عصر حاضر میں مشہوراسلامی ماہر سیاسیات ڈاکٹر حاکم مطیری نے اپنی کتابوں میں، بڑی جرأت اور بھر پور تاریخی اورعلمی دلائل کے ساتھ یہ موقف پیش کیا ہے کہ اسلام کے صدرِ اول میں جب خلافت قائم تھی، تب آیت شوریٰ کا صحیح شعور بھی عام تھا۔سب کے نزدیک یہ حقیقت معروف اور مسلّم تھی کہ خلیفہ کا انتخاب بھی امت کے مشورے سے ہو اور مملکت کے امور بھی مشورے سے انجام پائیں، لیکن جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی، تو فقہی لٹریچر بھی اس تبدیلی سے متاثر ہوا، اور بہ تدریج حکومت بواسطہ وراثت اور حکومت بذریعہ قوت کو بھی شرعی حیثیت حاصل ہوگئی۔

صدرِ اول میں ظالم وجابر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانے کو افضل جہاد کا درجہ حاصل تھا۔ بعد کے اَدوار میں ظالم وجابر حکمرانوں کی اطاعت کو اجماع کے دعوے کے ساتھ واجب ہی قرار نہیں دیا گیا، بلکہ ان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوششوں کو حرام بھی قرار دے دیا گیا۔خاص بات یہ ہے کہ امت کے دین دار طبقے نے سیاسی اصلاح کے تمام دروازے اپنے اُوپر بند کرلیے، لیکن دنیادار اور اہلِ ہوس نے کبھی کسی ضابطے کی پابندی نہیں کی، اور ہر غیر اخلاقی طریقہ اختیار کرکے امت کی گردن پر سوار رہے۔

ڈاکٹر حاکم مطیری کے مطابق خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہوجانا اتنا خطرناک اور نقصان دہ ثابت نہیں ہوا، جس قدر غیر شورائی نظام ملوکیت کو شرعی جواز بلکہ تحفظ فراہم کرنے والا فقہی لٹریچر ثابت ہوا۔ اس لٹریچر میں شوریٰ کو محض مستحب بتایا گیا، اور مشورے کو قبول کرنے یا قبول نہ کرنے کا اختیار دیا گیا، جو آگے چل کر فقہی موقف اور عقیدے کا درجہ حاصل کرگیا۔ گمراہی عمل کی ہو تو اصلاح کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، لیکن گمراہی جب عقیدہ وفکر کا حصہ بن جائے تو اصلاح کا کام بہت دشوار ہوجاتا ہے۔۳

 فقہا نے اس مسئلے پر کیا موقف اختیار کیا؟ اس کی ایک مثال مولانا ابوالکلام آزادکا درج ذیل بیان ہے: ’’اگر نظام شرعی کی جگہ ملکی قبضہ وتسلط کی صورت پیدا ہوجائے، اور جمہور کو انتخاب ونصب کا   موقع نہ ملے، تو اس صورت میں ازروے شرع مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ سو ،اس کی نسبت چوںکہ خود احادیث صحیحہ اور اجماع صحابہ وغیرہ میں بالکل صاف صاف موجود تھا، اس لیے تمام امت بلااختلاف اس پر متفق ہوگئی، کہ جب ایک مسلمان منصب خلافت پر قابض ہوجائے، اور اس کی حکومت جم جائے، تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اسی کو خلیفۂ اسلام تسلیم کرے، اسی کے سامنے گردنِ اطاعت جھکائے، بالکل اسی طرح جیسے ایک اہل ومستحق خلیفہ کے آگے جھکنا چاہیے۔ اطاعت واعانت کی وہ تمام باتیں جو منصب خلافت کے شرعی حقوق میں سے ہیں، ایسے خلیفہ کو حاصل ہوجاتی ہیں۔   اس سے رُوگردانی کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ اس کے مقابلے میں خروج اور دعوے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا، اگرچہ کیسا ہی افضل اور جامع الشروط کیوں نہ ہو۔ جو کوئی ایسا کرے، مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کے مقابلے میں اور قتل میں خلیفہ کا ساتھ دیں، وہ شرعاً باغی ہے اس کو قتل کردینا چاہیے‘‘۔۴

مولانا آزاد مزید لکھتے ہیں: ’’اگرچہ ایک نااہل مسلمان کا خلیفہ ہوجانا برائی ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر برائی یہ ہے کہ تمام ملک برباد ہوجائے۔ اسلام نے ملک وشرع کی حفاظت کو مقدم رکھا، جو کلی مصلحت کا حکم رکھتی ہے، اور نااہل وفاقد الشروط کا تسلط گوارا کرلیا، جس کا فساد جزئی فساد ہے‘‘۔۵

واضح رہے کہ مولانا آزاد کے مذکورہ موقف کا اطلاق ظالم حکمران پر بھی ہوتا ہے۔مولانا آزاد نے اصل اور مطلوب جمہوری طریقہ انتخاب کو بتایا، اور اگر کوئی زبردستی بزور قوت مسلط ہوجائے تو اسے مصلحتاً برداشت کرلینے کی صلاح دی۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے تو بزورِ قوت اقتدار حاصل کرنے کو بذریعہ شوریٰ اقتدار تک پہنچنے کے برابر قرار دیا ہے، اور دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ ۶

یہاں پر جسٹس عبدالقادر عودہ شہید لکھتے ہیں: ’’بزور غلبہ حاکم بن جانے والے کی حکومت کو فقہا نے اس لیے قبول کرلیا تھا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے، اس طرح فتنوں سے ، اور تفرقے سے امت کوبچایا جاسکے گا، لیکن اس کے بطن سے تو سب سے شدید فتنوں نے جنم لیا، اور اس کے سبب اسلامی اجتماعیت پارہ پارہ ہوئی، مسلمانوں میں کمزوری آئی، اور اسلام کی بنیادیں منہدم ہوگئیں۔ اگر فقہا کو یہ معلوم ہوتا کہ اس اجازت سے کیا برے نتائج سامنے آنے والے ہیں، تو وہ اس کی اجازت ایک لمحے کے لیے نہ دیتے‘‘۔۷

شورائیت کے بغیر ہر حکومت غیر آئینی ہـے

ہم دیکھتے ہیں کہ موجود اور مروجہ دینی لٹریچر میں حاکم کی اطاعت پر زیادہ زور ملتا ہے، نظام سیاست اور شورائی یا مشاورتی نظام و ضرورت پر گفتگو بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں ایک زوردار بیان مشہور مفسر ابن عطیہ اندلسی کا ہے، (وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ) کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں: 

وَالشُّوْرٰی مِنْ قَوَاعِدِ الْاِسْلَامِ وَعَزَائِمِ الْاَحْکَامِ ، وَمَنْ لَا یَسْتَشِیْرُ اَھْلَ الْعِلْمِ وَالدِّیْنِ فَعَزْلُہٗ وَاجِبٌ، ھَذَا مَا لَاخِلَافَ فِیْہِ ۸  شوریٰ، اسلام کی بنیادوں میں سے ہے اور اس کا شمار اہم ترین احکام میں ہوتا ہے، اور جو اہل علم ودین سے مشورہ نہ کرے اسے معزول کرنا واجب ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

گویا ابن عطیہ اندلسی کے نزدیک شورائیت کو نظر انداز کردینے والا حاکم اس قابل ہے کہ اسے معزول کردیا جائے، بلکہ لوگوں پر واجب ہے کہ اسے معزول کردیں۔ان کے مطابق اس پر سب کا اتفاق ہے، تاہم ابن عطیہ کے اس موقف سے ابن عرفہ نے اختلاف کیا ہے۔ انھیں اس اصولی بات سے اختلاف نہیں ہے کہ شورائیت مطلوب اور واجب ہے،لیکن اگرحاکمِ وقت شورائیت سے رُوگردانی کرے تو کیا اسے معزول کرنا واجب ہوگا؟ اس پر وہ ابن عطیہ سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ: جب فسق کی بنا پر حاکم کو معزول کرنا واجب نہیں ہے تو محض شورائیت کو ترک کردینے کی وجہ سے یہ اقدام کیوںکر درست ہوسکتا ہے؟

جدید مفسرین میں محمدالطاہر ابن عاشور نے ابن عطیہ اندلسی کے موقف کی پُرزورتائید کی ہے اور ابن عرفہ کے موقف میں موجود کمزوری کی نشان دہی کی ہے۔ ابن عرفہ کا خیال تھا کہ   ترکِ شورائیت فسق کے درجے کی چیز ہے یا اس سے بھی کم درجے کی۔ ابن عاشور نے بتایا کہ فسق کے مقابلے میں ترک شورائیت بہت سنگین مسئلہ ہے، کیونکہ ترکِ شورائیت تو اسلام کے پورے سیاسی نظام کی بنیاد منہدم کردینے کے ہم معنی ہے۔ اگر کوئی حاکم شورائیت کے عمل کو ترک کرکے استبداد (Dictatorship)کا راستہ اختیار کرتا ہے، تو گویا وہ اپنے ہاتھوں سے اس نظام کی پوری عمارت زمین بوس کردینے کا ارتکاب کرتا ہے، جس کی نگہبانی پر اسے مامور کیا گیا تھا، یا جس کی اس سے توقع کی گئی تھی۔ ایسی صورت میں پھر خود اس کے منصب حکمرانی پر برقراررہ جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا، بلکہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے معزول کرکے اسلامی نظام کی عمارت کی ازسرِ نو تعمیر کی جائے۔عام فسق کا تعلق حاکم کی ذاتی زندگی سے ہوتا ہے، لیکن ترکِ شورائیت سے تو امت کی زندگی کو نقصان پہنچتا ہے، جس کی اجازت کسی کو نہیں ملنی چاہیے۔۹

سیّد قطب شہیدؒ نے فی ظلال القرآن میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:  ’’یہ حکم صرف حکومتی اُمور کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اسلامی سوسائٹی کا عمومی طرزِعمل ہے، اگرچہ حکومت اس وقت قائم ہی نہ ہوئی [ہو]۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کی تنظیم دراصل اسلامی سوسائٹی کے خدوخال کا ایک منظم ظہور ہی ہے اور اسلامی سوسائٹی کے دائرے میں اسلامی حکومت بھی آتی ہے۔ لہٰذا، اسلامی سوسائٹی، اسلامی حکومت کو بھی اسی نہج پر چلاتی ہے، جس طرح اس کے عمومی اُمور چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں آغاز ہی سے مشورے کا عمل جاری تھا، اور اس مشورے کا دائرہ حکومت اور حکومتی احکام سے بہت وسیع تھا۔ شوریٰ کی شکل و صورت کیا ہونی چاہیے؟ اسلام نے اس کے لیے کوئی فولادی قالب تیار کرکے نہیں دیا۔ ہر زمان و مکان کے حالات میں اس کی مختلف شکل و صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں، تاکہ یہ صفت، یعنی شورائیت، اسلامی سوسائٹی میں رائج رہے‘‘۔۱۰ 

شوریٰ اور نماز کا باہم تعلق

مولانا امین احسن اصلاحی نے تفسیر تدبرقرآن میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے، مشاورت اور شوریٰ کو نماز کے تناظر میں دیکھا اور اہلِ ایمان کو غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’لفظ امر عربی میں ہمارے [اُردو] لفظ ’معاملہ‘ کی طرح بہت وسیع معنوں میں آتا ہے۔  اس کے صحیح مفہوم کا تعین موقع و محل اور سیاق و سباق سے کرتے ہیں۔ یہاں قرینہ پتا دے رہا ہے کہ یہ لفظ جماعتی نظم کے مفہوم میں آیا ہے، یعنی مسلمانوں کا جماعتی اور سیاسی نظم: خودسری ، انانیت، خاندانی برتری، نسبی غرور پر مبنی نہیں ہے، بلکہ اہلِ ایمان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔ قرآن نے اس آیت میں مسلمانوں کو یہ بشارت دے دی کہ ان کے لیے ایک ہیئت اجتماعی و سیاسی کی شکل میں منظم ہونے کا وقت آگیا[ہے]، اور یہ نظمِ اجتماعی ، نسب اور خاندان کی اساس کے بجاے اہلِ ایمان کے باہمی مشورے پر مبنی ہوگا‘‘۔۱۱ 

مولانا اصلاحی اسی سلسلۂ کلام کو جوڑتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک سوال یہاں قابلِ غور ہے کہ قرآن کا معروف اسلوبِ بیان تو یہ ہے کہ وہ نماز کے ساتھ بالعموم زکوٰۃ یا انفاق کا ذکر کرتا ہے، لیکن یہاں اس معروف طریقے کے بجاے نماز اور انفاق کے بیچ ’شوریٰ‘ کا ذکر آگیا ہے۔    آخر شوریٰ کی اہمیت کا وہ خاص پہلو کیا ہے، جس کی بناپر اس کو نماز کے پہلو میں جگہ دی گئی؟ ہمارے نزدیک جواب یہ ہے کہ اسلام کے نظمِ اجتماعی کی روح اور اس کے قالب کی اصل شکل نماز میں  محفوظ کی گئی ہے۔ اسی کے اندر مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ان کو اللہ کی بندگی کے لیے ایک بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہونا ہے؟ کس طرح اپنے اندر سے سب سے زیادہ علم و تقویٰ والے کو اپنی امامت کے لیے منتخب کرنا ہے؟ کس طرح لوگوں کو حدودِ الٰہی کے اندر اس امام کی بے چون و چرا اطاعت کرنی ہے؟اور کس طرح امام اس بات کا پابند ہے کہ لوگوں کو کسی ایسی بات کا حکم نہ دے جو اللہ اور رسولؐ کے حکم کے خلاف ہو، اور کس طرح اس کے ایک [عام] مقتدی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ [امام]کوئی غلطی کرے تو وہ [مقتدی] اس کو ٹوک دے۔ یہاں تک کہ عین نماز کے اندر بھی رکوع، سجود، قیام، قعود یا تلاوت میں کوئی ادنیٰ فروگزاشت بھی اس سے صادر ہوجائے تو اس کے پیچھے ہرنماز پڑھنے والا اس کو متنبہ کرنے کا ذمہ دار ہے، اور امام کا یہ فرض ہے کہ اگر مقتدی کی تنبیہہ مطابقِ شریعت ہے تو وہ اس کو قبول کرے اور اپنی غلطی کی فوراً اصلاح کرے۔ گویا اس طرح ہمارا پورا نظمِ اجتماعی ، نماز کی صورت میں متشکل کرکے ہمیں یہ دکھایا گیا ہے کہ ہم اپنی سیاسی تنظیم میں اسی نمونے کی پیروی کریں۔ اسی طرح اللہ کے دین کی اقامت کے لیے اپنی تنظیم کریں۔ اسی طرح اپنے اندر سے سب سے زیادہ اہل اور صاحب ِ علم و تقویٰ کو اپنی قیادت کے لیے منتخب کریں۔ اسی طرح تمام معروف میں بے چون و چرا اس کی اطاعت کریں اور اگر اس سے کوئی ایسی بات صادر ہو، جو شریعت کے معروف کے خلاف ہو تو بے خوف لومۃ لائم اس کو متنبہ کر کے، اس کو صحیح راہ پر لانے کی کوشش کریں‘‘۔۱۲ 

’’نماز اور ہمارے سیاسی نظام کا یہ تعلق ہے، جس کے سبب سے قرآن نے ٹھیک اس وقت، جب مسلمان ایک ہیئت ِ اجتماعی کی شکل اختیار کرنے والے تھے، ان کی رہنمائی شوریٰ کی طرف فرمائی اور اس شوریٰ کا ذکر نماز کے پہلو بہ پہلو کرکے ایک طرف تو اس کی عظمت نمایاں فرمائی کہ دین میں اس کا کیا درجہ و مرتبہ ہے۔ دوسری طرف اس کی تشکیل کی نوعیت بھی واضح فرما دی۔  شوریٰ کی اہمیت اور نماز کے ساتھ اس کے تعلق کا یہی پہلو تھا کہ عہد ِ رسالتؐ اور خلفاے راشدینؓ کے دور میں اس کا انعقاد مسجد ہی میں ہوتا تھا۔ خلیفۂ ثانی حضرت عمرفاروقؓ کے متعلق سیرت کی کتابوں میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ وہ شوریٰ کے انعقاد کا اعلان الصَّلَوٰۃُ جَامِعَۃٌ کے الفاظ سے کراتے تھے، یعنی اہلِ شوریٰ نماز کے لیے جمع ہوں۔ جب اہلِ شوریٰ مسجد میں جمع ہوجاتے تو وہ دورکعت نماز ادا کرتے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ نماز پڑھتے تھے تو دوسرے اہلِ شوریٰ بھی ان کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہوں گے۔ نماز اور دعا کے بعد حضرت عمرؓ مسئلہ زیربحث پیش کرتے اور اہلِ شوریٰ اس پر اپنی رایوں کا اظہار کرتے اور خلیفہ کی رہنمائی میں کسی متفق علیہ نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے حصول کے پہلو سے بھی نہایت بابرکت ہے، اور اسلام کے نظم سیاسی کی اصل روح کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے بھی‘‘۔۱۳ 

وامرھم شوریٰ بینھم حکم بھی اوردلیل بھی

آیتِ شوریٰ میں شوریٰ کے حکم کے ساتھ اس کی دلیل اور منطقی بنیاد کو بھی خوب صورتی سے سمودیا گیا ہے۔ اَمْرُھُمْ کہہ کربتایا گیا کہ جس معاملے کا تعلق سب سے ہو ، اور اس سے منسلک اور وابستہ نفع و نقصان سے سب متاثر ہورہے ہوں، اس سلسلے میں کوئی بھی راہ تلاش کرنے اور کوئی موقف طے کرنے میں سب کی شرکت ضروری ہونا چاہیے۔ یہ بات عقل ومنطق کے خلاف ہے کہ سب لوگوں سے متعلق معاملے میں فیصلہ کوئی ایک فرد یا ایک مخصوص گروہ کرے ، اور صاحبِ معاملہ افراد، یعنی پوری قوم یا اجتماعیت سے راے معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس کی جائے ، اور معلوم ہوجانے پر اس کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے۔

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول :’’ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو، اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راے سے فیصلہ کرڈالنا اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظر انداز کردینا زیادتی ہے۔ مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کا حق نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو، اس میں ان سب کی راے لی جائے، اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمایندوں کو شریکِ مشورہ کیا جائے‘‘۔۱۴

سیاسی نظام کو شورائی بنیادوں پر قائم کرنا عملاً بہت مشکل کام ہے۔ ا س راستے کی بے شمار رکاوٹوں کا سب سے بڑا علاج یہ ہے کہ عوام الناس کے ذہنوں کو جو صدیوں سے آمریت سے متاثر ہیں،شورائیت آشنا بنا یا جا ئے۔ انھیں یہ یقین دلایا جائے کہ شورائی عمل میں ان کی شرکت ان کے اوپر کسی کا احسان نہیں ہے، بلکہ یہ تو ان کابنیادی حق اور فریضہ ہے۔ علامہ کوکبی کے بقول : ’’جو قوم غلامی کے اَلم کو محسوس نہیں کرسکتی وہ آزادی کی حق دار نہیں ہے‘‘۔

قرآن مجید کی آیت شوریٰ کی صحیح تفہیم مسلمانوں کی ذہن سازی میں غیر معمولی کردار ادا کرسکتی تھی، اور وہ جمہوری انقلاب جو یورپ میں آیا اور اہل مشرق خاص کر مسلمانوں کو اس کے لیے نااہل سمجھا گیا ، درحقیقت اس انقلاب سے بہت بہتر شکل عالم اسلام کا امتیاز ہوسکتی تھی۔

حق خلافت اور حق شورائیت

اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ  کی آسان اورالفاظ سے قریب ترین تفسیر یہ ہے کہ: مشاورت اور مشاورت کی روشنی میں فیصلے پوری امت کا حق ہے ،امت سے متعلق تمام امور خود امت کے ذریعے طے پائیں۔بطور مثال حکومت کیسی ہو اور کس کی ہواور حکومت کا دورانیہ کتنا ہو، یہ قطعاً اس شخص یا گروہ کا مسئلہ نہیں ہے جو حکومت کرنا چاہتا ہے یا کسی طریقے سے کررہا ہے، بلکہ یہ صرف اور صرف اور براہِ راست امت کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں قابل اعتبار فیصلہ خود امت کا ہونا چاہیے۔  کوئی ایک فرد خواہ کتنا ہی دین دار، صاحب فہم اور امت کا خیر خواہ ہو، اس کا مجاز نہیں ہے کہ وہ اُمت کے امور کے بارے میں اپنی تنہا راے سے فیصلے کرے۔

مولانا مودودیؒ نے آیت خلافت [النور۲۴:۵۵] سے استدلال کرتے ہوئے حق حکمرانی کو امت کا حق بتایا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’یہاں جو شخص حکمراں بنایا جاتا ہے، اس کی اصلی حیثیت یہ ہے کہ تمام مسلمان، یا اصطلاحی الفاظ میں، تمام خلفا، اپنی رضامندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لیے اس کی ذات میں مرکوز [concentrate]کردیتے ہیں۔وہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے، اور دوسری طرف ان عام خلفا کے سامنے، جنھوں نے اپنی خلافت اس کو تفویض کی ہے۔ اب اگر وہ غیر ذمہ دار مطاع مطلق، یعنی آمر(Dictator) بنتا ہے، تو خلیفہ کے بجاے غاصب کی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ کیوںکہ آمریت دراصل عمومی خلافت کی نفی ہے‘‘۔۱۵

مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’ایسی سوسائٹی میں ہر عاقل وبالغ مسلمان کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، راے دہی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ خلافت کا حامل ہے، اللہ نے اس خلافت کو کسی خاص معیار لیاقت یا کسی معیار ثروت سے مشروط نہیں کیا ہے، بلکہ صرف ایمان وعمل صالح سے مشروط کیا ہے۔ لہٰذا، راے دہی میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مساوی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔۱۶

اُمت کا جو حق مولانا نے آیت خلافت سے ثابت کیا ہے، وہی حق آیت شوریٰ سے اور زیادہ وضاحت کے ساتھ ثابت ہوتاہے۔ یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ لفظ خلافت کی اصل اہمیت نہیں ہے، بلکہ اصل اہمیت اس نظام حکومت کی ہے جو شورائیت پر قائم ہو۔ اگر جبر وتشدد سے کوئی خلافت قائم ہوتی ہے تو وہ کچھ بھی ہو اسلامی نظام حکومت نہیں ہے۔

امريْ اور امرھم میں فرق

ملکہ سبا کے پاس جب حضرت سلیمانؑ کا پیغام پہنچا، تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا : یٰٓاَیُّھَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْٓ اَمْرِیْ  (النمل ۲۷:۳۲)’’اے سردارانِ قوم، میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو‘‘۔دیکھا جائے تو وہ صرف اس کا معاملہ نہیں تھا بلکہ سب کا معاملہ تھا۔ لیکن بادشاہت خواہ کیسی ہی عادلانہ ہو، اور اس میں مشورے کو خواہ کتنی ہی اہمیت دی جاتی ہو، تاہم جہاں بانی کا معاملہ بادشاہ کا ایک طرح سے ذاتی معاملہ سمجھا جاتاہے۔ عوام سے جب مشورہ لیا جاتا ہے، تو بھی اسی طور سے کہ وہ بادشاہ کے معاملے میں بادشاہ کو مشورہ دیں ، اور عوام یہی سوچ کر مشورہ بھی دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ صرف اسی صورت میں مشورہ دیتے ہیں جب ان سے مانگا جائے، اور اس وقت بھی ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ معاملے کو بادشاہ سلامت کی ’بے پناہ ذہانت‘ کے سپرد کرکے، ہرحال میں اپنی اطاعت کا یقین دلانے پر اکتفا کریں۔ اس لیے آمریت کی جو بھی شکل ہو ، اس میں أَمْرِيْ کی بنیاد پر مشورہ ہوتا ہے، اور اسی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ فیصلے کتنے ہی غلط ہوں، عوام الناس کو اعتراض کا حق نہیں ہوتا ہے۔ امور مملکت میں فرعون کی رعایا نے بھی قرآن مجید کے الفاظ کے مطابق فرعون کی پیروی کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق یا تکذیب کو اپنا معاملہ سمجھ کر، اس پر خود غور وفکر کرتے ،اور اپنے معاملے میںاپنا موقف طے کرتے۔ اس کے بجاے ، انھوں نے فرعون کی اندھی پیروی کی، فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ ج وَ مَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍo(ھود ۱۱: ۹۷)

قرآن مجید کی آیت شوریٰ کا تصور اس سے مختلف ہے۔ یہاں مشورے کی اساس أَمْرِيْ کے بجاے اَمْرُھُمْ ہے۔ مملکت سب کی ہے اور امور مملکت بھی سب کے ہیں۔ اگر کسی کو مشورے کے عمل سے دور رکھا جاتا ہے تو یہ اس کے بنیادی حق سے اسے محروم کرنا ہے۔ اگر سربراہ مملکت اپنی  من مانی کرتا ہے، تو وہ دراصل آئین مملکت کی خلاف ورزی کرتا ہے، جس کے بعد اس کے اپنے منصب پر باقی رہ جانے کا کوئی جواز نہیں رہتا ہے۔

 اسلامی نظام مشورے سے چلتا ہے، خواہ سربراہِ مملکت اس کی ضرورت محسوس کرے یا نہ کرے، بلکہ عوام الناس کوبھی اس کا اختیار نہیں ہے کہ وہ سربراہِ مملکت کی ذہانت اور خیر خواہی پر بھروسا کرکے امور مملکت کے سلسلے میں اپنے حق شورائیت سے دست بردار ہوجائیں۔ چوںکہ شوریٰ محض ایک حق نہیں ہے بلکہ ایک فریضہ بھی ہے ، اس لیے غیرشورائی نظام کو اختیار کرنے یا اس پر مطمئن ہورہنے کی اجازتِ عام اُمت کو بھی نہیں ہے۔

آیت شوریٰ کا دائرہ : تمام اجتماعی معاملات

آیتِ شوریٰ کی محض سیاسی تفسیر اسے بہت محدود کردیتی ہے۔درحقیقت اس کے مفہوم میںاتنی وسعت ہے، کہ پوری زندگی کے تمام شعبے اس کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ آیت شوریٰ کا تقاضا ہے کہ گھر اور خاندان کے فیصلے بھی اس آیت کی روشنی میں کیے جائیں، اور دیگر سماجی اداروں میں بھی اس آیت کی بالا دستی رہے۔

یوں بھی سیاسی نظام، شورائیت کی اساس پر کامیابی کے ساتھ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے، جب غیر سیاسی شعبوں میں اور اجتماعیت کی مختلف سطحوں پر شورائیت کو بطور ایک اصول کے اختیار کیا جاچکا ہو۔ خاندان کی چھوٹی اکائی میں بھی اطاعت کے ڈنڈے کے بجاے شورائیت کا سکہ چلتا ہو۔ یہی نہیں بلکہ مسجد میں بھی تانا شاہی یا موروثی تولیت وامامت کے بجاے شورائیت کا بول بالا ہو، خواہ وہ گاؤں کی چھوٹی سی مسجد ہو یا کسی بڑے شہر کی بڑی جامع مسجد۔جب امت ہر سطح پر شورائی قدروں (values)کا احترام کرنا سیکھ لے گی، تو سیاسی سطح پر وہ شورائیت کو بہت بہتر طریقے سے رُوبہ عمل لاسکے گی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیاسی نظام کو شورائی بنانے کے لیے اس وقت کا انتظار کیا جائے کہ جب پورا معاشرہ شورائیت آشنا ہوجائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ شورائیت کی تبلیغ اور اس کے لیے ذہن سازی محض سیاست کی سطح پر کرنے کے بجاے بیک وقت ہر سطح پر کی جائے۔

امت کا حقیقی مسئلہ محض یہ نہیں ہے کہ اس کا سیاسی نظام شورائیت پر قائم نہیں ہے، اس کا حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ اس کے افراد کا مزاج شورائی نہیں ہے، اور اسی لیے ہر سطح پر شورائیت کے تقاضوں کو نظر انداز کیا جاتاہے۔عجیب تر بات تو یہ بھی ہے کہ شورائی نظام کے احیا اور قیام کے لیے جو تحریکیں وجود میں آتی ہیں، بسا اوقات ان کا اپنا نظام غیر شورائی ہوتا ہے۔

غوروفکر:  شوریٰ کی اولین شرط

آیت شوریٰ سے جہاںیہ معلوم ہوتا ہے کہ امت کے فیصلے بذریعہ امت طے پائیں، وہیں شوریٰ کا لفظ جو اپنے اندر اجتماعی غوروفکر کا مفہوم رکھتا ہے، تقاضا کرتا ہے کہ امت کے فیصلے امت کے غوروفکر کا نتیجہ ہوں، یعنی راے دہی اور راے شماری کا دیانت دارانہ نظام قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ، غوروفکر کے لیے آزاد اور سازگارماحول بھی فراہم کیا جائے۔ راے شماری کا نظام کتنا ہی آزاد اور شفاف کیوں نہ ہو، امت کی راے کبھی سامنے نہیں آسکتی ہے، اصل مطلوب کسی راے کے حق میں یا اس کے خلاف لوگوں کی تائید حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ اصل مطلوب لوگوں کو غوروفکر کے  عمل میں شریک کرنا ہے۔ریفرنڈم میں اور شوریٰ میں یہی فرق ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف اوراپنے حق میں عوامی تائید فرعون نے بھی حاصل کرلی تھی، تاہم قرآن اس کے بارے میں کہتا ہے، فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ ط اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَo (الزخرف ۴۳:۵۴) ’’اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں نے اس کی اطاعت کی، درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ‘‘۔ گویا فرعون نے عوامی تائید لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اور ان کی اخلاقی پستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان کو بے وقوف بناکر حاصل کی تھی، یہ کسی شورائی عمل کا نتیجہ نہیں تھی۔ شورائی عمل میں کسی مخالف کی آواز کو زبردستی دبایا نہیں جاتا ہے، لیکن فرعون نے رجل مومن کے اختلاف راے اور اس کے اظہار کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح جادوگروں نے جب صحیح بات مان لینے کے پیدایشی حق آزادی کو استعمال کیا تو ان کی اس آزادی کو سلب کرنے کے لیے سخت دھمکیوں کا استعمال کیا گیا ۔ اختلاف راے کو دبانے کا مطلب شورائیت کا گلا گھونٹ دینا ہے، خواہ اسے دارورسن سے دبایا جائے ، یا کسی مقام ومنصب کا رعب ڈال کر ، یا قومی ’مفاد‘ اور ’جماعتی مصالح‘ سے متعلق اندیشوں کا حوالہ دے کر۔فرعون نے اختلاف راے کو دبانے کے لیے ان سارے حربوں کا استعمال کیا تھا۔

غور طلب بات یہ بھی ہے کہ فرعون جو آمریت اورحاکمانہ تشدد کی ایک طرح سے تاریخی علامت رہا ہے، اس نے بھی لوگوں کو دھوکے میں رکھنے کے لیے مجلس شوریٰ بنا رکھی تھی، اور اپنے ظالمانہ فیصلوںپر مجلس شوریٰ کی مہر لگانے کا اہتمام بھی کرتا تھا۔ قرآن کا تصور شورائیت ایسے تمام جھوٹے اور فریب آمیز مظاہر کا ابطال کرتا ہے، جہاں انسانوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کرتے ہوئے اپنے حق میں راے عامہ بنائی جائے۔

آیت شوریٰ کا تقاضا ہے کہ شورائی عمل اوّل تا آخر محض شورائیت اور غوروفکر پر جاری و ساری رہے۔ کسی بھی مرحلے میں اگر کسی ایسے محرک نے مداخلت کردی جو شورائیت اور غوروفکر کے منافی ہو، تو شورائیت کی گاڑی اپنی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ کسی شخصیت کا احترام ہو، یا کسی مسئلے سے جذباتی نوعیت کا تعلق ہو، گروہ بندی کی لعنت ہو، یا طرز کہن پر اڑنے کی عادت ہو، غرض کوئی بھی چیز شورائیت اور غوروفکر کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہیے۔ غوروفکر کے تقاضے اور خیر کی تلاش کا جذبہ سب پر مقدم ہونا چاہیے۔

نظام کی تشکیل میں شورائیت کا کردار

خالقِ کائنات نے جہاں شریعت بذریعہ وحی نازل فرمائی ہے، وہیں زندگی کے ایک وسیع میدان میں اس کی گنجایش رکھی ہے کہ شریعت کی تعلیمات کی رعایت اور حدود شریعت کی پاس داری کرتے ہوئے اہل زمین اپنی عقل اور تجربات سے فائدہ اٹھائیں ، اور مختلف شعبہ ہاے حیات سے متعلق طریقوں کی تشکیل کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شریعت ناقص ہے، بلکہ شریعت کا منشا یہی ہے کہ انسانی عقل جو اللہ کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے، اس کا بھی بھرپور استعمال ہو۔ گویا شریعت انسان کو عقل سے بے نیاز نہیں کرتی ہے بلکہ عقل کو ثمر آور ہونے کے لیے بہت موزوں ماحول اور بہت وسیع میدان فراہم کرتی ہے۔

 اسلامی نظام حکومت میں حاکمیت اللہ کی ہوتی ہے اور انسانوں کا کام اللہ کی مرضی کے مطابق حکومت چلانا ہوتا ہے، جس میں انسان حاکم نہیں بلکہ نائب ہوتا ہے۔ تاہم، اللہ کی مرضی جاننے کا جہاں پہلا اور اہم ترین ذریعہ وحی الٰہی ہے ، وہیں دوسرا ذریعہ اجتہاد اور شوریٰ ہے، اور اس ذریعے کا ثبوت اور اس ذریعے کا استعمال بھی وحی الٰہی کی روشنی میں ہونا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے شوریٰ کا نظام قائم کیا تھا اور اس کی تربیت بھی دی تھی۔ اسی لیے خلفاے راشدینؓ نے اس پر کامیابی سے عمل بھی کیا تھا۔ تاہم، بعد میں جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی، جو سراسر شورائیت کے مخالف رویہ ہے، تو شوریٰ کو بالکل معطل کردیا گیا،اور اس کی جگہ حاکم وقت کے انفرادی فیصلوں نے لے لی۔ غرض شوریٰ کے ذریعے اللہ کی مرضی جاننے کے بجاے ، حکمرانوں کی اپنی مرضی عملاًقانون سازی کی اساس بنتی چلی گئی۔

غوروفکر بذریعہ افراد ، قانون سازی بذریعہ شوریٰ

اسلامی ریاست میں غوروفکر اور اظہارِ راے کی آزادی ہر فرد کو حاصل ہوتی ہے۔ ریاست کو شریعت نے نہ افراد کی دولت قومیانے کی اجازت دی ہے اورنہ اس کی اجازت دی ہے کہ اجتماعی مصالح کا حوالہ دے کر،یا اُمت کے انتشار کا اندیشہ بتاکر، یا کسی اور بہانے سے غوروفکر کے کسی عمل پر پابندی لگائی جائے۔ البتہ کسی حاصلِ غوروفکر کو قانونی درجہ دینے کے لیے امت میں موجود بہتر سے بہتر شورائی عمل سے گزارناضروری ہے۔

اسلامی ریاست میں قانون سازی کے دائرے پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے عبادات کو دائرہ قانون سازی سے خارج قرار دیا ہے اور معاملات کے باب میں وہاں قانون سازی کی گنجایش بتائی ہے، جہاں کتاب وسنت خاموش ہیں۔اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے معاملات کے باب میں چار شعبوں کا ذکر کیا ہے، جن میں قانون سازی کے امکانات پائے جاتے ہیں: lتعبیر l قیاس lاستنباط واجتہاد l  استحسان اور مصالح مرسلہ۔

اس کے بعد مولانامودودیؒ لکھتے ہیں: ’’ان چار شعبوں کے متعلق کسی مجتہد یا امام کی انفرادی راے اور تحقیق ایک ماہرانہ راے اور تحقیق تو ہوسکتی ہے، جس کا وزن راے دینے والے کی علمی شخصیت کے وزن کے مطابق ہی ہوگا، مگر بہر حال وہ ’قانون‘ نہیں بن سکتی۔ قانون بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مملکت اسلامیہ کے ارباب حل وعقد کی شوریٰ ہو اور وہ اپنے اجماع سے یا جمہوری فیصلے (یعنی اکثریت کے فیصلے) سے ایک تعبیر، ایک قیاس، ایک استنباط و اجتہاد، یاایک استحسان ومصلحت مرسلہ کو اختیار کرکے قانونی شکل دے دیں۔ خلافت راشدہ میں قانون سازی کی یہی شکل تھی‘‘۔۱۷

اجماع ومشاورت کا موازنہ

اسلامی فقہ یا قانون کی عام طور سے چار اہم بنیادوں کا ذکر کیا جاتا ہے: قرآن ، سنت ، اجماع اور قیاس___  فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے درمیان اجماع کا جو تصور مشہور ہے ، وہ اس قدر سخت شرطوںپر قائم ہے کہ نہ وہ شرطیں بیک وقت پائی جاسکتی ہیں، اور نہ وہ اجماع وجود میں آسکتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ایک طرف اجماع کے انعقاد کی شرطیںانتہائی سخت ہیں، دوسری جانب اس کی حجیت کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ، کہ بسا اوقات وہ قرآن وسنت سے بھی زیادہ قوی دلیل معلوم ہوتا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے اجماع کے تصور کو عملیّت پسندی سے قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک اس کا اطلاق امت کی نمایندہ مجلس شوریٰ میں اتفاق راے سے ہونے والے فیصلوں پر ہوتا ہے۔ مولانا مودودیؒ اجماع کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کسی مسئلے میں نص شرع کی کسی تعبیر پر، یا کسی قیاس یا استنباط پر، یا کسی تدبیر ومصلحت پر اب بھی اہل حل وعقد کا اجماع، یا   ان کی اکثریت کا فیصلہ فی الواقع ہو جائے تو وہ حجت ہوگا، اور قانون قرار پائے گا۔ اس طرح کا فیصلہ اگر تمام دنیاے اسلام کے اہل حل وعقد کریں تو وہ تمام دنیاے اسلام کے لیے قانون ہوگا، اور کسی ایک اسلامی مملکت کے اہل حل وعقد کریں تو وہ کم ازکم اس مملکت کے لیے قانون ہونا چاہیے‘‘۔۱۸

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ کے نزدیک ’اجماع‘ دراصل قانون سازی کے ممکنہ دائرے میں اہل حل وعقدکے کسی مسئلے پر اتفاق کی ایک تعبیر ہے، جس کے نتیجے میں ایک راے کو قانونی حیثیت حاصل ہوجا تی ہے، اور اس کی پابندی ریاست کے ہر فرد پر لازم ہوتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ اجماع کے عمل سے گزر کر جب ایک راے قانون کی حیثیت کرلے، تو کیا ریاست کے افراد کے لیے اگلے کسی زمانے میں یا خود اسی زمانے میں دیگر آرا پر مزید غوروفکر کرنے کی، ان کومع دلائل ، اہل حل وعقد کی مجلس شوریٰ میں پیش کرنے کی اجازت ہے؟، اور کیااس مجلس شوریٰٰ کو موجودہ قانون کے بذریعہ اجماع منظور ہوجانے کے علی الرغم ،دوسری نئی راے پر غور کرنے کی اور دلائل کی روشنی میں اس کے قوی تر ثابت ہوجانے کے بعد، اس کو قانون بنانے کی اجازت حاصل ہے ؟اُمت کا مشہور روایتی موقف یہ ہے کہ: اگر اجماع اپنی تمام مطلوبہ شرائط کے ساتھ عمل میں آگیا، تو پھر اس اجماعی راے کے علاوہ کسی اور راے پر نہ افراد کو غوروفکر کی اجازت ہے اور نہ امت کو اسے اختیار کرنے کی اجازت ہے۔

آیت شوریٰ پر غور کیا جائے تو اس روایتی موقف کی تائید نہیں ہوتی ہے، بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ شوریٰ ایک نہ رُکنے والا عمل ہے۔ اگر ایک راے کو شورائی عمل سے گزرتے ہوئے امت کے مکمل اتفاق راے کے ساتھ قانونی حیثیت حاصل ہوگئی ، تو بھی آنے والے کسی بھی دور میں امت کو یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ شورائی عمل کے ذریعے کسی دوسری راے کو کثرت راے یا اتفاق راے سے قانونی حیثیت دے دے۔کسی پہلے دور کی امت ، کسی دوسرے دور کی امت کو شورائی عمل اپنانے کے حق سے محروم نہیں کرسکتی۔اور اگر امت شورائی عمل کے ذریعے کسی سابقہ اجماعی فیصلے کو بدل دینے کا اختیار رکھتی ہے، تو اس کے افراد بھی اپنی انفرادی حیثیت میں سابقہ اجماعی اور غیراجماعی تمام فیصلوں کے سلسلے میں غوروفکر کرتے رہنے کا کبھی ختم نہ ہونے والا حق رکھتے ہیں۔ امت کے اجتماعی یا اجماعی فیصلے ، افراد کے لیے واجب العمل ضرور ہوتے ہیں، تاہم افراد سے غوروفکر کی آزادی نہیں سلب کرتے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اجماع کے انعقاد کے لیے آسان شرطوں والے تصور کو ترجیح دے کر اسے ممکن العمل بنادیا ہے بلکہ اسے قانون سازی کے معمول کے عمل (Routine Legislation Process)کے طور پر پیش کیا ہے، جب کہ مشہور روایتی موقف میں تو خود اس کے انعقاد کی شرطیں اس قدر سخت ہیں، کہ عملاً اس کا انعقاد ہی ناممکن ہوجاتا ہے۔

’اجماع‘ کے مروجہ تصور کو غلو پر مبنی اور اس کی جگہ شوریٰ کے تصور کو اختیار کرنے کی بھر پور وکالت ڈاکٹر صلاح سلطان نے کتاب الغلو فی حجیۃ الاجماع  میں کی ہے، اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ امت کے اندرانجام پانے والا شورائی عمل ہی اصل ’اجماع‘ ہے۔ اور اجماع کے نام سے جو تصور امت میں عام ہوگیا ہے وہ بے بنیاد اور بعد کی ایجاد ہے۔ انھوں نے یہ موقف بھی پیش کیا کہ شورائی عمل اور اس کے نتیجے میں اتفاق راے سے ہوجانے والے فیصلوں پر بھی نظر ثانی ہوسکتی ہے اور دلائل کی بنیاد پر کبھی بھی امت اپنے سابقہ اجماعی فیصلے کے علی الرغم دوسرا فیصلہ کرسکتی ہے۔

ڈاکٹر صلاح سلطان کی مذکورہ کتاب سے حسب ذیل اہم نتائج سامنے آتے ہیں:

  •    مروجہ تصور ’اجماع‘ کے حق میں کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے، شوریٰ کے حق میں قرآن وسنت کے قطعی دلائل ونظائر ہیں۔ مروجہ تصوراجماع کی شرطیں اس قدر سخت ہیں کہ اس کا وقوع ناممکن یا انتہائی مشکل ہے، جب کہ شوریٰ کا انعقاد ممکن اورآسان ہے۔کسی مسئلے پر ’اجماع‘ کا انعقاد تاریخی لحاظ سے ثابت کرنا بہت مشکل ہے، جب کہ شوریٰ کے انعقاد کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
  •  ’اجماع‘ کے انعقاد کے لیے ضروری ہے کہ امت کے تمام افراد یا تمام مجتہدین کی راے حاصل ہوگئی ہو اور کسی ایک نے بھی اختلاف نہ کیا ہو، اور ان کے عہد کے گزر جانے تک ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی راے سے رجوع نہ کیا ہو،جب کہ شوریٰ کے لیے ایسی کوئی شرط ضروری نہیں ہے،بلکہ ممکن حدتک لوگوں کی راے معلوم کرنا اور کثرت راے کی بنیاد پر فیصلے تک پہنچنا کافی ہے۔
  •  ’اجماع‘ کے انعقاد کے ثبوت کے لیے بھی قطعی ذرائع مطلوب ہیں۔ اگر اجماع منعقد ہوجانے کی خبر ظنی طریقے سے پہنچتی ہے تو اس کی حجیت محل نظر ہوجاتی ہے، جب کہ شوریٰ کے سلسلے میں اس کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔
  •  اگر ’اجماع‘ کے مروجہ تصور کو مان لیا جائے تو اس کے انعقاد کے بعد پھر کسی بھی زمانے میں کسی کے لیے اس سے اختلاف کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، جب کہ شوریٰ کے تحت ایسے کسی بھی مسئلے پر جس پر کسی بھی زمانے میں شوریٰ سے فیصلہ ہوچکا ہو، دوبارہ شوریٰ کے ذریعے گفتگو کرائی جاسکتی ہے۔ اجماع کا حوالہ دے کر تاریخ کے مختلف ادوار میں اجتہادی کوششوں پر روک لگانے کی کوشش کی گئی،اور مخالف راے کو دبانے کے لیے اس حوالے کا استعمال کیا گیا ،جب کہ شوریٰ کے حوالے سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔۱۹

ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اجماع کے بارے میں جو راے دی ہے، اس ضمن میں وہ بھی مفید رہنمائی کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ایسے قانون کو جس پر سب علما متفق ہوجائیں، لازماً زیادہ قابلِ قبول قرار دینا پڑتا ہے۔ اجماع کو ہم ایک خاص اہمیت ضرور دیتے ہیں، لیکن کم ازکم حنفی فقہا کے نزدیک اجماع اٹل اور ناقابل تبدیل نہیں ہے، بلکہ ایک جدید تر اجماع کے ذریعے ایک قدیم تر اجماع کو منسوخ کیا جاسکتا ہے، جس طرح ایک نبی کے احکام کو دوسرا نبی منسوخ کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایک فقیہ کی راے کو دوسرا فقیہ رد کرکے اپنی علیحدہ راے دے سکتا ہے۔ چنانچہ اگر ایک   قدیم اجماع کو بدل کر دوسرا جدید اجماع قائم ہوجائے تو وہ پہلے اجماع ہی کی طرح واجب التعمیل ہوجائے گا، اور پرانا اجماع باقی نہیں رہے گا۔یہ راے خاص امام ابویوسف البزدوی کی ہے۔ اصول فقہ پر ان کی مشہور کتاب میں ان کے الفاظ یہی ہیں کہ جدید تر اجماع کے ذریعے سے قدیم تر اجماع منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسلامی قانون کی ایک بہت بڑی خدمت تھی۔ چوںکہ یہ قانون خدا اور رسولؐ کی طرف سے آیا ہوا اٹل قانون نہیں ہے، اس لیے اس کے ہمیشہ کے لیے پابند نہ ہوجائیں، بدلنے والے حالات کے تحت، بدلنے والی ضرورتوں کے تحت ، ہم ایک انسان کے قانون کو دوسرے انسان کے قانون کے ذریعے بدل سکیں گے۔ لیکن اُس قاعدے کے تحت جو  امام بزدوی نے بیان کیا ہے: اوّلاً کسی نہ کسی کو پرانے اجماع کے خلاف زبان کھولنی پڑے گی، اور پرانی راے پر اعتراض کرنے کی ضرورت پیش آئے گی، پھر بعد میں معاصر فقہا اس راے کو قبول کرتے جائیں گے۔ جب سارے لوگ اس پر متفق ہوجائیں گے تو پرانا اجماع ختم ہوجائے گا۔۲۰

’اجماع‘ کا مروجہ تصور امت میں اختلاف راے کی آزادی اور ’اجتہاد‘ کے مواقع کو محدود کردیتا ہے، جب کہ شوریٰ کا تصور یہ آزادی اور مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے امت کومروجہ ’تصور ِاجماع‘ کی جگہ قرآن مجید میں پیش کردہ تصور شوریٰ کو اختیار کرنا چاہیے، اور قانون سازی کے عمل میں اجماع کے بجاے شوریٰ سے مدد لینا چاہیے۔(جاری)

حواشی

۱-              مصنف   عبدالرزاق ، جلد دہم،ص ۳۰۲

۲-            ابن جریر،  تاریخ الطبری ،  جلددوم،ص ۷۰۰

۳-            ڈاکٹر حاکم المطیری : تحریر الانسان وتجرید الطغیان، المؤسسۃ العربیۃ للدراسات والنشر۔

۴-            ابوالکلام آزاد، مسئلۂ         خلافت، ص ۷۳، مکتبہ احباب ، لاہور              ۵- ایضاً، ص ۸۱                            

۶-  شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ   اللہ   البالغہ۔

۷-            الاسلام وأوضاعنا السیاسیۃ ،ص۱۷۰، بحوالہ الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ ، ص۱۸۳

۸-            ابن عطیہ ،المحرر الوجیز، جلد دوم، ص ۳۵، مکتبہ شاملۃ

۹-            محمد الطاہر بن عاشور،التحریر والتنویر، جلد سوم، ص ۲۶۸مؤسسۃ التاریخ العربی بیروت

۱۰-         سیّد قطب شہید، فی ظلال القرآن، جلد پنجم، سورئہ شوریٰ

۱۱-         امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، جلدہفتم، ص ۱۷۸، ۱۷۹، فاران فائونڈیشن، لاہور، ۱۹۹۷ء

۱۲-         ایضاً، ص ۱۷۹                       ۱۳- ایضاً، ص ۱۷۹، ۱۸۰

۱۴-         ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص ۵۰۹

۱۵-           ابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست[مرتب: پروفیسر خورشید احمد] ،ص۱۴۲، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور

۱۶-         ایضاً،ص ۱۵۵        ۱۷-         ایضاً،ص۴۸۰        ۱۸-         ایضاً، ص ۴۸۵

۱۹- ڈاکٹر صلاح سلطان ، الغلو فی حجیۃ الاجماع۔

۲۰- ڈاکٹر محمد حمیداللہ، اسلامی ریاست، عہد رسالت ؐ کے طرز سے استشہاد، ص ۷۰، ۷۱،  الفیصل، لاہور۔ ڈاکٹر محمدحمیداللہ لکھتے ہیں:’’مشاورت کی اہمیت اور افادیت پر جتنی بھی بات کی جائے  کم ہے۔ قرآنِ مجید میں ( ٰال عمرٰن۳: ۱۵۹، النمل ۲۷:۳۲، الشوریٰ۴۲:۳۸، ۴۷:۲۱) مسلمانوں کو بار بار حکم دیا گیا ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے مشاورت کرو، چاہے سرکاری معاملہ ہو یا نجی۔ Introduction to Islam، [اُردو ترجمہ: اسلام کیا ہے؟، از خالد جاوید مشہدی]، بیکن بکس، ص ۱۶۷۔