۲۰۱۷ فروری

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| ۲۰۱۷ فروری | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

طلاق کے بعد بیوی سے ہدیہ واپس لینا

سوال: میرے بیٹے کی شادی اپنے رشتہ داروں میں ہوئی، لیکن بعض گھریلو مسائل کی وجہ سے ناچاقی پیدا ہوگئی۔ میرے بیٹے نے بالآخر اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور والدین نے جہیز میں جو سامان دیا تھا واپس کر دیا۔ صرف ساس نے جو زیور لڑکے کی طرف سے دیا گیا تھا وہ رکھوا لیا۔ ساس کا یہ کہنا تھا کہ ’’سال ڈیڑھ سال میں جو کچھ ا س نے خرچ کیا ہے وہ اس زیور سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔قرآنِ پاک میں ہے: طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے رخصت کر دیا جائے۔ اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو‘‘ (البقرہ ۲:۲۲۹) ۔اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی نے لکھا ہے: ’’یعنی مہر اور زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکاہو، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو، جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو، واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرم ناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لے جو اس نے اسے کبھی خود دیا تھا۔اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے، اُسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد اوّل، ص ۱۷۵)

حدیث کے مطابق یہ بڑی سخت وعید ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ حدیث میں جو بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق لڑکی کو وہ زیورات جو ساس نے رکھوا لیے تھے واپس دے دینا چاہییں یا نہیں؟ میرا خیال ہے کہ زیورات کی قیمت سنار سے لگوا لی جائے اور یہ رقم یک مشت یا ۱۰ہزار ماہانہ کے حساب سے لڑکی کو دے دی جائے۔ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے یہ رقم واپس کرنا کچھ مہنگا سودا نہیں ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:ازدواجی تعلق کو قرآن کریم نے ’میثاق غلیظ‘ (النساء۴:۲۱) یعنی’ مضبوط معاہدہ‘  سے تعبیر کیاہے۔دو اجنبی مرد و عورت نکاح کے بندھن میں بندھتے ہیں تو ان کے درمیان غایت درجہ کی محبت پیداہوجاتی ہے۔ اس تعلق کے نتیجے میں اگرچہ دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے زندگی گزارتے ہیں، لیکن اسلام نے مالی معاملات کی تمام تر ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے اور عورت کو اس سے مستثنیٰ رکھاہے۔ مرد عورت کو مہر ادا کرتاہے، اسے رہایش فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتاہے، اس کا نفقہ برداشت کرتاہے، اسے خوش رکھنے کے لیے تحفے تحائف دیتاہے،وغیرہ۔

اگر کسی وجہ سے رشتۂ نکاح پایدار نہ رہ سکے اور زوجین کے درمیان تنازع کے سر ابھارنے اور مسلسل جاری رہنے کی بنا پر نوبت علیٰحدگی تک پہنچ جائے تو شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتاہے کہ شوہر ازدواجی زندگی کا لطف اٹھاتے ہوئے بیوی کو جو کچھ دے چکا ہو، اسے واپس لینے کی خواہش     نہ رکھے اور اس کی کوشش نہ کرے۔صرف ایک صورت اس سے مستثنیٰ رکھی گئی ہے۔ وہ یہ کہ شوہر کے علاحدگی نہ چاہنے کے باوجود بیوی کسی منافرت کی بنا پر رشتہ منقطع کرنے پر مصر ہو اور خلع چاہے تو شوہر اپنی دی ہوئی چیزیں (مہر وغیرہ)واپس لے سکتاہے۔سورئہ بقرہ، آیت ۲۲۹ ، جس کا ابتدائی حصہ اوپر سوال میں بھی نقل کیاگیاہے ، اس میں اس کی صراحت موجود ہے اور استثنا کا بھی ذکر ہے کہ اس صورت میں’’یہ معاملہ ہوجانے میںکوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ  دے کر علاحدگی حاصل کرلے۔‘‘آیت کا آخری حصہ بہت اہم اور رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:  تِلْکَ حُدُوْدُ اللّہِ فَلَا تَعْتَدُوْہَا وَمَن یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّہِ فَأُولٰٓـئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ۲:۲۲۹)’’یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔

مردوں کو عورتوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے، ان کے معاملے میں اپنا حق چھوڑدینے، بلکہ علاحدگی کے وقت بھی انہیں کچھ دے دلا کر رخصت کرنے کی ہدایات قرآن کریم میں دیگر مقامات پر بھی دی گئی ہیں۔مثلاًسورئہ بقرہ (آیت ۲۳۷ )میں ایک مسئلہ یہ بتایاگیاہے کہ ’’اگرتم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی ہو، لیکن مہر مقرر کیا جاچکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد جس کے اختیار میں عقد ِ نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے)۔اِلّا یہ کہ عورت نرمی برتے اور مہر نہ لے، یا مرد نرمی سے کام لے اور پورا مہر دے دے‘‘۔یہ مسئلہ بتادینے کے بعد آگے مردوں کو مخاطب کرکے کہاگیاہے:وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ط وَلَا تَنْسُوَا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط اِنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ o(البقرۃ۲:۲۳۷)’’اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔ آپس کے معاملات میںفیاضی کو نہ بھولو۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے‘‘۔ سورۂ نساء (۴:۱۹) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ ’’اور نہ یہ حلال ہے کہ انھیں تنگ کرکے اس مہر کا کچھ حصہ اُڑا لینے کی کوشش کروجو تم انھیں دے چکے ہو‘‘۔ اگلی آیت میں تو صریح الفاظ میں ممانعت کی گئی ہے: وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَّوْجٍ وَ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰاہُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئًا ط اَتَاْخُذُوْنَہُ بُہْتَانًا وَّاِثْـمًا مُّبِیْنًا(النساء۴:۲۰)’’اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔ کیا تم اسے بہتان لگاکر اور صریح ظلم کرکے واپس لوگے؟‘‘

ان آیات کی تفسیر میں عموماً مفسرین نے لکھا ہے کہ جس مال کو واپس نہ لینے کا حکم دیا گیاہے اس سے مراد مہر کی رقم ہے۔ لیکن آیات میں جس طرح کا عمومی انداز اختیار کیاگیاہے، اس سے ان مفسرین کی بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اس میں مہر کے ساتھ شوہر کی جانب سے دی گئی دیگر چیزیں بھی شامل ہیں۔مثلاًزیور، لباس، نقدی اور دیگر تحائف۔

علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:ــ’’اس آیت میں شوہروں سے خطاب ہے۔انھیں منع کیا گیا ہے کہ وہ بیویوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ان سے کچھ طلب کریں۔ یہاں خاص طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ انھوں نے بیویوں کو جو کچھ بھی دیا ہو اسے واپس نہ مانگیں۔ اس لیے کہ لوگوں کا عُرف یہ ہے کہ تنازع اور بگاڑ کے وقت آدمی وہ سب مانگنے لگتا ہے جو اس نے عورت کو دیا تھا، چاہے وہ مہر ہو یا تحائف۔ اسی لیے یہاں خاص طور سے عام انداز اختیار کیا گیا ہے۔‘‘(الجامع لاحکام القرآن، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،۲۰۰۶ء،۴؍۷۳)

بعض اُردو مفسرین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا اقتباس اوپر سوال میں موجود ہے۔مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے لکھا ہے:’’ظاہر ہے کہ اس سے نان نفقہ اور مہر وغیرہ کی قسم کی چیزیں مراد نہیں ہوسکتیں، اس لیے کہ یہ چیزیں تو عورت کا حق ہیں۔ ان کو واپس لینے یا کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اس وجہ سے اس سے لازماً وہ چیزیں مراد ہیں جو بطور تحفہ وغیرہ دی گئی ہوں۔ ان چیزوں کے بارے میں فرمایا کہ طلاق ہوجانے کے بعد مرد کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ ان کا حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے۔ اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی خسّت اس فتوّت اور بلندحوصلگی کے منافی ہے جو ایک مرد میں ہونی چاہیے۔ چنانچہ عورتوں کے معاملے میں قرآن نے مردوں کو اس  فتوّت کی طرف ایک سے زیادہ مقامات میں توجہ دلائی ہے،خاص طور پر تعلقات کے منقطع ہوجانے کی صورت میں‘‘۔(تدبرقرآن،فاران فاونڈیشن لاہور، ۲۰۰۹ء، ۱/۵۳۵، تفسیر البقرۃ:۲۲۹)

مولانا شمس پیر زادہ نے لکھا ہے:ـ’’طلاق کی صورت میں مرد کو نہ مہر واپس طلب کرنا چاہیے اور نہ وہ تحفے تحائف جو اس نے بیوی کو دیے ہوں،کیوں کہ دی ہوئی چیز کو واپس لینا، جب کہ مرد خود عورت کو چھوڑ رہاہو، اخلاقاً صحیح نہیں ہے اور مہر تو عورت کا حق ہی ہے ،اس لیے اس کو واپس لینے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘‘(دعوۃ القرآن،تفسیر البقرۃ:۲۲۹)

بعض فتاویٰ میں کہا گیا ہے:’’ مسئلہ کا دارومدار ’عُرف‘ پر ہے۔عام طور پر ہماری طرف کا جو عُرف ہے وہ یہ ہے کہ خاوند کی طرف سے جو زیورات بیوی کو دیے جاتے ہیں، اس کا مالک شوہر ہی رہتا ہے، عورت اسے عاریۃًا ستعمال کرتی ہے۔ جہاں یہ ’عُرف‘ ہو، وہاں شوہر اپنے زیورات کو واپس لے سکتا ہے۔‘‘(فتاویٰ دار العلوم دیوبند،۸؍۳۶۷، مسائل جہیز) اگر واقعی کسی جگہ کا   یہ’عُرف‘ ہو تو اس کے مطابق طلاق کے بعد شوہراپنے دیے ہوئے زیور کو واپس لے سکتا ہے، لیکن اس معاملے میں شریعت کے مزاج اور قرآن کریم کی صریح ممانعت کو دیکھتے ہوئے بیوی کو دیے گئے زیور کو واپس نہ لینا پسندیدہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں لڑکی کو شوہر کی طرف سے دیے گئے جو زیور طلاق کے بعد اس کے سسرال والوں نے رکھوا لیے ہیں، انھیں لڑکی کو واپس کردینا چاہیے۔اگر اب کسی وجہ سے اس کی واپسی ممکن نہ ہو تو اس کی رقم ادا کردینی چاہیے۔ البتہ رقم کا اعتبار وقت ِ خرید کا نہ ہوگا، بلکہ اِس وقت (presently)  بازار میںاس زیور کی جو قیمت ہو وہ ادا کی جائے گی۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)


قرآنی سپارہ پھینکنے کا گناہ

س : جب میری عمر تقریباً ۱۸، ۲۰ سال تھی۔ تو میں نے غصے کی وجہ سے سپارہ پھینک دیا تھا، جس کی وجہ سے بہت پریشان رہتا ہوں، اور اس گناہ کا ملال مجھے رہتا ہے اور نماز میں بھی توبہ کرتا رہتا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے اس گناہ اور پریشانیوں سے نجات کا حل بتائیں۔

ج:  قرآنِ مجید کو پھینکنا اور اس کی بے حُرمتی کرنا انتہائی گستاخی اور بہت بڑا گناہ ہے اور بعض صورتوں میں تو اس سے کفر لازم آتا ہے۔ کوئی مسلمان اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے کہ: موت سے پہلے پہلے جو شخص بھی اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرلے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دے گا، چاہے وہ گناہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔ لہٰذا، اگر آپ نے اللہ تعالیٰ سے صدقِ د ل سے اپنے اس فعل پر معافی مانگ لی اور احتیاطاً تجدید ایمان بھی کرلیاہو، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سےاُمید رکھیں کہ وہ آپ کو معاف فرما دے گا۔ مزید دل کے اطمینان کے لیے قرآنِ مجید کی کسی خدمت کو اپنا شعار بنا لیں۔ اس سے ان شاء اللہ آپ کو دلی اطمینان ہوگا، اور غلطی کا بھی ازالہ ہوجائے گا۔(مولانا  محمد   حسان   اشرف   عثمانی)